(سوال نمبر 5057)
10 محرم میں کیا کرنی چاہیے؟ دس اہم مسائل؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
10 محرم میں کیا کرنی چاہیے
10 محرم میں کیا کرنی چاہیے؟ دس اہم مسائل؟
.....................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
10 محرم میں کیا کرنی چاہیے
سائل:-حافظ نور الدین پورنیہ بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
نو دس محرم کو روزہ رکھیں اسی طرح ایک محرم سے 10 محرم تک اپنے محلے میں خطاب کا پروگرام رکھ کر فضائل اہل بیت فضائل حسنین کریمین فضائل حضرت فاطمہ واقعہ کربلا جو صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کسی عالم سے خطاب میں سنی جائے پھر دس محرم کو قرآن خوانی اور محفل کریں فقراء کو صدقہ و خیرات کریں مروجہ تعزیہ گانے باجے سے دور رہیں
اب کچھ مخصوص مسائل ملاحظہ کریں
(1) تعزیہ داری کا آغاز کے سلسلے میں یوں سنا گیا ہے کہ سلطان تیمور کے دور حکومت میں اس کا آغاز ہوا۔ تعزیہ داری بدعت حرام اور ناجائز ہے (از: فتاویٰ رضویہ)
(2) تعزیئے پر چڑھاوا چڑھانا کیسا؟
تعزیہ بنانا (جو عوام میں رائج ہے) ناجائز و بدعت ہے۔ اس کا بنانا گناہ و معصیت اور اس کے اوپر شیرنی وغیرہ (کھانے پینے کی اشیائ‘ گڑ اور ناریل وغیرہ) چڑھانا محض جہالت ہے اور تعزیئے کی تعظیم بدعت‘ جہالت اور ناجائز ہے (از: فتاویٰ رضویہ جلد دہم نصف آخر ص 63)
(3) تعزیئے کا چڑھاوا کھانا کیسا؟
تعزیہ کا چڑھاوا نہیں کھانا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تعزیئے کا چڑھاوا اس نیت سے نہیں کھاتے کہ وہ تعزیئے کا چڑھا ہوا ہے بلکہ اس نیت سے کھاتے ہیں کہ وہ امام عالی مقام امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نیاز ہے تو یہ قول بھی غلط اور بے ہودہ ہے کیونکہ تعزیئے پر چڑھاوا چڑھانے سے حضرت امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نیاز نہیں ہوجاتی۔
(4) کیا تعزیہ داری کفر ہے؟
تعزیہ جس طرح رائج ہے نہ صرف بدعت بلکہ بدعت کا مجموعہ ہے۔ تعزیہ نہ روضہ امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا نقشہ ہے اور اگر نقشہ ہو تو بھی ڈھول‘ تاشے اور باجوں کے ساتھ گشت کرتے ہوئے نکلنا کیا یہ روضہ امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان ہے (بلکہ توہین ہے) کیا امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی توہین (ان کے یوم شہادت کی توہین) قابل تعظیم ہوسکتی ہے؟ کعبہ معظمہ میں زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی تصویریں بنائیں اور ہاتھ میں پانسے دیئے تھے جن پر ﷲ تعالیٰ نے لعنت فرمائی اور ان تصویروں کو محو فرمادیا۔
تعزیہ بنانا ضرور ناجائز اور بدعت ہے مگر کفر نہیں ہے تعزیہ دار گناہ گار اور فعل حرام کے مرتکب ضرور ہیں مگر ان کو کافر کہنا وہابیہ کا طریقہ ہے۔ تعزیہ دار کو کافر کہنے والا خود کافر ہوجائے گا (از : فتاویٰ رضویہ جلد دہم)
(5) تعزیہ داری میں امداد
تعزیہ داری میں کسی قسم کی امداد جائز نہیں (امداد کرنے والا بھی گناہ گار ہوگا)
کیونکہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے ۔ تعزیہ کو جائز سمجھ کر بنانا یہ فاسقوں کا طریقہ ہے۔ (از: فتاویٰ رضویہ جلد دہم ص 472/471)
(6) محرم الحرام میں جائز کام
محرم الحرام کے دس دنوں میں بعض لوگ پرانے کپڑے نہیں اتارتے (صاف ستھرے کپڑے نہیں پہنتے) سوائے امام حسن و حسین علیہم الرضوان کے کسی اور کی فاتحہ نہیں دلاتے‘ دس محرم الحرام کو گھر میں جھاڑو نہیں دیتے اور نہ ہی دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تعزیہ کو دفن کرنے کے بعد روٹی پکائی جائے گی (گوشت وغیرہ بھی نہیں پکاتے۔ یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں۔ اس سے مسلمانوں کو بچنا چاہئے (از: فتاویٰ رضویہ جلد 10ص 536)
(7) محرم الحرام میں ممنوعہ کام
تعزیئے بنانا‘ اس سے مرادیں مانگنا‘ علم (جھنڈا) چڑھانا‘ مہندی چڑھانا (جو سات محرم الحرام کو حضرت امام قاسم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی یاد میں مہندی لگائی اور چڑھائی جاتی ہے) بچوں کو سبز کپڑے پہنانا اور ان کے گلوں میں ڈوریاں (بازو پر ڈوریاں باندھنا) باندھ کر ان کو امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا فقیر بنانا (جو گھر کا کھانا نہ کھائے صرف دوسروں سے مانگ کر فقیر کی طرح کھائے) دس روز تک سوگوار رہنا (سوگ اسلام میں صرف تین دن ہے جو واقعہ کربلا کے بعد مسلمانوں نے منالیا۔ اب کوئی سوگ نہیں‘ امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا غم ایک الگ چیز ہے جو شریعت کے دائرے میں رہ کر دل میں رکھا جاسکتا ہے اور کون سا ایسا مسلمان ہوگا جو شہادت امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر غمگین نہ ہو) شہدائے کربلا کے سوئم اور چہلم کا انعقاد کرنا (سوئم اور چہلم وصال کے بعد صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے‘ اب صرف یوم شہادت منایا جاتا ہے اور عوام اکثر یہ کہتے ہیں کہ آج امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا سوئم ہے پھر چہلم ہے۔ ایسا کہنا بھی درست نہیں) ماتمی مرثیوں کا پڑھنا یہ تمام رسمیں ممنوع اور ناجائز ہیں۔ یزید کی آڑ میں حضرت سیدنا کاتب وحی امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یا کسی بھی صحابی رسولﷺ کو برا کہنا منع ہے (از: فتاویٰ رضویہ جلد 10ص 537)
(8) محرم الحرام میں (خصوصا یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں ۔ ہرا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے‘ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے پہننا یہ رافضیوں کا طریقہ ہے لہذا مسلمانوں کو اس سے بچا جائے (از کتاب: احکام شریعت)
(9) ایصال ثواب کا احسن طریقہ
حضرت امام حسین اور شہدائے کربلا رضوان ﷲ علیہم اجمعین کی یاد میں سبیل قائم کرکے لوگوں کوپانی پلا کر ایصال ثواب کیا جائے۔ لوگوں کو کھانا کھلایا جائے‘ نذر ونیاز کا اہتمام کیا جائے اور یہ بزرگان دین کا طریقہ بھی ہے چنانچہ حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی معرکتہ الآراء کتاب تحفہ اثنا عشری منت اللہفرماتے ہیں (یہ وہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ہیں جن کا نام اگر کسی عالم دین کی سند (سرٹیفکیٹ) میں نہ ہو تو وہ عالم دین نہیں کہلاتا) کہ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور اولاد علی میں ولایت روحانی طور پر موجود ہے اس لئے میں ہر سال دس محرم کو حضرت امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور شہدائے کربلا کی نیاز دلاتا ہوں اور کھڑے ہوکر ان پر سلام پیش کرتا ہوں (از کتاب: تحفہ اثنا عشری)
(10) شہدائے کربلا کی سیرت پر کتابیں شائع کرکے ان کو مفت تقسیم کیا جائے۔ ان کے ذکر کی محفلیں منعقد کی جائیں (دعوت اسلامی)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
کتبہ:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/07/2023
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
نو دس محرم کو روزہ رکھیں اسی طرح ایک محرم سے 10 محرم تک اپنے محلے میں خطاب کا پروگرام رکھ کر فضائل اہل بیت فضائل حسنین کریمین فضائل حضرت فاطمہ واقعہ کربلا جو صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کسی عالم سے خطاب میں سنی جائے پھر دس محرم کو قرآن خوانی اور محفل کریں فقراء کو صدقہ و خیرات کریں مروجہ تعزیہ گانے باجے سے دور رہیں
اب کچھ مخصوص مسائل ملاحظہ کریں
(1) تعزیہ داری کا آغاز کے سلسلے میں یوں سنا گیا ہے کہ سلطان تیمور کے دور حکومت میں اس کا آغاز ہوا۔ تعزیہ داری بدعت حرام اور ناجائز ہے (از: فتاویٰ رضویہ)
(2) تعزیئے پر چڑھاوا چڑھانا کیسا؟
تعزیہ بنانا (جو عوام میں رائج ہے) ناجائز و بدعت ہے۔ اس کا بنانا گناہ و معصیت اور اس کے اوپر شیرنی وغیرہ (کھانے پینے کی اشیائ‘ گڑ اور ناریل وغیرہ) چڑھانا محض جہالت ہے اور تعزیئے کی تعظیم بدعت‘ جہالت اور ناجائز ہے (از: فتاویٰ رضویہ جلد دہم نصف آخر ص 63)
(3) تعزیئے کا چڑھاوا کھانا کیسا؟
تعزیہ کا چڑھاوا نہیں کھانا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تعزیئے کا چڑھاوا اس نیت سے نہیں کھاتے کہ وہ تعزیئے کا چڑھا ہوا ہے بلکہ اس نیت سے کھاتے ہیں کہ وہ امام عالی مقام امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نیاز ہے تو یہ قول بھی غلط اور بے ہودہ ہے کیونکہ تعزیئے پر چڑھاوا چڑھانے سے حضرت امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نیاز نہیں ہوجاتی۔
(4) کیا تعزیہ داری کفر ہے؟
تعزیہ جس طرح رائج ہے نہ صرف بدعت بلکہ بدعت کا مجموعہ ہے۔ تعزیہ نہ روضہ امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا نقشہ ہے اور اگر نقشہ ہو تو بھی ڈھول‘ تاشے اور باجوں کے ساتھ گشت کرتے ہوئے نکلنا کیا یہ روضہ امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شان ہے (بلکہ توہین ہے) کیا امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی توہین (ان کے یوم شہادت کی توہین) قابل تعظیم ہوسکتی ہے؟ کعبہ معظمہ میں زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی تصویریں بنائیں اور ہاتھ میں پانسے دیئے تھے جن پر ﷲ تعالیٰ نے لعنت فرمائی اور ان تصویروں کو محو فرمادیا۔
تعزیہ بنانا ضرور ناجائز اور بدعت ہے مگر کفر نہیں ہے تعزیہ دار گناہ گار اور فعل حرام کے مرتکب ضرور ہیں مگر ان کو کافر کہنا وہابیہ کا طریقہ ہے۔ تعزیہ دار کو کافر کہنے والا خود کافر ہوجائے گا (از : فتاویٰ رضویہ جلد دہم)
(5) تعزیہ داری میں امداد
تعزیہ داری میں کسی قسم کی امداد جائز نہیں (امداد کرنے والا بھی گناہ گار ہوگا)
کیونکہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے ۔ تعزیہ کو جائز سمجھ کر بنانا یہ فاسقوں کا طریقہ ہے۔ (از: فتاویٰ رضویہ جلد دہم ص 472/471)
(6) محرم الحرام میں جائز کام
محرم الحرام کے دس دنوں میں بعض لوگ پرانے کپڑے نہیں اتارتے (صاف ستھرے کپڑے نہیں پہنتے) سوائے امام حسن و حسین علیہم الرضوان کے کسی اور کی فاتحہ نہیں دلاتے‘ دس محرم الحرام کو گھر میں جھاڑو نہیں دیتے اور نہ ہی دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تعزیہ کو دفن کرنے کے بعد روٹی پکائی جائے گی (گوشت وغیرہ بھی نہیں پکاتے۔ یہ تمام باتیں جہالت پر مبنی ہیں۔ اس سے مسلمانوں کو بچنا چاہئے (از: فتاویٰ رضویہ جلد 10ص 536)
(7) محرم الحرام میں ممنوعہ کام
تعزیئے بنانا‘ اس سے مرادیں مانگنا‘ علم (جھنڈا) چڑھانا‘ مہندی چڑھانا (جو سات محرم الحرام کو حضرت امام قاسم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی یاد میں مہندی لگائی اور چڑھائی جاتی ہے) بچوں کو سبز کپڑے پہنانا اور ان کے گلوں میں ڈوریاں (بازو پر ڈوریاں باندھنا) باندھ کر ان کو امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا فقیر بنانا (جو گھر کا کھانا نہ کھائے صرف دوسروں سے مانگ کر فقیر کی طرح کھائے) دس روز تک سوگوار رہنا (سوگ اسلام میں صرف تین دن ہے جو واقعہ کربلا کے بعد مسلمانوں نے منالیا۔ اب کوئی سوگ نہیں‘ امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا غم ایک الگ چیز ہے جو شریعت کے دائرے میں رہ کر دل میں رکھا جاسکتا ہے اور کون سا ایسا مسلمان ہوگا جو شہادت امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر غمگین نہ ہو) شہدائے کربلا کے سوئم اور چہلم کا انعقاد کرنا (سوئم اور چہلم وصال کے بعد صرف ایک مرتبہ ہوتا ہے‘ اب صرف یوم شہادت منایا جاتا ہے اور عوام اکثر یہ کہتے ہیں کہ آج امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا سوئم ہے پھر چہلم ہے۔ ایسا کہنا بھی درست نہیں) ماتمی مرثیوں کا پڑھنا یہ تمام رسمیں ممنوع اور ناجائز ہیں۔ یزید کی آڑ میں حضرت سیدنا کاتب وحی امیر معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ یا کسی بھی صحابی رسولﷺ کو برا کہنا منع ہے (از: فتاویٰ رضویہ جلد 10ص 537)
(8) محرم الحرام میں (خصوصا یکم تا دس محرم الحرام) میں تین رنگ کے لباس نہ پہنے جائیں ۔ ہرا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ تعزیہ داروں کا طریقہ ہے‘ لال رنگ کا لباس نہ پہنا جائے کہ یہ اہلبیت سے عداوت رکھنے والوں کا طریقہ ہے اور کالے کپڑے پہننا یہ رافضیوں کا طریقہ ہے لہذا مسلمانوں کو اس سے بچا جائے (از کتاب: احکام شریعت)
(9) ایصال ثواب کا احسن طریقہ
حضرت امام حسین اور شہدائے کربلا رضوان ﷲ علیہم اجمعین کی یاد میں سبیل قائم کرکے لوگوں کوپانی پلا کر ایصال ثواب کیا جائے۔ لوگوں کو کھانا کھلایا جائے‘ نذر ونیاز کا اہتمام کیا جائے اور یہ بزرگان دین کا طریقہ بھی ہے چنانچہ حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ اپنی معرکتہ الآراء کتاب تحفہ اثنا عشری منت اللہفرماتے ہیں (یہ وہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ہیں جن کا نام اگر کسی عالم دین کی سند (سرٹیفکیٹ) میں نہ ہو تو وہ عالم دین نہیں کہلاتا) کہ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور اولاد علی میں ولایت روحانی طور پر موجود ہے اس لئے میں ہر سال دس محرم کو حضرت امام حسین رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور شہدائے کربلا کی نیاز دلاتا ہوں اور کھڑے ہوکر ان پر سلام پیش کرتا ہوں (از کتاب: تحفہ اثنا عشری)
(10) شہدائے کربلا کی سیرت پر کتابیں شائع کرکے ان کو مفت تقسیم کیا جائے۔ ان کے ذکر کی محفلیں منعقد کی جائیں (دعوت اسلامی)
واللہ و رسولہ اعلم بالصوب
کتبہ:-حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ لہان 18خادم دار الافتاء البرکاتی علماء فاونڈیشن ضلع سرہا نیپال۔25/07/2023