(سوال نمبر ١٥٧)
اﷲ پاک کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیر قدرت داخل۔
:---------------------------
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ: اﷲ پاک کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیر قدرت داخل۔ (بہار شریعت، حصہ: اول، ص: 4) ,نہ زیر قدرت داخل،، جملہ کے اس جز کی تشریح فرمادیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟
سائل:- دلکش فیاض قادری، دربھنگہ، بہار، ہندوستان۔
.....................................
:---------------------------
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ: اﷲ پاک کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیر قدرت داخل۔ (بہار شریعت، حصہ: اول، ص: 4) ,نہ زیر قدرت داخل،، جملہ کے اس جز کی تشریح فرمادیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟
سائل:- دلکش فیاض قادری، دربھنگہ، بہار، ہندوستان۔
.....................................
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين..
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عز وجل
صورت مستفسره میں صفات باری تعالی نہ مخلوق نہ زیر قدرت داخل ہے
کیونکہ جو چیز زیر قدرت ہوتی ہے، وہ مخلوق ہوتی ہے اور جو مخلوق ہوتی ہے وہ پہلے نہیں ہوتی بلکہ بعد میں معرض وجود میں آتی ہے کیونکہ مخلوق کہتے ہی اس کو ہیں جس کو اللہ تعالی نے تخلیق فرمایا ہو جس کو للہ تعالی نے پیدا فرما یا ہو اس کا مطلب جو چیز پیدا ہوتی ہے پہلے نہیں ہوتی بعد میں پیدا ہوتی ہے اگر ہم یہ عقیدہ نہ رکھیں کہ اللہ تعالی کی صفات غیر مخلوق ہے تو پھر مخلوق ماننا لازم ائے گا، اور جب ہم مخلوق مانگیں گے تو یہ ماننا بھی لازم ائے گا ،کہ ایک وقت تھا کہ اللہ تعالی کی ذات تھی اور صفات نہیں تھی کیونکہ بعد میں پیدا ہوئی اور جب صفات سے ذات کو علحدہ کریں گے تو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ پھر تو اللہ تعالی کی طرف بےشمار عیوب کی نسبت کرنا لازم آئے گا، جیسے حیات، سماع، بصر، علم ۔تو پھر یہ سب مخلوق ہوں گے معاذ اللہ جبکہ صفت باری تعالی غیر مخلوق ہے تو ماننا پڑے گا کہ صفت باری تعالی غیر مخلوق ہے اور تحت قدرت نہیں ہے ۔۔۔
جیسا کہ مصنف بہار شریعت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر یعنی صفات اسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اس سے کسی طرح کسی نحو وجود میں جدا ہوسکیں کہ نفس ذات کی مقتضی ہیں اور عین ذات کو لازم۔
جس طرح اس کی ذات قدیم ازلی ابدی ہے، صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں۔
اس کی صفات نہ مخلوق ہیں نہ زیر قدرت داخل۔
في الفقہ الأکبر ص۲۵ میں ہے صفاتہ في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ
(المعتقد المنتقد ص۴۹.)
ذات و صفات کے سوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں۔
صفات الہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔
جو چیز محال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اس کی قدرت اسے شامل ہو، کہ محال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر محال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھا جائے کہ دوسرا خدا محال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیر قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو محال نہ رہا اور اس کو محال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری محال ہے، اگر تحت قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں۔ تو ثابت ہوا کہ محال پر قدرت ماننا اﷲ عزوجل کی الوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔
یاد رہے ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔ (بہار شریعت ح ١ ص ٦/ ص ٤، دعوت اسلامي)
الانتباه عقیدہ کے باب میں صفات باری تعالی کی نسبت زیادہ کلام کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ہماری عقل و فہم و فراست اتنی نہیں کہ ہم اسے سمجھ سکیں ۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب ،
كتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ،لہان ١٨،خادم البرقي دار الإفتاء سني شرعي بورڈ آف نیپال ۔
االاثنين ٢١ أكتوبر ٢٠٢٠ء /٢٥صفر، ١٤٤٢ھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
(١) قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال حضرت علامہ مفتی عثمان البرکاتی المصباحی صاحب قبلہ ۔
(٢) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٣) مفتی احمد رضا الثقافی صاحب
(٣) مفتی کلام الدین نعمانی مصباحی
(٤) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔۔۔۔۔۔
الاثنين ١٢ أكتوبر ٢٠٢٠ء /٢٥صفر، ١٤٤٢ھ