Type Here to Get Search Results !

بیٹی کی وراثت میں شرعی حکم کیا ہے؟ وراثت کے بابت مکمل تفصیلات؟

 (سوال نمبر 5008)
بیٹی کی وراثت میں شرعی حکم کیا ہے؟ وراثت کے بابت مکمل تفصیلات؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 وراثت کے متعلق احکامات کس سورۃ میں تفصیلاً ذکر ہیں؟ نیز بیٹی کا وراثت میں شرعی حکم بیان کریں؟ 
 گروپ کن فیکون سائلہ:- حلیمہ قصور پاکستان 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
سورہ نساء میں اللہ فرماتا ہے 
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ-فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۚ-وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُؕ-وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌۚ-فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُۚ-فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ-اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًاؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا(11)وَ  لَكُمْ  نِصْفُ  مَا  تَرَكَ  اَزْوَاجُكُمْ  اِنْ  لَّمْ  یَكُنْ  لَّهُنَّ  وَلَدٌۚ-فَاِنْ  كَانَ  لَهُنَّ  وَلَدٌ  فَلَكُمُ  الرُّبُعُ  مِمَّا  تَرَكْنَ  مِنْۢ  بَعْدِ  وَصِیَّةٍ  یُّوْصِیْنَ  بِهَاۤ  اَوْ  دَیْنٍؕ-وَ  لَهُنَّ  الرُّبُعُ  مِمَّا  تَرَكْتُمْ  اِنْ  لَّمْ  یَكُنْ  لَّكُمْ  وَلَدٌۚ-فَاِنْ  كَانَ  لَكُمْ  وَلَدٌ  فَلَهُنَّ  الثُّمُنُ  مِمَّا  تَرَكْتُمْ  مِّنْۢ ! بَعْدِ  وَصِیَّةٍ  تُوْصُوْنَ  بِهَاۤ  اَوْ  دَیْنٍؕ-وَ  اِنْ  كَانَ  رَجُلٌ  یُّوْرَثُ  كَلٰلَةً  اَوِ  امْرَاَةٌ  وَّ  لَهٗۤ  اَخٌ  اَوْ  اُخْتٌ  فَلِكُلِّ  وَاحِدٍ  مِّنْهُمَا  السُّدُسُۚ-فَاِنْ  كَانُوْۤا  اَكْثَرَ  مِنْ  ذٰلِكَ  فَهُمْ  شُرَكَآءُ  فِی  الثُّلُثِ  مِنْۢ  بَعْدِ  وَصِیَّةٍ  یُّوْصٰى  بِهَاۤ  اَوْ  دَیْنٍۙ-غَیْرَ  مُضَآرٍّۚ-وَصِیَّةً  مِّنَ  اللّٰهِؕ-وَ  اللّٰهُ  عَلِیْمٌ  حَلِیْمٌﭤ(
12) 
ترجمہ: کنز العرفان 
اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لئے ترکے کا دو تہائی حصہ ہوگا اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے اوراگر میت کی اولاد ہوتو میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے ترکے سے چھٹا حصہ ہوگا پھر اگر میت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کے لئے تہا ئی حصہ ہے پھر اگر اس (میت) کے کئی بہن بھا ئی ہو ں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا، (یہ سب احکام) اس وصیت (کو پورا کرنے) کے بعد (ہوں گے) جو وہ (فوت ہونے والا) کرگیا اور قرض (کی ادائیگی ) کے بعد (ہوں گے۔) تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ ان میں کون تمہیں زیادہ نفع دے گا، (یہ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔ بیشک اللہ بڑے علم والا، حکمت والا ہے۔ اور تمہاری بیویاں جو (مال) چھوڑ جائیں اگر ان کی اولاد نہ ہو تواس میں سے تمہارے لئے آدھا حصہ ہے، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکہ میں سے تمہارے لئے چوتھائی حصہ ہے ۔(یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو انہوں نے کی ہو اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے) اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو توتمہارے ترکہ میں سے عورتوں کے لئے چوتھائی حصہ ہے، پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوں گے۔) اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ تقسیم کیا جانا ہو جس نے ماں باپ اور اولاد (میں سے ) کوئی نہ چھوڑا اور (صرف) ماں کی طرف سے اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہوگا پھر اگر وہ (ماں کی طرف والے) بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہوں گے (یہ دونوں صورتیں بھی) میت کی اس وصیت اور قرض (کی ادائیگی) کے بعد ہوں گی جس (وصیت) میں اس نے (ورثاء کو) نقصان نہ پہنچایا ہو ۔یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے اور اللہ بڑے علم والا، بڑے حلم والا ہے (سورہ نساء)
بیٹی کی تین صورتیں ہیں (۱) اگر بیٹی ایک ہو تو 1 / 2 ایک بٹا دو یعنی آدھا مال ملے گا۔ (۲) اگر دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہوں توان کو2 / 3 دو بٹا تین ملے گا۔ (۳) اگربیٹیوں کے ساتھ بیٹابھی ہوتوبیٹیاں عصبہ بن جائیں گی اور لڑکے کولڑکی سے دوگنا دیا جائے گا۔
خواتین اپنے والدین اور رشتہ داروں سے ارث پاتی ہیں۔
وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ أَوۡ كَثُرَۚ نَصِيبٗا مَّفۡرُوضًا.
.
اور عورتوں کے لئے بھی ان کے والدین اور اقربا کے ترکہ میں سے ایک حصہّ ہے وہ مال بہت ہو یا تھوڑا یہ حصہّ بطور فریضہ ہے۔
اب میراث کے مکمل تفصیلات ملاحظہ کریں ۔
شرعی طور پر بارہ قسم کے افراد کے لئے حصے مقرر ہیں، جن کو اصحاب فرائض کہتے ہیں، ان میں سے چار مرد اور آٹھ عورتیں ہیں ۔
مرد یہ ہیں :
1- باپ۔
2- جد صحیح یعنی دادا، پر دادا۔ (اوپر تک)
3- ماں جایا بھائی۔
4- شوہر۔
عورتیں یہ ہیں :
1- بیوی۔
2- بیٹی۔
3- پوتی۔ (نیچے تک)
4- حقیقی بہن۔
5- باپ شریک بہن۔
6- ماں شریک بہن۔
7- ماں۔
8- اور جدّۂ صحیحہ (دادی)۔
ہم اب عورتوں کے حصوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
1- بیویوں کے حصوں کا بیان
1- اگر میّت کی بیوی کے ساتھ میت کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی نہ ہو تو اس کو کُل مال کا چوتھائی ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 674)

2- اگر میت کی بیوی کے ساتھ میت کا بیٹا بیٹی یا پوتا پوتی ہو تو اس کو آٹھواں حصہ(2) ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 674)
2- حقیقی بیٹیوں کے حصوں کا بیان
1- اگر صرف ایک بیٹی ہو تو اس کو آدھا ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
2- اگر بیٹیاں دو یا دو سے زائد ہوں تو ان سب کو دو تہائی ملے گا اور ان میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
3- اور اگر بیٹی کے ساتھ میت کا لڑکا بھی ہو تو بیٹی اور بیٹا دونوں عصبہ بن جائیں گے اور مال بطور عصوبت دونوں میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ بیٹے کو بہ نسبت بیٹی کے دوگنا دیا جائے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
3- پوتیوں کے حصوں کا بیان
1- اگر میت کے بیٹا بیٹی نہیں صرف ایک پوتی ہے تو اس کو آدھا ملے گا.
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
2- اگر میت کا بیٹا بیٹی نہیں ہے دو پوتیاں ہیں یا دو سے زائد تو وہ دو تہائی میں شریک ہوں گی۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
3- اگر میت کی ایک بیٹی ہے تو پوتی ایک ہو یا ایک سے زائد وہ سب کی سب چھٹے حصے میں شریک ہوں گی تاکہ لڑکیوں کا حصہ دو تہائی پورا ہو جائے اس سے زائد نہ ہو کیونکہ قرآن کریم میں لڑکیوں کا حصہ دو تہائی سے زائد کسی صورت میں نہیں ہے۔ اب آدھا تو حقیقی بیٹی نے قوت قرابت کی وجہ سے لے لیا تو صرف چھٹا حصہ ہی باقی رہا جو پوتیوں کو مل جائے گا۔
(شریفیہ، صفحہ 34، عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)

4- پوتیاں میت کی دو حقیقی بیٹیوں کے ہوتے ہوئے محروم ہو جائیں گی بشرطیکہ میت کا کوئی پوتا، پرپوتا (نیچے تک) موجود نہ ہو۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
5- اگر پوتیوں کے ساتھ میت کی دو حقیقی بیٹیاں بھی ہوں اور پوتا یا پرپوتا (نیچے تک) ہو تو پوتیاں، پوتے یا پرپوتے کے ساتھ عصبہ ہو جائیں گی۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
6- پوتیوں کے ساتھ اگر میت کا بیٹا ہو تو پوتیاں محروم ہو جائیں گی۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
4- حقیقی بہنوں کے حصّوں کا بیان
1- اگر بہن ایک ہے تو اسے آدھا ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
2- اگر بہنیں دو یا دو سے زائد ہیں تو وہ دو تہائی میں شریک ہوں گی۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
3- اگر میت کی بہنوں کے ساتھ میت کا کوئی بھائی بھی ہو تو وہ اس کے ساتھ مل کر عصبہ ہو جائیں گی اور تقسیم مال "لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ” کی بنیاد پر ہو گی یعنی مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
4- اگر بہنوں کے ساتھ میت کی کوئی بیٹی، پوتی یا پرپوتی (نیچے تک) ہو تو اب بہن عصبہ بن جائے گی یعنی جو کچھ باقی بچے گا وہ لے گی، کیونکہ حدیث میں فرمایا :
’’بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بناؤ۔‘‘
(درمختار جلد 5، صفحہ 676، بحرالرائق، تبیین)
5- باپ شریک بہنوں کے حصّوں کا بیان
1- اگر باپ شریک بہن ایک ہو اور حقیقی بہن کوئی نہ ہو تو اُسے آدھا ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
2- اگر دو یا دو سے زائد باپ شریک بہنیں ہوں تو وہ دو تہائی میں شریک ہوں گی۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
3- اگر میت کی باپ شریک بہن یا بہنوں کے ساتھ ایک حقیقی بہن ہو تو باپ شریک بہن یا بہنوں کو صرف چھٹا تَکْمِلَۃٌ لِلثُّلُثَیْنِ (دوتہائی کو پورا کرنے کے لئے) ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
4- اگر باپ شریک بہن کے ساتھ میت کی دو حقیقی بہنیں ہوں تو اس کو کچھ نہ ملے گا اس لئے کہ دو تہائی جو زائد سے زائد بہنوں کا حصہ تھا وہ پورا ہو چکا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
5- اگر باپ شریک بہن کے ساتھ میت کی دو حقیقی بہنیں ہوں اور باپ شریک بھائی بھی ہو تو حقیقی بہنوں کے حصہ کے بعد جو کچھ بچے گا وہ ان کے درمیان "لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ” کی بنیاد پر منقسم ہوگا۔
(بزازیہ علی عالمگیری، جلد 6، صفحہ 404، عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
6- اگر باپ شریک بہنوں کے ساتھ میت کی بیٹیاں یا پوتیاں (نیچے تک) ہوں تو یہ بہنیں ان کے ساتھ عصبہ ہو جائیں گی۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
7- حقیقی بھائی بہن ہوں یا باپ شریک سب کے سب بیٹے یا پوتے (نیچے تک) اور باپ کے ہوتے ہوئے بالاتفاق محروم رہتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے نزدیک دادا کے ہوتے ہوئے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور فتویٰ اسی پر ہے۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
8- باپ شریک بھائی یا بہن، حقیقی بھائی کے ہوتے ہوئے محروم ہو جاتے ہیں۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
6- ماں شریک بہنوں کے حصوں کا بیان
1- اگر ماں شریک بہن صرف ایک ہے تو اسے چھٹا حصہ ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 448)
2- اگر ماں شریک بھائی یا بہن دو یا دوسے زائد ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہو جائیں گے اور ان بھائی بہنوں کو برابر حصہ ملے گا۔
(سراجی، صفحہ 7)
3- شریک بھائی یا بہن میت کے بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی (نیچے تک) باپ یا دادا کے ہوتے ہوئے محروم ہو جائیں گے۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450)
7- ماں کے حصوں کا بیان
1- اگر میت کی ماں کے ساتھ میت کا کوئی بیٹا یا بیٹی یا پوتا پوتی ہو تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 449، درمختار جلد 5، صفحہ 539)
2- اگر میت کی ماں کے ساتھ میت کے دو بھائی بہن ہوں خواہ وہ حقیقی ہوں، باپ شریک ہوں یا ماں شریک ہوں تو ماں کو اس صورت میں بھی چھٹا حصہ ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 449، درمختار جلد 5، صفحہ 675)
3- اگر ماں کے ساتھ میت کے مذکورہ رشتہ دار نہ ہوں تو ماں کو کُل مال کا تہائی حصہ ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 449)
4- اگر ماں کے ساتھ شوہر اور بیوی میں سے بھی کوئی ایک ہو تو پہلے شوہر یا بیوی کا حصہ دیا جائے گا پھر جو بچے گا اس میں سے ایک تہائی ماں کو دیا جائے گا اور یہ صرف دو صورتوں میں ہے۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 449، درمختار جلد 5، صفحہ 675)
5- اگر مذکورہ صورتوں میں بجائے باپ کے دادا ہو تو ماں کو کل مال کا تہائی ملے گا۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450)
8- دادی کے حصوں کا بیان
1- جدہ صحیحہ جس کا بیان ہو چکا ہے اس کو چھٹا حصہ ملے گا۔ دادیاں اور نانیاں ایک سے زائد ہوں اور سب درجے میں برابر ہوں تو وہ بھی چھٹے حصے میں شریک ہوں گی۔
(شریفیہ صفحہ 41، عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 675)
2- اگر دادی و نانی کے ساتھ میت کی ماں بھی ہو تو دادی و نانی دونوں محروم ہو جائیں گی۔
(عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
3- وہ دادیاں جو باپ کی طرف سے ہوں وہ باپ کے ہوتے ہوئے بھی محروم ہو جائیں گی۔
(شریفیہ صفحہ 42، عالمگیری، جلد 6، صفحہ 450، درمختار جلد 5، صفحہ 676)
4- وہ دادیاں جو باپ کی طرف سے ہوں اور دادا سے اوپر ہوں وہ دادا کے ہوتے ہوئے ساقط ہو جائیں گی لیکن باپ کی ماں ساقط نہ ہو گی کیونکہ اس کی رشتہ داری دادا کے واسطے سے نہیں۔
(درمختار جلد 5، صفحہ 676)
5- قریب والی دادی و نانی، دور والی دادی اور نانی کو محروم کر دے گی۔
نوٹ :
یہ تمام حصے بہارشریعت، جلد 3، حصہ 20 سے نقل کیے گئے ہیں، تفصیل کے لئے وہاں رجوع کیجیے۔
(ایسا فتاوی اہل سنت میں ہے)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب 
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔20_97/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area