جب میدان کربلا میں پانی موجود تھا تو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضرت علامہ جلال الدین علامہ حسن رضا علامہ نعیم الدین مراد آبادی رضی اللہ عنہم نے کیوں لکھا تین دن پانی بند رہا
:------------------:
قارئین کرام ہم نے کربلا میں پانی موجود ہونے پر اپنی کتاب واقعات کربلا کی تحقیق و تردید
میں تفصیلی کلام کیا اور کتب معتبرہ سے دلائل دیۓ ہیں، نیز واٹس ایپ کے ذریعہ آپ تک وہ تحریر پہنچی ۔ علمائے کرام نے اس تحریر کو پسند فرمایا میری حوصلہ افزائی فرمائی مجھے دعاؤں سے نوازہ۔ میرے اس تفصیلی کلام کے بعد بھی کچھ لوگوں کے ذہن میں ایک سوال آیا سوال یہ ہے پھر ہمارے اکابر نے تین دن پانی بند ہونے کی روایت کیوں ذکر کی جب پانی موجود تھا، اسی سوال پر کچھ جواب عرض کرنا ہے۔
فنقول و باللہ التوفیق
امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ حسن رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ ۔ مفتی نعیم الدین مرادآبدی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اور حضرت علامہ مفتی جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ
ان حضرات نے لکھا ہے کربلا میں تین دن پانی بند تھا،
امام اہلسنت فتاوی رضویہ شریف میں لکھتیں ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب و دانہ رکھ کر مع ہمراہیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا،
(فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 593)
امام اہلسنت نے یہاں تین دن بے آب رہنے کا ذکر کیا ہے۔ اب ظاہر بات ہے یہ بات محض امام اہلسنت اپنی طرف سے تو فرمائیں گے نہیں، آپ نے کسی نہ کسی کتاب کی عبارت کو بنیاد بناکر یہ فرمایا ہوگا، اب وہ کتاب کونسی ہے امام اہلسنت نے اس کا ذکر نہیں کیا، وہ کتاب یا روایت کونسی ہے جس کو امام اہلسنت نے بنیاد بنایا ہے میں اس کو آگے ذکر کروں گا ۔ اسی طرح علامہ مفتی نعیم الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں
آل رسول کو لب آپ پانی میسر نہ آتا تھا سر چشمہ تیم سے نمازیں پڑھنی پڑتی تھیں اسی طرح بے آب و دانہ تین دن گزر گۓ۔
علامہ حسن رضا رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تین دن بے آب و دانہ کی بات لکھی ہے مگر آپ نے بھی کسی کتاب کا یہ حوالہ ذکر نہیں فرمایا کہ تین دن امام عالی مقام کو پیاسا رہنا پڑا۔
ظاہر ہے حضرت نے بھی کسی عبارت کو بنیاد بنایا ہوگا،۔
علامہ حسن رضا خاں رحمہ اللہ لکھتے ہیں
تین دن کے پیاسوں پر تیروں کا مینہ برسنا شروع ہو گیا۔
(آئنہ قیامت صفحہ 65)
علامہ جلال الدین امجدی ررحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
چنانچہ ابن سعد نے عمرو بن حجاج کو پانچ سو سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ دریاے فرات پر مقرر کردیا تاکہ امام اور ان کے ساتھی پانی کی ایک بوند نہ لے سکیں اور یہ واقعہ امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کا ہے
(خطبات محرم صفحہ 352)
ہمارے اکابر کی یہ وہ عبارات ہیں۔ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ کے تین دن پانی بند رہا ہے
بلکہ امام اہلسنت کو چھوڑ کر تینوں حضرات نے اپنی اپنی کتاب میں متعدد جگہ یہ لکھا ہے خیمے میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا، ہر چند کے یہ ہمارے بزرگ ہیں ہم علم و مرتبہ میں ان کے قدموں کی اڑنے والی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتے اس بات کا ہم اعتراف کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے ایک بوند پانی نہ ہونا کسی بھی کتب میں نہیں لکھا ہے اور نہ ہی ان حضرات نہ اس بات کا حوالہ ذکر کیا ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے جب کوئی روایت کا مدار سند پر ہو تو چاہے وہ کتنا ہی بڑا ولی کامل کیوں نہ ہو اس کے لکھ دینے سے وہ واقعہ وہ روایت صحیح نہیں ہو جاتی،۔
یہ بات تو خود امام اہلسنت فرماتے ہیں آپ لکھتے ہیں۔
مدار روایت پر رہا تو مسئلہ علوم ظاہرہ کے دائرہ میں آگیا صحتِ سند درکار ہوگی اور کسی ولی معتمد کا کوئی نہ معتمد حکایت کسی سے نقل فرمانا اس کی روایت کو صحیح و واجب الاعتماد نہ کردے گا،
دیکھا اپ نے اعلی حضرت فرما رہے ہیں۔ جب مدار روایت پر رہا تو مسئلہ علوم ظاہرہ کے دائرہ میں آگیا۔ اب اس روایت کو مان نے کے لیۓ صحت سند درکار ہوگی۔ اور کسی ولی معتمد کا نہ معتمد حاکایت کسی سے نقل فرمانا اس کی روایت کو صحیح و واجب الاعتماد نہ کردے گا
یہاں بھی مسئلہ یہی ہے اگرچہ یہ ہمارے اکابرین ہیں۔ مگر ان حضرات کا یہ کہنا کہ ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔ ان حضرات کی اس بات کو معتمد نہیں بنا سکتا، چونکہ اس کی صحت کا مدار سند پر ہے۔ اور یہاں تو سرے سے سند ہے ہی نہیں۔ اس لیۓ ایک بوند بھی پانی نہیں تھا ان حضرات کی یہ بات قابل اعتماد نہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ تو علوم میں ماہر ہیں۔ جید علماء ہیں یہ غلط نہیں لکھ سکتے۔ تو ایسے لوگوں کے لیۓ اعلی حضرت فرماتے ہیں۔
وھذا مااعتذ روابہ عن الامام محمد الغزالی قدس سرہ العالی فی ایرادہ الاحادیث الواھیۃ فی الاحیاء مع جلالۃ قدرہ فی العلوم الظاہرۃ الباطنۃ،
یہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ اہل علم نے امام محمد غزالی کی طرف سے اس بات پر عذر کے طورپر پیش کیا جو انھوں نے باوجود علوم ظاہری وباطنی میں عظیم ماہر ہونے کے اپنی کتاب"احیاء علوم الدین"میں احادیث موضوعہ ذکر کی ہیں ،
(فتاویٰ رضویہ جلد 8 صفحہ 393)
یعنی اوپر جو ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت نقل کر ائیں ہیں۔ یہاں اس کو دلیل بنایا ہے اور کہا حجتہ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ علوم ظاہر و باطن میں ماہر ہیں اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب احیاء علوم ادین میں موضوع منگھڑت روایت لکھی ہیں۔ مگر ان کا موضوع روایت لکھنا اس کو معتبر نہیں کردے گا۔
امام اہلسنت کی ان عبارات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا، اگرچہ علوم میں ماہر ہو اس کی بات کا مدار سند پر ہو تو ہی وہ لائق اعتماد ہوگی۔ ورنہ وہ لائق اعتماد نہیں ہے۔ اور نہ اس کو قبول کیا جاۓ۔ اب یہ بات واضح ہوگئ ان حضرات کا یہ لکھنا کہ ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔ بوند بوند کو ترس رہے تھے غیر معتبر لائق اعتماد و اعتبار نہیں چونکہ اس کا مدار سند پر ہے اور سند تو یہاں سرے سے ہی نہیں۔ یہاں بغیر حوالہ کے بغیر سند کے کہا گیا ہے۔ جو کہ لائق اعتماد نہیں۔
اب ہم تین دن پانی بند ہونے والی عبارت پر کلام کرتے ہیں۔جسے امام اہلسنت کے علاوہ باقی ان تینوں بزرگوں نے بھی فرمایا۔ کہ تین دن پانی بند رہا
یہ بات ہمارے بزرگوں نے اس عبارت سے اخذ کی ہے جسے علامہ جلال الدین امجدی رحمہ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے آپ
رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
چنانچہ ابن سعد نے عمرو بن حجاج کو پانچ سو سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ دریائے فرات پر مقرر کردیا تاکہ امام اور ان کے ساتھی پانی کی ساتھی پانی نہ لے سکیں اور یہ واقعہ امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کا ہے
(خطبات محرم صفحہ 352)
علامہ حسن رضا خاں رحمہ اللہ نے بھی یہی لکھا ہے۔
فرات پر پانچ سو سوار بھیج کر امام پر پانی بند کردیا گیا
(صفحہ 48 آئنہ قیامت)
اسی طرح علامہ مفتی نعیم الدین رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے۔
ہمارے بزرگوں نے تین دن پانی بند ہونے کی دلیل اس سے پکڑی ہے جسے علامہ جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ یہ واقعہ امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کا ہے، اور یہ عبارت طبری میں بھی ہے اور الکامل میں بھی علامہ حسن رضا رحمۃ اللہ علیہ نے امام اہلسنت نے سب نے اسی عبارت سے دلیل پکڑی ہے کہ
ان یعرض علی الحسین بیعتہ یزید فاذا فعل ذلک راینا راینا و ان یمنعہ و من معہ الماء۔ فارسل عمر بن سعد عمرو بن الحجاج علی خمسماتہ فارس فنزل علی الشرعیتہ و حالوا بین الحسین و بین الماء و ذلک قبل قتل الحسین بثلاثتہ ایام۔
جس کا حاصل یہ ہے
اگر امام حسین یزید کی بیعت نہیں کرتے ہیں تو ان کو پانی لینے نہ دیا جاۓ اس کے بعد عمر بن سعد کے حکم سے عمرو بن حجاج پانچ سو سواروں کے ساتھ امام اور فرات کے درمیان آگیا تاکہ پانی نہ لے جا سکیں۔ اور یہ بات امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کی ہے۔
(الکامل فی التاریخ جلد 3 صفحہ 413)
قارئین کرام یہی وہ عبارت ہے جس سے ہمارے بزرگوں نے یہ اخذ کیا ہے تین دن پانی بند رہا۔ مگر اس روایت سے یہ اخذ کرنا کہ تین دن پانی بند رہا یہ صحیح نہیں غلط ہے، پہلے تو اس میں لکھا پانی کو گھیرنے کی بات شہادت سے 3 دن پہلے کی ہے۔ اس سے یہ کب لازم آتا ہے کے مسلسل تین دن پانی بند رہا ایک قطرہ بھی نہیں جانے دیا ؟ ہو سکتا ہے یہ سختی صرف اسی دن کے لیۓ ہو بعد میں سختی نہ ہوئی ہو ۔ اور اگر ہم اس عبارت سے یہ دلیل پکڑ بھی لیں کے پانی بند تھا سختی بہت تھی پانی لے جانے نہیں دیا گیا، تو بھی اس عبارت سے دلیل پکڑنا صحیح نہیں۔ چونکہ اگر اس عبارت سے یہ ثابت ہوتی ہے کے مسلسل تین دن پانی بند رہا تو الکامل کی ہی دوسری عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے پانی مسلسل بند نہیں ہوا تھا،
خاص دس عاشورا کے دن کے بارے میں لکھا ہے، امام عالی مقام جب میدان میں جنگ کے لیۓ جانے لگے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا بے ہوش ہوکر گر پڑی تو امام عالی مقام نے ان کے منہ پر پانی چھڑکا۔
و خرت مغشیتہ علیہا فقام الیھا الحسین فصب الماء علی وجھھا
(الکامل فی التاریخ صفحہ 417)
قارئین کرام دیکھا آپ نے اگر الکامل کی عبارت تین دن پہلے والی عبارت سے یہ نتیجہ نکالا جاۓ کہ پانی تین دن بند تھا ایک قطرہ بھی نہ تھا جیسا کی ہمارے بزرگوں نے لکھا ہے۔ تو الکامل کی ہی اس عبارت سے پانی کا ہونا ثابت ہوتا ہے اگر پانی نہیں تھا تو پانی کہاں سے ایا منہ پرڈالنے کے لیے ؟
کیا وجہ ہے جو اس عبارت کو ماناجاۓ اور اس عبارت کو نہ مانا جاے ؟ کیا اس طرح الکامل کی ان دونوں عبارتوں میں تضاد نہیں ہے؟
کہ ایک عبارت تو پانی تین دن بند ہونے پر دلالت کرے اور دوسری عبارت پانی موجود ہونے پر دلالت کرے۔ جب ان دونوں عبارتوں میں تضاد ہے تو اس کے تضاد کو دو طرح سے تطبیق دیکر دور کیا جاۓ گا، اول یہ کہ۔پانی پر سختی والی روایت امام کی شہادت کے تین دن پہلے کی ہے۔ پہلے سختی ہوئی تھی پھر بعد میں اس سختی کو ہٹا دیا گیا چونکہ دسوی تاریخ کو پانی موجود ہونے کی روایت بھی ہے، اس طرح تطبیق دی جا سکتی ہے۔ اور اسی طرح کی تطبیق کرنا ہم پر لازم ہے چونکہ بدایہ کی عبارت میں آپ اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا یہ عبارت موجود ہے، اسی طرح حضرت زینب کے منہ پر پانی ڈالنے والی عبارت بدایہ اور طبری میں بھی ہے۔ دوسری تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے، فرات پر سخت پہرا تھا اور یہ پہرا مسلسل تین دن رہا پانی لے جانے نہیں دیا گیا، اگرچہ فرات پر پہرا تھا، جب آپ کے ساتھیوں نے امام عالی مقام سے پانی کی شکایت کی تو آپ نے زمین پر بیلچے مار کار اس زمین سے پانی نکالا، آپ نے کنویں کھود رکھے تھے، اور آپ کے آس پاس پانی کے چشمہ جاری تھے۔ تو آپ اور آپ کے ساتھی وہاں سے پانی لیا کرتے تھیں، یہ کنویں کھود نے والی اور چشمہ جاری تھے والی روایت ہم اس سے پہلے دلائل کے ساتھ لکھ چکے ہیں، اور شیعہ حضرات کی کتب سے بھی ہم نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ اس طرح دونوں روایات میں تطبیق ہو گئ۔،
اور حضرت عباس کا بیس مشکیں پانی لانے والی عبارت تاریخ کی ہر کتب میں ہے لہٰذا قطعی طور پر یہ کہنا کے پانی تین دن بندرہا غلط ہے ۔ اب اعتراض یہ وارد ہوتا ہے پھر ہمارے بزرگوں نے کیوں لکھ دیا کہ تین دن پانی بند رہا ایک قطرہ بھی نہ تھا؟
الجواب۔ ہمارے یہ اکابر اہلسنت کے معتبر عظیم عالم دین تھے۔، انہوں نے اپنی خدمات سے مسلک اہلسنّت کو جلا بخشی، اس کا کوئی منکر نہیں ہے۔، یہ حضرات قرآن حدیث فقہ وغیرہ علوم شرعیہ میں کامل دسترس رکھتے تھے ۔، جیسا کی ان کی کتب سے ظاہر ہے۔ لیکن تاریخ ان کا موضوع نہ تھا۔، لہذا اس موضوع پر سوانحہ کربلا کے نام سے واقعات کربلا آپ نے لکھ دی اور خطبات محرم آئنہ قیامت۔، لیکن ان بزرگوں نے تحیقی و تدقیق نہ فرمائی ۔، جو دیگر علوم میں آپ کا طرہ امتیاز ہے، اگر کوئی شخص سوالیہ انداز میں پوچھتا کہ الکامل، طبری، بدایہ، وغیرہ کی عبارت سے خیمہ میں پانی کا ہونا ثابت ہوتا ہے کیا واقعی پانی موجود تھا۔
تو پھر یہ حضرات اس کی تحقیق فرماکر جواب لکھتے ۔،
الکامل کی یا طبری کی ظاہری عبارات دیکھکر لکھ دینا کوئی بعید نہیں چونکہ واقعات کا تعلق احکامات حرام حلال سے نہیں ہوتا اس لیۓ واقعات میں زیادہ تحقیق نہیں کی جاتی، صرف اعتماد کی وجہ سے ظاہر دیکھکر لکھ دیا جاتا ہے لہٰذا ہمارے ان بزرگوں پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ کوئی نکیر ہے۔
واقعات میں صرف ظاہری عبارت دیکھ کر اعتماد کی بنا پر لکھ دینا اور ان بزرگوں کے پاس مصروفیات کی وجہ سے واقعات کی تحقیق کا وقت نہ ہونا
اعلی حضرت کے اس جواب سے بھی ظاہر ہوتا ہے،
سائل نے کہا طبری میں ہے امام مسلم کے دونوں صاحب زادیں ان کے ساتھ نہ تھے۔ تو اعلی حضرت فرماتے ہیں۔
یہ نہ تو مجھے اس وقت یاد ہے نہ تاریخ دیکھنے کی فرصت نہ اس سوال کی حاجت
(فتاویٰ رضویہ جلد 24 ۔ صفحہ 510)
دیکھا آپ نے امام اہلسنت نے فرمایا اس وقت نہ تو یہ مجھے یہ یاد ہے اور نہ میرے پاس اس واقعہ کی تحقیق کرنے کی فرصت ہے، چونکہ ان حضرات کے پاس مصروفیات بہت ہوا کرتی تھی جس وجہ سے واقعات کی تحقیق کا وقت نہیں ہوا کرتا تھا، اسی وجہ سے ان حضرات نے صرف اعتماد اور ظاہر دیکھر اپنی کتب میں شامل فرما لیا، اور یہی وجہ ہے مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ نے حضرت مسلم بن عقیل کے بچوں کی شہادت کا واقعہ بھی نقل فرما دیا، اگرچہ وہ ایک افسانہ و من گھڑت ہے۔۔
واضح رہے ہم نے پانی کے موجود ہونے پر اس تحریر میں اس لیۓ بحث نہ کی کہ اس سے پہلے ہم تفصیلی طور مفصل کلام کر چکیں ہیں یہاں ان دلائل کو دوہرانے کی حاجت نہ تھی اسی لیۓ ہم نے ان کو ترک کردیا ۔
واقعات کربلا میں جو من گھڑت روایات ہیں ان کی ہم نے نشاندہی کی ہے ایک مدت سے یہ من گھڑت واقعات چلتے آرہے تھیں ۔اللہ نے اس کام کی ہمت و توفیق دی ہمیں تو اس پر ہم نے تحقیق کی اور پانی موجود ہونے پر جو ہم نے تحقیق کی ہے ایسی تحقیق شاید آپ کو کہی اور نہ ملے ۔ اب تک ہم نے جو کچھ بھی لکھا محض اللہ کی رضا کے لیۓ امت محمدیہ کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت لکھا ہے۔ مسلمان خود بھی ان منگھرت واقعات سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اللہ عزوجل اسے ہماری مغفرت کا ذریعہ بناۓ۔ ہماری اس کوشش سے اگر کچھ لوگ بھی ان من گھڑت واقعات سے بچ گۓ تو ہم سمجھیں گے ہماری محنت رنگ لائ ہے۔اوراس میں ہمارا ذاتی مفاد کچھ نہیں ہے۔
ہماری یہ تحقیق اگر صواب و صحیح ہے تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے، اور اگر ہم اس تحقیق میں خطا پر ہیں تو یہ ہمارے مطالعے اور کم علمی کی وجہ ہے۔
اللہ کریم ہماری اس کوشش کو قبول فرماۓ ہماری مغفرت فرماۓ، اور ہماری اس کوشش کو ہدایت کا ذریعہ بناۓ
فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
قارئین کرام ہم نے کربلا میں پانی موجود ہونے پر اپنی کتاب واقعات کربلا کی تحقیق و تردید
میں تفصیلی کلام کیا اور کتب معتبرہ سے دلائل دیۓ ہیں، نیز واٹس ایپ کے ذریعہ آپ تک وہ تحریر پہنچی ۔ علمائے کرام نے اس تحریر کو پسند فرمایا میری حوصلہ افزائی فرمائی مجھے دعاؤں سے نوازہ۔ میرے اس تفصیلی کلام کے بعد بھی کچھ لوگوں کے ذہن میں ایک سوال آیا سوال یہ ہے پھر ہمارے اکابر نے تین دن پانی بند ہونے کی روایت کیوں ذکر کی جب پانی موجود تھا، اسی سوال پر کچھ جواب عرض کرنا ہے۔
فنقول و باللہ التوفیق
امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ حسن رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ ۔ مفتی نعیم الدین مرادآبدی رحمۃ اللہ علیہ ۔ اور حضرت علامہ مفتی جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ
ان حضرات نے لکھا ہے کربلا میں تین دن پانی بند تھا،
امام اہلسنت فتاوی رضویہ شریف میں لکھتیں ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر پارے کو تین دن بے آب و دانہ رکھ کر مع ہمراہیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا،
(فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 593)
امام اہلسنت نے یہاں تین دن بے آب رہنے کا ذکر کیا ہے۔ اب ظاہر بات ہے یہ بات محض امام اہلسنت اپنی طرف سے تو فرمائیں گے نہیں، آپ نے کسی نہ کسی کتاب کی عبارت کو بنیاد بناکر یہ فرمایا ہوگا، اب وہ کتاب کونسی ہے امام اہلسنت نے اس کا ذکر نہیں کیا، وہ کتاب یا روایت کونسی ہے جس کو امام اہلسنت نے بنیاد بنایا ہے میں اس کو آگے ذکر کروں گا ۔ اسی طرح علامہ مفتی نعیم الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں
آل رسول کو لب آپ پانی میسر نہ آتا تھا سر چشمہ تیم سے نمازیں پڑھنی پڑتی تھیں اسی طرح بے آب و دانہ تین دن گزر گۓ۔
علامہ حسن رضا رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تین دن بے آب و دانہ کی بات لکھی ہے مگر آپ نے بھی کسی کتاب کا یہ حوالہ ذکر نہیں فرمایا کہ تین دن امام عالی مقام کو پیاسا رہنا پڑا۔
ظاہر ہے حضرت نے بھی کسی عبارت کو بنیاد بنایا ہوگا،۔
علامہ حسن رضا خاں رحمہ اللہ لکھتے ہیں
تین دن کے پیاسوں پر تیروں کا مینہ برسنا شروع ہو گیا۔
(آئنہ قیامت صفحہ 65)
علامہ جلال الدین امجدی ررحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
چنانچہ ابن سعد نے عمرو بن حجاج کو پانچ سو سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ دریاے فرات پر مقرر کردیا تاکہ امام اور ان کے ساتھی پانی کی ایک بوند نہ لے سکیں اور یہ واقعہ امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کا ہے
(خطبات محرم صفحہ 352)
ہمارے اکابر کی یہ وہ عبارات ہیں۔ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ کے تین دن پانی بند رہا ہے
بلکہ امام اہلسنت کو چھوڑ کر تینوں حضرات نے اپنی اپنی کتاب میں متعدد جگہ یہ لکھا ہے خیمے میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا، ہر چند کے یہ ہمارے بزرگ ہیں ہم علم و مرتبہ میں ان کے قدموں کی اڑنے والی دھول کو بھی نہیں پہنچ سکتے اس بات کا ہم اعتراف کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے ایک بوند پانی نہ ہونا کسی بھی کتب میں نہیں لکھا ہے اور نہ ہی ان حضرات نہ اس بات کا حوالہ ذکر کیا ہے۔ اور یہ بات مسلم ہے جب کوئی روایت کا مدار سند پر ہو تو چاہے وہ کتنا ہی بڑا ولی کامل کیوں نہ ہو اس کے لکھ دینے سے وہ واقعہ وہ روایت صحیح نہیں ہو جاتی،۔
یہ بات تو خود امام اہلسنت فرماتے ہیں آپ لکھتے ہیں۔
مدار روایت پر رہا تو مسئلہ علوم ظاہرہ کے دائرہ میں آگیا صحتِ سند درکار ہوگی اور کسی ولی معتمد کا کوئی نہ معتمد حکایت کسی سے نقل فرمانا اس کی روایت کو صحیح و واجب الاعتماد نہ کردے گا،
دیکھا اپ نے اعلی حضرت فرما رہے ہیں۔ جب مدار روایت پر رہا تو مسئلہ علوم ظاہرہ کے دائرہ میں آگیا۔ اب اس روایت کو مان نے کے لیۓ صحت سند درکار ہوگی۔ اور کسی ولی معتمد کا نہ معتمد حاکایت کسی سے نقل فرمانا اس کی روایت کو صحیح و واجب الاعتماد نہ کردے گا
یہاں بھی مسئلہ یہی ہے اگرچہ یہ ہمارے اکابرین ہیں۔ مگر ان حضرات کا یہ کہنا کہ ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔ ان حضرات کی اس بات کو معتمد نہیں بنا سکتا، چونکہ اس کی صحت کا مدار سند پر ہے۔ اور یہاں تو سرے سے سند ہے ہی نہیں۔ اس لیۓ ایک بوند بھی پانی نہیں تھا ان حضرات کی یہ بات قابل اعتماد نہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ تو علوم میں ماہر ہیں۔ جید علماء ہیں یہ غلط نہیں لکھ سکتے۔ تو ایسے لوگوں کے لیۓ اعلی حضرت فرماتے ہیں۔
وھذا مااعتذ روابہ عن الامام محمد الغزالی قدس سرہ العالی فی ایرادہ الاحادیث الواھیۃ فی الاحیاء مع جلالۃ قدرہ فی العلوم الظاہرۃ الباطنۃ،
یہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ اہل علم نے امام محمد غزالی کی طرف سے اس بات پر عذر کے طورپر پیش کیا جو انھوں نے باوجود علوم ظاہری وباطنی میں عظیم ماہر ہونے کے اپنی کتاب"احیاء علوم الدین"میں احادیث موضوعہ ذکر کی ہیں ،
(فتاویٰ رضویہ جلد 8 صفحہ 393)
یعنی اوپر جو ہم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت نقل کر ائیں ہیں۔ یہاں اس کو دلیل بنایا ہے اور کہا حجتہ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ علوم ظاہر و باطن میں ماہر ہیں اس کے باوجود انہوں نے اپنی کتاب احیاء علوم ادین میں موضوع منگھڑت روایت لکھی ہیں۔ مگر ان کا موضوع روایت لکھنا اس کو معتبر نہیں کردے گا۔
امام اہلسنت کی ان عبارات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا، اگرچہ علوم میں ماہر ہو اس کی بات کا مدار سند پر ہو تو ہی وہ لائق اعتماد ہوگی۔ ورنہ وہ لائق اعتماد نہیں ہے۔ اور نہ اس کو قبول کیا جاۓ۔ اب یہ بات واضح ہوگئ ان حضرات کا یہ لکھنا کہ ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔ بوند بوند کو ترس رہے تھے غیر معتبر لائق اعتماد و اعتبار نہیں چونکہ اس کا مدار سند پر ہے اور سند تو یہاں سرے سے ہی نہیں۔ یہاں بغیر حوالہ کے بغیر سند کے کہا گیا ہے۔ جو کہ لائق اعتماد نہیں۔
اب ہم تین دن پانی بند ہونے والی عبارت پر کلام کرتے ہیں۔جسے امام اہلسنت کے علاوہ باقی ان تینوں بزرگوں نے بھی فرمایا۔ کہ تین دن پانی بند رہا
یہ بات ہمارے بزرگوں نے اس عبارت سے اخذ کی ہے جسے علامہ جلال الدین امجدی رحمہ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے آپ
رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔
چنانچہ ابن سعد نے عمرو بن حجاج کو پانچ سو سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ دریائے فرات پر مقرر کردیا تاکہ امام اور ان کے ساتھی پانی کی ساتھی پانی نہ لے سکیں اور یہ واقعہ امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کا ہے
(خطبات محرم صفحہ 352)
علامہ حسن رضا خاں رحمہ اللہ نے بھی یہی لکھا ہے۔
فرات پر پانچ سو سوار بھیج کر امام پر پانی بند کردیا گیا
(صفحہ 48 آئنہ قیامت)
اسی طرح علامہ مفتی نعیم الدین رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے۔
ہمارے بزرگوں نے تین دن پانی بند ہونے کی دلیل اس سے پکڑی ہے جسے علامہ جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ یہ واقعہ امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کا ہے، اور یہ عبارت طبری میں بھی ہے اور الکامل میں بھی علامہ حسن رضا رحمۃ اللہ علیہ نے امام اہلسنت نے سب نے اسی عبارت سے دلیل پکڑی ہے کہ
ان یعرض علی الحسین بیعتہ یزید فاذا فعل ذلک راینا راینا و ان یمنعہ و من معہ الماء۔ فارسل عمر بن سعد عمرو بن الحجاج علی خمسماتہ فارس فنزل علی الشرعیتہ و حالوا بین الحسین و بین الماء و ذلک قبل قتل الحسین بثلاثتہ ایام۔
جس کا حاصل یہ ہے
اگر امام حسین یزید کی بیعت نہیں کرتے ہیں تو ان کو پانی لینے نہ دیا جاۓ اس کے بعد عمر بن سعد کے حکم سے عمرو بن حجاج پانچ سو سواروں کے ساتھ امام اور فرات کے درمیان آگیا تاکہ پانی نہ لے جا سکیں۔ اور یہ بات امام کے شہید ہونے سے تین دن پہلے کی ہے۔
(الکامل فی التاریخ جلد 3 صفحہ 413)
قارئین کرام یہی وہ عبارت ہے جس سے ہمارے بزرگوں نے یہ اخذ کیا ہے تین دن پانی بند رہا۔ مگر اس روایت سے یہ اخذ کرنا کہ تین دن پانی بند رہا یہ صحیح نہیں غلط ہے، پہلے تو اس میں لکھا پانی کو گھیرنے کی بات شہادت سے 3 دن پہلے کی ہے۔ اس سے یہ کب لازم آتا ہے کے مسلسل تین دن پانی بند رہا ایک قطرہ بھی نہیں جانے دیا ؟ ہو سکتا ہے یہ سختی صرف اسی دن کے لیۓ ہو بعد میں سختی نہ ہوئی ہو ۔ اور اگر ہم اس عبارت سے یہ دلیل پکڑ بھی لیں کے پانی بند تھا سختی بہت تھی پانی لے جانے نہیں دیا گیا، تو بھی اس عبارت سے دلیل پکڑنا صحیح نہیں۔ چونکہ اگر اس عبارت سے یہ ثابت ہوتی ہے کے مسلسل تین دن پانی بند رہا تو الکامل کی ہی دوسری عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے پانی مسلسل بند نہیں ہوا تھا،
خاص دس عاشورا کے دن کے بارے میں لکھا ہے، امام عالی مقام جب میدان میں جنگ کے لیۓ جانے لگے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا بے ہوش ہوکر گر پڑی تو امام عالی مقام نے ان کے منہ پر پانی چھڑکا۔
و خرت مغشیتہ علیہا فقام الیھا الحسین فصب الماء علی وجھھا
(الکامل فی التاریخ صفحہ 417)
قارئین کرام دیکھا آپ نے اگر الکامل کی عبارت تین دن پہلے والی عبارت سے یہ نتیجہ نکالا جاۓ کہ پانی تین دن بند تھا ایک قطرہ بھی نہ تھا جیسا کی ہمارے بزرگوں نے لکھا ہے۔ تو الکامل کی ہی اس عبارت سے پانی کا ہونا ثابت ہوتا ہے اگر پانی نہیں تھا تو پانی کہاں سے ایا منہ پرڈالنے کے لیے ؟
کیا وجہ ہے جو اس عبارت کو ماناجاۓ اور اس عبارت کو نہ مانا جاے ؟ کیا اس طرح الکامل کی ان دونوں عبارتوں میں تضاد نہیں ہے؟
کہ ایک عبارت تو پانی تین دن بند ہونے پر دلالت کرے اور دوسری عبارت پانی موجود ہونے پر دلالت کرے۔ جب ان دونوں عبارتوں میں تضاد ہے تو اس کے تضاد کو دو طرح سے تطبیق دیکر دور کیا جاۓ گا، اول یہ کہ۔پانی پر سختی والی روایت امام کی شہادت کے تین دن پہلے کی ہے۔ پہلے سختی ہوئی تھی پھر بعد میں اس سختی کو ہٹا دیا گیا چونکہ دسوی تاریخ کو پانی موجود ہونے کی روایت بھی ہے، اس طرح تطبیق دی جا سکتی ہے۔ اور اسی طرح کی تطبیق کرنا ہم پر لازم ہے چونکہ بدایہ کی عبارت میں آپ اور آپ کے ساتھیوں نے غسل کیا یہ عبارت موجود ہے، اسی طرح حضرت زینب کے منہ پر پانی ڈالنے والی عبارت بدایہ اور طبری میں بھی ہے۔ دوسری تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے، فرات پر سخت پہرا تھا اور یہ پہرا مسلسل تین دن رہا پانی لے جانے نہیں دیا گیا، اگرچہ فرات پر پہرا تھا، جب آپ کے ساتھیوں نے امام عالی مقام سے پانی کی شکایت کی تو آپ نے زمین پر بیلچے مار کار اس زمین سے پانی نکالا، آپ نے کنویں کھود رکھے تھے، اور آپ کے آس پاس پانی کے چشمہ جاری تھے۔ تو آپ اور آپ کے ساتھی وہاں سے پانی لیا کرتے تھیں، یہ کنویں کھود نے والی اور چشمہ جاری تھے والی روایت ہم اس سے پہلے دلائل کے ساتھ لکھ چکے ہیں، اور شیعہ حضرات کی کتب سے بھی ہم نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ اس طرح دونوں روایات میں تطبیق ہو گئ۔،
اور حضرت عباس کا بیس مشکیں پانی لانے والی عبارت تاریخ کی ہر کتب میں ہے لہٰذا قطعی طور پر یہ کہنا کے پانی تین دن بندرہا غلط ہے ۔ اب اعتراض یہ وارد ہوتا ہے پھر ہمارے بزرگوں نے کیوں لکھ دیا کہ تین دن پانی بند رہا ایک قطرہ بھی نہ تھا؟
الجواب۔ ہمارے یہ اکابر اہلسنت کے معتبر عظیم عالم دین تھے۔، انہوں نے اپنی خدمات سے مسلک اہلسنّت کو جلا بخشی، اس کا کوئی منکر نہیں ہے۔، یہ حضرات قرآن حدیث فقہ وغیرہ علوم شرعیہ میں کامل دسترس رکھتے تھے ۔، جیسا کی ان کی کتب سے ظاہر ہے۔ لیکن تاریخ ان کا موضوع نہ تھا۔، لہذا اس موضوع پر سوانحہ کربلا کے نام سے واقعات کربلا آپ نے لکھ دی اور خطبات محرم آئنہ قیامت۔، لیکن ان بزرگوں نے تحیقی و تدقیق نہ فرمائی ۔، جو دیگر علوم میں آپ کا طرہ امتیاز ہے، اگر کوئی شخص سوالیہ انداز میں پوچھتا کہ الکامل، طبری، بدایہ، وغیرہ کی عبارت سے خیمہ میں پانی کا ہونا ثابت ہوتا ہے کیا واقعی پانی موجود تھا۔
تو پھر یہ حضرات اس کی تحقیق فرماکر جواب لکھتے ۔،
الکامل کی یا طبری کی ظاہری عبارات دیکھکر لکھ دینا کوئی بعید نہیں چونکہ واقعات کا تعلق احکامات حرام حلال سے نہیں ہوتا اس لیۓ واقعات میں زیادہ تحقیق نہیں کی جاتی، صرف اعتماد کی وجہ سے ظاہر دیکھکر لکھ دیا جاتا ہے لہٰذا ہمارے ان بزرگوں پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ کوئی نکیر ہے۔
واقعات میں صرف ظاہری عبارت دیکھ کر اعتماد کی بنا پر لکھ دینا اور ان بزرگوں کے پاس مصروفیات کی وجہ سے واقعات کی تحقیق کا وقت نہ ہونا
اعلی حضرت کے اس جواب سے بھی ظاہر ہوتا ہے،
سائل نے کہا طبری میں ہے امام مسلم کے دونوں صاحب زادیں ان کے ساتھ نہ تھے۔ تو اعلی حضرت فرماتے ہیں۔
یہ نہ تو مجھے اس وقت یاد ہے نہ تاریخ دیکھنے کی فرصت نہ اس سوال کی حاجت
(فتاویٰ رضویہ جلد 24 ۔ صفحہ 510)
دیکھا آپ نے امام اہلسنت نے فرمایا اس وقت نہ تو یہ مجھے یہ یاد ہے اور نہ میرے پاس اس واقعہ کی تحقیق کرنے کی فرصت ہے، چونکہ ان حضرات کے پاس مصروفیات بہت ہوا کرتی تھی جس وجہ سے واقعات کی تحقیق کا وقت نہیں ہوا کرتا تھا، اسی وجہ سے ان حضرات نے صرف اعتماد اور ظاہر دیکھر اپنی کتب میں شامل فرما لیا، اور یہی وجہ ہے مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ نے حضرت مسلم بن عقیل کے بچوں کی شہادت کا واقعہ بھی نقل فرما دیا، اگرچہ وہ ایک افسانہ و من گھڑت ہے۔۔
واضح رہے ہم نے پانی کے موجود ہونے پر اس تحریر میں اس لیۓ بحث نہ کی کہ اس سے پہلے ہم تفصیلی طور مفصل کلام کر چکیں ہیں یہاں ان دلائل کو دوہرانے کی حاجت نہ تھی اسی لیۓ ہم نے ان کو ترک کردیا ۔
واقعات کربلا میں جو من گھڑت روایات ہیں ان کی ہم نے نشاندہی کی ہے ایک مدت سے یہ من گھڑت واقعات چلتے آرہے تھیں ۔اللہ نے اس کام کی ہمت و توفیق دی ہمیں تو اس پر ہم نے تحقیق کی اور پانی موجود ہونے پر جو ہم نے تحقیق کی ہے ایسی تحقیق شاید آپ کو کہی اور نہ ملے ۔ اب تک ہم نے جو کچھ بھی لکھا محض اللہ کی رضا کے لیۓ امت محمدیہ کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت لکھا ہے۔ مسلمان خود بھی ان منگھرت واقعات سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اللہ عزوجل اسے ہماری مغفرت کا ذریعہ بناۓ۔ ہماری اس کوشش سے اگر کچھ لوگ بھی ان من گھڑت واقعات سے بچ گۓ تو ہم سمجھیں گے ہماری محنت رنگ لائ ہے۔اوراس میں ہمارا ذاتی مفاد کچھ نہیں ہے۔
ہماری یہ تحقیق اگر صواب و صحیح ہے تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے، اور اگر ہم اس تحقیق میں خطا پر ہیں تو یہ ہمارے مطالعے اور کم علمی کی وجہ ہے۔
اللہ کریم ہماری اس کوشش کو قبول فرماۓ ہماری مغفرت فرماۓ، اور ہماری اس کوشش کو ہدایت کا ذریعہ بناۓ
فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
9917420179
ہلدوانی نینیتال
9917420179