عذر شرعی اور ضرورت شرعی قسط اول
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
عذر اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب اس کے قائم مقام کوئی دوسری چیز نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں
عذر شرعی اور ضرورت شرعی اصح میں اس وقت متحقق ہوگی جب اس کے بغیر کوئی راستہ یا ترکیب یا ذریعہ نہیں ہو۔
آج کل لوگ اپنی طبیعت کے مطابق کام کرنے کے لئے عذر کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ صحیح معنوں میں وہی عذر شرع میں قبول ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہو اگر اس کا نعم البدل ہے تو پھر وہ عذر قابل قبول نہیں ہے
(1) مرد کے لئے مہندی کا استعمال
مرد کو ہتھیلی یا تلوے بلکہ صرف ناخنوں میں مہندی لگانی حرام ہے کہ عورتوں سے تشبہ ہے فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ مہندی لگائی عورتوں کے لئے سنت ہے لیکن مردوں کے لئے مکروہ (یعنی مکروہ تحریمی ) ہے مگر جبکہ کوئی عذر ہو
(تو پھر اس کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے)
یعنی عذر کی وجہ سے جائز ہے مگر وہ عذر قبول ہے جس کا کوئی بدل نہ ہو ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ عذر کا استثناء کرنا ۔تو اس کے متعلق میری صوا بدید یہ ہے کہ (عذر اس وقت تسلیم کیا جائے گا ) جب مہندی کے قائم مقام دوسری چیز نہ ہو ۔نیز مہندی کسی ایسی چیز کے ساتھ مخلوط نہ ہوسکے جو اس کے رنگ کو زائل کردے ۔اور مہندی استعمال میں بھی محض ضرورت کی بنا پر دوا اور علاج ہو ۔زیب و زینت اور آرائش مقصود نہ ہو۔
عذر شرعی اور ضرورت شرعی اصح میں اس وقت متحقق ہوگی جب اس کے بغیر کوئی راستہ یا ترکیب یا ذریعہ نہیں ہو۔
آج کل لوگ اپنی طبیعت کے مطابق کام کرنے کے لئے عذر کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ صحیح معنوں میں وہی عذر شرع میں قبول ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہو اگر اس کا نعم البدل ہے تو پھر وہ عذر قابل قبول نہیں ہے
(1) مرد کے لئے مہندی کا استعمال
مرد کو ہتھیلی یا تلوے بلکہ صرف ناخنوں میں مہندی لگانی حرام ہے کہ عورتوں سے تشبہ ہے فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ مہندی لگائی عورتوں کے لئے سنت ہے لیکن مردوں کے لئے مکروہ (یعنی مکروہ تحریمی ) ہے مگر جبکہ کوئی عذر ہو
(تو پھر اس کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے)
یعنی عذر کی وجہ سے جائز ہے مگر وہ عذر قبول ہے جس کا کوئی بدل نہ ہو ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں کہ عذر کا استثناء کرنا ۔تو اس کے متعلق میری صوا بدید یہ ہے کہ (عذر اس وقت تسلیم کیا جائے گا ) جب مہندی کے قائم مقام دوسری چیز نہ ہو ۔نیز مہندی کسی ایسی چیز کے ساتھ مخلوط نہ ہوسکے جو اس کے رنگ کو زائل کردے ۔اور مہندی استعمال میں بھی محض ضرورت کی بنا پر دوا اور علاج ہو ۔زیب و زینت اور آرائش مقصود نہ ہو۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 543)
یعنی عذر اس وقت قبول کیا جائے گا جبکہ اس کا قائم مقام دوسری چیز نہ ہو اگر ہے تو وہ عذر قبول نہیں۔
(2) اپنے گناہ کو چھپانے کے لئے اسے روا ہے کہ دے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا حالانکہ اس نے یہ کام کیا ہے لیکن اس کام کو چھپانا ضروری ہے یہاں اس عذر کی وجہ سے جائز ہے کیونکہ اس کا بدل اقرار کرنا ہے اور اگر اقرار کرتا ہے تو عذاب پانے کا مستحق ہوگا۔
یعنی عذر اس وقت قبول کیا جائے گا جبکہ اس کا قائم مقام دوسری چیز نہ ہو اگر ہے تو وہ عذر قبول نہیں۔
(2) اپنے گناہ کو چھپانے کے لئے اسے روا ہے کہ دے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا حالانکہ اس نے یہ کام کیا ہے لیکن اس کام کو چھپانا ضروری ہے یہاں اس عذر کی وجہ سے جائز ہے کیونکہ اس کا بدل اقرار کرنا ہے اور اگر اقرار کرتا ہے تو عذاب پانے کا مستحق ہوگا۔
مثلا اگر کسی نے نماز قضاء کردی یا کوئی گناہ کیا جیسے بدکاری۔ شراب نوشی ۔چوری وغیرہ کیا تو اس کو چھپانے کے لئے یہ جائز ہے کہ کہ دے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ہے,
جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ اگر بادشاہ وقت اس سے ایسے گناہ کے بارے میں دریافت کرے جو اس سے درپردہ سرزد ہوا ہو جیسے بدکاری ۔شراب نوشی وغیرہ تو اس کے لئے روا ہے کہ صاف کہ دے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا کیونکہ اس کا ظاہر کرنا دوسرا گناہ ہے۔
جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ اگر بادشاہ وقت اس سے ایسے گناہ کے بارے میں دریافت کرے جو اس سے درپردہ سرزد ہوا ہو جیسے بدکاری ۔شراب نوشی وغیرہ تو اس کے لئے روا ہے کہ صاف کہ دے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا کیونکہ اس کا ظاہر کرنا دوسرا گناہ ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 355)
دیکھیں ! ناجائز کام کرنا ایک گناہ اور اس گناہ کا ظاہر کرنا یا کسی سے بتانا خواہ دوست یا بیوی یا کوئی دوسرا شخص ہو یہ دوسرا گناہ بلکہ اس گناہ سے بدتر گناہ اور اول قسم کے گناہ کو اللہ عزوجل جو ستار العیوب ہے وہ معاف کردے گا لیکن جو گناہ دوسرے سے کہ دیا اس کو معاف نہ کرےگا۔
اس کی دلیل حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
کل امتی معافی الا المجاھرین۔
دیکھیں ! ناجائز کام کرنا ایک گناہ اور اس گناہ کا ظاہر کرنا یا کسی سے بتانا خواہ دوست یا بیوی یا کوئی دوسرا شخص ہو یہ دوسرا گناہ بلکہ اس گناہ سے بدتر گناہ اور اول قسم کے گناہ کو اللہ عزوجل جو ستار العیوب ہے وہ معاف کردے گا لیکن جو گناہ دوسرے سے کہ دیا اس کو معاف نہ کرےگا۔
اس کی دلیل حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
کل امتی معافی الا المجاھرین۔
میری سب امت عافیت میں ہے سوا ان کے جو گناہ اشکارہ کرتے ہیں۔
(صحیح البخاری شریف ۔باب فی وجوب الجنہ والنار بشہادہ المومنین ۔جلد دوم ص 896)
صحیح مسلم شریف ۔کتاب الادب ۔باب ستر المومن علی نفسہ ۔جلد دو ص 414.
المعجم الاوسط ۔حدیث 4495.جلد پنجم ص 252.351)
نیز حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لایزال العذاب مکشوفا عن العباد لما استروا بمعاصی اللہ فاذا اعلنوھا استر جبوا عذاب النار۔
(صحیح البخاری شریف ۔باب فی وجوب الجنہ والنار بشہادہ المومنین ۔جلد دوم ص 896)
صحیح مسلم شریف ۔کتاب الادب ۔باب ستر المومن علی نفسہ ۔جلد دو ص 414.
المعجم الاوسط ۔حدیث 4495.جلد پنجم ص 252.351)
نیز حدیث شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
لایزال العذاب مکشوفا عن العباد لما استروا بمعاصی اللہ فاذا اعلنوھا استر جبوا عذاب النار۔
ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بندوں سے دور رہے گا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کو چھپائیں اور چھپائیں گے پھر جب علانیہ گناہ اور نافرمانیاں کریں گے تو وہ عذاب کے مستحق اور سزا وار ہوجائیں گے
(رواہ فی مسند الفردوس عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حدیث 7578. جلد پنجم ص 95)
اسی لئے حکم ہے کہ وتر کی قضا ادا کرنے میں ہاتھ نہ اٹھائے تاکہ لوگ سمجھ نہیں جائے کہ اس کی وتر قضا ہے پوشیدہ رکھنے کا حکم ہے ہاں اس گناہ سے توبہ کرتا رہے اور یہ کام کرنا بند کردے
(3) بدل کے لئے ایک اور مثال
کوئی نمازی اپنے آپ بقدر تکبیر کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا کیا وہ بیٹھ کر نماز فرض پڑھ سکتا ہے یا نہیں پڑھ سکتا ہے ؟ یعنی فرض نماز
اب اپ حکم شرع ملاحظہ فرمائیں۔
اگر نمازی کو کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کے لئے دوسری جائز تر کیب استعمال کرنی ہوگی اگر کوئی دوسری جائز ترکیب نہیں ہے تو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے اور اگر کوئی بدل یعنی دوسری جائز ترکیب ہے تو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا ہے خواہ مرض ہو یا کمزوری اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نمازی کے لئے بیٹھ کر تکبیر کہنے اور فرض نماز پڑھنے کے لئے اس وقت تک کوئی حیلہ جائز نہیں ہوگا جب تک یہ چھ بدل یعنی ان ترکیبوں پر عمل نہ کرلیں ۔
(1) ہمت (2) طاقت وقوت (3) عصا (4) کسی آدمی کا سہارا (5) دیوار پر ٹیک لگاکر یا تکیہ لگا کر
(6) کل یا بعض ارکان ادا کرسکتا
یہ چھ بدل ہے ان چھ میں سے کسی ایک بدل کا استعمال کرسکتا ہے تو بیٹھ کر تکبیر یا فرض نماز پڑھنے سے نماز فاسد ہو جائے گی۔
جسمانی طاقت و قدرت
جس نمازی کو جس قدر طاقت و قدرت ہے اتنی دیر نماز فرض میں کھڑا ہونا لازم ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ
اس پر لازم ہے کہ تحریمہ کھڑے ہوکر باندھے جب قدرت نہ رہے تو بیٹھ جائے
تحریمی شرط نماز ہے اور تحریمہ کے لئے قیام شرط
ہمت
فتاوی رضویہ میں ہے آج کل بہت جہال ذرا سی بے طاقتی مرض یا کبر سن
میں سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں حالانکہ اولا ان میں بہت ایسے ہیں کہ ہمت کریں تو پورے فرض کھڑے ہوکر ادا کرسکتے ہیں اور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت ہو نہ درد ان سے سرد وغیرہ کوئی سخت الم شد ہو صرف ایک گونہ مشقت و تکلیف ہے ۔جس سے بچنے کو صراحۃ نمازیں کھوتے ہیں ۔ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہی لوگ جنہوں نے بحیلہ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھتے اور وہی باتوں میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اتنی دیر میں دس بارہ رکعت ادا کرلیتے ایسی حالت میں ہر گز قعود کی اجازت نہیں بلکہ فرض ہے کہ پورے قیام سے ادا کریں ۔کافی شرح وافی میں ہے کہ
ان لحقہ نوع مشقۃ لم یجوز ترک القیام
(رواہ فی مسند الفردوس عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حدیث 7578. جلد پنجم ص 95)
اسی لئے حکم ہے کہ وتر کی قضا ادا کرنے میں ہاتھ نہ اٹھائے تاکہ لوگ سمجھ نہیں جائے کہ اس کی وتر قضا ہے پوشیدہ رکھنے کا حکم ہے ہاں اس گناہ سے توبہ کرتا رہے اور یہ کام کرنا بند کردے
(3) بدل کے لئے ایک اور مثال
کوئی نمازی اپنے آپ بقدر تکبیر کھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا کیا وہ بیٹھ کر نماز فرض پڑھ سکتا ہے یا نہیں پڑھ سکتا ہے ؟ یعنی فرض نماز
اب اپ حکم شرع ملاحظہ فرمائیں۔
اگر نمازی کو کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہے تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کے لئے دوسری جائز تر کیب استعمال کرنی ہوگی اگر کوئی دوسری جائز ترکیب نہیں ہے تو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے اور اگر کوئی بدل یعنی دوسری جائز ترکیب ہے تو بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا ہے خواہ مرض ہو یا کمزوری اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نمازی کے لئے بیٹھ کر تکبیر کہنے اور فرض نماز پڑھنے کے لئے اس وقت تک کوئی حیلہ جائز نہیں ہوگا جب تک یہ چھ بدل یعنی ان ترکیبوں پر عمل نہ کرلیں ۔
(1) ہمت (2) طاقت وقوت (3) عصا (4) کسی آدمی کا سہارا (5) دیوار پر ٹیک لگاکر یا تکیہ لگا کر
(6) کل یا بعض ارکان ادا کرسکتا
یہ چھ بدل ہے ان چھ میں سے کسی ایک بدل کا استعمال کرسکتا ہے تو بیٹھ کر تکبیر یا فرض نماز پڑھنے سے نماز فاسد ہو جائے گی۔
جسمانی طاقت و قدرت
جس نمازی کو جس قدر طاقت و قدرت ہے اتنی دیر نماز فرض میں کھڑا ہونا لازم ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ
اس پر لازم ہے کہ تحریمہ کھڑے ہوکر باندھے جب قدرت نہ رہے تو بیٹھ جائے
تحریمی شرط نماز ہے اور تحریمہ کے لئے قیام شرط
ہمت
فتاوی رضویہ میں ہے آج کل بہت جہال ذرا سی بے طاقتی مرض یا کبر سن
میں سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں حالانکہ اولا ان میں بہت ایسے ہیں کہ ہمت کریں تو پورے فرض کھڑے ہوکر ادا کرسکتے ہیں اور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت ہو نہ درد ان سے سرد وغیرہ کوئی سخت الم شد ہو صرف ایک گونہ مشقت و تکلیف ہے ۔جس سے بچنے کو صراحۃ نمازیں کھوتے ہیں ۔ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہی لوگ جنہوں نے بحیلہ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھتے اور وہی باتوں میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اتنی دیر میں دس بارہ رکعت ادا کرلیتے ایسی حالت میں ہر گز قعود کی اجازت نہیں بلکہ فرض ہے کہ پورے قیام سے ادا کریں ۔کافی شرح وافی میں ہے کہ
ان لحقہ نوع مشقۃ لم یجوز ترک القیام
اگر ادنی مشقت لاحق ہو تو ترک قیام جائز نہ ہوگا
عصا کے سہارے
حضور سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ آدمی اپنے آپ بقدر تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا مگر عصا کے سہارے سے (بعض یا کل قیام پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سیارے کے ذریعہ سے کرسکے بجا لائے
دیوار یا تکیہ
کسی آدمی خواہ دیوار پر تکیہ لگا کر کل یا بعض قیام پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعہ سے کرسکے بجا لائے ۔کل تو کل یا بعض تو بعض ورنہ صحیح مذہب میں اس کی نماز نہ ہوگی۔
عصا کے سہارے
حضور سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ آدمی اپنے آپ بقدر تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا مگر عصا کے سہارے سے (بعض یا کل قیام پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سیارے کے ذریعہ سے کرسکے بجا لائے
دیوار یا تکیہ
کسی آدمی خواہ دیوار پر تکیہ لگا کر کل یا بعض قیام پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعہ سے کرسکے بجا لائے ۔کل تو کل یا بعض تو بعض ورنہ صحیح مذہب میں اس کی نماز نہ ہوگی۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ششم ص 160.161)
اس طرح بدل کا سب مثال خوب سمجھ لیا جائیں کہ جس قدر بعض یا کل یا صرف تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہنے کی طاقت ہے تو اتنی دیر قیام فرض ہے اگر کوئی ان سب کے باوجود بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز نہ ہوگی
(4) ایک اور مثال
سود لینا دینا دونوں حرام ہے لیکن کچھ صورتوں میں لینا جائز ہے؟
امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ لوگ بے ضرورت باتوں کو ضرورت ٹھرا لیتے ہیں مثلا شادی میں کثیر خرچ درکار ہے کچے مکان میں رہتے ہیں پختہ مکان بنانا منظور ہے گزر کے لائق تجارت کررہے ہیں اور بڑا سوداگر بننا مقصود ہے ان اغراض کے لئے سودی قرض لیتے ہیں یہ حرام ہے ۔اس کا اور سود دینے کا ایک ہی حکم ہے ۔صحیح حدیث میں ہے۔
لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اکل الربوا وموکلہ و کاتبہ و شاھدیہ وقال ھم سواء
اس طرح بدل کا سب مثال خوب سمجھ لیا جائیں کہ جس قدر بعض یا کل یا صرف تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہنے کی طاقت ہے تو اتنی دیر قیام فرض ہے اگر کوئی ان سب کے باوجود بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز نہ ہوگی
(4) ایک اور مثال
سود لینا دینا دونوں حرام ہے لیکن کچھ صورتوں میں لینا جائز ہے؟
امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ لوگ بے ضرورت باتوں کو ضرورت ٹھرا لیتے ہیں مثلا شادی میں کثیر خرچ درکار ہے کچے مکان میں رہتے ہیں پختہ مکان بنانا منظور ہے گزر کے لائق تجارت کررہے ہیں اور بڑا سوداگر بننا مقصود ہے ان اغراض کے لئے سودی قرض لیتے ہیں یہ حرام ہے ۔اس کا اور سود دینے کا ایک ہی حکم ہے ۔صحیح حدیث میں ہے۔
لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اکل الربوا وموکلہ و کاتبہ و شاھدیہ وقال ھم سواء
یعنی حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نے سود کھانے والے۔ کھلانے والے ۔اسے لکھنے والے اور اس کے گواہ ان سب پر لعنت فرمائی ۔اور فرمایا وہ سب (گناہ) میں برابر ہیں ۔
وہاں اگر واقعی ضرورت ہے کہ بے اس کے گزر نہیں مثلا کھانے پینے کو درکار ہے اور کسب پر قادر نہیں ۔نہ حاجات ضروریہ سے زائد کوئی چیز قابل بیع پاس ہے یا قر ضخواہ کو ڈگری ہوگئی پاس کچھ نہیں ۔ ادا نہ کرے تو رہنے کا مکان یا جائداد کا ٹکڑا کہ وہی ذریعہ معاش ہے نیلام ہوجائے تو ایسی مجبوریوں میں قرض لے سکتا ہے ۔درمختار میں ہے
یجوز للمحتاج الاستقراض بالربا۔
وہاں اگر واقعی ضرورت ہے کہ بے اس کے گزر نہیں مثلا کھانے پینے کو درکار ہے اور کسب پر قادر نہیں ۔نہ حاجات ضروریہ سے زائد کوئی چیز قابل بیع پاس ہے یا قر ضخواہ کو ڈگری ہوگئی پاس کچھ نہیں ۔ ادا نہ کرے تو رہنے کا مکان یا جائداد کا ٹکڑا کہ وہی ذریعہ معاش ہے نیلام ہوجائے تو ایسی مجبوریوں میں قرض لے سکتا ہے ۔درمختار میں ہے
یجوز للمحتاج الاستقراض بالربا۔
یعنی ضرورت مند اور مجبور کو سودی قرض لینا جائز ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23ص 584 )
خیال رکھے کہ کسی کو روپیہ کی سخت ضرورت ہے یا کھانے پینے کی سخت حاجت و ضرورت ہے لیکن پاس میں روپے نہیں ہے تو اگر وہ کسب کرنے پر قادر ہے تو سودی قرض نہیں لے سکتا کہ یہاں اس کا بدل کسب ہے ہاں کسب ہر قادر نہیں مگر حاجات ضروریہ سے زائد اس کے پاس کوئی چیز ہے تو اسے بیچ دے اور قرص نہ لے کہ یہاں وہ چیز قائم مقام ہے یا اس پر کسی کا قرضہ باقی ہے اور وہ قرضدار گورنمنٹ سے ڈگری لے لیا ہے اب اس کو قرض نہیں دے گا تو اس کا مکان چھین لے گا یا کچھ جائداد کا ٹکڑا گزر بس کے لئے وہی زریعہ معاش ہے اور نیلام کروادے گا تو ایسی صورتوں میں بھی اگر اس کے پاس زیور یا کوئی سامان ہے تو اس کو فروخت کرکے قرض ادا کرے اور سودی قرض نہیں لے اگر کچھ نہیں ہے تو سخت مجبوریوں میں گھر بچانے یا وہ زمین کا ٹکڑا جو ذریعہ معاش ہے اس کو بچانے کے لئے قرض لے سکتا ہے ورنہ نہیں لیکن کاروبار بڑھانے کے لئے یا شادی میں زائد خرچ کرنے کے لئے۔ یا کچا مکان ہے اور پختہ مکان بنانے کے لئے یا پختہ مکان ہے اور جس قدر کمرہ کی ضرورت ہے اس سے زیادہ کمرہ بھی ہے تو دو منزلہ مکان بنانے کے لئے قرض نہیں لے سکتا ہے کہ سب کا نعم البدل موجود ہے یعنی چھوٹا کاروبار ہے اور رہنے کے لئے مکان بھی ہے اور شادی میں زیادہ خرچ کرنا جائز بھی نہیں ہے لہذا سودی قرض نہیں لے سکتا ہے ہاں بغیر سودی قرض لے لے یا نقد ادھار رقم لے لے یا کوئی سامان بیچ دین وغیرہ بدل ہے اس لئے سودی قرض لینا حرام ہے یہاں عذر کا قائم مقام موجود ہے اس لئے سودی قرض لینا حرام ہے
.حدیث میں ہے 'جو ایک درہم سود کا دانستہ کھائے گویا اس نے چھتیس (36) بار اپنی ماں سے زنا کیا(, الترغیب والترہیب)
۔سرکار سیدی مرشدی حضرت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں:
ایک درہم تقریبا یہاں کے اٹھارے پیسہ کا ہوتا ہے تو فی دھیلا ایک بار ماں سے زنا کیا۔
خیال رکھے کہ کسی کو روپیہ کی سخت ضرورت ہے یا کھانے پینے کی سخت حاجت و ضرورت ہے لیکن پاس میں روپے نہیں ہے تو اگر وہ کسب کرنے پر قادر ہے تو سودی قرض نہیں لے سکتا کہ یہاں اس کا بدل کسب ہے ہاں کسب ہر قادر نہیں مگر حاجات ضروریہ سے زائد اس کے پاس کوئی چیز ہے تو اسے بیچ دے اور قرص نہ لے کہ یہاں وہ چیز قائم مقام ہے یا اس پر کسی کا قرضہ باقی ہے اور وہ قرضدار گورنمنٹ سے ڈگری لے لیا ہے اب اس کو قرض نہیں دے گا تو اس کا مکان چھین لے گا یا کچھ جائداد کا ٹکڑا گزر بس کے لئے وہی زریعہ معاش ہے اور نیلام کروادے گا تو ایسی صورتوں میں بھی اگر اس کے پاس زیور یا کوئی سامان ہے تو اس کو فروخت کرکے قرض ادا کرے اور سودی قرض نہیں لے اگر کچھ نہیں ہے تو سخت مجبوریوں میں گھر بچانے یا وہ زمین کا ٹکڑا جو ذریعہ معاش ہے اس کو بچانے کے لئے قرض لے سکتا ہے ورنہ نہیں لیکن کاروبار بڑھانے کے لئے یا شادی میں زائد خرچ کرنے کے لئے۔ یا کچا مکان ہے اور پختہ مکان بنانے کے لئے یا پختہ مکان ہے اور جس قدر کمرہ کی ضرورت ہے اس سے زیادہ کمرہ بھی ہے تو دو منزلہ مکان بنانے کے لئے قرض نہیں لے سکتا ہے کہ سب کا نعم البدل موجود ہے یعنی چھوٹا کاروبار ہے اور رہنے کے لئے مکان بھی ہے اور شادی میں زیادہ خرچ کرنا جائز بھی نہیں ہے لہذا سودی قرض نہیں لے سکتا ہے ہاں بغیر سودی قرض لے لے یا نقد ادھار رقم لے لے یا کوئی سامان بیچ دین وغیرہ بدل ہے اس لئے سودی قرض لینا حرام ہے یہاں عذر کا قائم مقام موجود ہے اس لئے سودی قرض لینا حرام ہے
.حدیث میں ہے 'جو ایک درہم سود کا دانستہ کھائے گویا اس نے چھتیس (36) بار اپنی ماں سے زنا کیا(, الترغیب والترہیب)
۔سرکار سیدی مرشدی حضرت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں:
ایک درہم تقریبا یہاں کے اٹھارے پیسہ کا ہوتا ہے تو فی دھیلا ایک بار ماں سے زنا کیا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 578)
(5) تصویر
ہر اس کام کے لئے جس کا بدل یعنی قائم مقام دوسری چیز ہے تو فوٹو کھنچوانا حرام ہے وہ کام بغیر تصویر کے بھی ہوسکتا ہے اس لئے حرام ہے جیسے ۔ جہاں مفتی اجمل حسین صاحب سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ نے حج فرض کے لئے فوٹو کی اجازت دی وہی حج نفل کے لئے حرام ہی فرمایا
(5) تصویر
ہر اس کام کے لئے جس کا بدل یعنی قائم مقام دوسری چیز ہے تو فوٹو کھنچوانا حرام ہے وہ کام بغیر تصویر کے بھی ہوسکتا ہے اس لئے حرام ہے جیسے ۔ جہاں مفتی اجمل حسین صاحب سنبھلی رحمۃ اللہ علیہ نے حج فرض کے لئے فوٹو کی اجازت دی وہی حج نفل کے لئے حرام ہی فرمایا
(دیکھیں فتاویٰ اجملیہ جلد دوم ص 745 )
(6 سزا
استاد کا شاگرد کو بدنی سزا دینا جائز ہے مگر سزا لکڑی کے بجائے ہاتھ سے ہونی چاہئے ( کیونکہ لکڑی کا نعم البدل ہاتھ ہے اس لئے ہاتھ سے مارنا پیٹنا جائز نہیں)
وہ بھی تین ہی دفعہ مار سکتے ہیں اس سے زائد نہیں
(7 سفر
کسی مدرسہ کے مدرس یا محصل یا کسی کام کے لئے چندہ کرنے والے کو مدرسہ کے روپیہ سے ہوائی جہاز سے چندہ کرنے کے لئے لدھیانہ ۔دہلی ۔ممبئی ۔احمدا آباد ۔گوہاٹی وغیرہ جانا جائز نہیں کیونکہ اس کا نعم البدل ٹرین ہے اور ہوائی جہاز سے سفر کرنے میں مدرسہ کا روپیہ بنسبت ٹرین زیادہ خرچ ہوگا اور یہ رقم کی امانت ہے اس کو اپنے آرام کے لئے استعمال کرنا اسراف ہے اگر ہوائی جہاز سے جانا ہے تو اپنے روپیہ سے ٹکٹ لے اور جو ٹرین کا کرایہ ہے اتنا اس میں سے کاٹ لے کیونکہ بانی یا مدرسین یا محصلین۔ یا ناظم یا خزانچی یا سکریٹری یا اراکین سب رقوم مدرسہ کے آمین ہے مالک نہیں ہے اور آمین کو بقدر حاجت و ضرورت اور بقدر کفایت خرچ کرنے کا اختیار ہے اسراف اور فضول خرچ کرنے سے بچے اور مدرسہ کے رقوم کو کسی کو قرض میں دینے کا بھی اختیار نہیں ہے
(اسی قاعدہ پر باقی مسئلہ حل فرمائیں )
(9) مجلس وعظ یعنی میلاد شریف ۔خطبہ جمعہ ۔عیدین ۔نکاح اور ختم قرآن اور تقریر میں سامعین کو بولنا منع ہے اور خاموشی سے سننا فرض ہے کہ یہاں بولنے کا قائم مقام خاموش رہنا ہے
نیکیوں پر مژدہ سنانا ۔برائیوں ہر ڈر سنانا ۔اللہ کی طرف مطابق شریعت بلانا یہی معنی وعظ ہے اور یہ کام علمائے دین حضور کی وراثت سے کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ان العلماء ورثۃ الانبیاء
(6 سزا
استاد کا شاگرد کو بدنی سزا دینا جائز ہے مگر سزا لکڑی کے بجائے ہاتھ سے ہونی چاہئے ( کیونکہ لکڑی کا نعم البدل ہاتھ ہے اس لئے ہاتھ سے مارنا پیٹنا جائز نہیں)
وہ بھی تین ہی دفعہ مار سکتے ہیں اس سے زائد نہیں
(7 سفر
کسی مدرسہ کے مدرس یا محصل یا کسی کام کے لئے چندہ کرنے والے کو مدرسہ کے روپیہ سے ہوائی جہاز سے چندہ کرنے کے لئے لدھیانہ ۔دہلی ۔ممبئی ۔احمدا آباد ۔گوہاٹی وغیرہ جانا جائز نہیں کیونکہ اس کا نعم البدل ٹرین ہے اور ہوائی جہاز سے سفر کرنے میں مدرسہ کا روپیہ بنسبت ٹرین زیادہ خرچ ہوگا اور یہ رقم کی امانت ہے اس کو اپنے آرام کے لئے استعمال کرنا اسراف ہے اگر ہوائی جہاز سے جانا ہے تو اپنے روپیہ سے ٹکٹ لے اور جو ٹرین کا کرایہ ہے اتنا اس میں سے کاٹ لے کیونکہ بانی یا مدرسین یا محصلین۔ یا ناظم یا خزانچی یا سکریٹری یا اراکین سب رقوم مدرسہ کے آمین ہے مالک نہیں ہے اور آمین کو بقدر حاجت و ضرورت اور بقدر کفایت خرچ کرنے کا اختیار ہے اسراف اور فضول خرچ کرنے سے بچے اور مدرسہ کے رقوم کو کسی کو قرض میں دینے کا بھی اختیار نہیں ہے
(اسی قاعدہ پر باقی مسئلہ حل فرمائیں )
(9) مجلس وعظ یعنی میلاد شریف ۔خطبہ جمعہ ۔عیدین ۔نکاح اور ختم قرآن اور تقریر میں سامعین کو بولنا منع ہے اور خاموشی سے سننا فرض ہے کہ یہاں بولنے کا قائم مقام خاموش رہنا ہے
نیکیوں پر مژدہ سنانا ۔برائیوں ہر ڈر سنانا ۔اللہ کی طرف مطابق شریعت بلانا یہی معنی وعظ ہے اور یہ کام علمائے دین حضور کی وراثت سے کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ان العلماء ورثۃ الانبیاء
یعنی بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں علیہم الصلاۃ والسلام
جو مسلمان مجلس وعظ میں وعظ سننے کے لئے بیٹھا ہے اسے بات کرنا چلانا آواز دینا سب گناہ ہے بلکہ خاموشی سے سننا فرض ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
جو مجلس وعظ میں بیٹھا ہوا ہو اسے بھی بات کرنا گناہ ہے اگرچہ آہستہ ہی ہو اسی طرح صرف بے ضرورت ادھر ادھر دیکھنا یا کوئی حرکت و جنبش کرنا کھڑا ہوجانا یا تکیہ لگا لینا اور یہ سب گستاخی و بے ادبی اور ہلکا پن خفیف الحر کاتی اور جلد بازی اور۔ حماقت ہے بلکہ لازم یہی ہے کہ اسی کی طرف توجہ کئے خاموش کان لگائے سنتے رہیں یہاں تک کہ اس کا کلام ختم ہو اس وقت تک نہ ادھر ادھر دیکھیں نہ کوئی جنبش نہ اصلا کچھ بات کریں (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24ص 170)
اس سے واضح ہوا کہ وعظ کی مجلس میں مطلق حرکت اور آہستہ بات بے ضرورت بھی گستاخی و بے ادبی و گناہ ہے کہ مسند وعظ اصل مسند حضور پُرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے
لیکن آج کل مجلس وعظ میں اسٹیج پر بیٹھنے والے علماء بھی موبائل سے بات کرتے رہتے ہیں یا میسیج پڑھتے رہتے ہیں جو گناہ عظیم ہے
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس کی طرف شریعت مطہرہ بلاتی ہے اس پر وعدہ جنت ہے اور جنت ان چیزوں پر موعود ہے جو نفس کو مکروہ ہیں ۔اور غذائے نفس وہ ہے جس سے شریعت محمدیہ صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ وعلی آلہ منع فرماتی ہے اور جسے شریعت منع فرماتی ہے اس پر وعید نار ہے اور نار کی وعید ان چیزوں پر جو نفس کو مرغوب ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے
حفت الجنۂ بالمکارہ و حفت بالشھوات النار
جو مسلمان مجلس وعظ میں وعظ سننے کے لئے بیٹھا ہے اسے بات کرنا چلانا آواز دینا سب گناہ ہے بلکہ خاموشی سے سننا فرض ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں
جو مجلس وعظ میں بیٹھا ہوا ہو اسے بھی بات کرنا گناہ ہے اگرچہ آہستہ ہی ہو اسی طرح صرف بے ضرورت ادھر ادھر دیکھنا یا کوئی حرکت و جنبش کرنا کھڑا ہوجانا یا تکیہ لگا لینا اور یہ سب گستاخی و بے ادبی اور ہلکا پن خفیف الحر کاتی اور جلد بازی اور۔ حماقت ہے بلکہ لازم یہی ہے کہ اسی کی طرف توجہ کئے خاموش کان لگائے سنتے رہیں یہاں تک کہ اس کا کلام ختم ہو اس وقت تک نہ ادھر ادھر دیکھیں نہ کوئی جنبش نہ اصلا کچھ بات کریں (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24ص 170)
اس سے واضح ہوا کہ وعظ کی مجلس میں مطلق حرکت اور آہستہ بات بے ضرورت بھی گستاخی و بے ادبی و گناہ ہے کہ مسند وعظ اصل مسند حضور پُرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے
لیکن آج کل مجلس وعظ میں اسٹیج پر بیٹھنے والے علماء بھی موبائل سے بات کرتے رہتے ہیں یا میسیج پڑھتے رہتے ہیں جو گناہ عظیم ہے
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جس کی طرف شریعت مطہرہ بلاتی ہے اس پر وعدہ جنت ہے اور جنت ان چیزوں پر موعود ہے جو نفس کو مکروہ ہیں ۔اور غذائے نفس وہ ہے جس سے شریعت محمدیہ صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ وعلی آلہ منع فرماتی ہے اور جسے شریعت منع فرماتی ہے اس پر وعید نار ہے اور نار کی وعید ان چیزوں پر جو نفس کو مرغوب ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے
حفت الجنۂ بالمکارہ و حفت بالشھوات النار
یعنی جنت ان چیزوں سے گھیر دی گئی ہے جو نفس کو ناگوار ہیں اور دوزخ ان چیزوں سے گھیر دی ہے جو نفس کو پسند ہے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 130 بحوالہ صحیح البخاری و صحیح المسلم شریف )
بے شک نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض ہے
فتاوی رضویہ میں ہے عالم دین کا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا بندگان خدا کو دینی نصیحتیں دینا جسے واعظ کہتے ہیں ضرور اعلی فرائض دین سے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتن تنھون عن المنکر وتومنون باللہ یعنی تم سب امتوں سے بہتر ہو جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں حکم دیتے ہو بھلائی کا اور منع کرتے ہو برائی سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر
پھر تحریر فرماتے ہیں کہ
وذکر فان الذکری تنفع المومنین۔(القرآن الکریم)
بے شک نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض ہے
فتاوی رضویہ میں ہے عالم دین کا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا بندگان خدا کو دینی نصیحتیں دینا جسے واعظ کہتے ہیں ضرور اعلی فرائض دین سے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتن تنھون عن المنکر وتومنون باللہ یعنی تم سب امتوں سے بہتر ہو جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں حکم دیتے ہو بھلائی کا اور منع کرتے ہو برائی سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر
پھر تحریر فرماتے ہیں کہ
وذکر فان الذکری تنفع المومنین۔(القرآن الکریم)
یعنی وعظ کہتا رہ کہ وعظ مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے ۔اس آیت میں بھی اصل مخاطب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ہیں یہ کام علمائے دین حضور کی وراثت سے کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ان العلماء ورثۃ الانبیاء
ان العلماء ورثۃ الانبیاء
یعنی بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں علیھم الصلوۃ والسلام
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 24 ص 171.169. اور یہ حدیث ابوداؤد و ترمذی میں)
مگر یہ امرنہی نہ ہر شخص پر فرض نہ ہر حال میں واجب ۔تو بحال عدم وجوب اس کے ترک پر یہ احکام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں شرع ہی اسے ترک کی ترغیب دے گی۔
مگر یہ امرنہی نہ ہر شخص پر فرض نہ ہر حال میں واجب ۔تو بحال عدم وجوب اس کے ترک پر یہ احکام نہیں بلکہ بعض صورتوں میں شرع ہی اسے ترک کی ترغیب دے گی۔
(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص 176)
مدار نجات تقوی پر ہے خواہ عوام ہو یا عالم اگر عالم متقی نہ ہوتا تعجب ہے کہ کنز العمال کی کیا یہ حدیث نہیں پڑھا کہ
ان الزبانیۃ اسرع الی فسقۃ القراء منھم الی عبدۃ الاوثان۔
مدار نجات تقوی پر ہے خواہ عوام ہو یا عالم اگر عالم متقی نہ ہوتا تعجب ہے کہ کنز العمال کی کیا یہ حدیث نہیں پڑھا کہ
ان الزبانیۃ اسرع الی فسقۃ القراء منھم الی عبدۃ الاوثان۔
یعنی بے شک عذاب کے سپاہی فاسق علماء کی طرف سبقت کریں گے (اور یا جیسے) بتوں کے پجاری کی طرف جو عمل میں سست ہوگا فضل نسب میں آگے نہ ہوگا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23ص 205 بحوالہ کنزالعمال ۔حدیث 29005. جلد 10 ص 191)
اس لئے عالم کو باعمل متقی ہونا چاہیئے اسی لئے ہر شخص اپنے فعل کو دیکھیں کہ وہ متقی ہے یا فاسق و فاجر اسی لئے ہر عمل کی بات کو ٹالنے کے لئے عذر کا سہارا نہیں لینا چاہیے بلکہ نیک بات نیک کام پر خوب عمل کریں آج کل بعض عالم تصویر کھینچوانے کے شوقین بعض فیس بک پر تصاویر دیکھنے کے شوقین بعض سیاہ خضاب لگانے کے شوقین بعض علماء ایسے ہیں جو ہر محفل ہر میلاد شریف ہر کانگرس حتی کے وقت وعظ موبائل دیکھتے رہتے حد پار کرگئے ہیں کہ قیامت کے دن فرشتے فاسق علماء کو تلاش کرتے رہیں گے اس سے بچنے کے لئے عالم یا عوام متقی بن جائے
کسی مسلمان بلکہ ذمی کافر کو بھی بلاحاجت شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو۔اسے ایذا پہنچے ۔شرعا ناجائز وحرام ہے ۔اگرچہ بات فی نفسہ سچی ہو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
من دعا رجلا بغیر اسمہ لعنۃ الملائکۃ۔
اس لئے عالم کو باعمل متقی ہونا چاہیئے اسی لئے ہر شخص اپنے فعل کو دیکھیں کہ وہ متقی ہے یا فاسق و فاجر اسی لئے ہر عمل کی بات کو ٹالنے کے لئے عذر کا سہارا نہیں لینا چاہیے بلکہ نیک بات نیک کام پر خوب عمل کریں آج کل بعض عالم تصویر کھینچوانے کے شوقین بعض فیس بک پر تصاویر دیکھنے کے شوقین بعض سیاہ خضاب لگانے کے شوقین بعض علماء ایسے ہیں جو ہر محفل ہر میلاد شریف ہر کانگرس حتی کے وقت وعظ موبائل دیکھتے رہتے حد پار کرگئے ہیں کہ قیامت کے دن فرشتے فاسق علماء کو تلاش کرتے رہیں گے اس سے بچنے کے لئے عالم یا عوام متقی بن جائے
کسی مسلمان بلکہ ذمی کافر کو بھی بلاحاجت شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو۔اسے ایذا پہنچے ۔شرعا ناجائز وحرام ہے ۔اگرچہ بات فی نفسہ سچی ہو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
من دعا رجلا بغیر اسمہ لعنۃ الملائکۃ۔
یعنی جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 204)
چونکہ اس کا بدل یہی ہے کہ اچھے اور صحیح نام سے پکارے اسی لئے لنگڑا کو اس طرح پکارنا کہ اے لنگڑا سن یا فلاں لنگڑا ایسا کرتا ہے یا فلاں بنٹھا ایسا ہے یا فلاں اندھا یہ سب سے نہ پکارے یہ سب شرعا سخت منع ہے یہاں پر یہ عذر مفید نہیں کہ وہ اندھا ہی ہے اس لئے اندھا کہ رہا ہوں اور لنگڑا ہے اس لئے لنگڑا کہ رہا ہوں بلکہ اس کا نعم البدل اس کا اپنا نام ہے اس سے پکارے
کیف وقد علم ونصوا علیہ ان ترک ذرۃ مما نھی اللہ تعالیٰ عنہ افضل من عبادۂ الثقلین۔ یعنی اہل علم نے اس کی تصریح فرمادی کہ کسی معمولی سی چیز جو چھوڑ دینا کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23ص 17)
فتاوی رضویہ میں بحوالہ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ کے حوالہ سے ہے کہ
العلماء بما علیہ الاکثر
کیف وقد علم ونصوا علیہ ان ترک ذرۃ مما نھی اللہ تعالیٰ عنہ افضل من عبادۂ الثقلین۔ یعنی اہل علم نے اس کی تصریح فرمادی کہ کسی معمولی سی چیز جو چھوڑ دینا کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا جن و انس کی عبادت سے افضل ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23ص 17)
فتاوی رضویہ میں بحوالہ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ کے حوالہ سے ہے کہ
العلماء بما علیہ الاکثر
یعنی (,مسلمانوں کو )اس پر عمل کرنا جس پر اکثر ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23ص 493)
شرط یہ ہے کہ وہ شئی حرام نہ ہو جیسے شراب ۔جھوٹ ۔غیبٹ ۔چوری وغیرہ یا پھر علماء نے کسی اصول کے تحت بقدر ضرورت جائز قرار دیا ہو
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
شرط یہ ہے کہ وہ شئی حرام نہ ہو جیسے شراب ۔جھوٹ ۔غیبٹ ۔چوری وغیرہ یا پھر علماء نے کسی اصول کے تحت بقدر ضرورت جائز قرار دیا ہو
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
13 صفر المظفر 1444
مطابق 11 ستمبر 2022
اضافہ کے ساتھ
مورخہ 22رمصان المبارک 1446
23 مارچ 2025
13 صفر المظفر 1444
مطابق 11 ستمبر 2022
اضافہ کے ساتھ
مورخہ 22رمصان المبارک 1446
23 مارچ 2025