(سوال نمبر 6013)
کیا مولانا کو برا بھلا کہنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع متین اندر ایں مسئلہ کہ
ایک مولانا صاحب نے کہا کہ جو شخص علماء کو بُرا بھلا کہے اُس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔اِس پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا۔موجودہ حالات میں علماء کے متضاد طرزِ عمل کی وجہ سے کروڑوں لوگ اُن پر اُنگلیاں اُٹھاتے ہیں تو کیا سب کے نکاح ٹوٹ جاتے ہے؟
قُرآن و سُنّت کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ جزاک اللہ خیراً۔
سائل:- کامران گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
کسی عالم دین کو برا بھلا کہنا اس کی دو صورتیں ہیں ایک ذاتی دنیاوی دشمنی کی وجہ سے۔
دوسرا عالم دین ہونے کی وجہ سے
پہلی صورت میں بلاوجہ دنیاوی دشمنی میں برا بھلا کہنا گناہ ہے دل آزاری ہے توبہ کرے معافی مانگے اور دوسری صورت میں علما کی توپیں بسبب علم دین کفر ہے ۔جب وہ خارج از اسلام ہے پھر تجدید ایمان و نکاح لازم و ضروری ہے۔
مگر عام طور پر جو لوگ کسی عالم کو برا بھلا کہنے ہیں وہ علم دین کی وجہ سے نہیں کہتے ہیں بلکہ فقط اس مولانا کو کہتے ہیں۔اس لئے ایسے شخص خارج از اسلام نہیں اور تجدید ایمان و نکاح کی بھی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ علم اللہ تعالیٰ
کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتا ہے ، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائے، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قراردیا گیا ہے، البتہ دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہے بسبب علم دین نہیں تو کفر نہیں یہ گناہ کبیرہ ہے حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ پہلی صورت میں تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ اور دوسری صورت میں توبہ و استغفار لازم کما فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134)
ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده،
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695):
وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً، من أبغض عالماً من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر کذا فی الخلاصة
(الفتاوی الھندیة، کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، مطلب: موجبات الکفر أنواع، منھا ما یتعلق بالعلم والعلماء، ۲: ۲۷۰، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)،
کیا مولانا کو برا بھلا کہنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفتیانِ شرع متین اندر ایں مسئلہ کہ
ایک مولانا صاحب نے کہا کہ جو شخص علماء کو بُرا بھلا کہے اُس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔اِس پر ایک تنازعہ کھڑا ہو گیا۔موجودہ حالات میں علماء کے متضاد طرزِ عمل کی وجہ سے کروڑوں لوگ اُن پر اُنگلیاں اُٹھاتے ہیں تو کیا سب کے نکاح ٹوٹ جاتے ہے؟
قُرآن و سُنّت کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔ جزاک اللہ خیراً۔
سائل:- کامران گجرات انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره و نصلي علي رسوله الأمين الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عزوجل
کسی عالم دین کو برا بھلا کہنا اس کی دو صورتیں ہیں ایک ذاتی دنیاوی دشمنی کی وجہ سے۔
دوسرا عالم دین ہونے کی وجہ سے
پہلی صورت میں بلاوجہ دنیاوی دشمنی میں برا بھلا کہنا گناہ ہے دل آزاری ہے توبہ کرے معافی مانگے اور دوسری صورت میں علما کی توپیں بسبب علم دین کفر ہے ۔جب وہ خارج از اسلام ہے پھر تجدید ایمان و نکاح لازم و ضروری ہے۔
مگر عام طور پر جو لوگ کسی عالم کو برا بھلا کہنے ہیں وہ علم دین کی وجہ سے نہیں کہتے ہیں بلکہ فقط اس مولانا کو کہتے ہیں۔اس لئے ایسے شخص خارج از اسلام نہیں اور تجدید ایمان و نکاح کی بھی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ علم اللہ تعالیٰ
کی صفت ہے اور اللہ اپنی اس صفت سے اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی نوازتا ہے ، تاکہ وہ نائبِ رسول بن کر لوگوں کو راہِ شریعت بتلائے، اور کسی سبب یا عداوت کے بغیر کسی عالمِ دین اہا نت درحقیقت علمِ دین کی اہانت ہے اور علمِ دین کی اہانت کو کفر قراردیا گیا ہے، البتہ دنیاوی دشمنی یا بغض کی وجہ سے عالمِ دین کو برا بھلا کہتا ہے بسبب علم دین نہیں تو کفر نہیں یہ گناہ کبیرہ ہے حاصل یہ ہے کہ عالمِ دین کی اہانت سے سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے؛ لہذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ پہلی صورت میں تجدید ایمان و نکاح ضروری ہے نئے مہر و شرعی گواہ کے ساتھ اور دوسری صورت میں توبہ و استغفار لازم کما فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 134)
ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده،
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695):
وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً، من أبغض عالماً من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر کذا فی الخلاصة
(الفتاوی الھندیة، کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، مطلب: موجبات الکفر أنواع، منھا ما یتعلق بالعلم والعلماء، ۲: ۲۷۰، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)،
ویخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیھاًمن غیر سبب، ویکفر بقولہ لعالم: ذکر الحمار في است علمک یرید علم الدین کذا في البحر الرائق (المصدر السابق)
آپ کا جواب پورا ہوا اب برائے علم کچھ تفصیلات پیش خدمت ہے
عالمِ دین کی طرز پر قراٰن وسنّت کے مطابِق کئے جانے والے کسی مبلّغ کے بیان کو حَقارتاً مولویوں والا انداز ‘ کہنا کُفْر ہے کیوں کہ اِس میں عُلَمائے حقّ کی توہین ہے ۔
عالم سارے ظالم یہ مَقُولہ کیساہے؟
مُطلَقًاعُلَماء حقّہ کے بارے میں ایسا جملہ کہنا کُفر ہے ۔
جو عُلمائے کرام کو تحقیر کی نیّت سے مُلّا مُلّا یا مُلّا لوگ کہے اُس کیلئے کیا حکم ہے ؟
اگربَسبَبِ علمِ دین علمائے کرام کی تحقیر کی نیّت سے کہا توکلِمۂ کُفْر ہے
چُنانچِہ ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ علیہ فرماتے ہیں
جس نے (توہین کی نیّت سے ) عالم کو عُوَ یلِم یا عَلَوی (یعنی مولیٰ علی کَرَّمَ اللہ ُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی اولاد)کو عُلَیْوی کہا اُس نے کفر کیا، (مِنَحُ الرَّوض ص۴۷۲)
بہرحال عالمِ دین کی بَسبَبِ علمِ دین توہین کرنا یا علوی صاحِبان یا ساداتِ کرام کی شرافتِ حَسَب نَسَب کے سبب کسی قسم کا توہین آمیز لفظ بولنا کُفر ہے ۔
دُنیوی تعلیم حاصِل کرو گے تو عیش کرو گے علمِ دین سیکھ کر مولوی بنو گے تو بھوکے مرو گے یہ کہنا کیسا ؟ اِس جملہ میں علم ِدین کی توہین کا پہلو نُمایاں ہے اس لئے کفر ہے ۔ قائل پر توبہ و تجدیدِ ایمان لازِم ہے اور اگر علم وعُلماء کی توہین ہی مقصود تھی تو قَطعی کفر ہے قائل کافر ومُرتَد ہوگیا اور اُس کا نکاح بھی ٹوٹا اور پچھلے نیک اعمال بھی ضائِع ہوئے ۔ جتنے مولوی ہیں سب بدمَعاش ہیں کہنا کفر ہے جبکہ بَسبَب علمِ دین، علمائے کرام کی تحقیر کی نیّت سے کہا ہو ۔ (ماخوذازفتاوٰی امجدیہ ج ۴ ص ۴۵۴)
یہ کہنا عالم لوگوں نے دیس خراب کر دیا کلِمۂ کُفر ہے ۔
(ماخوذازفتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۶۰۵)
یہ کہنا کُفر ہے کہ مولویوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے
جو کہے عِلْم دین کوکیا کروں گا جیب میں روپے ہونے چاہئیں کہنے والے پر حُکمِ کفر ہے کسی نے عالِم سے کہا جا اور علْمِ دین کو کسی برتن میں سنبھال کر رکھ یہ کُفْر ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری ج ۲ ص ۲۷۰ـ۲۷۱)
جس نے کہا عُلَماء جو بتاتے ہیں اسے کون کرسکتا ہے
یہ قَول کفر ہے کیونکہ اِس کلام سے لازِم آتا ہے کہ شَریعت میں ایسے اَحکام ہیں جو طاقت سے باہَر ہیں یاعُلَماء نے انبِیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر جھوٹ باندھا ہے (مِنَحُ الرَّوض ص۴۷۰ ۔۴۷۱)
یہ کہنا ثَرِید کا پِیالہ عِلمِ دین سے بہتر ہے کلِمۂ کفر ہے
(مِنَحُ الرَّوضِ ص۴۷۲)
عالمِ دین سے اِس کے علم ِ دین کی وجہ سے بُغض رکھنا کفر ہے یعنی اس وجہ سے کہ وہ عالمِ دین ہے ۔ (ایمان کی حفاظت، ص ۱۰۳)
جو کہے فسادکرنا عالم بننے سے بہتر ہے ایسے شخص پر حکمِ کفر ہے ۔
(فتاوٰی عالمگیری ج۲ ص ۲۷۱)(کفریہ کلمات ص ٨٠مكتبة المدينة)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔28/07/2023
آپ کا جواب پورا ہوا اب برائے علم کچھ تفصیلات پیش خدمت ہے
عالمِ دین کی طرز پر قراٰن وسنّت کے مطابِق کئے جانے والے کسی مبلّغ کے بیان کو حَقارتاً مولویوں والا انداز ‘ کہنا کُفْر ہے کیوں کہ اِس میں عُلَمائے حقّ کی توہین ہے ۔
عالم سارے ظالم یہ مَقُولہ کیساہے؟
مُطلَقًاعُلَماء حقّہ کے بارے میں ایسا جملہ کہنا کُفر ہے ۔
جو عُلمائے کرام کو تحقیر کی نیّت سے مُلّا مُلّا یا مُلّا لوگ کہے اُس کیلئے کیا حکم ہے ؟
اگربَسبَبِ علمِ دین علمائے کرام کی تحقیر کی نیّت سے کہا توکلِمۂ کُفْر ہے
چُنانچِہ ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ علیہ فرماتے ہیں
جس نے (توہین کی نیّت سے ) عالم کو عُوَ یلِم یا عَلَوی (یعنی مولیٰ علی کَرَّمَ اللہ ُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی اولاد)کو عُلَیْوی کہا اُس نے کفر کیا، (مِنَحُ الرَّوض ص۴۷۲)
بہرحال عالمِ دین کی بَسبَبِ علمِ دین توہین کرنا یا علوی صاحِبان یا ساداتِ کرام کی شرافتِ حَسَب نَسَب کے سبب کسی قسم کا توہین آمیز لفظ بولنا کُفر ہے ۔
دُنیوی تعلیم حاصِل کرو گے تو عیش کرو گے علمِ دین سیکھ کر مولوی بنو گے تو بھوکے مرو گے یہ کہنا کیسا ؟ اِس جملہ میں علم ِدین کی توہین کا پہلو نُمایاں ہے اس لئے کفر ہے ۔ قائل پر توبہ و تجدیدِ ایمان لازِم ہے اور اگر علم وعُلماء کی توہین ہی مقصود تھی تو قَطعی کفر ہے قائل کافر ومُرتَد ہوگیا اور اُس کا نکاح بھی ٹوٹا اور پچھلے نیک اعمال بھی ضائِع ہوئے ۔ جتنے مولوی ہیں سب بدمَعاش ہیں کہنا کفر ہے جبکہ بَسبَب علمِ دین، علمائے کرام کی تحقیر کی نیّت سے کہا ہو ۔ (ماخوذازفتاوٰی امجدیہ ج ۴ ص ۴۵۴)
یہ کہنا عالم لوگوں نے دیس خراب کر دیا کلِمۂ کُفر ہے ۔
(ماخوذازفتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۶۰۵)
یہ کہنا کُفر ہے کہ مولویوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے
جو کہے عِلْم دین کوکیا کروں گا جیب میں روپے ہونے چاہئیں کہنے والے پر حُکمِ کفر ہے کسی نے عالِم سے کہا جا اور علْمِ دین کو کسی برتن میں سنبھال کر رکھ یہ کُفْر ہے ۔ (فتاویٰ عالمگیری ج ۲ ص ۲۷۰ـ۲۷۱)
جس نے کہا عُلَماء جو بتاتے ہیں اسے کون کرسکتا ہے
یہ قَول کفر ہے کیونکہ اِس کلام سے لازِم آتا ہے کہ شَریعت میں ایسے اَحکام ہیں جو طاقت سے باہَر ہیں یاعُلَماء نے انبِیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر جھوٹ باندھا ہے (مِنَحُ الرَّوض ص۴۷۰ ۔۴۷۱)
یہ کہنا ثَرِید کا پِیالہ عِلمِ دین سے بہتر ہے کلِمۂ کفر ہے
(مِنَحُ الرَّوضِ ص۴۷۲)
عالمِ دین سے اِس کے علم ِ دین کی وجہ سے بُغض رکھنا کفر ہے یعنی اس وجہ سے کہ وہ عالمِ دین ہے ۔ (ایمان کی حفاظت، ص ۱۰۳)
جو کہے فسادکرنا عالم بننے سے بہتر ہے ایسے شخص پر حکمِ کفر ہے ۔
(فتاوٰی عالمگیری ج۲ ص ۲۷۱)(کفریہ کلمات ص ٨٠مكتبة المدينة)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔28/07/2023