کربلا میں پانی بند ہونے میدان کربلا ریگستان اور اس کے راوی و روایت کا تحقیقی جائزہ
:--------------------------------:
خطیب حضرات عام طورپر یہ بیان کرتے ہیں اور اردو کی عام کتب میں بھی یہ لکھا ہوا کہ کربلا میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا تین دن تک بھوکے پیاسے رہے ، ذرا بھی پانی موجود نہیں تھا خطیب حضرات نے شاید یہ نتیجہ اس روایت سے نکالا یے کے 7 محرم کو پانی پر بہت سخت پہرا لگا دیا گیا تھا تاکہ کوئ پانی نہ لے جا سکے یہ روایت تمام کتب میں موجود ہے ۔ لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ پانی موجود ہی نہ ہو۔اسی پر ان شاء اللہ میں تحقیقی بحث کروں گا فنقول و باللہ توفیق۔
قارئین کرام ہمیں کسی بھی معتبر کتب میں کہیں نہیں ملا کی ایک بوند بھی پانی نہیں تھا، بلکہ تحقیق کے مطابق پانی موجود تھا اور اتنا زیادا تھا کی امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس سے غسل فرمایا اور یہ بھی مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا، یہ غیر معتبر بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا۔ یہ میدان دریاۓ فرات یا اس سے نکلنے والی نہر کا کنارہ تھا۔
قارئین کرام پانی نہ ہونے کی بات لوگوں کے ذہن میں اس طرح بیٹھی ہوئ ہے کہ کسی کو اگر اس بات کو سمجھانے کی کوشش کرو تو آپ کو وہ گستاخ اہلبیت یا آپ کو گالی بھرے القابات سے یاد کرےگا۔
فقیر نے جب پہلی بار یہ کہا تھا پانی موجود تھا تو گویہ کہ جیسے کوئ کفر بول دیا ہو یا یہ کی امام عالی مقام کی شان میں گستاخی کردی ہو یہ سنکر چند شر پسندوں نے ایک مفتی صاحب کو فقیر سے بات کرنے کے لیے کہا اب وہ مفتی صاحب بھی ایسے کہ نہ تو تحقیق کی نہ ہی کتب دیکھنے کی تکلیف برداشت کی اور بات کرنے پر تیار ہو گۓ، جب ان سے بات ہوئ اور ہمنیں ان کو کتب کے حوالے دیۓ تو بیچار بولے ہمنیں یہ کتابیں نہیں پڑی۔ بہر حال کربلا میں پانی موجود تھا اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔طبری میں ہے۔
ولما اشتد علی الحسین و اصحابہ العطش دعا العباس بن علی بن ابی طالب اخاہ ، فبعثہ فی ثلاثین فارسا و عشرین راجلا و بعث معھم بعشرین قربتہ فجاءوا حتی دنوا من الماء لیلا و استقدم امامھم باللواء نافع بن ھلال الجملی ، فقال عمرو بن الحجاج الزبیدی من الرجل، فجیء فقال، ما جاء بک، قال جئنا نشرب من ھذا الماء الذی حلأتمونا عنہ،، ھنسیٔا، قال لا واللہ،، لا اشرب منہ قطرتہ و حسین عطشان و من تری من اصحابہ فطلعوا علیہ۔، فقال لا سبیل الی سقی ھؤلاء انما وضعنا بھذا المکان لنمنعھم الماء ،، فلما دنا منہ اصحابہ قال لرجالہ،۔ املئوا قربکم ،، فشدر الرجالتہ فملوئوا قربھم وثار الیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ فحمل علیھم العباس بن علی و نافع بن ھلال فکفہ وھم، ثم انصرفوا الی رحالھم ، امضوا و وقفو دونھم فعطف علیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ واطردو قلیلا ان رجالا من صداء طعن من اصحاب عمرو بن حجاج طعنہ نافع بن ھلال فظن انھا لیست بشء ، ثم انھا انتقضت بعد ذلک فما منھا وجاء اصحاب حسین بالقرب فادخلوھا علیہ۔
جب آپ پر اور اپ کے انصار پر پیاس کا غلبہ ہوا، تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی رضی اللہ علیہ کو بلایا تیس گھڑ سوار بیس پیادے بیس مشکیں ان کے ساتھ کردیں اور پانی لانے کے لیے روانا کیا ۔ یہ لوگ رات کے وقت نہر کے قریب پہنچے نافع بن ھلال جلی علم لیے ہوۓ سب سے آگے بڑھ گۓ، ابن حجاج کہنے لگا کون ہے آو کیوں اۓ ہو۔ نافع نے کہا ہم تو یہ پانی پینے اۓ ہیں۔
جس پر تم لوگوں نے پہرا دیا ہوا ہے۔ اس نے کہا پانی پی لو کہا امام عالی مقام کو پیاس لگی ہے اور ان کے ساتھیوں کو ان کے بغیر ہم ایک قطرہ بھی نہ پیوں گا۔، اتنے میں اور لوگ بھی اس کے سامنے اۓ ابن حجاج نے کہا ان لوگوں کو پانی پلانا ممکن نہیں۔ ہم اسی کے لیے پہرا دے رہے ہیں، نافع کے ساتھ والے جب آگے اۓ تو انہوں نے پیادوں سے کہا اپنی اپنی مشکیں بھر لو۔ پیادے دوڑ پڑے سب نے مشکیں بھر لی ابن حجاج نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر حملہ کیا۔یہ دیکھ کر عباس بن علی نافع بن ھلال نے بھی ان پر حملہ کیا۔ سب کا منہ پھیر دیا پھر اپنے خیموں کی طرف واپس جانے لگے پیادوں سے کہا نکل جاؤ اور خود دشمنوں کو روکنے کے لیے ٹھیرے رہے عمرو بن الحجاج اپنے ساتھیوں کے ساتھ پھر ان لوگوں پر پلٹ پڑا اور ہٹا دیا اصحاب ابن حجاج میں سے ایک شخص پر نافع بن ھلال نے نیزہ کا وار کیا جس سے اس کو زخم لگا بعد میں وہ پھٹ گیا اور وہ مر گیا اور انصار امام عالی مقام کی بارگاہ میں پانی سے بھری مشکیں لیکر آئیں اور آپ کی خدمت میں پیش کردی,
قارئین کرام دیکھا آپ نے اس روایت میں ہر چند کے پانی لے جانے کے لیۓ جنگ ضرور ہوئ لیکن وہ بیس مشکیں پانی امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچا اس روایت کی رو سے آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ پانی موجود نہ تھا مزید ایک روایت اور دیکھیں طبری میں ہے۔
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب آہ و زاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ آہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ امام عالی مقام اگے آۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 420)
البتایتہ والنہایتہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس آۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء آئیں انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائی۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 179)
قارئین کرام دیکھا آپ نے بدایتہ کی یہ عبارت بلکل صاف بتا رہی ہے امام عالی مقام اور آپ کے بعض ساتھیوں نے غسل کیا اب جب آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا تو پانی بلکل موجود ہی نہ تھا اس کی کیا حقیقت رہ گئ آپ بخوبی سمجھ سکتیں ہیں
اسی البدایتہ والنہایتہ میں ہے
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب اہ وزاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ اہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ امام عالی مقام اگے اۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا۔
وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 177)
قارئین کرام یہ روایت ہم طبری کے حوالہ سے بھی نقل کر اۓ ہیں۔ حضرت زینب بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں امام عالی مقام آگے بڑھ کر پانی چھڑکتے ہیں آپ کے چہرہ پر غسل کرنے کے لیے پانی ہے چہرے پر پانی ڈالنے کے لیے بھی پانی ہے تو کیا پانی صرف پینے کے لیے نہیں تھا،؟ یہ سوال آپ پر چھوڑتیں ہیں، اتنا پانی ہونے کے بعد بھی کیا بچوں کے پینے کے لیے پانی نہ تھا ؟ کہ امام عالی مقام کو پانی مانگنے جانا پڑا اور یہ روایت خاص عاشورہ کے دن کی ہیں اور یہ تمام روایت اس بات پر صاف دلالت کرتی ہیں کے کربلا میں پانی موجود تھا۔
اور یہ روایات کربلا میں پانی موجود ہونے کی شیعوں کی کتب میں بھی مذکور ہے ملا باقر مجلسی نے مجمع البحار میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے،
ثم قال لاصحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلی بھم الفجر۔
پھر امام نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو پانی پیو شاید تمہارے لئے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو۔ نہاؤ اور اپنے لباس کو دھولو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی،
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 217)
اسی بحار الانوار میں ایک اور مقام پر پانی کی روایت ہے۔،
امام عالی مقام کو جب پیاس لگی تو آپ نے حضرت عباس اور ان کے ساتھ کچھ ساتھیوں کو پانی لانے کے لیے بھیجا ،، وہاں یزیدوں سے لڑائ ہوئ ،لیکن پانی لیکر واپس اگۓ۔
فشرب الحسین و من کان معہ
پھر وہ پانی امام عالی مقام اور اپ کے ساتھیوں نے پیا،۔
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 253)
ملا باقر مجلسی جو کہ شیعہ ہے وہ لکھتا ہے،،
امام عالی مقام کے ساتھیوں کو جب پیاس لگی تو انہوں نے امام عالی مقام سے آکر پیاس کے بارے میں عرض کی، تو امام عالی مقام نے اپنے ہاتھ میں بیلچہ لیا خیمہ سے بہار اۓ اور نو قدم قبلہ کی طرف چلے وہاں ایک بیلچہ زمین پر مارا۔ اور وہاں سے چشمہ شیریں آب پانی ظایر ہوا۔پھر امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس چشمہ سے پانی پیا اور مشکیں وغیرہ بھر لی۔،
(جلاء العیون مترجم جلد 2 صفحہ 222)
اسی کتاب کے اسی صفحہ پر یہ روایت بھی نقل ہے،،
امام عالی مقام نے حضرت عباس کو تیس سوار اور 32 پیادوں کے ساتھ پانی لینے بھیجا اور وہ لوگ پانی لیکر اۓ۔،
قارئین کرام یہ دونوں روایت پانی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں، پہلی روایت میں امام عالی مقام نے بیلچہ زمین پر مار کر پانی نکالا ،اور دوسری روایات میں، امام عالی مقام کے اصحاب کا پانی لیکر انا اس بات پر دلالت کرتا ہے 3 دن پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا یہ غیر معتبر بات محض افسانہ ہے۔،
شیعوں کی کتاب ریاض القدس میں ہے ،۔
امام عالی مقام نے کدال زمین پر مارا وہاں پانی کا چشمہ نکل ایا،
(ریاض القدس جلد 1 صفحہ 366)
اسی کتاب کے صفحہ 362 پر حضرت عباس کے پانی لانے والی روایت بھی مذکور ہے۔،
اسی کتاب کے صفحہ 410 پر
بریر ابن خصیر کا نہر فرات سے پانی لیکر انا،،یہ روایت بھی مذکور ہے۔
پانی موجود ہونے کی روایت کے بارے میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں، امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے عاشوراہ کی صبح کو غسل فرمایا یہ روایت بدایہ نہایہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس اۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء اۓ انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ بلکہ اسی ایک صفحہ پہلے یہ روایت بھی ہے
وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا و صب علی وجھھا الماء،
حضرت زینب بیہوش ہوکر گر پڑی امام عالی مقام پاس گۓ اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا،،طبری میں بھی یہ روایت ہے بلکہ رافضیوں کی کتب میں بھی ہے ہمارے یہاں کے شیعوں نے نقن میاں کو بلایا تھا جو مجہھتہد تھے انہوں نے تقریر میں یہ روایت بیان کی جس پر جاہلوں نے بہت شور کیا ان کو گالیاں دیں ایک جاہل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایسے دو ایک واعظ آگے تو ہمارا مذہب۔میں مل جاۓ گا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس روایت میں استبعاد نہیں ہے صحیح ہو سکتی ہے یہ صحیح ہے کہ سات محرم کو ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا تھا۔ کہ امام عالی مقام کے لوگ پانی نہ لینے پائیں۔، مگر یہ بھی روایت ہے اس پہرے کے با وجدو حضرت عباس کچھ لوگوں کو لیکر کسی نہ کسی طرح پانی لایا کرتے تھے۔، شہادت کے ذاکرین لیکن آب بندی کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں۔،
اگر نہ کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمیگا۔، اس روایت میں اور وقت شہادت علی اصغر و حضرت علی اکبر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات نہیں۔،
ہو سکتا ہے صبح کو پانی اس قدر ہو کہ سبنے غسل کرلیا پھر پانی ختم ہو گیا،جنگ شروع ہوجانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادا سختی کردی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کے حضرت عباس فرات سے مشک بھرکر لارہے تھے کہ شہید ہوۓ،، ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے ۔، مگر میں قطعی یہ حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے، تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے۔،
حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں،
(فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 68)
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول قاسمی لکھیں ہیں،
دسویں محرم کو امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا خوشبوں لگائ ، غسل خانے کے طور پر ایک الگ خیمہ موجود تھا،۔
(سانحہ کربلا صفحہ 8)
قارئین کرام ان روایات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کربلا میں پانی موجود تھا۔ اور اتنا زیادہ تھا کہ اس سے وضو غسل بھی کیا جاتا تھا، اور یہ روایت نہ اہلسنت بلکہ شیعہ حضرات کی کتب میں بھی موجود ہیں جنہیں ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔کربلا کے میدان کو بے آب ریگستان کا میدان بتایا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی غلط ہے جبکہ وہ بانس نرکل کا کا جنگل تھا۔
(کیا میدان کربلا ریگستان تھا)
لوگوں میں یہ مشہور ہے کربلا بے آب میدان تھا۔، یہ ایک غیر معتبر بات ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نہر کا کنارا تھا امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو یہ تجربہ ہوگیا تھا کہ ذرا سہ کھودنے پر پانی نکل اۓ گا اسی لیے امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے کدال سے پانی نکالنے کے لیے زمین کو کھودا تھا الفتوح میں ہے،۔
فقد بغلنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فا منعھم من حفر الا بار ما استطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوا من ماء الفرات قطرتہ واحدتہ،
ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ امام عالی مقام نے اور ان کی اولاد و اصحاب نے پانی پینے کے لۓ کنویں کھود رکھے ہیں۔ اور میدان میں جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبر دار میرا خط جب تمہیں مل جاۓ تو مزید کھدائ سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیا جاۓ وہ فرات سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں،۔،
(الفتوح جلد 5 طفحہ 91)
قارئین کرام دیکھا آپ نے کربلا ایک ایسا میدان تھا جو بے آب نہ تھا بلکہ اس کے قریب نہر فرات تھی اور اس دور میں اس میں بڑے بڑے جہاز و کشتیاں چلا کرتی تھی،، اب ظاہر سی بات ہے جب ایسی نہر پاس میں ہو تو پانی کھودنے پر نکل ہی آے گا،یاقوت حمویں معجم البلدان میں لکھتے ہیں
اور طف کوفہ کے پاس کی وہ میدانی زمین ہے جو صحراۓ شام کے راستے میں اتی ہے۔ جہاں حسین بن علی مقتول ہوۓ تھے۔
اور یہ زمین سر سبز و شاداب اور زرخیز صحرائ زمین ہے۔ جس میں متعدد پانی کے چشمے بہتے ہیں۔ جن میں الصید القتقتانہ ، و ہمیہ چشمہ جمل اور اس جیسے اور کئ چشمے بہتے ہیں۔(معجم البلدان جلد 6 صفحہ 51،)
قارئین کرام دیکھا آپ نے یاقوت حمویں نے صاف صراحت کردی کہ وہاں پانی کے متعدد چشمے جاری تھے،۔ اب آپ با خوبی سمجھ سکتیں ہیں،۔ اگر ایسے میں زمیں کو کھودا جاۓ تو پانی بلکل نکل سکتا ہے،۔
اسی طرح ایک روایت حضرت امام باقر رحمہ اللہ سے کی گئ ہے، کہ جب امام عالی مقام نے ابن زیاد کو دیکھا تو آپ نے کربلا کا رخ کرلیا، وہاں بانس اور نرکل کے جنگل کو اپنی پشت پر لیا اور مضبوطی سے جم گۓ۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کربلاء ریگستانی میدان نہ تھا بلکہ نرکل اور بانس جہاں چشمہ جاری تھے ایسا میدان تھا،
خلاصہ کلام یہ ہے کربلا میں پانی موجود تھا آپ نے آپ کے ساتھیوں نے بھی غسل کیا،
اور میدان کربلا ایک ایسا میدان تھا جہاں پانی کے چشمے جاری تھے کہ وہاں زمین کھودی جاۓ تو پانی نکل اۓ اس لیے امام عالی مقام نے زمین کھودکر بھی پانی کا چشمہ نکالا تھا،
ان دلائل سے یہ بات تو واضح ہو گئ کربلا میں پانی موجود تھا اور وہ میدان ریگستانی میدان نہ تھا بلکہ نرکل بانس کا جنگل تھا اس کے قریب ہی نہر فرات تھی جس میں کشتیاں جہاز چلا کرتے تھے اور اس میدان میں چشمے جاری تھیں۔ اب ہم ایک نظر سات محرم سے پانی بند ہونے والے راوی اور اس کی روایت پر بھی ڈال لیتے ہیں
7 محرم الحرام سے پانی بند ہونے والی روایت اور راوی کا جائزہ
جس وقت سے ابن سعد نے کربلا میں قدم رکھا اسی وقت سے اس کے اور امام عالی مقام کے درمیان نامہ پیام اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور اس کا نتیجہ ابن سعد ابن زیاد کے درمیان خط و کتابت کی شکل میں ظاہر ہوا ۔، جس کا حاصل کلام کہ ابن سعد امام عالی مقام کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے۔،
اس سلسلہ میں کئ ایک روایت ہیں،، جس کا مجموعی طور پر تجزیہ یہ بنتا ہے کہ طرفین کا یہ سلسلہ بلکل آخر وقت تک قائم رہا اور دو روایتیں تو یہ صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں یہ سلسلہ نو تاریخ کی شام کو بند ہوا۔، معاملات کے اس پس منطر میں ذرا غور کرکے دیکھنا چاہئے کہ سات تاریخ سے بندش آب کا حکم بلکہ اس کے نفاذ کو بتانے والی روایت کے ماننے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے،۔ قتل و قتال کی حالت میں تو جو دس تاریخ کو بندش آب کی کاروائ با مقصد با معنی ہو سکتی تھی۔، مزید براں کیا یہ ممکن ہے کہ سات تاریخ سے ایسا ہوا ہو اور دس تاریخ سے پہلے کہیں کوئ پانی بند ہونے کی شکایت کی روایت نہ پائ جاۓ تمام شکایتیں بیانات دس تاریخ کی ہی ذیل میں
آتیں ہیں اس سے پہلے کوئ بیان نہیں ملتا حالانکہ دونوں فریقوں میں برابر رابطہ چل رہا تھا،۔ لیکن کہیں کوئ پانی بند ہونے کی کوئ شکایت نہیں ہوئی۔
روایت میں اس بات کی صراحت تو ہے کہ بندش آب کی صورت یہ تھی کہ گھاٹ روکا گیا تھا۔،
پس عمر ابن سعد نے عمر بن الحججا کو پانچ سو سواروں کو بھیجا اور وہ گھات پرجا اتریں امام عالی مقام اور آپ کے ساتھی اور پانی کے درمیان حائل ہو گۓ،،۔
اس کے علاوہ اس بات کی بھی علامت روایت میں پائ جاتی ہے۔، یہ کاروئ دس تاریخ کو عمل میں آئ جو جنگ کا دن تھا، کیونکہ روایت میں اگرچہ مذکورہ بالا الفاظ کے بعد۔ وذالک قبل قتل الحسین بثلاث ،،یہ امام عالی مقام کی شہادت سے تین دن پہلے کی بات ہے،، کہ الفاظ اتے ہیں مگر فورا دس تاریخ کا قصہ شروع ہو جاتا ہےاس سے پہلے کی کوئ بات نہیں حمید کہتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی الحصین ازدی امام عالی مقام کے مقابلہ پر ایا اور کہا کہ حسین تم پانی کو دیکھ رہے ہو کیسا اسمان کی طرح شفاف ہے قسم خدا کی تم اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکو گے حتی کہ پیاس سے دم نکل جاۓ،۔
سمجھ نہیں اتا شہادت سے پہلے
کیوں اس طرح کے الفاظ روایت میں ذکر کیۓ گۓ ہیں، امام عالی مقام کا مقابلہ دس تاریخ سے پہلے کہیں مروی نہیں اور پانی کی شکایت بھی دس تاریخ سے پہلے کہیں بیان نہیں کی گئ،، اس روایت کا تضاد کا پتہ اس سے بھی چل جاتا ہے جب دس تاریخ سے پہلے ایسا کوئ معاملہ ہوا ہی نہیں نہ تو کسی سے جنگ ہوئ اور نہ پانی کی شکایت ہوئ،، اور یہ روایت دس تاریخ سے پہلے دونو باتوں پر دلالت کرتی ہے،، اس لیے یہ روایت تضاد سے خالی نہیں۔،
(اور خود راوی حمید بن مسلم کا حال)
اس روایت کے روای حمید پر بھی نظر ضروری ہے واقعہ کربلا میں اس کی روایت بہت ساری ہیں جن میں اس بات کے واضح قرائن ہیں کہ اس کی روایتیں جعلی ہیں بلکہ یہ خود بھی جعلی ہے۔،
یہ شخص کبھی اہلبیت کا اتنا ہمدرد نظر آتا ہے گویہ کے معلوم ہوتا ہے یہ انہی کی صف میں ہو کہتا ہے حصرت زین العابدین کو جو بھی مارنے اتا میں اس کو واپس کردیتا اور کبھی یزیدی فوج میں اس طرح نظر آتا کہ اہلبیت کی شہادت کی خبر پہنچانے اور امام عالی مقام کے سر کو خود لیکر جاتا ہے۔ اس کی روایات پر کلام کیا جاۓ تو بہت طویل کلام ہو سکتا ہے چند روایات کی نشاندہی کرتا ہوں، حمید بن مسلم کہتا ہے کربلا سے عمر بن سعد نے اپنے گھر روانا کیا مجھے تاکہ اس کی خیر عافیت اور فتحیابی کی خبر سناۓ، اور یہ کام کرکے جب وہ ابن زیاد کے پاس گیا تو وہاں امام عالی مقام کا سر رکھا تھا، اور قافلہ حسین کے افراد بھی موجود تھے۔، جبکہ یہی شخص ایک مقام پر کہتا ہے کہ عمر بن سعد نے اس کو اور اس کے ساتھ ایک شخص کو ابن زیاد کے پاس امام عالی مقام کا سر لیکر بھیجا۔۔ یعنی اس کی ایک روایت کے مطابق سر پہنچانے والا یہ خود تھا،، اور دوسری روایت کے مطابق سر پہنچانے والا کوئ اور تھا،، جب یہ خود سر لیکر گیا تو پھر یہ یوں کیوں کہتا ہے ابن زیاد کے پاس پہنچا تو وہاں سر مبارک کو دیکھا،، یعنی سر مبارک پہلے سے ہی رکھا ہوا تھا وہاںکوئی اور لایا تھا اور ایک طرف کہتا ہے میں خود سر کو لیکر گیا
اسی طرح اس کی روایت تضاد سے خالی نہیں اسیی طرح یہ کہتا ہےحضرت زین العابدین کو ابن زیاد قتل کرنا چاہتا تھا پھر حضرت زین العابدین کو برہنہ ستر کھولکر ان کے بالغ ہونے یا نہ ہونے کا امتحان لیا گیا اور پھر نابالغ سمجھ کر چھوڑ دیا،
۔قارئین کرام یہ مزاق نہیں تو اور کیا ہے۔،کیا اس راوی کو اتنا بھی نہ پتہ تھا کہ حضرت زین العابدین 22 سال کے شادی شدہ اور ایک بچہے حضرت محمد الباقر کے باپ تھیں اور وہ بچہ بھی قافلہ میں موجود تھا۔،
اور پھر ستر کھولکر ایسا کونسا امتحان لیا گیا کہ اس سے پتہ چلتا کہ یہ بالغ ہے یا نہیں جب بچہ کو احتلام ہوجاۓ تو وہ بالغ ہو جاتا ہے،،لیکن ستر دیکھنے سے کیسے پتا چلا کی وہ نابلغ ہیں،،اور تو اور 22 سال کی عمر والے کی جسامت سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بالغ ہے لیکن کیا اس راوی کو اتنا بھی نہیں پتہ اور پھر یہ حمیدی بن مسلم خود کہتا ہے۔ حضرت قاسم کو۔ ایک بچہ میدان میں ایا لڑنے کو،
لیکن ان کوقتل کردیا گیا۔۔ جب بچے کو قتل نہیں کرنا تھا
یعنی یہ کہتا ہے حضرت زین العابدین کو اس لیے قتل نہیں کیا کہ وہ بچے تھیں،۔جب کہ وہ 22 سال کے تھیں اس وقت، اور ایک بچے کے والد۔،
تو حضرت قاسم کو کیوں قتل کیا گیا جب کہ یہ خود کہتا ہے بچہ میدان میں لڑنے آیا یعنی حضرت قاسم کو بچہ کہتا ہے اور انکوں قتل بھی کیا جاتا ہے،۔
اور تو اور حضرت علی اصغر تو دودھ پیتے پچے تھے، پھر بھی انکوں شہید کردیا گیا،،اور حضرت زین العابدین کے متعلق کہتا ہے وہ نابلغ تھیں،، اس لیے قتل نہیں کیا جبکہ دوسری جانب نابلغوں کو بھی قتل کیا گیا تھا یعنی یہ کہنا چاہتا ہے نابالغوں کو قتل نہیں کیا گیا ،،
ستر کھول کر دیکھا گیا اس طرح کی باتیں کرتا ہے،۔ کہ ستر کھولکر امتحان لیا گیا،
قارئین کرام دیکھا آپنے اس راوی حمید بن مسلم کی روایتوں میں تضاد ہی تضاد ہے ۔،
یہ سب ہم نے طبری کی روایات سے ذکر کیا ہے 5 جلد میں اس کی روایات دیکھی جا سکتی ہیں،خلاصہ کلام یہ ہے حمید جو کی پانی بند ہونے والی روایت کا راوی ہے اس کی روایات میں تضاد ہی تضاد ہے اس کی روایات غیر معتبر ہیں۔ تضاد سے خالی نہیں ہے
ہم نے واقعہ کربلا پر اب تک جو کچھ بھی تحریر کیا ہے اور اب بھی یہ تحریری سفر جاری ہے۔ اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرنے امت محمدیہ کی خیرخواہی کے جذبے کے تحت کیا ہے، ہمارا مقصد یہی ہے کہ جو کچھ بھی بیان کیا جاۓ وہ صحیح روایات کے ساتھ بیان کیا جاۓ مبالغہ اور جھوٹی شان بیان نہ کی جاۓ۔ واللہ ہم اہلبیت سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس محبت کو اپنے لیۓ نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہمارا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کی اہمیت کم ہو یا اہلبیت کی تنقیض ہو یا ہمارے دل میں بغض ہو معاذ اللہ۔
ہم نے اس پر تحقیقی نظر کی اور من گھڑت واقعات کو اس سے نکال کر انکی نشاندہی کی۔
اگر میری یہ تحقیق صحیح و صواب ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے، اور اگر اس تحقیق میں خطا ہے تو میری تحقیق اور مطالعہ کی کمی ہے۔ اللہ کریم ہمیں حق بلونے لکھنے سن نے کی توفیق عطا فرمائیں ۔
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
رابطہ نمبر:-9917420179
خطیب حضرات عام طورپر یہ بیان کرتے ہیں اور اردو کی عام کتب میں بھی یہ لکھا ہوا کہ کربلا میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا تین دن تک بھوکے پیاسے رہے ، ذرا بھی پانی موجود نہیں تھا خطیب حضرات نے شاید یہ نتیجہ اس روایت سے نکالا یے کے 7 محرم کو پانی پر بہت سخت پہرا لگا دیا گیا تھا تاکہ کوئ پانی نہ لے جا سکے یہ روایت تمام کتب میں موجود ہے ۔ لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ پانی موجود ہی نہ ہو۔اسی پر ان شاء اللہ میں تحقیقی بحث کروں گا فنقول و باللہ توفیق۔
قارئین کرام ہمیں کسی بھی معتبر کتب میں کہیں نہیں ملا کی ایک بوند بھی پانی نہیں تھا، بلکہ تحقیق کے مطابق پانی موجود تھا اور اتنا زیادا تھا کی امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس سے غسل فرمایا اور یہ بھی مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا، یہ غیر معتبر بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا۔ یہ میدان دریاۓ فرات یا اس سے نکلنے والی نہر کا کنارہ تھا۔
قارئین کرام پانی نہ ہونے کی بات لوگوں کے ذہن میں اس طرح بیٹھی ہوئ ہے کہ کسی کو اگر اس بات کو سمجھانے کی کوشش کرو تو آپ کو وہ گستاخ اہلبیت یا آپ کو گالی بھرے القابات سے یاد کرےگا۔
فقیر نے جب پہلی بار یہ کہا تھا پانی موجود تھا تو گویہ کہ جیسے کوئ کفر بول دیا ہو یا یہ کی امام عالی مقام کی شان میں گستاخی کردی ہو یہ سنکر چند شر پسندوں نے ایک مفتی صاحب کو فقیر سے بات کرنے کے لیے کہا اب وہ مفتی صاحب بھی ایسے کہ نہ تو تحقیق کی نہ ہی کتب دیکھنے کی تکلیف برداشت کی اور بات کرنے پر تیار ہو گۓ، جب ان سے بات ہوئ اور ہمنیں ان کو کتب کے حوالے دیۓ تو بیچار بولے ہمنیں یہ کتابیں نہیں پڑی۔ بہر حال کربلا میں پانی موجود تھا اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔طبری میں ہے۔
ولما اشتد علی الحسین و اصحابہ العطش دعا العباس بن علی بن ابی طالب اخاہ ، فبعثہ فی ثلاثین فارسا و عشرین راجلا و بعث معھم بعشرین قربتہ فجاءوا حتی دنوا من الماء لیلا و استقدم امامھم باللواء نافع بن ھلال الجملی ، فقال عمرو بن الحجاج الزبیدی من الرجل، فجیء فقال، ما جاء بک، قال جئنا نشرب من ھذا الماء الذی حلأتمونا عنہ،، ھنسیٔا، قال لا واللہ،، لا اشرب منہ قطرتہ و حسین عطشان و من تری من اصحابہ فطلعوا علیہ۔، فقال لا سبیل الی سقی ھؤلاء انما وضعنا بھذا المکان لنمنعھم الماء ،، فلما دنا منہ اصحابہ قال لرجالہ،۔ املئوا قربکم ،، فشدر الرجالتہ فملوئوا قربھم وثار الیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ فحمل علیھم العباس بن علی و نافع بن ھلال فکفہ وھم، ثم انصرفوا الی رحالھم ، امضوا و وقفو دونھم فعطف علیھم عمرو بن الحجاج و اصحابہ واطردو قلیلا ان رجالا من صداء طعن من اصحاب عمرو بن حجاج طعنہ نافع بن ھلال فظن انھا لیست بشء ، ثم انھا انتقضت بعد ذلک فما منھا وجاء اصحاب حسین بالقرب فادخلوھا علیہ۔
جب آپ پر اور اپ کے انصار پر پیاس کا غلبہ ہوا، تو آپ نے اپنے بھائی عباس بن علی رضی اللہ علیہ کو بلایا تیس گھڑ سوار بیس پیادے بیس مشکیں ان کے ساتھ کردیں اور پانی لانے کے لیے روانا کیا ۔ یہ لوگ رات کے وقت نہر کے قریب پہنچے نافع بن ھلال جلی علم لیے ہوۓ سب سے آگے بڑھ گۓ، ابن حجاج کہنے لگا کون ہے آو کیوں اۓ ہو۔ نافع نے کہا ہم تو یہ پانی پینے اۓ ہیں۔
جس پر تم لوگوں نے پہرا دیا ہوا ہے۔ اس نے کہا پانی پی لو کہا امام عالی مقام کو پیاس لگی ہے اور ان کے ساتھیوں کو ان کے بغیر ہم ایک قطرہ بھی نہ پیوں گا۔، اتنے میں اور لوگ بھی اس کے سامنے اۓ ابن حجاج نے کہا ان لوگوں کو پانی پلانا ممکن نہیں۔ ہم اسی کے لیے پہرا دے رہے ہیں، نافع کے ساتھ والے جب آگے اۓ تو انہوں نے پیادوں سے کہا اپنی اپنی مشکیں بھر لو۔ پیادے دوڑ پڑے سب نے مشکیں بھر لی ابن حجاج نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان پر حملہ کیا۔یہ دیکھ کر عباس بن علی نافع بن ھلال نے بھی ان پر حملہ کیا۔ سب کا منہ پھیر دیا پھر اپنے خیموں کی طرف واپس جانے لگے پیادوں سے کہا نکل جاؤ اور خود دشمنوں کو روکنے کے لیے ٹھیرے رہے عمرو بن الحجاج اپنے ساتھیوں کے ساتھ پھر ان لوگوں پر پلٹ پڑا اور ہٹا دیا اصحاب ابن حجاج میں سے ایک شخص پر نافع بن ھلال نے نیزہ کا وار کیا جس سے اس کو زخم لگا بعد میں وہ پھٹ گیا اور وہ مر گیا اور انصار امام عالی مقام کی بارگاہ میں پانی سے بھری مشکیں لیکر آئیں اور آپ کی خدمت میں پیش کردی,
قارئین کرام دیکھا آپ نے اس روایت میں ہر چند کے پانی لے جانے کے لیۓ جنگ ضرور ہوئ لیکن وہ بیس مشکیں پانی امام عالی مقام کی خدمت میں پہنچا اس روایت کی رو سے آپ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ پانی موجود نہ تھا مزید ایک روایت اور دیکھیں طبری میں ہے۔
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب آہ و زاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ آہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ امام عالی مقام اگے آۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا
و خرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 420)
البتایتہ والنہایتہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس آۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء آئیں انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائی۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 179)
قارئین کرام دیکھا آپ نے بدایتہ کی یہ عبارت بلکل صاف بتا رہی ہے امام عالی مقام اور آپ کے بعض ساتھیوں نے غسل کیا اب جب آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا تو پانی بلکل موجود ہی نہ تھا اس کی کیا حقیقت رہ گئ آپ بخوبی سمجھ سکتیں ہیں
اسی البدایتہ والنہایتہ میں ہے
حضرت امام عالی مقام سے حضرت زینب اہ وزاری کرتی ہیں اور کہتی ہیں یہ لوگ آپ کو کیا قتل کریں گے ؟ اور آپ اہ وزاری کر رہی تھیں کہ بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں۔ امام عالی مقام اگے اۓ اور آپ کے چہرہ پر پانی چھڑکا۔
وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا الحسین فصب علی وجھھا الماء۔
(البدایتہ والنہایتہ جلد 8 صفحہ 177)
قارئین کرام یہ روایت ہم طبری کے حوالہ سے بھی نقل کر اۓ ہیں۔ حضرت زینب بے ہوش ہوکر گر جاتی ہیں امام عالی مقام آگے بڑھ کر پانی چھڑکتے ہیں آپ کے چہرہ پر غسل کرنے کے لیے پانی ہے چہرے پر پانی ڈالنے کے لیے بھی پانی ہے تو کیا پانی صرف پینے کے لیے نہیں تھا،؟ یہ سوال آپ پر چھوڑتیں ہیں، اتنا پانی ہونے کے بعد بھی کیا بچوں کے پینے کے لیے پانی نہ تھا ؟ کہ امام عالی مقام کو پانی مانگنے جانا پڑا اور یہ روایت خاص عاشورہ کے دن کی ہیں اور یہ تمام روایت اس بات پر صاف دلالت کرتی ہیں کے کربلا میں پانی موجود تھا۔
اور یہ روایات کربلا میں پانی موجود ہونے کی شیعوں کی کتب میں بھی مذکور ہے ملا باقر مجلسی نے مجمع البحار میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے،
ثم قال لاصحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلی بھم الفجر۔
پھر امام نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو پانی پیو شاید تمہارے لئے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو۔ نہاؤ اور اپنے لباس کو دھولو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی،
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 217)
اسی بحار الانوار میں ایک اور مقام پر پانی کی روایت ہے۔،
امام عالی مقام کو جب پیاس لگی تو آپ نے حضرت عباس اور ان کے ساتھ کچھ ساتھیوں کو پانی لانے کے لیے بھیجا ،، وہاں یزیدوں سے لڑائ ہوئ ،لیکن پانی لیکر واپس اگۓ۔
فشرب الحسین و من کان معہ
پھر وہ پانی امام عالی مقام اور اپ کے ساتھیوں نے پیا،۔
(بحار الانوار جلد 44 صفحہ 253)
ملا باقر مجلسی جو کہ شیعہ ہے وہ لکھتا ہے،،
امام عالی مقام کے ساتھیوں کو جب پیاس لگی تو انہوں نے امام عالی مقام سے آکر پیاس کے بارے میں عرض کی، تو امام عالی مقام نے اپنے ہاتھ میں بیلچہ لیا خیمہ سے بہار اۓ اور نو قدم قبلہ کی طرف چلے وہاں ایک بیلچہ زمین پر مارا۔ اور وہاں سے چشمہ شیریں آب پانی ظایر ہوا۔پھر امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے اس چشمہ سے پانی پیا اور مشکیں وغیرہ بھر لی۔،
(جلاء العیون مترجم جلد 2 صفحہ 222)
اسی کتاب کے اسی صفحہ پر یہ روایت بھی نقل ہے،،
امام عالی مقام نے حضرت عباس کو تیس سوار اور 32 پیادوں کے ساتھ پانی لینے بھیجا اور وہ لوگ پانی لیکر اۓ۔،
قارئین کرام یہ دونوں روایت پانی موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں، پہلی روایت میں امام عالی مقام نے بیلچہ زمین پر مار کر پانی نکالا ،اور دوسری روایات میں، امام عالی مقام کے اصحاب کا پانی لیکر انا اس بات پر دلالت کرتا ہے 3 دن پانی کا ایک قطرہ بھی نہ تھا یہ غیر معتبر بات محض افسانہ ہے۔،
شیعوں کی کتاب ریاض القدس میں ہے ،۔
امام عالی مقام نے کدال زمین پر مارا وہاں پانی کا چشمہ نکل ایا،
(ریاض القدس جلد 1 صفحہ 366)
اسی کتاب کے صفحہ 362 پر حضرت عباس کے پانی لانے والی روایت بھی مذکور ہے۔،
اسی کتاب کے صفحہ 410 پر
بریر ابن خصیر کا نہر فرات سے پانی لیکر انا،،یہ روایت بھی مذکور ہے۔
پانی موجود ہونے کی روایت کے بارے میں مفتی شریف الحق رحمہ اللہ فرماتے ہیں، امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے عاشوراہ کی صبح کو غسل فرمایا یہ روایت بدایہ نہایہ میں ہے
فعدل الحسین الی خیمتہ قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بالنورتہ وطیب بمسک کثیر۔ و دخل بعدہ بعض الأمراء ففعلوا کما فعل۔
امام عالی مقام نے جب اپنے ساتھیوں کی صف بندی کردی پھر آپ اپنے نصب کیۓ ہوۓ خیمے میں واپس اۓ اور آپ نے غسل کیا چونے کی مالش کی بہت سی کستوری کی خوشبو لگائ پھر آپ کے بعد کچھ امراء اۓ انہوں نے غسل کیا خوشبو لگائ بلکہ اسی ایک صفحہ پہلے یہ روایت بھی ہے
وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا و صب علی وجھھا الماء،
حضرت زینب بیہوش ہوکر گر پڑی امام عالی مقام پاس گۓ اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا،،طبری میں بھی یہ روایت ہے بلکہ رافضیوں کی کتب میں بھی ہے ہمارے یہاں کے شیعوں نے نقن میاں کو بلایا تھا جو مجہھتہد تھے انہوں نے تقریر میں یہ روایت بیان کی جس پر جاہلوں نے بہت شور کیا ان کو گالیاں دیں ایک جاہل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایسے دو ایک واعظ آگے تو ہمارا مذہب۔میں مل جاۓ گا جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس روایت میں استبعاد نہیں ہے صحیح ہو سکتی ہے یہ صحیح ہے کہ سات محرم کو ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا تھا۔ کہ امام عالی مقام کے لوگ پانی نہ لینے پائیں۔، مگر یہ بھی روایت ہے اس پہرے کے با وجدو حضرت عباس کچھ لوگوں کو لیکر کسی نہ کسی طرح پانی لایا کرتے تھے۔، شہادت کے ذاکرین لیکن آب بندی کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں۔،
اگر نہ کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمیگا۔، اس روایت میں اور وقت شہادت علی اصغر و حضرت علی اکبر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات نہیں۔،
ہو سکتا ہے صبح کو پانی اس قدر ہو کہ سبنے غسل کرلیا پھر پانی ختم ہو گیا،جنگ شروع ہوجانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادا سختی کردی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کے حضرت عباس فرات سے مشک بھرکر لارہے تھے کہ شہید ہوۓ،، ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے ۔، مگر میں قطعی یہ حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے، تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے۔،
حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں،
(فتاویٰ شارح بخاری جلد 2 صفحہ 68)
شیخ الحدیث علامہ غلام رسول قاسمی لکھیں ہیں،
دسویں محرم کو امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا خوشبوں لگائ ، غسل خانے کے طور پر ایک الگ خیمہ موجود تھا،۔
(سانحہ کربلا صفحہ 8)
قارئین کرام ان روایات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کربلا میں پانی موجود تھا۔ اور اتنا زیادہ تھا کہ اس سے وضو غسل بھی کیا جاتا تھا، اور یہ روایت نہ اہلسنت بلکہ شیعہ حضرات کی کتب میں بھی موجود ہیں جنہیں ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔کربلا کے میدان کو بے آب ریگستان کا میدان بتایا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی غلط ہے جبکہ وہ بانس نرکل کا کا جنگل تھا۔
(کیا میدان کربلا ریگستان تھا)
لوگوں میں یہ مشہور ہے کربلا بے آب میدان تھا۔، یہ ایک غیر معتبر بات ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نہر کا کنارا تھا امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کو یہ تجربہ ہوگیا تھا کہ ذرا سہ کھودنے پر پانی نکل اۓ گا اسی لیے امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں نے کدال سے پانی نکالنے کے لیے زمین کو کھودا تھا الفتوح میں ہے،۔
فقد بغلنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فا منعھم من حفر الا بار ما استطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوا من ماء الفرات قطرتہ واحدتہ،
ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ہے کہ امام عالی مقام نے اور ان کی اولاد و اصحاب نے پانی پینے کے لۓ کنویں کھود رکھے ہیں۔ اور میدان میں جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبر دار میرا خط جب تمہیں مل جاۓ تو مزید کھدائ سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیا جاۓ وہ فرات سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں،۔،
(الفتوح جلد 5 طفحہ 91)
قارئین کرام دیکھا آپ نے کربلا ایک ایسا میدان تھا جو بے آب نہ تھا بلکہ اس کے قریب نہر فرات تھی اور اس دور میں اس میں بڑے بڑے جہاز و کشتیاں چلا کرتی تھی،، اب ظاہر سی بات ہے جب ایسی نہر پاس میں ہو تو پانی کھودنے پر نکل ہی آے گا،یاقوت حمویں معجم البلدان میں لکھتے ہیں
اور طف کوفہ کے پاس کی وہ میدانی زمین ہے جو صحراۓ شام کے راستے میں اتی ہے۔ جہاں حسین بن علی مقتول ہوۓ تھے۔
اور یہ زمین سر سبز و شاداب اور زرخیز صحرائ زمین ہے۔ جس میں متعدد پانی کے چشمے بہتے ہیں۔ جن میں الصید القتقتانہ ، و ہمیہ چشمہ جمل اور اس جیسے اور کئ چشمے بہتے ہیں۔(معجم البلدان جلد 6 صفحہ 51،)
قارئین کرام دیکھا آپ نے یاقوت حمویں نے صاف صراحت کردی کہ وہاں پانی کے متعدد چشمے جاری تھے،۔ اب آپ با خوبی سمجھ سکتیں ہیں،۔ اگر ایسے میں زمیں کو کھودا جاۓ تو پانی بلکل نکل سکتا ہے،۔
اسی طرح ایک روایت حضرت امام باقر رحمہ اللہ سے کی گئ ہے، کہ جب امام عالی مقام نے ابن زیاد کو دیکھا تو آپ نے کربلا کا رخ کرلیا، وہاں بانس اور نرکل کے جنگل کو اپنی پشت پر لیا اور مضبوطی سے جم گۓ۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کربلاء ریگستانی میدان نہ تھا بلکہ نرکل اور بانس جہاں چشمہ جاری تھے ایسا میدان تھا،
خلاصہ کلام یہ ہے کربلا میں پانی موجود تھا آپ نے آپ کے ساتھیوں نے بھی غسل کیا،
اور میدان کربلا ایک ایسا میدان تھا جہاں پانی کے چشمے جاری تھے کہ وہاں زمین کھودی جاۓ تو پانی نکل اۓ اس لیے امام عالی مقام نے زمین کھودکر بھی پانی کا چشمہ نکالا تھا،
ان دلائل سے یہ بات تو واضح ہو گئ کربلا میں پانی موجود تھا اور وہ میدان ریگستانی میدان نہ تھا بلکہ نرکل بانس کا جنگل تھا اس کے قریب ہی نہر فرات تھی جس میں کشتیاں جہاز چلا کرتے تھے اور اس میدان میں چشمے جاری تھیں۔ اب ہم ایک نظر سات محرم سے پانی بند ہونے والے راوی اور اس کی روایت پر بھی ڈال لیتے ہیں
7 محرم الحرام سے پانی بند ہونے والی روایت اور راوی کا جائزہ
جس وقت سے ابن سعد نے کربلا میں قدم رکھا اسی وقت سے اس کے اور امام عالی مقام کے درمیان نامہ پیام اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اور اس کا نتیجہ ابن سعد ابن زیاد کے درمیان خط و کتابت کی شکل میں ظاہر ہوا ۔، جس کا حاصل کلام کہ ابن سعد امام عالی مقام کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے۔،
اس سلسلہ میں کئ ایک روایت ہیں،، جس کا مجموعی طور پر تجزیہ یہ بنتا ہے کہ طرفین کا یہ سلسلہ بلکل آخر وقت تک قائم رہا اور دو روایتیں تو یہ صراحت کے ساتھ بتاتی ہیں یہ سلسلہ نو تاریخ کی شام کو بند ہوا۔، معاملات کے اس پس منطر میں ذرا غور کرکے دیکھنا چاہئے کہ سات تاریخ سے بندش آب کا حکم بلکہ اس کے نفاذ کو بتانے والی روایت کے ماننے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے،۔ قتل و قتال کی حالت میں تو جو دس تاریخ کو بندش آب کی کاروائ با مقصد با معنی ہو سکتی تھی۔، مزید براں کیا یہ ممکن ہے کہ سات تاریخ سے ایسا ہوا ہو اور دس تاریخ سے پہلے کہیں کوئ پانی بند ہونے کی شکایت کی روایت نہ پائ جاۓ تمام شکایتیں بیانات دس تاریخ کی ہی ذیل میں
آتیں ہیں اس سے پہلے کوئ بیان نہیں ملتا حالانکہ دونوں فریقوں میں برابر رابطہ چل رہا تھا،۔ لیکن کہیں کوئ پانی بند ہونے کی کوئ شکایت نہیں ہوئی۔
روایت میں اس بات کی صراحت تو ہے کہ بندش آب کی صورت یہ تھی کہ گھاٹ روکا گیا تھا۔،
پس عمر ابن سعد نے عمر بن الحججا کو پانچ سو سواروں کو بھیجا اور وہ گھات پرجا اتریں امام عالی مقام اور آپ کے ساتھی اور پانی کے درمیان حائل ہو گۓ،،۔
اس کے علاوہ اس بات کی بھی علامت روایت میں پائ جاتی ہے۔، یہ کاروئ دس تاریخ کو عمل میں آئ جو جنگ کا دن تھا، کیونکہ روایت میں اگرچہ مذکورہ بالا الفاظ کے بعد۔ وذالک قبل قتل الحسین بثلاث ،،یہ امام عالی مقام کی شہادت سے تین دن پہلے کی بات ہے،، کہ الفاظ اتے ہیں مگر فورا دس تاریخ کا قصہ شروع ہو جاتا ہےاس سے پہلے کی کوئ بات نہیں حمید کہتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی الحصین ازدی امام عالی مقام کے مقابلہ پر ایا اور کہا کہ حسین تم پانی کو دیکھ رہے ہو کیسا اسمان کی طرح شفاف ہے قسم خدا کی تم اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ پی سکو گے حتی کہ پیاس سے دم نکل جاۓ،۔
سمجھ نہیں اتا شہادت سے پہلے
کیوں اس طرح کے الفاظ روایت میں ذکر کیۓ گۓ ہیں، امام عالی مقام کا مقابلہ دس تاریخ سے پہلے کہیں مروی نہیں اور پانی کی شکایت بھی دس تاریخ سے پہلے کہیں بیان نہیں کی گئ،، اس روایت کا تضاد کا پتہ اس سے بھی چل جاتا ہے جب دس تاریخ سے پہلے ایسا کوئ معاملہ ہوا ہی نہیں نہ تو کسی سے جنگ ہوئ اور نہ پانی کی شکایت ہوئ،، اور یہ روایت دس تاریخ سے پہلے دونو باتوں پر دلالت کرتی ہے،، اس لیے یہ روایت تضاد سے خالی نہیں۔،
(اور خود راوی حمید بن مسلم کا حال)
اس روایت کے روای حمید پر بھی نظر ضروری ہے واقعہ کربلا میں اس کی روایت بہت ساری ہیں جن میں اس بات کے واضح قرائن ہیں کہ اس کی روایتیں جعلی ہیں بلکہ یہ خود بھی جعلی ہے۔،
یہ شخص کبھی اہلبیت کا اتنا ہمدرد نظر آتا ہے گویہ کے معلوم ہوتا ہے یہ انہی کی صف میں ہو کہتا ہے حصرت زین العابدین کو جو بھی مارنے اتا میں اس کو واپس کردیتا اور کبھی یزیدی فوج میں اس طرح نظر آتا کہ اہلبیت کی شہادت کی خبر پہنچانے اور امام عالی مقام کے سر کو خود لیکر جاتا ہے۔ اس کی روایات پر کلام کیا جاۓ تو بہت طویل کلام ہو سکتا ہے چند روایات کی نشاندہی کرتا ہوں، حمید بن مسلم کہتا ہے کربلا سے عمر بن سعد نے اپنے گھر روانا کیا مجھے تاکہ اس کی خیر عافیت اور فتحیابی کی خبر سناۓ، اور یہ کام کرکے جب وہ ابن زیاد کے پاس گیا تو وہاں امام عالی مقام کا سر رکھا تھا، اور قافلہ حسین کے افراد بھی موجود تھے۔، جبکہ یہی شخص ایک مقام پر کہتا ہے کہ عمر بن سعد نے اس کو اور اس کے ساتھ ایک شخص کو ابن زیاد کے پاس امام عالی مقام کا سر لیکر بھیجا۔۔ یعنی اس کی ایک روایت کے مطابق سر پہنچانے والا یہ خود تھا،، اور دوسری روایت کے مطابق سر پہنچانے والا کوئ اور تھا،، جب یہ خود سر لیکر گیا تو پھر یہ یوں کیوں کہتا ہے ابن زیاد کے پاس پہنچا تو وہاں سر مبارک کو دیکھا،، یعنی سر مبارک پہلے سے ہی رکھا ہوا تھا وہاںکوئی اور لایا تھا اور ایک طرف کہتا ہے میں خود سر کو لیکر گیا
اسی طرح اس کی روایت تضاد سے خالی نہیں اسیی طرح یہ کہتا ہےحضرت زین العابدین کو ابن زیاد قتل کرنا چاہتا تھا پھر حضرت زین العابدین کو برہنہ ستر کھولکر ان کے بالغ ہونے یا نہ ہونے کا امتحان لیا گیا اور پھر نابالغ سمجھ کر چھوڑ دیا،
۔قارئین کرام یہ مزاق نہیں تو اور کیا ہے۔،کیا اس راوی کو اتنا بھی نہ پتہ تھا کہ حضرت زین العابدین 22 سال کے شادی شدہ اور ایک بچہے حضرت محمد الباقر کے باپ تھیں اور وہ بچہ بھی قافلہ میں موجود تھا۔،
اور پھر ستر کھولکر ایسا کونسا امتحان لیا گیا کہ اس سے پتہ چلتا کہ یہ بالغ ہے یا نہیں جب بچہ کو احتلام ہوجاۓ تو وہ بالغ ہو جاتا ہے،،لیکن ستر دیکھنے سے کیسے پتا چلا کی وہ نابلغ ہیں،،اور تو اور 22 سال کی عمر والے کی جسامت سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بالغ ہے لیکن کیا اس راوی کو اتنا بھی نہیں پتہ اور پھر یہ حمیدی بن مسلم خود کہتا ہے۔ حضرت قاسم کو۔ ایک بچہ میدان میں ایا لڑنے کو،
لیکن ان کوقتل کردیا گیا۔۔ جب بچے کو قتل نہیں کرنا تھا
یعنی یہ کہتا ہے حضرت زین العابدین کو اس لیے قتل نہیں کیا کہ وہ بچے تھیں،۔جب کہ وہ 22 سال کے تھیں اس وقت، اور ایک بچے کے والد۔،
تو حضرت قاسم کو کیوں قتل کیا گیا جب کہ یہ خود کہتا ہے بچہ میدان میں لڑنے آیا یعنی حضرت قاسم کو بچہ کہتا ہے اور انکوں قتل بھی کیا جاتا ہے،۔
اور تو اور حضرت علی اصغر تو دودھ پیتے پچے تھے، پھر بھی انکوں شہید کردیا گیا،،اور حضرت زین العابدین کے متعلق کہتا ہے وہ نابلغ تھیں،، اس لیے قتل نہیں کیا جبکہ دوسری جانب نابلغوں کو بھی قتل کیا گیا تھا یعنی یہ کہنا چاہتا ہے نابالغوں کو قتل نہیں کیا گیا ،،
ستر کھول کر دیکھا گیا اس طرح کی باتیں کرتا ہے،۔ کہ ستر کھولکر امتحان لیا گیا،
قارئین کرام دیکھا آپنے اس راوی حمید بن مسلم کی روایتوں میں تضاد ہی تضاد ہے ۔،
یہ سب ہم نے طبری کی روایات سے ذکر کیا ہے 5 جلد میں اس کی روایات دیکھی جا سکتی ہیں،خلاصہ کلام یہ ہے حمید جو کی پانی بند ہونے والی روایت کا راوی ہے اس کی روایات میں تضاد ہی تضاد ہے اس کی روایات غیر معتبر ہیں۔ تضاد سے خالی نہیں ہے
ہم نے واقعہ کربلا پر اب تک جو کچھ بھی تحریر کیا ہے اور اب بھی یہ تحریری سفر جاری ہے۔ اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرنے امت محمدیہ کی خیرخواہی کے جذبے کے تحت کیا ہے، ہمارا مقصد یہی ہے کہ جو کچھ بھی بیان کیا جاۓ وہ صحیح روایات کے ساتھ بیان کیا جاۓ مبالغہ اور جھوٹی شان بیان نہ کی جاۓ۔ واللہ ہم اہلبیت سے دل و جان سے محبت کرتے ہیں۔ اور اس محبت کو اپنے لیۓ نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہمارا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کی شہادت کی اہمیت کم ہو یا اہلبیت کی تنقیض ہو یا ہمارے دل میں بغض ہو معاذ اللہ۔
ہم نے اس پر تحقیقی نظر کی اور من گھڑت واقعات کو اس سے نکال کر انکی نشاندہی کی۔
اگر میری یہ تحقیق صحیح و صواب ہے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے، اور اگر اس تحقیق میں خطا ہے تو میری تحقیق اور مطالعہ کی کمی ہے۔ اللہ کریم ہمیں حق بلونے لکھنے سن نے کی توفیق عطا فرمائیں ۔
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
رابطہ نمبر:-9917420179