(سوال نمبر 5067)
کیا شہید سمجھ کر نہیں بلکہ مظلوم سمجھ کر ماتم کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے متعلق کہ
زید کا کہنا ہے کہ امام حسین کربلا میں شہید ہوئے ہیں لیکن ظلم بہت ہوا لہذا ہم شہید سمجھ کر ماتم نہیں کرتے بلکہ مظلوم سمجھ کر ماتم کرتے ہیں
وہ کونسی جنگ ہے جس میں ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں ظالم اور ایک طرف صرف 72یہ جنگ تھوڑی ہے یہ تو ظلم ہے لہذا ظلم پر ماتم جائز ہے
اس حوالے سے راہنمائی فرما دیجیے۔جزاکم اللہ خیرا
سائلہ:- بنت اصغر شہر: لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
کیا شہید سمجھ کر نہیں بلکہ مظلوم سمجھ کر ماتم کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے متعلق کہ
زید کا کہنا ہے کہ امام حسین کربلا میں شہید ہوئے ہیں لیکن ظلم بہت ہوا لہذا ہم شہید سمجھ کر ماتم نہیں کرتے بلکہ مظلوم سمجھ کر ماتم کرتے ہیں
وہ کونسی جنگ ہے جس میں ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں ظالم اور ایک طرف صرف 72یہ جنگ تھوڑی ہے یہ تو ظلم ہے لہذا ظلم پر ماتم جائز ہے
اس حوالے سے راہنمائی فرما دیجیے۔جزاکم اللہ خیرا
سائلہ:- بنت اصغر شہر: لاہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
(1) کسی کی بھی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا شرعا جائز نہیں ہے البتہ بیوی شوہر کی موت پر 4 ماہ 10 دن سوگ کرے گی ۔
شہید کی موت پر بھی تین دن سےزیادہ سوگ جائز نہیں ہے سوائے بیوی کے وہ 4 ماہ دس دن سوگ کرے گی ۔اور جب واقعہ کربلا ہوا تو اس وقت کے مسلمان تین دن تک سوگ کئے ہوں گے چونکہ موت کے بعد تین دن تک سوگ کر سکتے ہیں لہذا اب امام حسین کی شہادت پر بھی سوگ جائز نہیں ہے ۔
اور ماتم بال نوچنا سینہ پیٹنا اپنے آپ کو اذیت دینا یہ تو کسی کی موت پر جائز نہیں بلکہ حرام ہے
مظلوم سمجھ کر بھی ماتم کرنا جائز نہیں ہے اور یہ اہل تشیع کے کتاب میں بھی منع ہے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ماتم کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
(2) ظلم پر ماتم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ظلم پر صبر کرنے کا حکم اللہ تعالینے دیا ہے ۔
قرآن مجید میں ہے
الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ جن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بیشک ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں
اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے خصوصی نوازشیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پر ثابت قدم ہیں
اس آیت میں مصیبت کے آنے پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی چیز کا امر اس کی ضد کی حرمت کو مستلزم ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت پر ماتم کرنا حرام ہے۔
شیخ کافی کلینی روایت کرتے ہیں
ابوعبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ کو اپنے زانوپر مارنا اس کے اجر کو ضائع کردیتا ہے۔ (الفروع من الکافی ج ٣ ص ٢٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ‘ تہران ‘ ١٣٩١ ھ)
حضرت علی نے فرمایا صبر بہ قدر مصیبت نازل کیا جاتا ہے جس شخص نے مصیبت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے زانو پر مارا اس کا عمل ضائع کردیا جاتا ہے۔ (نہج البلاغہ میں ص ١٢٣٩‘ مطبوعہ انتشارات زرین ایران)
ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں کہ امام حسین نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن حضرت زینب کو یہ وصیت کی
اے میری معزز بہن ! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقا میں رحلت کر جاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا۔ (جلاء العیون ج ٢ ص ٥٥٣ (فارسی) مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران) تفسیر تبیان القران سورہ بقرہ)
حدیث پاک میں ہے
عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (سنن ابوداؤد؟)
حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا: لپ کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ منانا ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
شہید کی موت پر بھی تین دن سےزیادہ سوگ جائز نہیں ہے سوائے بیوی کے وہ 4 ماہ دس دن سوگ کرے گی ۔اور جب واقعہ کربلا ہوا تو اس وقت کے مسلمان تین دن تک سوگ کئے ہوں گے چونکہ موت کے بعد تین دن تک سوگ کر سکتے ہیں لہذا اب امام حسین کی شہادت پر بھی سوگ جائز نہیں ہے ۔
اور ماتم بال نوچنا سینہ پیٹنا اپنے آپ کو اذیت دینا یہ تو کسی کی موت پر جائز نہیں بلکہ حرام ہے
مظلوم سمجھ کر بھی ماتم کرنا جائز نہیں ہے اور یہ اہل تشیع کے کتاب میں بھی منع ہے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ماتم کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
(2) ظلم پر ماتم کرنا جائز نہیں ہے بلکہ ظلم پر صبر کرنے کا حکم اللہ تعالینے دیا ہے ۔
قرآن مجید میں ہے
الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَؕ جن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بیشک ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں
اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے خصوصی نوازشیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پر ثابت قدم ہیں
اس آیت میں مصیبت کے آنے پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی چیز کا امر اس کی ضد کی حرمت کو مستلزم ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت پر ماتم کرنا حرام ہے۔
شیخ کافی کلینی روایت کرتے ہیں
ابوعبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ کو اپنے زانوپر مارنا اس کے اجر کو ضائع کردیتا ہے۔ (الفروع من الکافی ج ٣ ص ٢٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ‘ تہران ‘ ١٣٩١ ھ)
حضرت علی نے فرمایا صبر بہ قدر مصیبت نازل کیا جاتا ہے جس شخص نے مصیبت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے زانو پر مارا اس کا عمل ضائع کردیا جاتا ہے۔ (نہج البلاغہ میں ص ١٢٣٩‘ مطبوعہ انتشارات زرین ایران)
ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں کہ امام حسین نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن حضرت زینب کو یہ وصیت کی
اے میری معزز بہن ! میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقا میں رحلت کر جاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا۔ (جلاء العیون ج ٢ ص ٥٥٣ (فارسی) مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران) تفسیر تبیان القران سورہ بقرہ)
حدیث پاک میں ہے
عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ، قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمّ قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا (سنن ابوداؤد؟)
حمید بن نافع کہتے ہیں کہ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں ان تینوں حدیثوں کی خبر دی کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہاکے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے زرد رنگ کی خوشبو منگا کر ایک لڑکی کو لگائی پھر اپنے دونوں رخساروں پر بھی مل لی اس کے بعد کہنے لگیں: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو لگانے کی قطعاً حاجت نہ تھی، میں نے تو ایسا صرف اس بنا پر کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا: لپ کسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، ہاں خاوند پر چار مہینے دس دن تک سوگ منانا ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔ 25/07/2023