(سوال نمبر ١٤٥)
کیا مسجد میں بڑے بڑے پیلرز کا ہونے سے صف منقطع ہو جاتی ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مقتدی نے پہلی صف لگایا اور بیچ میں پیلڑہونے کی وجہ سے دوسری صف اتنا فاصلہ کرکے لگایا کہ بیچ سے ایک بیل گاڑی بآسانی گزر جائے گی تو دوسری صف والے کی نماز ہوگی یا نہیں برائے مہربانی مع دلیل اس کا جواب بھیج دیجئے اور یہ بھی بتادے کہ یہ مسئلہ کسی جگہ کے لیے خاص ہے یا نہیں
سائل:- لعل محمد نوری مقام بلہا شریف نیپال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
صورت مستفسره میں
جماعت نماز میں اقتدا کے درست ہونے کے لیے امام اور مقتدی کی جگہ کا متحد ہونا شرط ہے خواہ حقیقتاً متحد ہوں یا حکماً، مسجد ، صحنِ مسجد اور فناءِ مسجد یہ تمام جگہ بابِ اقتدا میں متحد ہیں، لہٰذا مسجد ، صحنِ مسجد اور فناءِ مسجد میں اگر امام اور مقتدی، یا مقتدیوں کی صفوں کے درمیان دو صفوں کی مقدار یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو تب بھی صحتِ اقتدا سے مانع نہیں ہوگا، اور نماز ادا ہوجائے گی، مگر بلا وجہ دو صف سے زیادہ فاصلہ چھوڑنا مکروہِ تحریمی ہے۔مذکورہ صورت میں مسجد کی پیلر سے کوئی کراہت نہیں کہ بڑی مسجد میں اس طرح ہونا عام بات ہے ۔پیلر کے حائل سے کوئی فصال نہیں ۔
صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’بلاضرورت مقتدیوں کو دَروں میں کھڑاہونا مکروہ ہے کہ قطع ِصف ہے ،اور قطع ِصف ممنوع ، حدیث میں ارشاد فرمایا: جس نے صف کو ملایا ، ﷲ تعالیٰ اسے ملائے گا اورجس نے صف کو قطع کیا ،ﷲ اسے قطع کرے گا‘‘۔(سُنن ابوداؤد:666)(فتاویٰ امجدیہ ، جلد1،ص:163)
مزید لکھتے ہیں : ’’دَروں میں کھڑے نہ ہوں کہ مکروہ ہے ،ہاں! اگر مُصلّیوں (نمازیوں)کی کثرت ہے کہ مسجد بھر گئی اور آدمی باقی رہیں تو دَروں میں کھڑے ہوں کہ یہ کھڑا ہونا بضرورت ہے اور مواضع ضرورت مستثنیٰ ہیں ،دَر خارجِ مسجد نہیں ہے اس میں کھڑا ہونا اِس وجہ سے مکروہ و ممنوع ہے کہ صف قطع ہوتی ہے اوریہ ممنوع ہے ۔امام کو دَر میں کھڑا ہونا خلافِ سنّت ہے اور نماز ہوجائے گی ،(فتاویٰ امجدیہ ،جلد1،ص:174)‘‘۔
كما في الدر المختار
(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل، مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقًا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدًّا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقًا. (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - 580/4257)
كتبہ-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ خادم البرقي سنی شرعی بورڈ آف نیپال
٢/١٠/٢٠٢٠