(سوال نمبر 4071)
امام صاحب نے غلطی سے بے وضو نماز پڑھا دیا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ ایک امام مسجد صاحب سے غلطی ہوگئی کہ نماز ظہر بغیر وضو کے پڑھا دی نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے امام صاحب نے بعد نماز کے سنت و نوافل بھی پڑھ لئے گھر جاکر یاد آیا کہ میرا تو وضو ہی نہیں تھا بعد میں افسوس کرنے لگے اب اس نماز کا کیا شرعی حکم ہوگا جو جماعت وضو کے بغیر کرائی گئی تھی کیا وہ نماز امام صاحب اور مقتدیوں کی ہوگئی یا نہیں ہوئی اگر نہیں ہوئی تو مقتدیوں کو کس طرح قائل کیا جائے ان کی عزت میں بھی فرق نہ آئے مہربانی فرما میری شرعی راہنمائی کیجئے بحوالہ جواب عنایت فرما کر
جزاک اللّہ خیرا
امام صاحب نے غلطی سے بے وضو نماز پڑھا دیا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ ایک امام مسجد صاحب سے غلطی ہوگئی کہ نماز ظہر بغیر وضو کے پڑھا دی نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے امام صاحب نے بعد نماز کے سنت و نوافل بھی پڑھ لئے گھر جاکر یاد آیا کہ میرا تو وضو ہی نہیں تھا بعد میں افسوس کرنے لگے اب اس نماز کا کیا شرعی حکم ہوگا جو جماعت وضو کے بغیر کرائی گئی تھی کیا وہ نماز امام صاحب اور مقتدیوں کی ہوگئی یا نہیں ہوئی اگر نہیں ہوئی تو مقتدیوں کو کس طرح قائل کیا جائے ان کی عزت میں بھی فرق نہ آئے مہربانی فرما میری شرعی راہنمائی کیجئے بحوالہ جواب عنایت فرما کر
جزاک اللّہ خیرا
سائل:- سید محمد زوہیب شاہ بخاری سرائے چھینبہ پھول نگر پتوکی ضلع قصور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مذکورہ صورت میں اگر وقت ہوتا تو امام پھر سے نماز پڑھاتے چونکہ اب وقت نہیں اس لئے سنن و نوافل کی قضا نہیں البتہ ظہر فرض کی قضا امام و مآموم سب کریں گے ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ بغیر وضو کے نماز صحیح نہیں ہوتی اگر امام نے لاعلمی میں بلاوضو نماز پڑھادی تو امام کی نماز بھی نہ ہوگی اور امام کے پیچھے پڑھنے والے مقتدیوں کی نماز بھی نہ ہوگی لہٰذا دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔ امام کو چاہئے کہ اس بات کا اعلان کردے تاکہ جو لوگ اس نماز میں شریک ہوئے ہوں وہ ا پنی اپنی نماز کا اعادہ کرلیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها) لتضمنها صلاة المؤتم صحة وفسادا (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو ركن. وهل عليهم إعادتها إن عدلا، نعم وإلا ندبت، وقيل لا لفسقه باعترافه؛ ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه (بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح) لو معينين وإلا لا يلزمه بحر عن المعراج وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقا لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 591)
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے نماز شروع کرنے سے پہلے وضو کرنے کاحکم فرمایا ہے چنانچہ سورہ مائدہ آیت نمبر 6 میں ارشاد باری تعالی ہے اے ایمان والوں جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھولیا کرو لہذا اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بغیر وضو کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وضو نماز کے لیے شرط ہے جبکہ اذان بغیر وضو کے دینا جائز ہے کیونکہ اذان کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں
وقد أجمعت الأمة على أن الطهارة شرط في صحة الصلاة....وأجمعت الأمة على تحريم الصلاة بغير طهارة من ماء أو تراب ولا فرق بين الصلاة المفروضة والنافلة وسجود التلاوة والشكر وصلاة الجنازة إلا ما حكي عن الشعبي ومحمد بن جرير الطبري من قولهما تجوز صلاة الجنازة بغير طهارة وهذا مذهب باطل وأجمع العلماء على خلافه ولو صلى محدثا متعمدا بلا عذر أثم ولا يكفر عندنا وعند الجماهير وحكي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه يكفر لتلاعبه ودليلنا أن الكفر للاعتقاد وهذا المصلي اعتقاده صحيح وهذا كله إذا لم يكن للمصلي محدثا عذر. (شرح النووی (باب وجوب الطھارة للصلاة، 103/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
الھدایة میں ہے
وینبغی أن یؤذن ویقیم علی طہر فإن أذن علی غیر وضوء جاز۔(الھدایة (باب الاذان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔17/07/2023
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
مذکورہ صورت میں اگر وقت ہوتا تو امام پھر سے نماز پڑھاتے چونکہ اب وقت نہیں اس لئے سنن و نوافل کی قضا نہیں البتہ ظہر فرض کی قضا امام و مآموم سب کریں گے ۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ بغیر وضو کے نماز صحیح نہیں ہوتی اگر امام نے لاعلمی میں بلاوضو نماز پڑھادی تو امام کی نماز بھی نہ ہوگی اور امام کے پیچھے پڑھنے والے مقتدیوں کی نماز بھی نہ ہوگی لہٰذا دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔ امام کو چاہئے کہ اس بات کا اعلان کردے تاکہ جو لوگ اس نماز میں شریک ہوئے ہوں وہ ا پنی اپنی نماز کا اعادہ کرلیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے
(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها) لتضمنها صلاة المؤتم صحة وفسادا (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو ركن. وهل عليهم إعادتها إن عدلا، نعم وإلا ندبت، وقيل لا لفسقه باعترافه؛ ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه (بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح) لو معينين وإلا لا يلزمه بحر عن المعراج وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقا لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 591)
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے نماز شروع کرنے سے پہلے وضو کرنے کاحکم فرمایا ہے چنانچہ سورہ مائدہ آیت نمبر 6 میں ارشاد باری تعالی ہے اے ایمان والوں جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنوں تک اپنے ہاتھ دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں بھی ٹخنوں تک دھولیا کرو لہذا اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بغیر وضو کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے کیونکہ وضو نماز کے لیے شرط ہے جبکہ اذان بغیر وضو کے دینا جائز ہے کیونکہ اذان کے لیے وضو شرط نہیں ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں
وقد أجمعت الأمة على أن الطهارة شرط في صحة الصلاة....وأجمعت الأمة على تحريم الصلاة بغير طهارة من ماء أو تراب ولا فرق بين الصلاة المفروضة والنافلة وسجود التلاوة والشكر وصلاة الجنازة إلا ما حكي عن الشعبي ومحمد بن جرير الطبري من قولهما تجوز صلاة الجنازة بغير طهارة وهذا مذهب باطل وأجمع العلماء على خلافه ولو صلى محدثا متعمدا بلا عذر أثم ولا يكفر عندنا وعند الجماهير وحكي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه يكفر لتلاعبه ودليلنا أن الكفر للاعتقاد وهذا المصلي اعتقاده صحيح وهذا كله إذا لم يكن للمصلي محدثا عذر. (شرح النووی (باب وجوب الطھارة للصلاة، 103/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
الھدایة میں ہے
وینبغی أن یؤذن ویقیم علی طہر فإن أذن علی غیر وضوء جاز۔(الھدایة (باب الاذان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔17/07/2023