Type Here to Get Search Results !

مقام سادات تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی میں قسط پنچم

----------مقام سادات----------
 تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی
-----------قسط پنچم------------

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز ایک جگہ یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ......... أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي،
(المستدرک للحاکم،ج٢،ص ٤٨٦،حدیث نمبر ٣٦٧٦،كِتَابُ التَّفْسِيرِ،تَفْسِيرُ سُورَةِ الزُّخْرُفِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ،الناشر دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان،و الصواعق المحرقۃ ،ج ٢، ص ٤٤٥،الْفَصْل الأول فِي الْآيَات الْوَارِدَة فيهم، الناشر موسسۃ الرسالۃ لبنان)
یعنی:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کے لیے پناہ(گاہ ہے)"
پھر مذکورہ حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
"اقول:(میں احمد رضا خان بریلوی قادری کہتا ہوں کہ)اگر اہل بیت میں تعمیم ہو جیسا کہ ظاہر حدیث ہے تو غالبًا یہاں ہلاک مطلق وارتفاع قرآن عظیم وہدم کعبہ معظمہ و ویرانی مدینہ طیبہ سے پناہ مراد ہو کہ جب تک اہل بیت اطہار رہیں گے یہ جانگزا بلائیں پیش نہ آئیں گی"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج ٣٠ ،ص ٣٨٩،رسالہ الامن و العلٰی لناعتی المصطفٰی بدافع البلاء مسمّٰی بہ نام تاریخی،اکمال الطامۃ علی شرك سُوی بالامُور العامۃ ۱۳۱۱ھ،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مطلب واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ و فکر دے رہے ہیں کہ حدیث پاک سے تو صاف ہے کہ اہل بیت اطہار امت محمدیہ کی پناہ گاہ ہے لیکن اگر حدیث کو عموم پر محمول کیا جائے اورحدیث کا ظاہر یہی ہے کہ عموم مراد ہے تو اب مطلب یہ ہوا کہ اہل بیت اطہار جو قیامت تک آنے والے ہیں وہ سب کے سب امت محمدیہ کے لیے پناہ گاہ ہیں بلکہ اہل بیت اطہار کی شان و عظمت یہ ہے کہ جب تک دنیا میں اہل بیت اطہار باقی ہیں تب تک ارتفاع قرآن عظیم نہ ہوگا، جب تک اہل بیت اطہار روئے زمین پر ہیں کعبہ معظمہ ہدم نہ ہوگا،جب تک اہل بیت اطہار دنیا میں باقی ہیں مدینہ طیبہ ویران نہ ہوگا۔
پھر اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز نے حدیث مذکورہ کے بعد یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنَ الْغَرَقِ، وَأَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي مِنَ الِاخْتِلَافِ،
[الحاكم، أبو عبد الله ,المستدرك على الصحيحين للحاكم ,ج ٣،ص ١٦٢،حدیث نمبر ٤٧١٥،کتاب معرفۃ الصحابۃ الخ،وَمنْ مَنَاقِبِ أَهْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،الناشر دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان]
یعنی:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ستارے زمین والوں کے لئے غرق ہونے سے امان ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کے لیے اختلاف سے امان ہیں"
پھر اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"أَهْلُ بَيْتِي أَمَانٌ لِأُمَّتِي، فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِي أَتَى أُمَّتِي مَا يُوعَدُونَ»
[الحاكم، أبو عبد الله ,المستدرك على الصحيحين للحاكم ,ج ٣،ص ٥١٧،حدیث نمبر ٥٩٢٦،کتاب معرفۃ الصحابۃ الخ،ذِكْرُ مَنَاقِبِ الْمُنْكَدِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبِي مُحَمَّدِ الْقُرَشِيِّ،الناشر دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان]
یعنی:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"میرے اہل بیت میری امت کے لے امان ہیں جب اہل بیت نہ رہیں گے امت پر وہ آئیگا جو ان سے وعدہ ہے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج ٣٠ ،ص ٣٨٩،رسالہ الامن و العلٰی لناعتی المصطفٰی بدافع البلاء مسمّٰی بہ نام تاریخی،اکمال الطامۃ علی شرك سُوی بالامُور العامۃ ۱۳۱۱ھ،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ تینوں حدیثوں کو نقل کرکے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز نے جہاں وہابیوں کو جواب دیا کہ جب اہل بیت اطہار دافع بلا ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دافع بلا کیوں نہ ہو؟ساتھ یہ بھی پیغام دے دیا کہ اہل بیت اطہار کی شان بڑی بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے جملہ بیت اطہار کو امت محمدیہ کے لیے دافع بلا بنایا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"اسی وجہ پر آیۃ کریم سورہ فتح میں لام لک تعلیل کا ہے اور ماتقدم من ذنبک تمہارے اگلوں کے گناہ اعنی سیّدنا عبداللہ وسیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے منتہائے نسب کریم تک تمام آبائے کرام و امہات طیبات باستثناء انبیاء کرام مثل آدم و شیث ونوح وخلیل واسمعیل علیہم الصلوۃ والسلام، اور ما تاخر تمہارے پچھلے یعنی قیامت تک تمہارے اہلبیت و امتِ مرحومہ تو حاصل آیۃ کریمہ یہ ہو ا کہ ہم نے تمہارے لیے فتح مبین فرمائی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے بخش دے تمہارے علاقہ کے سب اگلوں پچھلوں کے گناہ۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٩،ص ٤٠٠،مسئلہ ۱٤٣،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ عبارت سے واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ"لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ"میں جو بشارت عظیم اللہ رب العزت نے فرمایا اس بشارت میں جس طرح حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہما تک سب شامل ہیں ویسے ہی اس بشارت عظیم میں قیامت تک آنے والے تمام سادات کرام بھی شامل ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز ایک جگہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
"اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی ﷲ تعالٰی عنہما بوجہ جزئیت کریمہ ایک فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائےاربعہ رضی ﷲ تعالٰی عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء کا اعظم و اعلٰی ہےتو حق تھا مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعدالانبیاء ابوبکر الصدیق کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیر ا لمومنین مولٰی علی سے افضل کہا یہ سب باطل اور خلاف اہل سنت ہے اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے ورنہ وہ سنی نہیں اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل،اگر جزئیت موجب افضلیت مرتبہ عند ﷲ ہو تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میر صاحب اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں ﷲ عزوجل کے نزدیک امیر المومنین مولٰی علی سے افضل واعلٰی ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون یا ضال مضل مفتون[فتاویٰ رضویہ مترجم ،ج ٢٩،ص ٢٨٥،مسئلہ نمبر ۱۱۱،کتاب الشتی عروض و قوافی، رسالہ قوارع القہار علی المجسمیۃ الفجار، ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہے کہ اعلی حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز یہ نظریہ اور فجر دے رہے ہیں کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما ایک ایسی جزوی فضیلت رکھتے ہیں جو کہ حضرت ابو بکر صدیق،حضرت عمر، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کو بھی حاصل نہیں ہے اور جزوی فضلیت ہے"سیادت"لہٰذا اس جزوی فضلیت کے اعتبار سے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما حضرات شیخین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما پر فضلیت رکھتے ہیں،لیکن یاد رہے! پھر بھی افضلیت شیخین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما کو حاصل ہے جو اس عقیدہ کو نہیں مانتا وہ اہل سنت و جماعت سے خارج ہے،بہرحال!ظاہر ہے کہ جملہ سادات کرام کو بھی وہ جزوی فضلیت"سیادت"حاصل ہے اس لیے یہ بات بالکل حق ہے کہ تمام سادات کرام اس جزوی فضلیت یعنی سیادت کے اعتبار سے اپنے اپنے زمانے کے بڑے بڑے غیر سید محدث، فقیہ،مفسر، مترجم،مجدد،عالم،عابد اور زاہد پر بھی فضیلت رکھتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز ایک جگہ لکھتے ہیں:
"اور فقیر(احمد رضا خان بریلوی قادری)کا معمول ہے کہ قربانی ہر سال اپنے حضرت والد ماجد خاتم المحققین قدس سرہ العزیز کی طرف سے کرتا ہے اور اس کا گوشت پوست سب تصدق کردیتاہے اور ایک قربانی حضور اقدس سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہے اور اس کا گوشت پوست سب نذر حضرات سادات کرام کرتاہے۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ٢٠،ص ٤٥٨،مسئلہ نمبر ۲۳۰،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہے کہ امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز سادات کرام کا بڑا خیال رکھا کرتے تھے ان کی عزت و تکریم کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے ان کی دلجوئی اور خدمت کیا کرتے تھے ان کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا کرتے تھے انہیں راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے تھے کیونکہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز کو معلوم تھا کہ اگر سادات کرام کی خوشنودی مل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی مل گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی مل گئی تو رب العزت کی رضا مل گئی۔
......جاری........
ضروری اپیل!اہل علم سے گزارش ہے کہ راقم سے کوئی عبارت سمجھنے میں یا نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی خطا ہوئی تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کرلی جائے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طالب دعا:شبیر احمد راج محلی۔
جنرل سیکریٹری:- تنظیم علمائے اہل سنت راج محل(رجسٹرڈ)و خادم التدريس دارالعلوم گلشن کلیمی راج محل۔
٢٦/اگست ٢٠٢٤ء بروز پیر

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area