(سوال نمبر ١٢٧)
كلام اللہ، کلام لفظی ہے؟یا کلام نفسی؟ دونوں میں کون حادث اور کون قدیم؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین مسئلہ ذیل کے متعلق جب ہم تلاوت کرتے ہیں تو ہمارا بولنا حادث ہے، مگر جس کی تلاوت کر رہے وہ حادث نہیں، سوال یہ کہ جس کی ہم تلاوت کر رہے ہیں، وہ بھی تو حروف کا مجموعہ ہے، اس بارے کیا حکم ہے ؟اب عربی میں لکھا جانا ہمارا عربی بول کے پڑھنا ۔ کلام نفسی کلام لفظی (دونوں میں فرق) اور دونوں پہ احکام ایک جیسے ہوں گے؟ قرآن پاک جو ہمارے پاس کتاب کی صورت میں ہے یہ کلام نفسی ہے یا نہیں ؟ کلام لفظی کیا ازلی ابدی ہی ہوگا؟اسکی وضاحت بھی فرمادیں براہ شفقت۔۔
سائل:- وسیم شاہ ہاشمی ۔پاکستان ۔
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
صورت مستفسره میں قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ اور اللہ کا کلام، اللہ کی صفت قدیمہ ہے، لہذا کلام الہٰی مخلوق نہیں ہے۔
اہل سنت و الجماعت کے نزدیک صفات باری تعالیٰ لا عين ولا غير ہیں یعنی صفات باری تعالیٰ عین ذات باری نہیں لیکن ذات باری تعالیٰ سے الگ ہو کر پائی بھی نہیں جاتیں۔
ایک کلام نفسی ہے، یعنی قرآن کا مفہوم و معنی۔ یہ اللہ کی صفت قدیمہ ہے اور غیر مخلوق ہے۔ دوسرا کلام لفظی حادث ہے یعنی کلمات و الفاظ۔
کلامِ نفسی سے مراد وہ معنی، مدلول اور موضوع لہ ہے کہ جس کے لیے لفظ وضع کیا جاتا ہے، یعنی نفس (دل) میں جو بات اور معنی پوشیدہ ہے وہ کلامِ نفسی ہے، جس کا اظہار کبھی عبارت یعنی الفاظ کے ذریعے کبھی کتابت کے ذریعے اور کبھی اشارے کے ذریعے کیا جاتا ہے جسے کلامِ لفظی کہتے ہیں۔
جو کلام ،اللہ تعالیٰ کی صفت ہے وہ کلامِ نفسی ہے، جو قدیم ہے، ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، اور کلامِ لفظی حادث ہے۔
یہاں اسی قدر وضاحت کافی ہے، تفصیل ، عقائد اور علمِ کلام کی کتابوں کی طرف مراجعت کرکے معلوم کرلی جائے۔
والله ورسوله أعلم بالصواب
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
كتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.
١٣ /٩/٢٠٢٠