Type Here to Get Search Results !

بدعات کی مکمل تشریح و توضیح؟

 (سوال نمبر 4054)
بدعات کی مکمل تشریح و توضیح؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بدعت کیا ہے اس کی کتنی قسمیں ہیں اور بدعت کرنے سے کوئی گناہ ہوتا ہے اور کیا غذاب ہوتا ہے مہربانی فرما کر قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں۔ اور کیا دیوبندی یا وہابی یا اور کون سے فرقے بدعت کی قسمیں کو مانتے ہے ان کا کیا عقیدہ ہے۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراھی ہے تو کیا ہر بدعت گمراھی ہو جائے گی۔
اور کیا درود تاج پرھنا شرک ہے کیونکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوراللہ منوراللہ کہا گیا ہے اس لفظ کا مطلب اور مفہوم بیان فرمائے یہ بات علماء دیوبندی یا وہابی کہتے ہیں۔صیح کیا ہے وضاحت فرمائیں۔
سائل:- مزمل صدیقی پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
١/ کتاب و سنت میں جس بابت ممانعت وارد ہو اس کے کرنے پر گناہ ہے ورنہ گناہ نہیں ہے ۔ بدعت کے لغوی معنی ہیں نئی چیز اور بدعت کے شرعی معنی ہیں وہ عقائد یا وہ اعمال جو حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات کے زمانہ میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے ہوں۔(جاء الحق، ح اول، پہلا باب بدعت کے معنی اور اس کے اقسام واحکام میں، ص۱۷۷)
بنیادی طور پر بدعت کی دو قسمیں ہیں 
١/ بدعتِ حَسنہ 
٢/ بدعتِ سَیّئہ۔ 
بدعتِ حسنہ یہ ہے کہ وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو۔ اور بدعتِ سیئہ یہ ہے کہ دین میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا کہ جس کی اصل کتاب و سنت میں نہ ہو اورا س کی وجہ سے شریعت کا کوئی حکم تبدیل ہو رہا ہو۔
٢/ مذکورہ حدیث کا مطلب ہے ہر بری بدعت گمراہی ہے تفصیل نیچے ۔
٣/ درود تاج پڑھنا جائز ہے 
اس میں کوئی عبارت متضاد اور شرع کے خلاف نہیں ہے مکمل معنی و مفہوم شرح درود تاج میں ملاحظہ کریں اب رہی بات دیوبندی اور وہابی کی تو وہ اللہ و رسول کے بارے میں بھی بہت کچھ کہتے ہیں ۔ان کی کتابیں اور ان کی ہفوات و بکواس نہ پڑھیں نہ سنیں علماء اہل سنت کی کتابیں پڑھیں ۔
ابنِ حجر عسقلانی، بدعت کی لُغوی تعریف یوں کرتے ہیں 
البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق. 
بدعت کی اصل یہ ہے کہ اسے بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ایجاد کیا گیا ہو۔ (فتح الباری، 4 : 253)
قرآن میں ہے 
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُO
’وہی آسمانوں اور زمین کو (عدم سے) وجود میں لانے والا ہے اور جب وہ کسی چیز (کی اِیجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے : تو ہو جا، پس وہ ہوجاتی ہے (البقره، 2 : 117)
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ ہر وہ نئی چیز بدعت کہلاتی ہے جس کی مثل اور نظیر پہلے سے موجود نہ ہو۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام (خواہ وہ نیک اور احسن ہی کیوں نہ ہو ) مثلاً اِیصال ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اخلاقی اُمور، اگر اُن پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ ہو تو بدعت اور مردود ہیں۔ یہ مفہوم سراسر غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیونکہ اگر یہ معنی لیا جائے کہ جس کام کے کرنے کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ جائز امور کا حکم کیا ہوگا کیونکہ مباح تو کہتے ہی اسے ہیں جس کے کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور کسی جہت سے بھی تعلیماتِ دین سے ثابت نہ ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی بدعت کے گمراہی قرار پانے کے لئے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :
١/ دین میں اس کی سرے سے کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
٢/ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور احکام سنت کو توڑے۔
بدعت کا اِصطلاحی مفہوم واضح کرتے ہوئے
ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اﷲ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
المحدثه والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا
’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو۔ اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔ ( فتح الباری، 13 : 253)
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے 
(اے نبی) آپ کہیے، اللہ کی زینت کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے، اور اس کی دی ہوئی پاک چیزوں کو، آپ کہیے یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں اور قیامت کے دن تو خصوصاً ان ہی کے لیے ہیں، ہم جاننے والے لوگوں کے لیے اسی طرح تفصیل سے آیتوں کو بیان کرتے ہیں
(سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 32)
صاحب بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں 
بدعت کسے کہتے ہیں اِسے بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بدعتِ مذمومہ و قبیحہ وہ ہے جو کسی سنّت کے مخالف ومزاحم ہو، اور یہ مکروہ یا حرام ہے۔ اور مطلق بدعت تو مستحب، بلکہ سنّت، بلکہ واجب تک ہوتی ہے۔حضرت امیر المؤمنین عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ 
’یہ اچھی بدعت ہے۔حالانکہ تراویح سنّتِ مؤکدہ ہے جس امر کی اصل شرع شریف سے ثابت ہو وہ ہرگز بدعتِ قبیحہ نہیں   ہوسکتا،  (بہار ح ص ٢٨٣مكتبة المدينة)
اشیاء میں اباحت کے اصل ہونے کی تحقیق : اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جو مسلمانوں کے لیے زینت اور نفع کے حصول کا باعث ہو، وہ حلال ہے۔ ماسوا اس کے کہ اس کی حرمت یا کراہت پر قرآن اور سنت میں کوئی نص موجود ہو، اور اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جس چیز کے حصول میں مسلمانوں کے لیے ضرر ہو، اس کا ترک کرنا واجب ہے کیونکہ اس کے ترک کرنے میں ہی مسلمانوں کا نفع ہے اور موجب ضرر اشیاء کی حرمت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے : " ولا تلقوا بایدیکم الی الہلکۃ : اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو " (البقرہ : 195)
اس آیت سے یہ قاعدہ بھی معلوم ہوا کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے یعنی تمام کاموں کا کرنا اصل میں جائز اور مباح تھا پھر جن کاموں کی قرآن اور حدیث میں ممانعت آگئی، وہ ممنوع ہوگئے اور باقی تمام کام اپنی اصل پر جائز رہے۔ مثلاً پہلے شراب پینا اور جوا کھیلنا مباح تھا۔ اسی طرح پہلے چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرنا مباح اور جائز تھا اور جب ان کاموں کی ممانعت شریعت میں آگئی تو یہ کام ممنوع ہوگئے۔ 
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں : تحریر (از علامہ ابن ہمام) میں یہ تصریح ہے کہ جمہور احناف اور شوافع کا مختار مذہب یہ ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے۔ (التحریر مع شرحہ التیسیر، ج 1، ص 172، مطبوعہ مکتبہ المعارف، ریاض) اور علامہ ابن ہمام کے شاگرد علامہ قاسم نے بھی ان کی اتباع کی ہے اور ہدایہ کی فصل حداد میں بھی مذکور ہے۔ اباحت اصل ہے۔ (ھدایہ اولین، ص 428 ۔ مطبوعہ مکتبہ شر کہ علمیہ، ملتان) اور قاضی خان نے الحظر والاباحۃ کے اوائل میں لکھا ہے کہ اصل اشیاء میں اباحت ہے۔ (فتاوی قاضی خاں علی ھامش الہندیہ، ج 3، ص 400، مطبوعہ مطبعہ امیریہ کبری بولاق، مصر، 11310) اور تحریر کی شرح میں مذکور ہے کہ یہ بصرہ کے معتزلہ، بہ کثرت شافعیہ اور اکثر حنفیہ خصوصا عراقیوں کا قول ہے اور امام محمد نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ایک شخص کو کسی نے کہا مردار کھاؤ یا شراب پیو، ورنہ میں تم کو قتل کردوں گا اور اس نے اس شخص کا کہا نہ مانا اور اس شخص نے اس کو قتل کردیا تو مجھے یہ خدشہ ہے کہ وہ گنہ گار ہوگا، کیونکہ مردار کھانا اور شراب پینا صرف اللہ کے منع کرنے سے حرام ہوا ہے۔ اس عبارت میں امام محمد نے اباحت کو اصل قرار دیا ہے اور حرمت کو ممانعت کے عارض ہونے کی وجہ سے مشروع قرار دیا ہے۔ (تیسری التحریر، ج 2، ص 161، مطبوعہ ریاض) اور شیخ اکمل الدین نے اصول بزدوی کی شرح میں لکھا ہے کہ استیلاء کفار کے باب میں شارح نے جو یہ لکھا ہے کہ اباحت معتزلہ کی رائے ہے (درمختار علی ہامش رد المحتار، ج 3، ص 244) اس پر اعتراض ہے۔ (رد المحتار، ج 1، ص 72، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1407 ھ)
نیز علامہ ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں شارح (صاحب درمختار) کا یہ کہنا کہ اباحت معتزلہ کی رائے ہے کتب اصول کے مخالف ہے، کیونکہ علامہ ابن ہمام نے تحریر میں لکھا ہے کہ جمہور احناف اور شوافع کا یہ مذہب ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے اور اصول بزدوی کی شرح میں علامہ اکمل الدین نے فرمایا ہے ہمارے اکثر اصحاب اور اکثر اصحاب شافعی کا مذہب یہ ہے کہ جن کاموں کے متعلق یہ جائز ہے کہ شریعت ان کے مباح ہونے کا حکم دے یا ان کے حرام ہونے کا حکم دے وہ تمام کام احکام شرع وارد ہونے سے پہلے اپنی اصل پر مباح ہیں۔ حتی کہ جس شخص تک شریعت نہ پہنچی ہو اس کے لیے مباح اور جائز ہے کہ وہ جو چاہے کھائے۔ امام محمد نے کتاب الاکراہ میں اسی طرح اشارہ کیا ہے کیونکہ انہوں نے فرمایا مردار کھانا اور شراب پینا صرف شرعی ممانعت کی وجہ سے حرام ہے۔ پس انہوں نے اباحت کو اصل قرار دیا ہے اور حرمت کو عارضہ ممانعت کی وجہ سے مشروع قرار دیا ہے۔ جبائی (معتزلی) ابوہاشم اور غیر مقلدین کا بھی یہی قول ہے اور ہمارے بعض اصحاب اور بعض اصحاب شافعی اور معتزلہ بغداد کا مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں اصل ممانعت ہے اور اشاعرہ اور عام محدثین کا مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں اصل توقف ہے۔ حتی کہ جس شخص تک شرعی احکام نہ پہنچے ہوں وہ کسی چیز کو نہ کھائے اگر اس نے کھایا تو اس کے فعل کو نہ حلال کہا جائے گا نہ حرام۔ (رد المحتار، ج 3، ص 244، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
قاضی ابوالخیر عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی 685 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ کھانے پینے اور پہننے کی چیزوں اور انواع تجملات میں اصل اباحت ہے۔ (انوار التنزیل مع الکازرونی، ج 3، ص 17، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1416 ھ)
قرآن مجید کی زیر بحث آیت کے علاوہ حسب ذیل حدیث سے بھی اس پر استدلال کیا گیا ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ حضرت سلمان بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین کے متعلق سوال کیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس چیز کو اللہ نے کتاب میں حلال کردیا وہ حلال ہے اور جس چیز کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا وہ حرم ہے۔ اور جس چیز سے اللہ نے سکوت فرمایا وہ معاف ہے۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1732 ۔ سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث : 3367 ۔ المستدرک ج 4 ص 115)
ملا علی بن سلطان محمد القاری المتوفی 1014 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔ (مرقات، ج 8، ص 193، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ، ملتان، 1390 ھ)
قاضی ابوبکر ابن العربی المالکی المتوفی 543 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت سلمان کا قول ہے لیکن اس کا معنی حدیث صحیح سے ثابت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہیں چند چیزوں کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرو اور چند چیزوں سے منع فرمایا ہے ان سے اجتناب کرو۔ اور اس نے اپنی رحمت سے چند چیزوں سے سکوت فرمایا ان کے متعلق سوال نہ کرو۔ (سنن کبری للبیہقی، ج 10، ص 13 ۔ سنن دار قطنی، ج 4، رقم الحدیث : 4350)
اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی چیز کا حک دیں تو اس کی تعمیل کرنے پر بھی اتفاق ہے اگرچہ اس کی صفت میں اختلاف ہے کہ وہ امر واجب ہے یا مستحب۔ اور جب کسی چیز سے منع فرمائیں تو اس سے اجتناب پر بھی اتفاق ہے اگرچہ اس کی صفت میں اختلاف ہے کہ وہ مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی اور جس چیز سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سکوت فرمائیں اس کے متعلق دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ اصل میں مباح ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ اصل میں موقوف ہے۔ (عارضۃ الاحوذی، ج 7، ص 229، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)
معمولات اہل سنت کا جواز اور استحسان 
جب یہ واضح ہوگیا کہ تمام کاموں میں اباحت اصل ہے اور جس چیز کے عدم جواز یا کراہت پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اس کام کو کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ اس اصول پر اہل سنت کے تمام معمولات جائز ہیں مثلا بغیر تعیین شرعی کی نیت کے سال کے مختلف ایام میں میلاد شریف منعقد کرنا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل اور آپ کی سیرت کا بیان کرنا، خلفاء راشدین اور اہل بیت اطہار کے ایام شہادت اور وفات میں ان کا تذکرہ کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب اور اہل بیت کو قرآن خوانی اور طعام کے صدقہ کا ثواب پہنچانا۔ اسی طرح اولیاء کرام کے ایام وصال میں ان کا تذکرہ کرنا اور ان کو عبادات اور طعام کے صدقہ کا ثواب پہنچانا۔ ہرچند کہ خصوصیت کے ساتھ یہ کام عہد رسالت میں نہیں کیے گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کاموں سے منع نہیں فرمایا اور یہ کام اسلام کے کسی حکم سے متصادم نہیں ہیں اس لیے یہ اپنی اصل پر مباح ہیں اور حسن نیت سے موجب ثواب اور باعث خیر و برکت ہیں۔ عہد صحابہ اور تابعین میں اس کی بہت مثالیں ہیں۔ حضرت عمر کے مشورہ سے حضرت ابوبکر اور دیگر اکابر صحابہ کا قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنا، حضرت عمر کا تراویح کو جماعت سے پڑھوانے کا اہتمام کرنا اور اس کو بدعت حسنہ قرار دینا، حضرت عثمان کا قرآن مجید کی قرات کو باقی لغات سے ختم کرکے صرف لغت قریش پر باقی رکھنا، عبدالملک بن مروان کے حکم سے قرآن مجید کے حروف پر نقطے اور حرکات اور اعراب کا لگایا جانا، عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں مساجد کی عمارتوں میں محراب کا بنایا جانا اور قرآن مجید کے نسخوں میں سورتوں کے اسماء اور آیتوں اور رکوعوں کی تعداد کو لکھنا یہ سب بدعات حسنہ ہیں جس کو تمام امت مسلمہ نے قبول کرلیا ہے۔ سو اہل سنت کے معمولات کو بھی ان ہی نظائر کی روشنی میں جائز سمجھنا چاہیے اور بلاوجہ ان پر یہ بدگمانی نہیں کرنی چاہیے کہ انہوں نے ان معمولات کو فرض اور واجب سمجھ لیا ہے۔ اسی طرح سوئم، چہلم اور عرس کی عرفی تعیینات کو تعیینات شرعی نہیں قرار دینا چاہیے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جیسے مساجد میں گھڑیوں کے حساب سے نمازوں کے اوقات متعین کرلیے جاتے ہیں اور کسی شخص کو بھی یہ بدگمانی نہیں ہوتی کہ یہ تعیین شرعی ہے۔ 
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی 1367 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : آیت اپنے عموم پر ہے ہر کھانے کی چیز اس میں داخل ہے کہ جس کی حرمت پر نص وارد نہ ہوئی ہو تو جو لوگ توشہ گیارہویں، میلاد شریف، بزرگوں کی فاتحہ، عرس، مجالس شہادت وغیرہ کی شیرینی، سبیل کے شربت کو ممنوع کہتے ہیں، وہ اس آیت کے خلاف کرکے گنہ گار ہوتے ہیں اور اس کو ممنوع کہنا اپنی رائے کو دین میں داخل کرنا ہے اور یہی بدعت و ضلالت ہے۔ (حاشیہ خزائن العرفان، ص 248، مطبوعہ تاج کمپنی لاہور)
صاحب بہار شریعت فرماتے ہیں 
اَلأصْلُ فِی الأشْیَاءِ الإبَاحَۃُ  یعنی ہر چیز اصل میں مباح و جائز ہے۔ یہ اصل حضرت امام شافعی اور احناف میں   حضرت امام کرخی کے نزدیک ہے متاخرین احناف نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاعلیہ الرحمۃ والرضوان بھی اس کو سند لائے ہیں  ۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ ﷲ عزوجل نے قرآنِ کریم میں   ارشاد فرمایا هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ- ﷲ ہی نے تمہارے لئے جو کچھ زمین میں   ہے پیدا فرمایا 
لہٰذا ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کے عدم جواز یا تحریم پر کوئی دوسرا حکم نہ ہو صاحبِ ہدایہ علیہ الرحمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔حدیث شریف میں  ہے: اَلْحَلالُ مَا أحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ حلال وہ ہے جو ﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حلال فرمادیا اور حرام وہ ہے جواﷲ عزوجل نے اپنی کتاب میں حرام فرمادیا اور جن چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا وہ معاف ہیں   اور مباح‘لہٰذا ہر وہ چیز جس سے ﷲ عزوجل نے سکوت اختیار فرمایا وہ جائز و مباح ہے اگر اسے کوئی شخص ناجائز یا حرام یا گناہ کہے اس پر لازم ہے کہ وہ دلیل شرعی لائے کیونکہ مسکوت عنہا( جس سے سکوت کیا گیا) کو مباح و جائز کہنے کے لئے یہ حدیث ہی کافی ہے۔ قرآنِ پاک کی ایک آیت اس مفہوم کو ثابت کرنے و الی اوپر بیان ہوچکی ہے دوسری آیت جس سے یہ مفہوم اور زیادہ وضاحت سے ثابت ہوتا ہے یہ ہے۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-
اے ایمان والو تم ایسی چیزوں  کے بارے میں سوال نہ کرو جن کا حکم نازل نہیں   کیا گیاکہ اگر ان کا حکم ظاہر کردیا جائے تو تمہیں   تکلیف پہنچے ‘‘ اسی لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شرعی احکام میں کثرت سوال سے منع فرمایا کہ اس سے شریعت کے احکام ک سخت ہونے کا اندیشہ ہے اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا وہ عفو میں داخل ہیں۔ اگر ان کی ممانعت یا فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو تمہیں تکلیف پہنچے گی۔ لہٰذا جن چیزوں  کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہواوہ آیت مذکورہ {هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۗ-}کی روسے جائزومباح ہیں{ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ- }’اوریہﷲ عزوجل کی بیان کردہ حدود ہیں تو ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘ لہٰذاجوان مسکوت عنہا کو ناجائز یا حرام یا بدعت سیئہ یا فرض یا واجب کہے وہ قرآن یا حدیث یا قواعد فقہیہ سے دلیل لائے ورنہ یہ ﷲ عزوجل کی بیان کر دہ حدود سے آگے بڑھنا ہے اور ﷲ  عزوجل اور رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام اور شریعت کاملہ پر افتراء ہوگا۔ جس کی قرآن میں شدید مذمت آئی ہے اور سخت ممانعت و تہدید کی گئی ہے لہٰذا میت کو ایصالِ ثواب کے لئے تعین وقت کے ساتھ قرآن خوانی یا سوالاکھ بار کلمہ شریف پڑھنا یا پڑھوانا فاتحہ و درود ، انعقاد محافل میلاد شریف اور صلوٰۃ وسلام اور بیعت و ارادت وغیرہا کے عدم جواز و بدعت کے قائلین کو قرآن یا احادیث یا اقوال صحابہ یا اَقَل درجہ میں   قواعد فقہیہ سے ان کے عدم جواز پر دلیل لانا چاہیے۔ بلا دلیل شرعی ان کے عدم جواز کا قول ﷲ عزوجل اور رسول ﷲ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر افتراء ہے،  وَالْعِیَاذُ   بِاللّٰہِ   تَعَالٰی  ۔
یہ امر بھی ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قول و فعل اور صحابۂ کرام کا قول و فعل تو حجت شرعیہ ہے مگر ان کا عدم قول اور عدم فعل، عدم جواز کے لئے حجت شرعیہ نہیں وہ اسی قاعدہ کے مطابق جائز و مباح ہے کہ اَلأ  صْلُ فِی اَلأ  شْیَائِ الإبَاحَۃُ  بلکہ امر مباح بہ نیت خیر باعث اجرو ثواب ہے اور مستحسن کہ  اَلأعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ حدیث صحیح ہے بلکہ وہ تمام امور مباح جن سے دین کی ترقی یا تعلیمات ِ اسلام کی اشاعت اور شریعت کا تحفظ ہوتا ہے سب مستحسن ہیں (بهار ح ١٩ ص ١٠٧٧ مكتبة المدينة)
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان 18خادم دارالافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔15/0/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area