اسلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
عرض یہ ہے کی چند سوال ہیں جوا ب تحریر فرماۓ علماۓ اکرام مہر بانی ہوگی سوال نمبر 1 وہ کون سی چیز ہے جو انسان کا سکون ختم کر دیتا ہے
سوال نمبر 2
وہ کون سی چیز ہے جو برف سے زیادہ سفید رات سے زیادہ کالی ہے پانچ حرف سے بنی ہے پہلا حرف میم ہے قرآن میں ذکر آیا ہے کھانا حرام ہے پینا حلال ہے مرد دن میں تین بار استعمال کرتا ہے عورت زندگی میں ایک بار استعمال کرتی ہے
سوال نمبر 3 جب اسلام قائم ہوا تو فجر کی نماز کس نبی پڑھائی ظہر کی نماز کس نبی نے پڑھائی عصر کی نماز کس نبی نے پڑھائی مغرب کی نماز کس نبی نے پڑھائی عشاء کی نماز کس نبی نے پڑھائی جواب تحریر فر ماۓ انتظار ہے.
السائل:- زاهد نوري
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین ۔۔۔
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
سوال کا اول .دوم ۔ میری نظر سے نہیں گزری ۔
اور رہا آخری تو جوابا عرض ہے کہ ۔
فجر کی نماز حضرت آدم علیہ السلام نے صبح ہونے كے شکر میں پہلی بار ادا کی. کیونکہ آپ نے جنت میں کبھی رات نہیں دیکھی تھی.
ظہر کی نماز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام كی جان محفوظ رہنے کی خوشی میں پہلی بار ادا کی.
عصر کی نماز حضرت عزیر علیہ السلام نے سو سال بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد پہلی بار ادا کی.
مغرب کی نماز حضرت داود علیہ السلام نے اپنی توبہ کے قبول ہونے کے بعد پہلی بار ادا کی. آپ نے نیت چار رکعت کی لیکن توبہ قبول ہونے پر تین رکعت پر سلام پھیر دیا.
عشاء کی نماز پہلی بار نبی اکرم ﷺ نے ادا فرمائی اسی لئے یہ آپ کی سب سے پسندیدہ نماز ہے. سبحان اللہ!
جواب: امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس طرح کی ایک روایت اپنی کتاب ”شرح معانی الآثار“ میں ذکر کی ہے اور غالب گمان ہے کہ اسی کو توڑ مروڑ کر اس پوسٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ روایت نا ہی مرفوع ہے اور نا ہی موقوف۔
امام طحاوی رحمہ اللہ نے روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:
حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ الْكَيْسَانِيَّ يَقُولُ : سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ عُبَيْدَ اللهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ يَقُولُ : إِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ ، وَفُدِيَ إِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلَّى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَرْبَعًا ، فَصَارَتِ الظُّهْرُ ، وَبُعِثَ عُزَيْرٌ ، فَقِيلَ لَهُ : كَمْ لَبِثْتَ ؟ فَقَالَ : يَوْمًا ، فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ : أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرُ . وَقَدْ قِيلَ : غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، وَغُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ ، فَقَامَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ ، فَجَهَدَ فَجَلَسَ فِي الثَّالِثَةِ ، فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا . وَأَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ: بحر بن حکم الکیسانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبد الرحمن عبید اللہ بن محمد بن عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب صبح کے وقت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نماز فجر ہوگئی۔ اور اسحاق علیہ السلام کا فدیہ ظہر کے وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے چار رکعات ادا کیں، پس وہ نماز ظہر ہوگئی۔ اور جب عزیر علیہ السلام کو اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ تو انہوں نے کہا: ایک دن پھر انھوں نے سورج کو دیکھا تو کہا: یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نماز عصر ہوگئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے چار رکعات نماز شروع کی لیکن تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ پس وہ نماز مغرب ہوگئی۔ اور جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نماز عشاء) ادا کی وہ ہمارے نبی محمد ﷺ ہیں۔
(شرح معانی الآثار ط عالم الکتاب: 1/175، حدیث نمبر: 1046)
اس روایت میں دو راوی ایسے ہیں جن کے متعلق کلمہ توثیق یا تجریح نہیں مل سکا.
1) قاسم بن جعفر: بدر الدین عینی نے بھی اپنی کتاب ”مغانی الاخیار“ میں ان کے متعلق کوئی کلمہ توثیق یا تجریح نقل نہیں کیا ہے۔
(دیکھیں: مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار: 3/461)
2) بحر بن الحکم: اس کے متعلق بھی بدر الدین عینی نے کوئی کلمہ توثیق یا تجریح نقل نہیں کیا ہے۔
(دیکھیں: مغانی الاخیار فی شرح اسامی رجال معانی الآثار: 4/507)
کچھ علماء نے اپنی کتب میں اس معنی کی ایک اور روایت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے ذکر کی ہے اور تقریبا سب نے رافعی رحمہ اللہ کی طرف اس کو منسوب کیا ہے کہ انھوں نے مسند شافعی کی شرح میں اس طرح کی روایت نقل کی ہے۔ چنانچہ رافعی رحمہ اللہ مسند شافعی کی شرح میں لکھتے ہیں:
فعن عائشة أنه - صلى الله عليه وسلم - سئل عن هذه الصلوات فقال: "هذه مواريث آبائي وإخواني: أما صلاة الهاجرة فتاب الله على داود حين زالت الشمس فصلى لله تعالى أربع ركعات فجعلها الله لي ولأمتي تمحيصا ودرجات، ونسب صلاة العصر إلى سليمان، والمغرب إلى يعقوب، وصلاة العشاء إلى يونس، وصلاة الفجر إلى آدم
(شرح مسند شافی ط وزارة الاوقاف والشؤون الاسلاميہ: 1/253)
رافعی رحمہ اللہ نے اس کو بلا سند نقل کیا ہے۔ البتہ انھوں نے اپنی ایک دوسری کتاب ”التدوين في اخبار قزوين“ میں اس روایت کو سند کے ساتھ مرفوعا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
قالت عائشة رضي الله عنها قلت يا رسول الله ما هذه الصلاة قالت عائشة رضي الله عنها فقال لي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: هذه مواريث آبائي وإخواني من الأنبياء". فأما صلاة الفجر فتاب الله تعالى على أبي آدم عند طلوع الشمس فصلى لله تعالى ركعتين شكرا فجعلها تعالى لي ولأمتي كفارات وحسنات وأما صلاة الهاجرة فتاب الله على داود حين زالت الشمس أتاه جبرئيل فبشره بالتوبة فصلى لله تعالى أربع ركعات فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارات ودرجات أما صلاة العصر فتاب الله تعالى على أخي سليمان حين صار ظل كل شيء مثله أتاه جبرئيل فبشره بالتوبة فصلى لله تعالى أربع ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارات ودرجات وأما صلاة المغرب فبشر الله تعالى يعقوب حين سقط القرص وحل الإفطار ثم أتاه جبرئيل فبشره أنه حي مرزؤق فصلى لله تعالى ثلاث ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولامتي تمحيصا وكفارت ودراجات. أما صلاة العشاء الآخرة فأخرج الله يونس من بطن الحوت كالفرخ لا جناح له حيث اشتبكت النجوم وغابت الشفق فصلى لله تعالى أربع ركعات شكرا فجعلها الله تعالى لي ولأمتي تمحيصا وكفارت ودرجات ثم قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: "أرأيتم لو أن نهرا على باب أحدكم فاغتسل فيه كل يوم خمس مرات هل يبقى عليه من الدرن شيء" قالوا لا يا رسول الله! قال: فهذه الصلوة يغسلكم من الذنوب غسلا۔
(التدوين في اخبار قزوين ط دار الكتب العلميۃ: 3/379)
اس روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ موضوع ہے۔
(لسان المیزان ط دار البشائر: 7/269)
تنبیہ: اس لمبی روایت کے آخر میں جو ٹکڑا ہے وہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں موجود ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ ، يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا ، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ . قَالُوا: لَا يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا ، قَالَ: فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ ، يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا.
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
(صحیح بخاری: 528)
اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ عنہ کی تحقیق اس بابت خود ہی پڑھ لیں ۔فتاوی رضویہ ج 5 مطبوعہ دعوت اسلامی .اقول : کون سی نماز کس نبی نے پہلے پڑھی ، اس میں چار۴ قول ہیں :
اوّل : قول امام عبیدالله بن عائشہ ممدوح کہ جب آدمعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی توبہ وقتِ فجر قبول ہُوئی انہوں نے دو۲ رکعتیں پڑھیں وہ نماز صبح ہُوئی۔ اور اسحٰقعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا فدیہ وقت ظہر آیا ابرہیمعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے چار پڑھیں وہ ظہر مقرر ہوئی۔ عزیر علیہ السّلام سو۱۰۰ برس کے بعد عصر کے وقت زندہ کئے گئے انہوں نے چار پڑھیں وہ عصر ہُوئی۔ داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توبہ وقتِ مغرب قبول ہُوئی چار رکعتیں پڑھنے کھڑے ہوئے تھك کر تیسری پر بیٹھ گئے ، مغرب کی تین ہی رہیں ۔ اور عشاء سب سے پہلے ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمنے پڑھی۔
رواہ کماذکرنا الامام الطحاوی قال : حدثنا القاسم بن جعفر قال سمعت بحر بن الحکم الکیسانی قال سمعت ابا عبدالرحمٰن بن محمد ابن عائشۃ یقول ، فذکرہ[1]۔
جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے اسی کے مطابق اس کو طحاوی نے روایت کیا ہے کہ قاسم ابن جعفر نے بحر ابن حکم کیسانی سے ، اس نے ابوعبدالرحمن عبدالله ابن محمد ابن عائشہ سے سُنا اس کے بعد سابقہ روایت بیان کی ہے۔ (ت)
دوم قول امام ابوالفضل کہ سب سے پہلے فجر کو دو۲ رکعتیں حضرت آدم ، ظہر کو چار رکعتیں حضرت ابرہیم ، عصر حضرت یونس ، مغرب حضرت عیسٰی ، عشاء حضرت موسٰی علیہم الصلاۃ والسلام نے پڑھی۔ ذکرہ الامام الزندوستی فی روضتہ قال سألت ابا الفضل فذکرہ (اس کو امام زندوستی نے
اپنی روضہ میں ابو الفضل کے حوالہ سے ذکر کیا ہے۔ کہا میں نے ابو الفضل سے پُوچھا تو انہوں نے یہ ذکر کیا۔ ت) یہ حکایت ایك لطیف کلام پر مشتمل ہے لہذا اُس کا خلاصہ لکھیں امام زندوستی فرماتے ہیں میں نے امام ابوالفضل سے پوچھا صبح کی دو۲ رکعتیں ظہر وعصر وعشاء کی چار مغرب کی تین کیوں ہوئیں ۔ فرمایا حکم۔ میں نے کہا مجھے اور ابھی افادہ کیجئے۔ کہا ہر نماز ایك نبی نے پڑھی ہے ، آدم علیہ الصلوٰۃ والسّلام جب جنّت سے زمین پر تشریف لائے دنیا آنکھوں میں تاریك تھی اور ادھر رات کی اندھیری آئی ، انہوں نے رات کہاں دیکھی تھی بہت خائف ہُوئے ، جب صبح چمکی دو۲ رکعتیں شکرِ الٰہی کی پڑھیں ، ایك اس کا شکر کہ تاریکی شب سے نجات ملی دوسرا اس کا کہ دن کی روشنی پائی انہوں نے نفل پڑھی تھیں ہم پر فرض کی گئیں کہ ہم سے گناہوں کی تاریکی دُور ہو اور طاعت کا نُور حاصل۔ زوال کے بعد سب سے پہلے ابراہیمعَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے چار رکعت پڑھیں جبکہ اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فدیہ اُترا ہے پہلی اس کے شکر میں کہ بیٹے کا غم دُور ہوا دوسری فدیہ آنے کے سبب ، تیسری رضائے مولٰی سبحٰنہ وتعالٰی کا شکر ، چوتھی اس کے شکر میں کہ الله عزوجل کے حکم پر اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے گردن رکھ دی ، یہ ان کے نفل تھے ہم پر فرض ہُوئیں کہ مولٰی عـــہ تعالٰی ہمیں قتلِ نفس پر قدرت دے جیسی اُنہیں ذبحِ ولد پر قدرت دی اور ہمیں بھی غم سے نجات دے اور یہود ونصارٰی کو ہمارا فدیہ کرکے نار سے ہمیں بچالے اور ہم سے بھی راضی ہو۔ نمازِ عصر سب سے پہلے یونس علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے پڑھی کہ اس وقت مولٰی تعالٰی نے انہیں چار۴ ظلمتوں سے نجات دی : ظلمتِ لغزش ، ظلمتِ غم عـــہ۱ ، ظلمتِ دریا ، ظلمتِ شکمِ ماہی۔ یہ اُن کے نفل تھے ہم پر فرض ہوئی کہ ہمیں مولٰی تعالٰی ظلمتِ گناہ وظلمتِ قبر وظلمتِ قیامت وظلمتِ دوزخ سے پناہ دے۔ مغرب سب سے پہلے عیسٰی علیہ الصّلوٰۃ والسلام نے پڑھی عـــہ۲ ، پہلی اپنے سے نفی الوہیت ، دوسری اپنی ماں سے نفی الوہیت ، تیسری الله عزوجل کے لئے اثباتِ الوہیت کیلئے۔ یہ ان کے نفل ہم پر فرض ہُوئے کہ روزِ قیامت ہم پر حساب آسان ہو ، نار سے نجات ہو ، اُس بڑی گھبراہٹ سے پناہ ہو۔ اقول : اور مقام سے مناسب تر یہ تھا کہ یوں فرماتے کہ ہم اپنی خودی اور فخرِ آبأ سے باہر آکر الله عزّوجل کے لئے خاص متواضع ہوں ۔
سب سے پہلے عشاء مُوسٰی علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے پڑھی جب مدائن سے چل کر راستہ بھُول گئے۔ بی بی کا غم ، اولاد کی فکر ، بھائی پر اندیشہ ، فرعون سے خوف ، جب وادیِ ایمن میں رات کے وقت مولٰی تعالٰی نے اِن سب فکروں سے انہیں نجات بخشی ، چار نفل شکرانے کے پڑھے ہم پر فرض ہُوئی کہ الله تعالٰی ہمیں بھی راہ دکھائے ہمارے بھی کام بنائے ہمیں اپنے محبوبوں سے ملائے دشمنوں پر فتح دے آمین!
سوم قول بعض علماء کہ فجر آدم ، ظہر ابراہیم ، عصر سلیمان ، مغرب عیسٰی علیہم الصلاۃ والسلام نے پڑھی اور عشا خاص اس اُمّت کو ملی کماتقدم عن الحلیۃ (جیسا کہ حلیہ کے حوالے سے گزرا ہے۔ ت)
چہارم وہ حدیث کہ امام اجل رافعی نے شرح مسند میں ذکر فرمائی کہ صبح آدم ، ظہر داؤد ، عصر سلیمٰن ، مغرب یعقوب ، عشاء یونس علیہم الصلاۃ والسلام سے ہے ذکرہ عنہ الزرقانی فی شرح المواھب والحلبی تماما فی الحلیۃ قال واورد فی ذلك خبرا [2] (اس کو زرقانی نے شرح مواہب میں رافعی کے حوالے سے بیان کیا ہے اور حلبی نے حلیہ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے ، حلبی نے کہا کہ رافعی نے اس سلسلے میں ایك روایت پیش کی ہے۔ ت) غرض نماز صبح میں چاروں متفق ہیں باقی چار میں اختلاف۔
اقول : فقیر کی نظر میں ظاہرًا قول اخیر کو سب پر ترجیح کہ اوّل تو وہ حدیث ہے لااقل اثر صحابی یا تابعی سہی اقوال علمائے مابعد پر ہرطرح مقدم رہے گی خصوصًا ایسے امر میں جس میں رائے وقیاس کو دخل نہیں ۔
عـــہ لفظ الکتاب فامرنا بذلك لانہ تعالٰی وفقنا علی اببلیس کماوفقہ لذبح الولد وانجانامن الغم کماانجاہ وفدانا من النار کمافداہ ورضی عنا
کتاب (یعنی روضہ) کی عبارت یوں ہے : “ تو ہمیں ظہر کی چار رکعتوں کا حکم دیا گیا کیونکہ ہمیں بھی الله تعالٰی نے شیطان کے مقابلے کی توفیق عطا فرمائی جس طرح(باقی برصفحہ آئندہ)
(بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ)
کمارضی عنہ [3] اھ اقول : وماذکرت احسن من ستۃ وجوہ لاتخفی علی المتأمل ۱۲ منہ غفرلہ (م)
عـــہ۱ : الذی فی الکتاب وظلمۃ اللیل [4] اقول : ان کانت تذھب بالنھار فقدذھبت قبل العصر والافلا اثرلھا ولذا ابدلتھا منہ غفرلہ (م)
عــہ۲ : الذی فی الکتاب اول من صلی المغرب تطوعا شکرا عیسٰی علیہ الصّلٰوۃ والسلام حین خاطبہ الله تعالٰی بقولہ أانت قلت للناس اتخذونی وامی الٰھین من دُون الله وکان ذلك بعد غروب الشمس [5] الخ اقول المعروف ان ھذا الخطاب یوم الحساب الاتری الی قولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام فلما توفیتنی کنت انت الرقیب
ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا ذبح کرنے کی توفیق بخشی اور ہمیں بھی غم سے نجات
دی جیسے ان کو دی تھی اور (یہود ونصارٰی کو جہنم میں ) ہمارا فدیہ بنایا جس طرح ان کیلئے (جنتی دُنبے کو اسمٰعیل علیہ السلام کا) فدیہ بنایا اور ہم سے بھی الله تعالٰی راضی ہوا جیسے کہ ان سے ہوا اھ اقول : (میں کہتا ہوں ) ان الفاظ کی بنسبت میری ذکر کردہ عبارت چھ۶ وجوہ سے زیادہ عمدہ ہے اور یہ وجوہ سوچنے والے پر مخفی نہیں ہیں ۱۲ منہ غفرلہ (ت) کتاب میں (ظلمتِ غم کی بجائے) “ ظلمتِ لیل “ مذکور ہے۔ میں کہتا ہوں اگر ظلمتِ لیل مراد ہوتو نہار کی وجہ سے ظلمتِ لیل ختم ہوجاتی ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ رات کا اندھیرا وقت عصر سے پہلے ہی ختم ہوچکا ورنہ لازم آئیگا کہ نہار کا کوئی اثر ہی نہ ہو اسی لئے میں نے اس کو ظلمتِ غم سے بدلا ہے
والله ورسوله أعلم بالصواب.
كتبه عبده المذنب محمد مجيب القادري لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.