Type Here to Get Search Results !

کافروں کو قربانی کا گوشت دینا منع ہے ؟


کافروں کو قربانی کا گوشت دینا منع ہے۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان ذوی الاحترام درج ذیل مسئلہ میں  
زید کہتاہے کہ قربانی کاگوشت کافر کودیا جاسکتاہے۔خواہ وہ ذمی ہومستامن ہویاحربی ہو۔زید کا جواب حسب ذیل ہے:
قربانی کاگوشت خواہ کچا ہویا پکا ہواہو،کسی مالدار یافقیر غیرمسلم کو دینا جائزہے۔بلکہ اگر غیرمسلم پڑوسی ہو اور قربانی کاگوشت کھانے میں رغبت رکھتا ہو تو پڑوسی کی بنا  پر دینے سے حق جوار کا بھی ثواب ملے گا۔
وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا [سورہ نساء آیت۳۶]
ویھب منھامایشاء للغنی والفقیروالمسلم والذمی(فتاوی ہندیہ)
یجوزان یطعم من الاضحیۃ کافرا(اعلاء السنن)اویھدیہ لغنی اوفقیرمسلم اوکافر(اعلاء السنن)
نیزفتاوی دارالعلوم دیوبندپندرہویں جلدکے صفحہ ۵۷۱،پرلکھاہے۔
’’قربانی کاگوشت ہنودوغیرہ کوبطریق تصدق دے سکتے ہیں ‘‘اس کے حاشیہ میں لکھاہے۔
’’کیوں کہ یہ صدقات واجبہ میں سے نہیں ہے بلکہ نفل صدقہ ہے اورنفل صدقہ غیرمسلم کودینادرست ہے‘‘
لیکن حضوراعلیٰ حضرت نے فتاوی رضویہ شریف میں کافرکوقربانی کاگوشت دینے کے سلسلے میں فرمایاہے
’’یہاں کے کافروں کوگوشت دیناجائزنہیں ‘‘(فتاوی رضویہ قدیم،جلد۳ص۴۶۷)
اب دریافت طلب امریہ ہے کہ زیدکاقول اورفتاوی دارالعلوم دیوبندکے مطابق کسی بھی کافرکوقربانی کاگوشت دے سکتے ہیں لیکن حضوراعلیٰ حضرت ناجائزقراردے رہے ہیں ۔ بلکہ فتاوی فیض الرسول ،فتاوی مرکزتربیت افتاء وغیرہ اہل سنت کے فتاوی میں عدم جوازکاہی قول ہے ۔اوردلائل بھی دونوں طرف موجودہیں ۔ایسی صورت میں قربانی کے گوشت کوکافرخاص کرہمارے یہاں کے ہنودکو دینے کے سلسلے میں کیاحکم ہے؟
دلائل کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں اورعنداللہ ماجورہوں ۔
مسئولہ :(مولانا)حسن نوری گونڈوی خطیب وامام نورانی مسجداجین ایم پی۔۸؍ذی الحجہ ۱۴۳۸ھ
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ازروئے شرع قربانی کاگوشت ذمی کافرکے علاوہ کسی اور کافرکودینے کی اجازت نہیں ہے۔نہ حربی کافرکونہ مستامن کو۔
اس سے پہلے کہ ہم اپنے دلائل پیش کریں مناسب ہے کہ زیدکے دلائل کاجائزہ لے لیں ۔
زیدنے کافرکوقربانی کاگوشت دینے کے جوازمیں قرآن مقدس کی جس آیت کریمہ سے استدلال کیاہے ۔پہلے ہم اس کاترجمہ پیش کرتے ہیں اس کے بعداس پرکلام کرتے ہیں ۔
(ترجمہ) ’’اوراللہ کی بندگی کرواوراس کاشریک کسی کو نہ ٹھہراؤاورماں باپ سے بھلائی کرواوررشتہ داروں اوریتیموں اورمحتاجوں اورپاس کے ہمسائے اوردورکے ہمسائے اورکروٹ کے ساتھی اورراہ گیراوراپنی باندی غلام سے بے شک اللہ کوخوش نہیں آتاکوئی اترانے والابڑائی مارنے والا‘‘[ترجمہ قرآن کنزالایمان، پارہ ۵،سورہ نساء آیت۳۶]
اس آیت کریمہ میں رشتہ داروں ،پڑوسیوں وغیرہ سے حسن سلوک کاحکم دیاگیاہے۔
لیکن ہم بتادیں کہ اس آیت کریمہ میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کاحکم توہے مگراس میں کافرحربی شامل نہیں ہے۔اس آیت کی تفسیرمیں مفسرین کرام نے یہودی ونصاری کاذکرکیاہے۔اوراس ضمن میں چندروایتیں بھی پیش کیں جن سے بالکل واضح ہوجاتاہے کہ اس حکم میں کفارسے یہودونصاری اوربعض اقوال کے مطابق ذمی کافرمرادہیں ۔
لیکن حربی کافروں کاذکرترک کیاگیاہے۔ اورچندتفاسیرمیں حربی کافرکواس حکم سے خارج ماناگیاہے۔ جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے کافرحربی کے ساتھ حسن سلوک سے منع فرمایاہے۔ذمی وغیرہ کفارکے ساتھ حسن سلوک کی اجازت عطاکی ہے ۔اللہ پاک کا یہ حکم ملاحظہ فرمائیں ۔اللہ پاک فرماتاہے:
 ’’لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ۔
اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو۔بے شک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں اللہ تمہیں انہیں سے منع کرتاہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہے۔
[ترجمہ قرآن کنز الایمان پارہ ۲۸ سورہ ممتحنہ آیت ۸،۹‘‘]
ملاحظہ کریں مذکورہ بالادونوں آیتوں میں بالکل صاف صریح حکم موجودہے۔ پہلی آیت میں ذمی کافرمرادہیں جن سے صلہ رحمی اوراحسان کی اجازت دی گئی ہے۔اوردوسری آیت سے حربی کافرمرادہیں جس کے ساتھ احسان اورصلہ رحمی سے منع کیاگیاہے۔ملاجیون علیہ الرحمہ کی تفسیرات احمدیہ میں اس آیت کی تفسیرحسب ذیل ہے۔ملاحظہ ہو:
’’ھاتان الآیتان الاولیٰ فی جوازالاحسان الی الذمی والثانیۃ فی عدمہ الی الحربی‘‘
ان دونوں آیتوں میں پہلی آیت ذمی سے احسان کے جوازکے سلسلے میں ہے اوردوسری آیت حربی سے احسان کے عدم جوازکے بارے میں ہے۔آگے فرماتے ہیں :
’’والحاصل ان الایۃ الاولی ان کانت فی الذمی والثانیۃ فی الحربی کما ھوا لظاھر وعلیہ الاکثرون کان دالاعلی جواز الاحسان الی الذمی دون الحربی، ولھذ اتمسک صاحب الھدایۃ فی باب الوصیۃ ان الوصیۃ للذمی جائزۃ دون الحربی لانہ نوع احسان و لھذا المعنی قال فی باب الزکوٰۃ ان الصدقۃ النافلۃ یجوز اعطاء ھاللذمی دون الحربی‘‘
 حاصل یہ ہے کہ پہلی آیت( جس میں نیک سلوک کی رخصت ہے)اگرذمی کے حق میں مانی جائے اوردوسری آیت (جس میں احسان وغیرہ کی ممانعت ہے)حربی کے حق میں مانی جائے۔جیساکہ یہی ظاہر ہے اور یہی اکثر ائمہ کامذہب ہے تو یہ آیتیں دلیل ہوں گی کہ ذمی کے ساتھ نیک سلوک جائز ہے۔حربی کے لئے نہیں ، اوراسی لئے صاحب ہدایہ نے وصیت کے باب میں انھیں آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے ذمی کے لئے وصیت کوجائزقراردیاحربی کے لئے نہیں ۔کیوں کہ وصیت ایک طرح کااحسان ہے اور اس معنی کر باب الزکوٰۃ میں فرمایا کہ نفلی صدقہ ذمی کودینا جائزہے حربی کونہیں ۔‘‘
[تفسیرات احمدیہ، ص۴۷۰،۴۷۱:پارہ ۲۸ سورہ ممتحنہ آیت ۸،۹‘‘]
تفسیرات احمدیہ کی روشنی میں چندباتیں واضح ہوئیں ایک تویہ کہ ذمی کے ساتھ احسان کی اجازت ہے مگرحربی کے لئے نہیں ۔
دوسری بات یہ کہ نفلی صدقہ ذمی کودیناجائزہے حربی کودیناجائزنہیں ہے۔
لہٰذازیدکاآیات کریمہ پیش کرکے اس سے حربی وغیرہ سبھی کفارکے لئے جوازکاحکم بیان کرنابالکل نادرست ہے ۔کیوں کہ دوسری آیات سے حربی کفارکے ساتھ بھلائی کرنے سے منع کیاگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء وفقہاء نے بھی اپنی کتابوں میں صراحتاًمطلقاًحربی کافرکے ساتھ بھلائی کوناجائزقراردیاہے۔فتاوی شامی میں ہے:
’’أجمعوا أنہ إذا ظہر أنہ حربی ولو مستأمنا لا یجوز وکذا فی المعراج معللا بأن صلتہ لا تکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع إلیہ فلم یقع قربۃ‘‘
یعنی اس بات پراجماع ہے کہ جب ظاہرہوجائے کہ یہ حربی ہے اگرچہ مستامن ہوتواسے صدقہ دیناجائزنہیں ہے اورایساہی معراج الدرایہ میں ہے اس کی تعلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کے ساتھ صلہ رحمی شرعاًنیکی نہیں ہے اوراسی لئے اس کونفل صدقہ بھی جائزنہیں ہے کہ اس سے قربت واقع نہیں ہوگی۔[ردالمحتار،۳/۳۰۲،باب مصرف الزکاۃ]
فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’ لاباس بان یصل الرجل المسلم المشرک قریبا کان اوبعیدا محاربا کان اوذمیا و اراد بالحارب المستامن واما اذا کان غیر المستامن فلاینبغی للمسلم ان یصلہ بشیء کذا فی المحیط۔
 یعنی کوئی حرج نہیں کہ مسلمان مشرک سے کوئی مالی سلوک کرے خواہ رشتہ دار ہویا اجنبی، حربی ہو یا ذمی۔اگرحربی سے مرادمستامن ہے۔ اگرغیرمستامن ہو تو مسلمان کوجائز نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی نیک سلوک کرے، ایسا ہی محیط میں ہے۔
‘[فتاوی عالمگیری،کتاب الکراہیۃ،۵/۳۴۷]
حضوراعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :
’’تو وہ اصلاً محلِ احسان نہیں ۔ ابتدائے اسلام میں غیر محارب و محارب کفار میں فرق فرمایا تھا اُن سے نیک سلوک اور برابری کا برتاؤ جائز تھا۔اور اِن سے منع،اور اسی کو ان سے دوستی رکھنے سے تعبیر فرمایا تھاورنہ دوستی تو کسی کافر سے کبھی حلال نہ تھی‘‘ اورفرماتے ہیں :
’’تو اب کسی کافرحربی سے برّوصلہ جائز نہ رہا اگر چہ اس نے بالفعل محاربہ نہ کیا ہو‘‘[فتاوی رضویہ جدید،۱۰/۳۳۳۔۳۳۴]
مزیدفرماتے ہیں :
’’امام برہان الدین صاحب ذخیرہ نے محیط پھرعلامہ جوی زادہ پھر علامہ شرنبلالی نے غنیہ میں فرمایا: 
لایجوز للمسلم برالحربی ‘‘
حربی کے ساتھ نیک سلوک مسلمان کوجائزنہیں ہے۔[مرجع سابق،ج۱۴ص۴۵۹۔۴۶۰]
الغرض زیدکی پیش کردہ آیت کریمہ میں غیرحربی کافرکے ساتھ ہی بھلائی تسلیم کی جائے گی ۔حربی کے ساتھ احسان نہ کرنے پرسورہ ممتحنہ کی آیت پیش کردی گئی ہے۔
علاوہ ازیں زیدکی پیش کردہ آیت کومطلق ماناجائے توسورہ ممتحنہ کی آیتوں کے بارے میں کیاحکم ہوگا؟
نیزدرج ذیل حدیث پاک کے بارے میں کیاکہاجائے گا جس میں پڑوسیوں کے حقوق کی تعلیم دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کوقربانی کاگوشت کھلانے سے منع فرمایاہے۔حدیث شریف میں ہے:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الجیران ثلاثۃ: فمنہم من لہ ثلاثۃ حقوق، ومنہم من لہ حقان، ومنہم من لہ حق، فأما الذی لہ ثلاثۃ حقوق فالجار المسلم القریب لہ حق الجار , وحق الإسلام، وحق القرابۃ، وأما الذی لہ حقان فالجار المسلم لہ حق الجوار، وحق الإسلام، وأما الذی لہ حق واحد فالجار الکافر لہ حق الجوار " قلنا: یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نطعمہم من نسکنا، قال: " لا تطعموا المشرکین شیئا من النسک‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پڑوسی تین طرح کے ہیں ۔ ان میں سے ایک وہ جن کے تین حقوق ہیں اوران میں وہ جن کے لئے دوحق ہیں اوران کچھ وہ جن کاایک حق ہے۔مسلمان اہل قرابت میں سے ہے تواس کے تین حقوق ہیں پڑوسی کاحق ،
اسلامی حق اورحق قرابت۔اورغیرقریبی ہے تودوحق ہیں پڑوسی ہونے کاحق اوراسلامی حق۔اورپڑوسی کافرکاایک حق ہے پڑوسی ہونے کاحق۔ہم نے کہااے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاہم اپنی قربانی میں سے انہیں کچھ کھلاسکتے ہیں فرمایامشرکین کوقربانی میں سے کچھ مت کھلاؤ۔
[شعب الایمان للبیہقی،۱۲/۱۰۵۔کنزالعمال،۹/۱۸۶]
اس حدیث کی روشنی میں زیدکی پیش کردہ آیت اوراس حدیث کے حکم میں واضح تضادموجودہے ۔جس میں تطبیق کی دوصورتیں ہیں ایک تویہ کہ یہاں مشرکین میں غیرذمی کفارومشرکین مرادلئے جائیں ۔اوردوسری ،قربانی کے گوشت کوواجبی نہ ماناجائے۔لیکن پھربھی اس میں کفارمیں غیرحربی کفارہی شامل ہوں گے۔
تفسیرقرطبی میں بھی یہی تطبیق بیان کی گئی ہے۔ملاحظہ کریں :
امام قرطبی لکھتے ہیں :
’’قال العلماء: الأحادیث فی إکرام الجار جاء ت مطلقۃ غیر مقیدۃ حتی الکافر کما بینا. وفی الخبر قالوا: یا رسول اللہ أنطعمہم من لحوم النسک؟ قال: (لا تطعموا المشرکین من نسک المسلم ین)ونہیہ صلی اللہ علیہ وسلم . عن إطعام المشرکین من نسک المسلم ین یحتمل النسک الواجب فی الذمۃ الذی لا یجوز للناسک أن یأکل منہ ولا أن یطعمہ الأغنیاء ، فأما غیر الواجب الذی یجزیہ إطعام الأغنیاء فجائز أن یطعمہ أہل الذمۃ‘‘
یعنی علمانے فرمایاکہ پڑوسی کی تعظیم میں مطلق غیرمقیداحادیث واردہوئی ہیں یہاں تک کہ کافربھی اس میں شامل ہے۔
 جیساکہ ہم نے بیان کیا۔اورحدیث میں صحابہ نے کہاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاہم کفارکوقربانی کاگوشت کھلائیں تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مشرکین کومسلمانوں کی قربانی کاگوشت نہ کھلاؤ۔مشرکین کومسلمانوں کی قریانی کھلانے سے روکنے میں احتمال ہے کہ اس سےوہ قربانی مرادہے جو ذمہ میں واجب ہوکہ جس کاقربانی کرنے والے کے لئے کھانااورمالداروں کوکھلاناجائزنہیں ہے۔لیکن غیرواجب جسے مالداروں کوکھلاناجائزہے پس جائزہے کہ وہ ذمیوں کوبھی کھلائی جائے۔‘‘[تفسیرقرطبی سورہ نساء آیت ۳۶]
لب لباب یہ ہے کہ مسلمان اورغیرحربی کفار پڑوسیوں کے ساتھ اچھاسلوک کیاجائے گا۔ البتہ حربی کفارکے ساتھ صلہ رحمی نہ کی جائے گی انہیں قربانی کاگوشت نہیں دیاجائے گا۔
رہازیدکاجملہ کفارکوقربانی کے گوشت کوکھلانے اورانہیں گوشت دینے پرفتاوی عالمگیری اوراعلاء السنن کی درج ذیل عبارات 
 ویھب منھامایشاء للغنی والفقیروالمسلم والذمی(فتاوی ہندیہ)
یجوزان یطعم من الاضحیۃ کافرا(اعلاء السنن)اویھدیہ لغنی اوفقیرمسلم اوکافر(اعلاء السنن)
سے استدلال کرناتویہ بھی درست نہیں ہے۔اولاًاس لئے کہ اعلاء السنن میں کافرکاذکرمطلق ہے۔ لیکن فتاوی عالمگیری میں ذمی کی قیدہے اورصدقات وغیرہ معاملات میں صرف ذمی کی قیداحترازی ہے جس سے حربی ومستامن خارج ہے۔عام طورپرکتب فقہ وفتاوی میں بہت سے مسائل میں ذمی کی قیدلگائی گئی ہے تواس میں ذمی کے علاوہ کفارحربی وغیرہ کوخارج ماناجاتاہے ۔
بحرالرائق میں ہے:’’قید بالذمی؛ لأن جمیع الصدقات فرضا کانت أو واجبۃ أوتطوعا لا تجوز للحربی اتفاقا‘‘
یعنی حکم مقیدکاذمی کے ساتھ اس لئے کہ تمام صدقات فرض ہوں یاواجب یانفل حربی کے لئے بالاتفاق جائزنہیں ہیں ۔
[بحرالرائق شرح کنزالدقائق:ج۲ص۲۶۱،باب المصرف]
اوردوسری بات وہ جس کی تفصیل ہم پیچھے کرآئے کہ قرآن وحدیث میں بھلائی کاحکم مطلقاً دیاگیامگردوسرے مقام پر اس کی وضاحت کرکے حربی کفارکے ساتھ احسان سے منع کیاگیا۔یوں ہی حدیث پاک میں مطلقاًبھلائی کاحکم ہوامگرمشرکین کوقربانی کاگوشت دینے سے منع کیاگیا۔لیکن اس حکم میں مفسرین ومحدثین اورفقہاء نے حربی کی قیدلگاکرذمی کواس حکم سے خارج کردیا۔لہٰذاکتب فقہ کی معتمدکتابوں میں قربانی کاگوشت کافرکو دینے کی صراحت بس ذمی کے ساتھ ہے جس کاصاف مطلب ہے کہ اس میں حربی شامل نہیں ہے۔ہم پیچھے ذکرکرآئے کہ حربی کے ساتھ بھلائی کی شرعاًممانعت ہے۔ لیکن ذمی اس سے خارج ہے،اسی لئے یہاں بھی وہی حکم ہوگا۔ حربی کوگوشت دینابطورصدقہ ہویابطورہدیہ ہو احسان میں شامل ہے اوراس کے ساتھ احسان منع ہے ۔اگرزیداعلاء السنن کی عبارت کے پیش نظریہ کہے کہ یہاں کفارکاذکرمطلقاً ہے تواس کے جواب میں  حدیث شریف ہی کافی ہے جس میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاًمشرکین کوگوشت کھلانے سے منع فرمایا۔
علاوہ ازیں  علامہ بدرالدین عینی حنفی شارح بخاری ، اپنی کتاب عمدۃ القاری شرح بخاری میں  مطلقاًمشرکین کوہدیہ دینے،
ان کے ساتھ احسان کرنے کی ممانعت کاذکرکرتے ہوئے نیزاس کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں  :
وقول اللّٰہ تعالی(لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم أن تبروہم وتقسطوا إلیہم إن اللہ یحب المقسطین)والمراد من ذکر الآیۃ بیان من تجوز لہ الہدیۃ من المشرکین، ومن لا تجوز، ولیس حکم الہدیۃ إلیہم علی الإطلاق… ولا یجوز الإہداء للمشرکین إلا للأبوین خاصۃ، لأن الہدیۃ فیہا تأنیس للمہدی إلیہ، وألطاف لہ، وتثبیت لمودتہ، وقد نہی اللّٰہ تعالی عن التودد للمشرکین بقولہ:(لا تجد قوما یؤمنون باللہ والیوم الآخر یوأدون من حاد اللّٰہ ورسولہ)الآیۃ، وقولہ تعالی: (یا أیہا الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم أولیاء تلقون إلیہم بالمودۃ)‘‘
یعنی اوراللہ تعالیٰ کافرمان ’’ اللہ تمہیں  ان سے منع نہیں  کرتا جو تم سے دین میں  نہ لڑے اور تمہیں  تمہارے گھروں  سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو۔بے شک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں  ۔
اس آیت کوذکرکرنے سے ان مشرکین کابیان مرادہے جنہیں  ہدیہ جائزہے۔اوروہ جنہیں  نہیں  ۔اورانہیں  ہدیہ دینے کاحکم مطلقاًنہیں  ہے۔اورسوائے والدین کے مشرکین کوہدیہ دیناجائزنہیں  ہے ۔کیوں  کہ انہیں  دینے میں  ان سے انسیت ،ان پرمہربانی اوران کے ساتھ محبت ثابت ہورہی ہے حالانکہ اللہ پاک نے مشرکین سے محبت کرنے سے منع فرمایاہے۔اپنے اس فرمان کے ذریعہ : تم نہ پاؤ گے ان لوگوں  کو جو یقین رکھتے ہیں  اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں  ان سے جنہوں  نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی۔اوراس فرمان سے:
’’اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں  کو دوست نہ بناؤ تم انہیں  خبریں  پہنچاتے ہو دوستی سے‘‘
[عمدۃ القاری شرح بخاری، کتاب الھبۃ ،باب الھدیۃ للمشرکین،۱۳/۱۷۳]
بالجملہ:  زیدکامطلقاًکفارکے لئے قربانی کاگوشت دینے اورکھلانے کاحکم بیان کرنابالکل نادرست اورمفہوم قرآن واحادیث اور اقوال فقہا وعلما کے خلاف ہے۔
اب رہامسئلہ فتاوی دیوبندمیں  ہنودجن کے حربی ہونے میں  کوئی شک نہیں  ہے ،ان کے لئے قربانی کاگوشت دینے کے جوازمیں  یہ کہناکہ ان کوصدقہ نافلہ دیناجائزہے۔یہ بھی سراسرتفسیرات مفسرین ،تشریحات محدثین اورتصریحات فقہا کے خلاف ہے گزشتہ اوراق میں  تفصیل گزرچکی ہے۔البتہ حربی کافرکوصدقہ نافلہ دینے سے متعلق چندعبارات فقہا یہاں  بھی نقل کئے دیتے ہیں  تاکہ مزیداطمینان آپ کوحاصل ہوجائے۔اورآپ پرمسئلہ بالکل واضح ہوجائے ،ہم یہ تفصیل حضوراعلیٰ حضرت کے حوالے سے نقل کریں  گے تاکہ آپ نے جوبیان کیاہے کہ حضوراعلیٰ حضرت ہنودکوگوشت دینے سے منع فرماتے ہیں  وہ فرمان مدلل ہوجائے۔حضوراعلیٰ حضرت فرماتے ہیں  :’’ یہاں  اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں  ، تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ، اصلا کچھ ثواب نہیں  رکھتا،درمختارمیں  ہے:
اماا لحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لایجوز لہ اتفاقا، بحر عن الخانیۃ وغیرہا ۔
حربی اگر مستامن بھی ہو تو اس کو کوئی بھی صدقہ دینا بالاتفاق ناجائز ہے۔ بحر نے خانیہ وغیرہا سے نقل کیا۔
بحرالرائق میں  معراج الدرایہ شرح ہدایہ سے ہے: 
صلتہ لاتکون براشرعا، ولذا لم یجز التطوع الیہ فلم یقع قربۃ ۔
اس سے صلہ شرعا نیکی نہیں  اسی لئے اس کو نفلی صدقہ بھی جائز نہیں  لہذا عبادت نہ بنے گا۔‘‘
[فتاوی رضویہ جدید،۲۰/۲۵۳]
’’تو اس کو ران وغیرہ کچھ نہ دیں  کہ کافروں  کا صدقات وغیرہ میں  کچھ حق نہیں  ، نہ اس کو دینے کی اجازت، غایہ سروجی وبحرالرائق ودرمختاروغیرہا میں  ہے:
اما الحربی ولومستأمنا فجمیع الصدقات لایجوز لہ اتفاقا ۔ لیکن کافر حربی اگر چہ مستامن ہو اس کو تمام صدقات دینا بالاتفاق ناجائز ہے۔ درایہ میں  ہے:  صلتہ لا تکون برا شرعا۔ ولذا لم یجز التطوع الیہ۔
اس کے ساتھ صلہ رحمی شرعی طور پر نیکی نہیں  ، یہی وجہ ہے کہ اس پر احسان کرنا جائز نہیں  ۔ ‘‘
[فتاوی رضویہ جدید،۲۰/۵۸۹]
مزیدفرماتے ہیں  :
’’تصدقو اعلی اھل الا دیان کلھا میں  امر بتصدق ہے اور تصدق قربت جہاں  قربت نہ ہو صدقِ تصدق محال ہے اوربہ تصریح ائمہ اہل حرب کو کُچھ دینا اصلاًقربت نہیں  تو وہاں  صدق تصدق نا ممکن۔ اور قطعاًحاصلِ حدیث یہ کہ جن کو دینا قربت ہے وُہ کسی دین کے ہوں  ان پر تصدق کرویہ ضرور صحیح ہے۔ اور صرف اہلِ ذمّہ کو شامل نصرانی ہوں  خواہ یہودی خواہ مجوسی خواہ وثنی، کسی دین کے ہوں  ،اگر وُہ قول لیں  کہ غنی کو دینا صدقہ نہیں  ہوسکتا تو مسلمان غنی بھی اس عموم اہل الادیان کلہا میں  نہیں  آسکا کہ وہ محلِ صدقہ ہی نہیں  اور کلام تصدق میں  ہے، یہی جواب اس حدیث سے ہے کہ ہر جاندار سے بھلائی صدقہ ہے، ورنہ صحیح مسلم شریف کی صحیح حدیث میں فرمایا کہ جو وزغ کو ایک ضرب مارے سَو نیکیاں پائے‘‘
[فتاوی رضویہ جدید،۱۰/۳۳۲]
اورنہایہ ،بحرالرائق وغیرہ کتب فقہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’نہایہ امام سغناقی وغایۃ البیان امام اتقانی وبحرالرائق وغنیہ علامہ شرنبلالی میں :
واللفظ للبحرصح دفع غیر الزکوٰۃ الی الذمی لقولہ تعالٰی لاینھٰکم اﷲعن الذین لم یقاتلوکم فی الدین الاٰیۃ وقید بالذمی لان جمیع الصدقات فرضا کانت اوواجبۃ اوتطوعا لاتجوز للحربی اتفاقا کما فی غایۃ البیان لقولہ تعالٰی ینھٰکم اﷲعن الذین قاتلوکم فی الدین واطلقہ فشمل المستامن وقد صرح بہ فی النہایۃ ۔
 زکوٰۃ کے سوا اور صدقات ذمی کو دے سکتے ہیں ، اللہ عزوجل فرماتاہے:تمھیں اللہ ان سے منع نہیں فرماتا جو دین میں تم سے نہ لڑیں ، ذمی کی قید اس لئے لگائی کہ حربی کیلئے جملہ صدقات حرام ہیں ، فرض ہوں یا واجب یا نفل۔ جیسا کہ غایۃ البیان میں ہے۔ اس لئے کہ اللہ عزوجل فرماتاہے: اللہ تمھیں ان سے منع فرماتاہے جو دین میں تم سے لڑیں ، حربی کو مطلق رکھا تومستامن کو بھی شامل ہوا جو سلطان اسلام سے پناہ لے کر دارالاسلام میں آیا اسے بھی کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں ۔
 اور نہایہ میں اس کی صاف تصریح ہے۔‘‘
[فتاوی رضویہ جدید،۱۴/۴۴۳]ع
عنایہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’عنایہ امام اکمل میں ہے: التصدق علیہم مرحمۃ لہم ومواساۃ وھی منافیۃ لمقتضی الاٰیۃ۔
 انھیں خیرات دینا ان پر ایک طرح کی مہربانی اور ان کی غمخواری ہے اور یہ حکم قرآن مجید کے خلاف ہے۔‘‘
[فتاوی رضویہ جدید،۱۴/۴۵۹،۴۶۰]
الحاصل: ہنودکوقربانی کاگوشت دینا، ہدیہ کرنا،صدقہ کرناکھلاناکسی طرح بھی جائزنہیں ہے۔کیوں کہوہ حربی کافرہیں اورحربی کے ساتھ احسان وصلہ رحمی ،ان کوہدیہ وصدقہ ازروئے شرع ناجائزہے۔کماسبق۔
 ھٰذاماعندی والعلم عنداللّٰہ تعالیٰ

كتبـــــــــــــــــــــــــــــــــه

محمد ذوالفقار خان نعیمی ککرالوی

نوری دار الافتاء مدینہ مسجد محلہ علی خاں کاشی پور اتراکھنڈ

۸؍ذوالحجہ ۱۴۳۸ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area