(سوال نمبر 4075)
ایسی لاش جو سڑ گل گئی ہو غسل اور کفن و دفن کریں گے یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک لاش جو بالکل سڑ گل گئی ہے اس کو غسل بھی دیا گیا اور نماز جنازہ بھی پڑھی گئی تو اب شرعاً نماز جنازہ پڑھنے والوں پر کیا حکم ہوگا حالانکہ لاش مکمل گلی سڑی ہے جس کا جنازہ پڑھنا جائز نہ تھا اصول شرعیہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
سائل:-محمد عامر لاہور پاکستانایسی لاش جو سڑ گل گئی ہو غسل اور کفن و دفن کریں گے یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے متعلق کہ ایک لاش جو بالکل سڑ گل گئی ہے اس کو غسل بھی دیا گیا اور نماز جنازہ بھی پڑھی گئی تو اب شرعاً نماز جنازہ پڑھنے والوں پر کیا حکم ہوگا حالانکہ لاش مکمل گلی سڑی ہے جس کا جنازہ پڑھنا جائز نہ تھا اصول شرعیہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل
اگر میّت کی لاش اس قدر گل گئی ہو کہ اگر اس کو ہاتھ لگایا جائے تو اندیشہ ہے کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے تو اس صورت میں غسل کے لیے بس اتنا کافی ہوگا کہ اس پر پانی بہا دیا جائے پھر میّت کو عام طریقہ کے مطابق کفن میں لپیٹ دیا جائے اور نمازِ جنازہ ادا کی جائےگی۔
یاد رہے اگر نمازِ جنازہ سے پہلے میّت کا جسم پھٹ جائے تو اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جائےگی بلکہ پھٹے ہوئے جسم کو نمازِجنازہ کے بغیر دفن کر دیا جائےگا۔
اگر جسم پھٹا نہ ہو، مگر اس سے بدبو آ رہی ہو تو بدبو کی وجہ سے نمازِ جنازہ نہیں چھوڑی جائےگی؛ بلکہ نمازِ جنازہ ادا کی جائےگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
ولو كان الميت متفسخا يتعذر مسحه كفى صب الماء عليه كذا في التتارخانية ناقلا عن العتابية (الفتاوى الهندية ١/١٥٨)
والمنتفخ الذي تعذر مسه يصب عليه الماء (مراقي الفلاح صـ ٥٦٩)
ويصلى عليه (ما لم يتفسخ)قال العلامة الطحطاوي – رحمه الله -: قوله: (ما لم يتفسخ) أي تفرق أعضاؤه فإن تفسخ لا يصلى عليه مطلقا لأنها شرعت على البدن ولا وجود له مع التفسخ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح صـ ٥٩٢)
اور اگر میّت کا صرف ڈھانچہ ملے، تو نہ تو اس کو غسل دیا جائےگا اور نہ ہی اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائےگی بلکہ اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائےگا
ألا ترى أن العظام لا يصلى عليها بالإجماع (بدائع الصنائع ١/٣٠٢)
یعنی جب لاش غسل و تیمم کے بھی قابل نہیں کہ مکمل گل سڑ گئی ہے پر سب ظاہر ہے معلوم ہے کہ یہ مسلمان میت ہے چہرہ ہاتھ جسم دیکھائی دے رہا ہو پر چھو نہیں سکتے تو غسل و تیمم ساقط ہے۔ نماز جنازہ پڑھکر دفن کیا جائے ۔
کما فی الفتاوی الہندیہ،
ولو وجد أكثر البدن أو نصفه مع الرأس يغسل ويكفن ويصلى عليه، كذا في المضمرات. وإذا صلي على الأكثر لم يصل على الباقي إذا وجد ، كذا في الإيضاح . وإن وجد نصفه من غير الرأس أو وجد نصفه مشقوقاً طولاً، فإنه لا يغسل ولا يصلى عليه، ويلف في خرقة ويدفن فيها ، كذا في المضمرات.'(الفتاوي الهنديه)
بخلاف المریض إذا لم یستطع غسل الأعضاء ولا التیمم فإن الأعضاء یجعل کالذاھبة أصلاً للعذر فلھذا یصلي بغیر طھارة کذا في الإیضاح (الضیاء المعنوي، ص: ۱۸۲، ب، مخطوطة)۔
اگر کسی کے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت اور دونوں پیر ٹخنے سمیت کٹے ہوئے ہوں اور چہرے پر زخم ہو، جس کی وجہ سے چہرہ پر مسح وغیرہ نہ ہوسکے تو طہارت کا حکم ساقط ہوجائے گا اور وایسا شخص بلا طہارت نماز پڑھے گا۔
(ولو قطعت یداہ ورجلاہ من المرفق والکعب وبوجھہ جراحة صلی بغیر طھارة ولا تیمم ولا یعید، ھو الأصح)، وقد مر في التیمم
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارة، باب التیمم، ۱: ۴۲۳، ۲: ۱۴۵، ت: الفرفور، ط: دمشق نقلاً عن الفیض)(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المریض، ۲: ۵۷۴،
قال محمد بن الفضل: إن مقطوع الیدین والرجلین إذا کان بوجھہ جراحة یصلي بغیر طھارة وھذا صحیح (الضیاء المعنوي علی مقدمة الغزنوي، ص: ۱۸۷،ب، مخطوطة، وص: ۱۴۱، ب، مخطوطة أخری)
جب شرعا غسل کے لائق میت نہ ہو پھر غسل دینا میت کو اذیت دینا ہے جو گناہ ہے میت کو اذیت دینا حدیث پاک میں منع وارد ہے شرعی خلاف ورزی کی وجہ سے شامل لوگ توبہ کریں اور آئندہ شرعی احکام کو فلو کریں۔
والله ورسوله أعلم بالصواب
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن ضلع سرها نيبال۔17/97/2023