(سوال نمبر 6037)
انبیاء کرام و اولیاء عظام کے وسیلے سے دعا مانگنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کسی نبی کے صدقے دعا نہیں مانگنی چاہئے یہ شرکیہ ہے بحوالہ جواب عنایت فرما دیں
سائلہ:-عائشہ فاطمہ نیپال فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
اللہ سبحانہ و تعالی کو حقیقی مددگار جانتے ہوئے آقا علیہ السلام سے ڈائریکٹ بھی اور وسیلے سے بھی مدد مانگنا جائز ہے
یعنی عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو ربّ تعالیٰ ہی کی ہے اور آقا علیہ السلام اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد کرتے ہیں کیونکہ ہر شے کا حقیقی مالک و مختار صرف اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے اور اللّٰہ کی عطا کے بغیر کوئی مخلوق کسی ذرّہ کی بھی مالک و مختار نہیں ہو تی
اللہ نے اپنی خاص عطا اور فضلِ عظیم سے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو کونین کا حاکم و مختار بنایا ہے اور آقا علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام واولیائے عِظام کی عطا سے یعنی اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد فرما سکتے ہیں
واضح رہے کہ انبیاء کرام و اولیاء عظام مدد فرماتے ہیں اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے
جیسا کہ سورۃُ التحریم پارہ 28 کی آیت 4 میں اللّٰہ کا فرمان ہے
فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(۴) (پ۲۸
،التحريم:۴)
تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں
حدیث شریف میں حضرت سیّدُنا عتبہ بن غزوان رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور پُر نورسیّدُ العالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں
جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو ،کہ اللّٰہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔
اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر انبیاء کرام کے وسیلہ سے یا اولیاء کے وسیلے سے یا اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ودرست ہے اورمتعدد نصوص سے ثابت ہے ان میں سے ایک دلیل یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو بصارت کے لیے اپنے وسیلہ سے درج ذیل الفاظ میں دعا کرنے کی ہدایت فرمائی
اللَّھُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي ھَذِہِ لِتُقْضَی لِیَ، اللَّھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ
یہ روایت ترمذی شریف (۲:۱۹۸) میں ہے اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور ابن ماجہ (ص۹۹) میں بھی ہے
فتاوی رضویہ میں ہے
استعانت بالغیر وہی ناجائز ہے کہ اس غیر کو مظہر عون الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے، اور اگر مظہر عون الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتاہے تو شرک وحرمت بالائے طاق، مقام معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے (فتاویٰ رضویہ،ج 21،ص 325،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
انبیاء کرام و اولیاء عظام کے وسیلے سے دعا مانگنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا کسی نبی کے صدقے دعا نہیں مانگنی چاہئے یہ شرکیہ ہے بحوالہ جواب عنایت فرما دیں
سائلہ:-عائشہ فاطمہ نیپال فقہی مسائل برائے خواتین شرعی سوال و جواب لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
اللہ سبحانہ و تعالی کو حقیقی مددگار جانتے ہوئے آقا علیہ السلام سے ڈائریکٹ بھی اور وسیلے سے بھی مدد مانگنا جائز ہے
یعنی عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو ربّ تعالیٰ ہی کی ہے اور آقا علیہ السلام اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد کرتے ہیں کیونکہ ہر شے کا حقیقی مالک و مختار صرف اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے اور اللّٰہ کی عطا کے بغیر کوئی مخلوق کسی ذرّہ کی بھی مالک و مختار نہیں ہو تی
اللہ نے اپنی خاص عطا اور فضلِ عظیم سے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم کو کونین کا حاکم و مختار بنایا ہے اور آقا علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام واولیائے عِظام کی عطا سے یعنی اس کی دی ہوئی قدرت سے مدد فرما سکتے ہیں
واضح رہے کہ انبیاء کرام و اولیاء عظام مدد فرماتے ہیں اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے
جیسا کہ سورۃُ التحریم پارہ 28 کی آیت 4 میں اللّٰہ کا فرمان ہے
فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(۴) (پ۲۸
،التحريم:۴)
تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں
حدیث شریف میں حضرت سیّدُنا عتبہ بن غزوان رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور پُر نورسیّدُ العالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰ لِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں
جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے اور مدد چاہے اور ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللّٰہ کے بندو! میری مدد کرو ،کہ اللّٰہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔
اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر انبیاء کرام کے وسیلہ سے یا اولیاء کے وسیلے سے یا اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا مانگنا جائز ودرست ہے اورمتعدد نصوص سے ثابت ہے ان میں سے ایک دلیل یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو بصارت کے لیے اپنے وسیلہ سے درج ذیل الفاظ میں دعا کرنے کی ہدایت فرمائی
اللَّھُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّي تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي ھَذِہِ لِتُقْضَی لِیَ، اللَّھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ
یہ روایت ترمذی شریف (۲:۱۹۸) میں ہے اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، اور ابن ماجہ (ص۹۹) میں بھی ہے
فتاوی رضویہ میں ہے
استعانت بالغیر وہی ناجائز ہے کہ اس غیر کو مظہر عون الٰہی نہ جانے بلکہ اپنی ذات سے اعانت کا مالک جان کر اس پر بھروسا کرے، اور اگر مظہر عون الٰہی سمجھ کر استعانت بالغیر کرتاہے تو شرک وحرمت بالائے طاق، مقام معرفت کے بھی خلاف نہیں خود حضرات انبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے ایسی استعانت بالغیر کی ہے (فتاویٰ رضویہ،ج 21،ص 325،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔
31/07/2023
31/07/2023