(سوال نمبر ١٨٦)
کیا کورٹ سے لی گئی طلاق عند الشرع مقبول ہے؟ اور لڑکی دوسری شادی کر سکتی ہے؟
:------------------
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ ایک لڑکی سمینہ خاتون ہے جس کے ماں باپ کہتے ہیں کہ اس کا شوہر شراب پی کر آتا تھا
اور مار پیٹ کرتا تھا اس وجہ سے میں اپنی لڑکی کو کوٹ سے طلاق دلوا دیا ہے وہ کاغذ بھی موجود ہے، اب اس لڑکی کی شادی دوسری جگہ کرنا ہے اس کے ماں باپ کا کہنا ہے کہ طلاق نامہ اردو میں لکھ دے کیا طلاق واقع ہوگیا ؟
اردو میں طلاق نامہ لکھ سکتے ہیں مفصل جواب عنایت فرمائے
سائل:- برکاتی رضا، مظفرپور بہار ( انڈیا )
:-----------------------------
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مذکورہ صورت میں کورٹ کا طلاق عند الشرع مقبول نہیں ہے کیونکہ شریعت نے حق طلاق فقط شوہر کو دیا ہے شوہر کے مرضی کے بغیر اپنے اوپر طلاق واقع نہیں کر سکتی اور نہ تو عدالت شوہر کی طرف سے بیوی کو طلاق دے سکتی ہے، البتہ بیوی کو خلع کا حق حاصل ہے شوہر کے رضا کے ساتھ ،اور بعض صورتوں میں شرعی عدالت (قاضی) کو یہ حق حاصل ہے کہ میاں بیوی کے درمیان نکاح کو فسخ کردیں، پر اس میں کچھ تفصیل ہے چونکہ ہمارے یہاں شرعی عدالت نہیں ہے اس لئے کورٹ سے طلاق شدہ کاغذات لے کر قریب کے کسی بڑے دارالافتاء میں جا کر صحیح صورت حال بیان کریں پھر جو حکم نافز ہو عمل کریں ۔
اگر شوہر واقعی شرابی ہے
اور بیوی کو اس کے حقوق سے محروم کرتا تھا اور وہ ظلم کرتا رہا نہ بیوی بناکر رکھنا چاہتا نہ طلاق دے رہا ہے یا عورت اس شادی سے خوش نہیں ہے یا اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو اس سے خلع لے لے یا قاضی سے تنسیخ نکاح حاصل کر سکتی ھے ۔
حدیث پاک میں ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَۃَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اﷲِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اﷲِ أقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی، یارسول اللہ! میں ثابت بن قیس کے دین یا اخلاق پر کوئی اعتراض نہیں کرتی نہ عیب لگاتی ہوں لیکن مجھے اسلام میں رہ کر کفران نعمت پسند نہیں۔ (یعنی خاوند پسند نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سے جو باغ تم نے حق مہر میں لیا ہے وہ اسے واپس کردوگی؟ بولیں جی حضور، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنا باغ قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو۔ (بخاري، الصحيح، 5: 2021، رقم: 4971، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة)
قرآن و سنت کی رو سے کوئی انسان دوسری کسی بھی مخلوق کو ایذاء دینے کا مُجاز نہیں۔ نہ مرد عورت کو، نہ عورت مرد کو، نہ رکھنا
نہ چھوڑنا ظلم ہے جس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں۔ اسلام کیا دنیا کے کسی نظریہ و دھرم میں اس کی ہرگز اجازت نہیں۔
امام ابنِ ھمام فرماتے ہیں کہ
فاذا امتنع کان ظالما فناب القاضی عنه فيه فيضاف فعله إليه.
جب خاوند طلاق نہ دے تو ظالم ہے لہٰذا قاضی (جج) اس مسئلہ میں خود خاوند کا قائم مقام ہو کر تفریق کر دے اب قاضی کا فعل خاوند کی طرف منسوب ہوگا۔(ابن همام، ؎شرح فتح القدير، 4: 300، بيروت: دار الفکر بيروت)
إن اختارت الفرقة أمر القاضی أن يطلقها طلقة بائنة فإن أبي فرق بينهما... والفرقة لطليقة بائنة... ولها المهر کاملا وعليها العدة بالاجماع إن کان الزوج قد خلابها وإن لم يخل بها فلا عدة عليها ولها نصف، المهرإن کان مسمی، المتعة إن لم يکن مسمّی.
اگر بیوی جدائی چاہتی ہے تو قاضی (عدالت) اس کے خاوند کو طلاق بائن دینے کا حکم دے۔ اگر انکار کرے تو قاضی دونوں میں تفریق کردے یہ فرقت طلاق بائن ہوگی۔ اس عورت کو پورا مہر ملے گا اور بالاتفاق اس پر عدت لازم ہے اگر خاوند نے اس سے خلوت صحیحہ کی ہے، اور اگر خلوت صحیحہ و قربت نہیں کی تو عورت پر عدت نہیں اور اگر مہر مقرر تھا تو اس کا نصف دینا ہوگا اور مہر مقرر نہ تھا تو حسب توفیق کپڑوں کا جوڑا اور تحائف وغیرہ۔ (الهند، الفتاوی الهندية، 1: 524، دار الفکر)
اسلام کسی کو کسی پر ظلم کرنے اور اس کے حقوق پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اگر بیوی حقوق زوجیت سے خاوند کو محروم کرے۔ تو خاوند کے پاس حق طلاق ہے۔ اور دیگر حاکمانہ حقوق ہیں۔ جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنے حقوق وصول کرسکتا ہے۔ بصورت دیگر حق طلاق استعمال کرکے اس سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور اگر خاوند بیوی کے حقوق پامال کرے نان نفقہ نہ دے، حقوق زوجیت سے اسے محروم کرے۔ نہ امساک بمعروف کرے اور نہ تشریح باحسان پر عمل کرے۔ نہ بیوی بنا کر رکھے نہ آزاد کرے تو بیوی پر ظلم ہوا قرآن کریم نہ کسی کو ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے۔ نہ مظلوم، لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ نہ تم ظالم بنو نہ تم پر ظلم ہو۔
اس لیے عورت ہو یا مرد دونوں کے حقوق و فرائض ہیں ایک فریق کے حقوق دوسرے فریق کے فرائض میں شامل ہیں مرد کے حقوق عورت پورے کرے اور عورت کے مرد پھر ہی زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔
مسئلہ مسؤلہ میں اگر شوہر بیوی کے حقوق پورا نہیں کر رہا ہے ،اور طلاق بھی نہیں دے رہا یے ، تو درج بالا دلائل کی روشنی میں عورت کو حق حاصل ہے کہ بذریعہ قاضی شرع تنسیخِ نکاح کروا سکتی ہے۔ عورت قاضی کے پاس دعویٰ پیش کرے اور اپنے دعوے کو ثابت کردے تو قاضی شرع تنسیخِ نکاح کروا دیں گے ۔پھر عدت گزار کر دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ھے کورٹ کے طلاق سے دوسری شادی نہیں کر سکتی ۔۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨ سرہا
خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال۔١١/١١/٢٠٢٠