Type Here to Get Search Results !

امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کے پاس گھوڑا نہ ہونے کربلا تک کا سفر صرف اونٹنی پر کرنے کے دلائل کا جائزہ و رد بلیغ


امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کے پاس گھوڑا نہ ہونے کربلا تک کا سفر صرف اونٹنی پر کرنے کے دلائل کا جائزہ و رد بلیغ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
محمد علی نقشبندی صا حب جو کی اہلسنت کے محقق عالم ہیں
انہوں نے اپنی کتاب میزان الکتب میں لکھا ہے ،مدینہ سے کربلا تک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار تھے، آپ کے پاس گھوڑا نہیں تھا، ایک صاحب اور ہیں جو عبد مصطفی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک رسالہ تحریر کیا ہے چند واقعات کربلا کا تحقیقی جائزہ،
مصنف عبد مصطفے محمد صابر اسماعیلی قادری رضوی صاحب نے بھی پورا زور اس پر لگا دیا کی آپ کے پاس گھوڑا نہیں تھا،اور نہ ہی آپ نے اس پر سفر کیا بلکہ ان صاحب نے شاید اس بارے میں خود اپنی کوئی تحقیق نہیں کی جیسا محمد علی صاحب نے لکھا ہے، ویسا ہی ان صاحب نے لکھا ہے، گویہ کی میزان الکتب سامنے رکھ کر جیسا اس میں لکھا ہے ویسا ہی اتار دیا ہو، یہ بات فقط ہم اس لیے بتا رہے ہیں جب ہم نے دونوں کتابوں کو دیکھا تو دلائل ایک جیسے نظر آئے،خیر ہم اس پر نہیں جاتے کس نے کہا سے لیا اور نہ ہی اس پر ہم کو تحقیق کرنی ہے، اصل مقصد یہ ہے ان دونوں صاحبوں نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اس پر دلائل قائم کیۓ ہیں۔ مگر وہ دلائل نہ قابل قبول و ضعیف ہیں۔ کہ کربلا میں آپ کے پاس اونٹنی تھی گھوڑا نہیں تھا،، ہم اس تحقیق پر تحقیق پیش کریں گے اور اس بات کو ثابت کریں گے کہ ان دونوں صاحب کی تحقیق کہاں تک درست ہے، محمد علی نقشبندی صاحب نے اونٹنی ہونے پر شیعوں کی کتب سے زیادہ حوالے پیش کئے ہیں، اس لیے ہم شیعوں کی عبارتوں کا رد نہیں کریں گے، چونکہ جہاں شیعوں نے اونٹنی ہونے کا ذکر کیا ہے ،تو بعض نے گھوڑا ہونے کا بھی ذکر کیا ہے،تو بعض نے اونٹنی اور گھوڑا دونوں ہونے کا ذکر کیا ہے،، اس لیے ہم شیعوں کی ان عبارتوں کا رد نہیں کریں گے،، اور نہ ہی شیعہ ہمارے لیے معتبر ہے، 
ہم تاریخ کی معتبر کتب و دلائل کا ذکر کریں گے، اور اس بات کو ثابت کریں گے کی ان دونوں حضرات کی تحقیق غلط ہے ۔ صحیح تحقیق یہ ہے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس گھوڑا تھا،
محمد علی صاحب لکھتے ہیں۔
میدان کربلا میں اپنے سارے ساتھیوں کی شہادت کے بعد خود گھوڑے پر سوار ہوکر آنا سیدہ سکینہ کا گھوڑے کے پاؤں کو چمٹے رہنا جس وجہ سے گھوڑا نہ چل سکا پھر گھوڑے کا اشارہ سے امام پاک کو بتانا کی شہزادی چمٹی ہوئی ہیں،وغیرہ اس طرح کے واقعات خطبہ حضرات خوب بیان کرتے ہیں۔
اور سنیوں شیعوں کی کتب میں لکھے ہیں۔اس طرح کے واقعات سے مقصد ماتم کرنا ہوتا ہے، جس سے شیعہ حضرات اپنا الو سیدھا کرتے ہیں، اور سنی واعیظین بھی رو رو کر اس طرح کے واقعات بیان کرتے ہیں، جس سے یہ لوگ شیعوں کا کام آسان کر رہے ہیں اور ان کے کام کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چونکہ حقیقت یہ ہے امام پاک نے اپنا سفر کربلا تک کا اونٹنی پر کیا تھا،
مزید لکھتے ہیں۔مقتل ابی مخنف میں ہے۔
جب امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے عراق جانے کا ارادہ کیا تو آپ کے بھائی محمد ابن حنفیہ نے جب یہ سنا تو آپ کے پاس اۓ اور آپ سے کافی گفتگو فرمائی اور کہا آپ مکہ مکرمہ میں ہی رہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے خطرہ ہے کے بنو امیہ کا لشکر مکہ مکرمہ میں لڑنا شروع نہ کردے پھر حضرت حنفیہ نے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو یمن جانے کا مشورہ دیا کہ وہاں آپ امن میں رہیں گے اس پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں کسی چٹان کے اندر بھی ہوا تو بھی وہ لوگ مجھے نکال کر قتل کردیں گے پھر امام عالی مقام فرماتے ہیں۔ میں آپ کی بات پر توجہ کروں گا پھر جب سحری کا وقت ہوا تو امام عالی مقام نے
عراق کی طرف جانے کا عزم فرمایا تو جناب محمد بن حنفیہ نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ لی اور کہا بھائی جان آپ کے اتنی جلدی جانے کی وجہ کیا ہے تو امام عالی مقام نے فرمایا۔تمہارے جانے کے بعد نیند کی حالت میں میرے پاس نبی علیہ السلام تشریف لاۓ میری آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور مجھے سینے سے لگایا اور فرمایا بیٹا حسین عراق کی طرف نکل پڑو اللہ کا یہی ارادہ ہے وہ تم کو شہید ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔
جس کے عربی عبارت یہ ہے۔
کان وقت السحر عزم السیر الی العراق فاخذ محمد بن حنفیہ زمام ناقتہ و قال یا اخی ما سبب ذالک انک عجلت فقال جدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتا نی بعد فار قتک و انا نائم فضمنی الی صدرہ قبل بین عیننی و قال یا حسین یا قرتہ عینی اخرج الی العراق فانااللہ عن و جل قد شاء ان یراک قتیلا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر ہم ذکر کر اۓ ہیں اس عابرت میں امام عالی مقام کے بھائی کا ایک عمل ہمیں نظر آیا ہے اور وہ عمل یہ ہے فاخذ محمد بن حنفیہ زمامہ ناقتہ۔ محمد بن حنفیہ نے امام کی اونٹنی کی مہار پکڑی جس کا واضح مطلب ہے کہ امام نے جب سفر شروع کیا تو آپ نے اونٹنی پر سوار ہوکر سفر فرمایا تھا اب اونٹیی راستے میں تبدیل ہوگئ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا اس بات سے صاف ظایر ہو جاتا ہے گھوڑے کا ذکر ذوالجناح کی کہانیاں سب فرضی ہیں جھوٹ پر مبنی ہیں۔
اس عبارت کو بحوالہ ذبح عظیم مقتل ابی مخنف سے لکھا گیا ہے،
ان دونوں حضرات نے اس عبارت کو ذبح عظیم کے حوالہ سے لکھا ہے، کہ اس میں مقتل ابی مخنف کا حوالہ ہے،
غور طلب بات یہ ہے ڈائریکٹ مقتل ابی مخنف سے یہ عبارت کیوں نہ لکھی، ذبح غطیم سے ہی کیوں لکھا گیا۔
اس کا جواب ہم دیتے ہیں۔
کیوں کہ مقتل ابی مخنف میں یہ عبارت ہے ہی نہیں اور شاید محمد علی صاحب کو بھی یہ عبارت مقتل ابی مخنف میں نہیں ملی ہے چونکہ بہت سی جگہ محمد علی نقشبندی صاحب نے مقتل ابی مخنف کا ڈائریکٹ حوالہ دیا ہے پتہ چلا اگر ان کو یہ عبارت مقتل ابی مخنف میں ملتی تو وہ ڈائریکٹ اسی کا حوالہ دیتے محمد علی صاحب کی پیروی کرتے ہوئے عبد مصطفیٰ محمد صابر اسماعیلی صاحب نے اپنی کتاب میں ایسا ہی لکھ دیا جیسا محمد علی صاحب نے لکھا ہے، عبد مصطفی صاحب نے مقتل ابی مخنف دیکھنے کی زہمت نہیں اٹھائی اسی لیے ان صاحب نے بھی یہ بات لکھ کر ،بحوالہ ذبح عظیم مقتل ابی مخنف لکھ دیا اور غلطی کر بیٹھے اور اپنے رسالہ واقعات کربلا کا تحقیقی جائزہ میں لکھ دیا۔
پہلی بات یہ عبارت مقتل ابو مخنف میں ہے ہی نہیں دوسری بات یہ ہے اس عبارت میں
یمن جانے اور مکہ میں رہنے کی بات محمد بن حنفیہ نے نہیں کہی بلکہ حضرت ابن عباس نے آپ سے یہ کہا تھا ہم پوری عبارت لکھتے ہیں مقتل ابی مخنف سے جو کی کویت سے طبع ہوا ہے 1987۔ میں
محمد بن حنفیہ اۓ اور کہا
یا اخی انت اعز الناس علی و احبھم و اکرمھم لدی و لست انصح احدا احب الی منک ولا احق بالنصیحتہ فبحقی علیک الا
ما ابعدت شخصک عن یزید و ایاک والتعرض لہ دون ان تبعت دعاتک فی الامصار یدعون الناس الی بیعتک فان فعل الناس ذلک حمدت اللہ و ان اجتمعوا الی غیرک فلم ینقض اللہ بذلک فضلک و انی خائف علیک ان تئاتی مصرا من ھذہ الامصار فی جماعتہ من النانس فیختلفون علیک فتکون بینھم صریعا فیذھب دمک ھدرا و تنتھلک حرمتک،،فقال حسین رضی اللہ عنہ یا اخی فانی اجھد انزل مکتہ فان اطمائنت بی الدار اقمت بھا و ان کانت الاخری لحقت بالرمال و سکنت الجبال و انظر ما یکون من الناس و استقبل الامور ولا استدبرھا،،،
ثم قال لاخیہ محمد بن حنفیتہ احسن اللہ جزاک لقد نصحت یا اخی و احسنت۔
(مقتل ابی مخنف صفحہ 22)
ترجمہ۔ محمد بن حنفیہ نے کہا بھائی صاحب آپ مجھے سب لوگوں میں عزیز ہیں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور سب سے زیادہ محترم ہیں، آپ سے زیادہ میں کسی کا خیر خواہ نہیں، اور نہ مجھ سے زیادہ آپ کو کوئ نصیحت کرنے کا حقدار ہے میرا جو آپ پر حق ہے اس کی بنا پر کہتا ہوں آپ یزید سے تعرض نہ کریں آپ اپنے گماشتے شہروں میں بھیجیں جو لوگو کو آپ کی بیعت کی دعوت دیں، اگر لوگوں نے پزیرائ کی تو اللہ کا شکر ادا کیجیۓ اور اگر وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرت پر مجتمع ہونا پسند کریں تو اس سے اللہ آپ کے مرتبے میں کچھ کمی نہیں ہونے دیگا مجھے ڈر ہے کسی گروہ کے ساتھ کسی شہر میں گۓ اور لوگوں نے آپ کی مخالفت کی تو آپ زیر ہوجائیں گے تو آپ کا خون ضائع جاۓگا اور آپ کی بے حرمتی ہوگی۔
امام عالی مقام نے فرمایا۔بھائ میں مکہ جانے کی کوشش کرتا ہوں، اگر وہاں اطمینان نصیب ہوا تو وہیں رہ پڑوں گا اور بات دوسری ہوئی تو صحراؤں کی طرف نکل جائوں گا پہاڑوں میں مسکن گزین ہوں گا وہاں اور لوگوں کا رویہ دیکھوں گا میں معاملہ آگے بڑھانا چاہتا ہوں پیچھے ہٹنا نہیں پھر آپ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا اللہ کریم آپ کو جزاۓ خیر عطا فرماۓ تم نے نصیحت کا حق ادا کردیا۔
قارئین کرام یہ تھی مقتل ابھی مخنف کی عبارت یہاں نہ تو کوئ اونٹنی کا ذکر ہے اور نہ اس کی نکیل کا ذکر ہے اور نہ یہ یمن جانے کا مشورہ ہے لیکن عبد مصطفی صاحب نے اس عبارت سے پورا زور اس پر لگا دیا کی وہاں اونٹنی تھی جبکہ
 مقتل ابی مخنف میں یہ عبارت ہے ہی نہیں جس عبارت سے پورا زور اونٹنی ثابت کرنے کے لیے لگایا گیا اور گھوڑا نہ ہونے کا انکار کیا گیا، تو اب آپ خوب اچھی طرح سمجھ سکتیں ہیں۔
اس دعوے کی حقیقت کیا رہ
گئ۔ نیز تاریخ طبری جزء الخامس صفحہ 342 پر بھی یہی عبارت ہے جو ہمنیں اوپر ذکر کی ہے ،وہاں بھی نہ تو اونٹنی کا ذکر ہے نہ ہی اس کی نکیل پکڑنے کا ،،نہ ہی یمن جانے کا مشورہ کا ذکر ہے،
اسی طرح البدایتہ و النہایتہ
میں بھی اس طرح کا کوئ ذکر نہیں ہے۔
جب یہ عبارت موجود ہی نہیں ہے تو اس کو دلیل بناکر یہ دعوی بھی نہیں کہا جا سکتا کی اونٹنی تھی گھوڑا نہیں تھا،
 اس لیے اب ہم دوسری عبارت کا ذکر کرتے ہیں۔ جس سے عبد مصطفی صاحب اور محمد علی صاحب نے گھوڑا نہ ہونے پر دلیل پکڑی ہے، وہ لکھتیں ہیں۔
تاریخ طبری میں ہے،
فرزوق کو امام عالی مقام نے فرمایا اپنے پیچھے لوگوں کی باتیں بتاؤ تو اس نے کہا لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور ان کی تلوار بنو امیہ کے ساتھ 
 امام عالی مقام نے ان سے فرمایا 
تمام کام اللہ کو ہی زیب دیتے ہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جس کی نیت صحیح ہو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا یہ کہا اور اپنی اونٹنی کو حرکت دی اور السلام علیک کہا اور چل دیۓ،
قارئین کرام فرزوق کی ملاقات کوفہ کے راستیں میں ہوئ تھی اور طبری کی یہ عبارت
ثم حرک الحسین راحلتہ فقال السلام علیک ثم افترقا۔
کہ امام عالی مقام نے اپنی اونٹنی کو حرکت دی اور سلام کہا اور وہاں سے چل دیۓ، اس بات پر دلالت کر رہی ہے کی آپ کوفہ کے راستیں میں بھی اونٹنی پر سوار تھے،
(تاریخ طبری جلد 6 ص 218)
اس عبارت میں راحلتہ کا لفظ ایا ہے آخر میں اور راحلتہ کا معنی سواری بار برداری اونٹنی جس پر سامان لادا گیا ہو وغیرہ۔ محمد علی صاحب نے اپنی کتاب میں لفظ راحلتہ پر بحث کرکے اس کا معنی اونٹنی ہی لیا ہے۔ چونکہ آپ کو اونٹنی ہی ثابت کرنی تھی اس لیے وہ معنی لیے اور عبد مصطفی صاحب جو کی بار بار محمد علی صاحب کی تقلید کر رہے ہیں۔ انہوںنے یہاں بھی انکی پیروی کرتے ہوۓ
 اونٹنی ہونا بیان کیا ہے،
لیکن ہمارے نزدیک اونٹنی کے معنی لینا صحیح نہیں راحلتہ کا معنی سواری بھی آتا ہے تو بہتر تھا یہ معنی لیۓ جاتے آپ نے اپنی سواری کو حرکت کی اور چل دیۓ اور اگر ہم محمد علی صاحب کی تحقیق کو مانتے ہوۓ اونٹنی مراد لے بھی لے تو بھی اس میں ایک احتمال یہ ہوگا کہ آپ سوار تو گھوڑے پر ہی تھے لیکن آپ کا سامان اونٹنی پر تھا تو جب چلنے کا ارادہ کیا تو اپنی اس اونٹنی کو حرکت دی جس پر سامان لدا ہوا تھا ایک یہ احتمال موجود رہے گا اس لیے بہتر یہی ہے یہ معنی لیے جاۓ اپنی سواری کو حرکت کی۔ اور اگر ہم یہ بھی مان لے کہ یہاں مراد اونٹنی ہی ہے تو بھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کی آپ کے پاس گھوڑا نہ ہو چونکہ ممکن ہے فرزوق سے ملاقات کے وقت آپ اونٹنی پر تشریف فرما ہوں اس سے پہلے گھوڑے پر ہی سوار تھے چونکہ طبری کے جس صفحہ سے محمد علی صاحب نے یہ عبارت نقل کی ہے اسی صفحہ پر یہ عبارت بھی موجود ہے۔کہ امام عالی مقام کو ایک قافلہ ملا جن سے آپ نے کراۓ پر اونٹنیہ لی تھی کربلا تک کے لیے، اگر امام عالی مقام اونٹنی پر پہلے سے ہی سوار تھے تو پھر کراۓ پر اونٹنیہ کیوں لی اور یہ اونٹنیہ لینا بھی فرزوق کی ملاقات سے پہلے لینے کا ذکر ہے تو ممکن ہے آپ نے اس وقت اپنی سواری بدل لی ہو اور گھوڑے پر سوار نہ ہوکر اونٹنی پر سوار ہو گۓ ہو۔ تو اس لیے صرف اونٹنی کے معانی لینا لفظ راحلتہ سے صحیح نہیں، اگر معنی یہ لیۓ جاۓ جو ہمنیں ذکر کیۓ ہیں یعنی اپنی سواری کو حرکت کی اس معنی میں دونوں شامل ہوجاتی ہیں اوںٹنی بھی اور گھوڑا بھی اس وجہ سے طبری کی اس عبارت سے اونٹنی مراد لینا صحیح نہیں ہے جبکہ اتنے احتملات اس میں پاۓ جا رہے ہوں۔ مزید محمد علی صاحب اور عبد مصطفی صاحب نے دونوں نے ایک ہی روایت نقل کی ہے جس سے یہ دلیل پکڑی ہے امام عالی مقام کے پاس صرف اونٹنی تھی گھوڑا نہیں تھا آپ لکھتیں ہیں،۔
دلائل النبوتہ میں ہے۔
عن اصبع بن بناتہ عن علی رضی اللہ عنہ،، قال اتینا معہ موضع قبر الحسین رضی اللہ عنہ ،فقال ھھنا مناخر کابھم و موضع رحالھم و ھھنا محراق دماءھم فتیتہ من ال محمد یقتلون بھذا العرصتہ تبکی علیھم السماء والارض،،،
(دلائل نبوتہ جلد 2 صفحہ 744)
ترجمہ۔ اصبع بن بناتہ سے روایت ہے وہ حضرت علی سے بیان کرتے ہیں۔ فرمایا کہ ہم حضرت علی کے ساتھ اس جگہ اۓ جہاں امام پاک کی قبر ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے اونٹ بیٹھیں گے اور ان کے کجاووں کی جگہ ہے، یہ جگہ ان کے خون گراۓ جانے کی جگہ ہے آل محمد کے جوانوں کو یہاں شہید کردیا جاۓ گا ان پر آسمان زمین رویں
گے۔ قارئین کرام اس روایت میں حضرت علی فرما رہے ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے اونٹ بیٹھیں گے یعنی خاندان اہل بیت کے اس جگہ اونٹ بیٹھیں گے آپ نے اس جگہ کی نشان دہی فرمائ اس سے ظاہر ہوتا ہے، خاندان اہل بیت اونٹ پر سوار ہوکر آۓ اور انہوں نے اپنے انٹوں کو اس جگہ باندہا ان کے کجاوے رکھے یکن نہ جانے شیعہ سنی نے اہل بیت کے اونٹ کہان بھگا دیۓ اور اس کی جگہ گھوڑے لے اۓ علامہ محمد علی نقشبندی اس روایت سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کی گھوڑے موجود نہیں تھے صرف اونٹ موجود تھے، حالانکہ اس روایت سے گھوڑا نہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی یعنی یہ فرمانا اونٹ یہاں بیٹھیں گے اس سے یہ لازم نہیں اتا کی گھوڑے ہو ہی نہیں یہاں اونٹ بھیٹھیں گے کا صرف اتنا مطلب ہے کہ آپ کی سواری کے جانور یہاں بیتھیں گے جس طرح اس روایت میں آپ کے پاس دیگر سامان موجود تھا مثلا الات جنگ یا دیگیر سامان ان کا ذکر اس روایت میں نہیں تو اس سے یہ تو لازم نہیں اتا کی یہ الات آپ کے پاس نہ ہو، اور پھر یہ روایت ہمارے محقق علمائے کرام نے بھی ذکر کی ہے اپنی تصنیفوں میں لیکن اس روایت سے ان بزرگوں نے بھی یہ نتیجہ نہیں نکالا کی یہاں اونٹ بیٹھنے کا ذکر ہے تو گھوڑے ہو ہی نہیں۔ بلکہ وہ بزرگ بھی یہ جانتے تھے کی یہاں بیٹھ نے سے مراد آپ کی سوارییوں کا بیٹھنا ہیں، اس لیے اس روایت سے گھوڑوں کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ چونکہ بہت سے مقامات پر گھوڑوں کا ذکر ایا ہے جس کو میں اگے ذکر کروں گا انشاء اللہ۔
جناب عبد مصطفی نے بھی یہ روایت نقل کی ہے شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کی کتاب
 سر الشہادتین سے اور ان صاحب نے بھی اس روایت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہاں گھوڑے نہیں تھے صرف اونٹ تھے لطف کی بات یہ ہے جناب عبد مصطفی کو اس روایت سے اپنا مقصد سیدھا کرنا تھا یعنی گھوڑے نہیں تھے۔ اس لیے ان صاب نے شاہ صاحب رحمہ اللہ کی کتاب سے صرف یہ روایت نقل کردی لیکن جس جگہ شاہ صاحب نے گھوڑا ہونے کا ذکر کیا ہے اس عبارت کو ان جناب نے لیا ہی نہیں اگر وہ ذکر کرتے تو پھر ان صاحب کا وہ مقصد کیسے سیدھا ہوتا،
شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ سر شہادتین میں لکھتیں ہیں۔
جب امام عالی مقام زخموں سے نڈھال ہو گۓ اور آپ کے اندر قوت نہ رہی آپ کو ایک تیر اکر لگا فسقط عن الفرس
پھر آپ اپنے گھوڑے سے زمین پر تشریف لے اۓ
(سر الشہادتین صفحہ 62۔)
قارئین دیکھا آپ نے شاہ صاحب نے اگرچہ اس روایت کو نقل کیا جس میں انوٹ بیٹھنے کا ذکر ہے لیکن اس روایت سے یہ دلیل ہر گز نہ پکڑی کی وہاں گھوڑے تھے ہی نہیں تبھی تو آپ نے گھوڑے والی روایت کو ذکر کیا ہے،
لہذا اونٹ بیٹھیں گے اس روایت سے گھوڑوں کی نفی کرنا قطعی صحیح نہیں ہے،۔
علامہ محمد علی صاحب اور جناب عبد مصطفی نے شیعوں کی معتبر کتاب ناسخ التواریخ سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشس کی ہے، کہ امام عالی مقام کے پاس صرف اونٹنی تھی لیکن ہم آپ کو بتادیں کہ اس کا مصنف صرف اس بات کی نفی کرتا ہے کہ ذو الجناح نام کا گھوڑا نہیں تھا، بلکہ اس نے گھوڑا ہونے کا اقرار کیا ہے اور کہا ہے امام عالی مقام کی دو سواری تھی اونٹنی اور گھوڑا،
وہ لکھتا ہے۔
پس اسپ بر انگیخت وتیغ بر آہیخت مکشوف باد کہ اسپ سید الشہداء راکہ ور کتب معتبرہ را بنام نوشتہ انداز افزوں از دو مال سواری نیست یکے اسپ رسول خدا کہ مرتجز نام داشت و دیگرے شترے کہ مسّناة می نا مید ندو اسپ کہ ذوالجناح نام داشتہ باشد در ہیچک از کتب احادیث و اخبار و تواریخ معتبرہ من بندہ ندیدہ ام و ذوالجناح لقب شمر پسر لہیعہ حمیر یست واسپ ہیچ کس را بدیں نام نہ شیندہ ام - واگر اسپ چند کس راجناح نام بودہ بعد مربوط بہ ذوالجناح و منسوب بحسین نخواہد بودو اگر اسپ ہائے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم راجناح نامید ند باز نشاید ذوالجناح گفت درہر حال بدیں نام اسپ نام دار نہ بوده -
(ناسخ التواریخ ، جز ٢ ، جلد ٦ ، در احوال حضرت سید الشہداء ، صفحہ ٣٦٦ ، شمارہ مرکب ہائے حسین ، مطبوعہ تہران)
ترجمہ : پھر گھوڑا کودا اور آپ نے تلوار کھینچ لی واضح ہو کہ سید الشہداء (حسین رضی الله عنہ) کی سواری معتبر کتابوں میں دو نام سے مذکور ہے - ایک گھوڑا نبی صلی الله علیہ وسلم کا تھا جس کا نام مرتجز تھا - دوسری سواری اونٹ تھی - جس کو مسّناة کہتے تھے - اور گھوڑا کہ جسے ذوالجناح کا نام دیا گیا ہے - حدیث ، اخبار اور تاریخ کی کسی معتبر کتاب میں میں نے اس کا نام نہیں دیکھا - اور ذوالجناح ایک شخص شمر بن لھیعہ کا لقب تھا - اور کسی کے گھوڑے کا یہ نام میں نے نہیں سنا - اور اگر چند گھوڑوں کے نام ذوالجناح ہوں - اور اس کے ساتھ "ذو" کا لفظ جوڑ کر ذوالجناح بنایا جائے - تو بھی یہ گھوڑا حسین کا نہیں ہو سکتا - اور اگر پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کے گھوڑوں کا جناح رکھیں - پھر بھی ذوالجناح کہنا غلط ہے - بہرحال اس نام کا گھوڑا کوئی نہ تھا -
اس عبارت میں صرف گھوڑا ذو الجناح نہ ہونے کا ذکر ہے ،باقی خود وہ اس کا اقرار کر رہا ہے کہ معتبر کتابوں سے دو سواری کا ہونا ثابت ہے اونٹ اور گھوڑا تو اس عبارت سے بھی گھوڑا نہ ہونے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ گھوڑا ہونا اس عبارت سے ثابت ہوتا ہے ہم اس بات کا انکار نہیں کررتے کہ آپ کی سواری اونٹنی ہو ہی نہیں اور ابھی تک کے کلام میں ہمنیں اس کی نفی بھی نہیں کی ہمنیں کلام صرف گھوڑے کے اثبات پر کیا ہے، اب میں چند وہ عبارت ذکر کرتا ہوں جس میں نہ تو راحلتہ رکب رحال وغیرہ کا لفظ نہ ہو بلکہ فرس لفظ ہو تاکہ کسی طرح کا کوئ احتمال نہ رہے کہ یہاں پر یہ مراد ہے یہاں یہ کسی طرح کی تاویل نہ ہو فرس کا معنی چھوٹا سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ اس کا معنی گھوڑا ہے،، تو میں صرف انہی عبارت کو ذکر کروں گا جس میں فرس ایا ہے،
(امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کے پاس گھوڑے ہونے پر دلائل)
حضرت علامہ محمد علی اور جناب عبد مصطفی نے امام عالی مقام کا یہ قول نقل کیا ہے کہ امام عالی مقام نے فرمایا یہاں ہمارے اونٹ بیٹھیں گےان دونوں صاحبوں نے یہاں سے یہ مراد لیا کہ اونٹ ہونا ثابت ہوتا ہے، اگر گھوڑا ہوتا تو یہاں گھوڑوں کا ذکر ہوتا،،
جیسا کہ ہم پہلے بھی بتا اۓ ہیں یہاں اونٹ بیٹھیں گے اونٹ کا ذکر ہونا یہ ثابت نہیں کرتا کہ گھوڑا ہو ہی نہیں خیر ان دونوں صاحبوں کو اپنی بات ثابت کرنی تھی تو اس لیے صرف اونٹ کا ذکر کردیا ،اس کے اگے کی عبارت کو ان دونوں صاحبوں نے اڑا دیا حذف کردیا جی ہاں اس سے اگے کی عبارت ذکر کرتے تو پھر ان حضرات کی بات ثابت کہاں ہوتی، اس کے آگے عبارت ہم ذکر کرتے ہیں،
ثم نزل عن فرسہ و انشأ یقول
(مقتل ابی مخنف صفحہ 75)
جس کا معنی ہے کے پھر اس کے بعد یعنی جب اپنے ساتھیوں سے یہ بات فرمانے کے کہ ہمارے اونٹ یہاں بیٹھیں گے
امام عالی مقام اپنے گھوڑے سے اترے اور کچھ اشعار کہے اس عبارت کو دونوں نے حذف کردیا اگر ذکر کرتے تو پھر ان حضرات کی دلیل کی بنیاد ہل جاتی دیکھا قارئین کرام اس عبارت کے اگے گھوڑے کا ذکر تھا تو اس عبارت کو لیا ہی نہیں کیوں کہ اس سے گھوڑا ہونا ثابت ہو رہا تھا
مقتل ابی مخنف میں ہے۔
و ذلک یوم الأربعاء فوقفت فرس الحسین رضی اللہ عنہ فنزل عنھا ورکب اخری فلم تنبعت خطوتہ واحدتہ ولم یزل یرکب فرسا بعد فرس حتی رکب سبعتہ افراس و ھن علی ھذا الحال فلما رای ذلک
بدھ کے دن کربلا پہنچ گۓ وہاں امام عالی مقام کا گھوڑا رک گیا۔ آپ نے دوسرا گھوڑا بدلا مگر وہ بھی ایک قدم نہ چلا۔ پھر آپ نے یکے بعد دیگرے سات گھوڑے بدلے مگر سب کا یہی حال رہا یعنی وہ اگے نہ بڑے۔،۔
جب امام عالی مقام کرببلا پہنچ گۓ اور فرمایا یہیں اتر جاؤ یہاں ہماری سواریاں بند ھیں گی 
ثم نزل عن فرسہ۔
پھر امام عالی مقام اپنے گھوڑے سے اتر اۓ،
(مقتل ابی مخنف صفحہ 75)
سر الشہادتین میں ہے۔
جب امام عالی مقام زخموں سے نڈھال ہو گۓ آپ کے اندر قوت نہ 
فسقط عن الفرس،
کہ امام عالی مقام گھورے سے اترکر زمین پر تشریف لے اۓ۔
(سر الشہادتین صفحہ 62)
جب عمر بن سعد نے جنگ کے لیے اپنے لوگوں کو دائیں بائیں کھڑا کیا تو امام عالی مقام نے بھی اپنے ساتھیوں کو کھڑا کیا۔
و جمع الحسین اصحابہ فجعل زھیر بن قین و معہ عشرون فارس وجعل فی المیسرتہ ھلال بن نافع الجبلی و معہ عشرون فارسا۔
امام عالی مقام نے بھی اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور میمنہ پر بیس گھڑ سواروں کے ساتھ زبیر بن قین کو متعین کیا ۔
اور بیس گھڑ سواروں کے ساتھ میسرہ پر ہلال بن نافع جبلی کو متعین کیا۔۔
(مقتل ابی مخنف صفحہ 99)
امام عالی مقام جب قصر بنی مقاتل میں اترے اور رات کو جب آپ کو اونگ ائ اور پھر چونک کر کہا انا للہ و انا الیہ راجعون والحمد للہ رب العالمین اور پھر آپ کے بیٹے گھوڑے پر سوار ہوۓ آپ کے قریب اۓ،
 قال ففعل ذلک مرتین او ثلاثتا، قال فأقبل الیہ ابنہ علی بن الحسین علی فرس
(تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 407)
امام عالی مقام نے جب عمر بن سعد کے پاس بات کرنے کے لیے عمرو بن قرظہ بن کعب انصاری کو بھیجا کہ وہ امام عالی مقام سے ملاقات کرے تو وہ بیس گھڑ سوار لیکر نکلا اور امام عالی مقام بھی بیس گھڑ سوار لیکر نکلے
بعث الحسین رضی اللہ عنہ الی عمر بن سعد عمر بن قرظتہ بن کعب الانصاری ، ان القی اللیل بین عسکری و عسکرک، فخرج عمر بن سعد فی نحو من عشرین فارسا و اقبل حسین فی مثل ذلک،، (تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 413)
امام عالی مقام عصر کی نماز کے بعد بیٹھے تھے، عباس بن علی اۓ اور کہا بھای جان وہ لوگ اگۓ ہیں امام عالی مقام نے فرمایا گھوڑے پر سوار ہو جاؤ اور ان لوگوں سے ملو پوچھو کیا چاہتے ہیں، تب حضرت عباس بیس گھڑ سواروں کے ساتھ نکلتے ہیں جن میں زبیر بن قیس حبیب بن مظاہر بھی تھے۔
وقال العباس بن علی یا اخی أتاک القوم ، قال فنھض، ثم قال یا عباس ارکب بنفسی انت یا اخی حتی تلقھم فتقول لھم ما لکم ،وما بدا لکم و تسألھم عما جاء بھم ،فأناھم العباس فسقبلھم فی نحو عشرین فارسا فیھم زھیر بن القین و حبیب ابن مظاہر
(تاریخ طبری حلد 5 صفحہ 416)
جب عاشورا کا دن ایا فجر کے وقت امام عالی مقام نے اپنے انصار کی صفیں ترتیب دی ان کے ساتھ صبح کی نماز ادا فرمائ، امام عالی مقام کے ساتھ 32 گھوڑے اور 40 پیادے تھے۔
وصلی بھم صلاتہ الغداتہ ، و کان معہ الثنان و ثلاثون فارسا و اربعون راجلا،
(تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 422)
قارئین کرام دیکھا آپ نے عبد مصطفی اور حضرت علامہ محمد علی نے ایک بھی گھوڑا ہونے کا انکار کیا ہے لیکن آپ خود ان عبارت میں دیکھ سکتیں ہیں آپ کے پاس 32 گھوڑے تھے اتنی واضح اور صریح عبارتیں موجود ہونے کے بعد بھی گھوڑا نہ ہونے کا ان دونوں حضرات نے نہ جانے کیوں انکار کردیا،
انا للہ و الیہ راجعون،
جب دشمنوں نے حملہ کرنا شروع کیا تو زہیر بن قین گھوڑے پر سوار ہتھیار لیکر بہار نکلے۔
خرج الینا زہیر بن قین علی فرس  (تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 426)
جب مسلم بن عوسبحہ نے امام عالی مقام سے تیر مارنے کی اجازت طلب کی تو امام عالی مقام نے فرمایا میں یہ پسند نہیں کرتا کہ پہل ہماری طرف سے ہو آپ کے ساتھ ایک گھوڑا تھا جس کا نام لاحق تھا، اس گھوڑے پر علی بن حسین کو سوار کیا اور آپ نے اونٹنی کو طلب کیا۔ اس پر سوار ہوۓ اور بہت بلند اواز سے پکار کر کہا جسے سب لوگوں نے سنا۔
فقال لہ الحسین لا ترمہ فانی اکرہ ان ابدأھم، وکان مع الحسین فرس لہ یدعی لاحقا حمل علیہ ابنتہ علی بن الحسین ،قال فلما دنا منہ القوم عاد براحلتہ فرکبھا، ثم نادی بأعلی صوتہ دعاء یسمع جل الناس،، (تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 424)
امام عالی مقام کو جب پیاس کا غلبہ یوا تو آپ نے حضرت عباس کو بلایا اور تیس گھڑ سوار اور بیس پیادوں کے ساتھ اپ کو پانی لینے بھیجا ،،
و لما اشتد علی الحسین و اصحابہ العطش دعا عباس بن علی فبعثہ فی ثلاثین فارسا و عشرین راجلا،،(تاریخ طبری 413)
البدایتہ و النھایتہ میں ہے
و صلی الحسین ایضا باصحابہ وھم اثنان و ثلاثون فارسا و اربعون رجالا،،
امام عالی مقام نے نماز فجر پڑھی اور اپ کے ساتھیوں نے بھی ، جن میں بتیس گھڑ سوار اور چالیس پیادے تھے،،
(بدایتہ و النھایتہ جلد 8 صفحہ 178)
اسی صفحہ پر ہے جب امام عالی مقام میدان میں جانے لگے تو اپنے گھوڑے پر سوار ہوۓ
ثم رکب الحسین علی فرسہ، پھر امام عالی مقام گھوڑے پر سوار ہوۓ،،
(بدایتہ و النھایتہ جلد 8 صفحہ 178)
قارئین کرام ان عبارت میں 32 گھوڑوں کا ذکر ہے جو کہ اس بات پر دلالت کرتا ہے آپ کے پاس کئ گھوڑے تھے،،۔
میں نے یہاں مقتل ابی مخنف بدایہ اور طبری کی چند عبارتوں کا ذکر کیا ہے جس میں لفظ فرس ایا ہے میں سمجھتا ہو انصاف پسندوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے، اسی لیے میں دیگر کتب سے. مزید دلائل نہ لاکر بات کو یہی ختم کرتا ہوں ،،
(ایک اعتراض اور اس کا جواب)
علامہ محمد علی اور عبد
 مصطفی نے الکامل فی التاریخ کے حوالہ سے کہ امام عالی مقام اونٹی پر سوار ہوۓ اور بلند اواز دی جسے سب لوگوں نے سنا
یہ دونون حضرات اس سے یہ دلیل پکڑتے ییں کہ اگر گھوڑا ہوتا تو اس پر سوار ہوتے، اونٹنی پر سوار ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے وہاں گھوڑے نہیں تھے پھر خود ہی کہتے ہیں۔ جب اونٹنی ہی تھی میدان میں بھی تو نہ جانے گھوڑا کون اور کہاں سے لایا۔ میں کہتا ہوں امام عالی مقام کا اونٹنی پر سوار ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ گھوڑا تھا ہی نہیں اگر دو سواری ہوں ان میں سے ایک پر سوار ہوا جاۓ تو اس سے یہ لازم تو نہیں اتا کہ سواری ایک ہی ہو اسی لیے ان دونوں حضرات کا یہ کہنا غلط اور بلا دلیل ہے کہ وہاں گھوڑا تھا ہی نہیں محمد علی صاحب نے کہا نہ جانے کون اور کہاں سے گھوڑا لایا،، تو اس کا جواب میں دیتا ہوں گھوڑا امام عالی مقام اپنے ساتھ ہی لاۓ تھے جس کا نام لاحق تھا،، اور جس عبارت سے آپنے اونٹنی نہ ہونے کی دلیل پکڑی ہے وہاں پر گھوڑے کا ذکر بھی ہے جس کو آپ نے ذکر نہ کیا اگر کرتے تو پھر آپ کی دلیل متزلزل ہو جاتی جس دلیل کی بنیاد پر محل کھڑا کیا وہ محل زمین پر تشریف لے آتا
خلاصہ کلام یہ ہے ۔
ان دلائل سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام عالی مقام اور آپ کے ساتھیوں کے پاس گھوڑے تھے گھوڑوں کا انکار نہیں کیا جا سکتا
انصاف پسندوں کے لیے اتنے دلائل کافی ہیں اس لیے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ کتب میں جگہ جگہ گھوڑے ہونے کا ذکر آیا ہے، جہاں کہیں اونٹنی ہونے کا ذکر ہے ہم اس کا انکار نہیں کرتے، چونکہ سواریوں میں اونٹنی کا ذکر بھی ایا ہے جس کی واضح دلیل یہ ہے فرزوق سے ملاقات سے پہلے ایک قافلہ والوں سے آپ نے کراۓ پر اونٹ و اونٹنیاں لی تھی کربلا تک کے لیے آپ کی دو سواریاں تھی اونٹنی اور گھوڑا اور آپ نے جب چاہا جہاں چاہا دونو سواری میں سے ایک کا استعمال کیا اس لیے دونوں میں تعرض نہیں۔ حضرت علامہ محمد علی صاحب اور عبد مصطفی نے گھوڑا نہ ہونے پر جو دلائل دیۓ ہیں، وہ نہایت ہی ضعیف کمزور ہیں ان دلائل سے دلیل ہر گز نہیں پکڑی جا سکتی، ان دلائل کی بنیاد پر آپ گھوڑوں کا انکار قطعی طور پر غلط ہے، اتنی واضح عبارات ہونے کے بعد اسی پر اڑے رہنا سوا غلطی و خطا کے کچھ نہیں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
 کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area