محرم الحرام میں علمائے کرام کے سخت تیور
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
تحریر محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
تحریر محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
یوم عاشورا ختم ہوا، ہنگامہ ختم ہوا، علمائے کرام جس شدت سے ان ایام میں محرم الحرام کی غلط رسومات کا رد کرتے ہیں اس کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوتا ہے، اگر دین کا درد ہے تو اپنے بھائیوں پر اس قدر سخت تیور اپنانے سے پہلے ایک بار یہ سوال اپنے ضمیر سے ضرور کریں کہ آپ نے عوام کو ان خرافات سے بچانے کے لیے سال میں کتنے لوگوں سے ملاقات کی؟ کتنے لوگوں کو روافض کے طریقہ کار سے آگاہ کیا؟ کتنے دن آپ اس کار خیر کے لیے نکلے؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر اس قدر چراغ پا ہونے کا حق آپ کو ہے؟
اگر تعزیہ دار یونٹ بناکر کام کرتے ہیں تو آپ اکیلے کثیر جماعت کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ آپ نے کتنے لوگوں کی ٹیم بنائی؟ نہیں بنائی، تو کیوں نہیں بنائی؟ آپ چاہتے ہیں کہ سال بھر کچھ نہ کیا جائے اور ایک محرم سے عوام کو دس تاریخ تک خرافات سے روک لیا جائے، یہ بانجھ سے بچہ کی امید سے زیادہ مشکل امر ہے، سال بھر جو افراد آپ کے دوست ہوتے ہیں ان دس دنوں میں آپ کے دشمن ہوجاتے ہیں، پھر روافض، نواصب، دیگر فرقے ان کا بآسانی شکار کر لیتے ہیں، اگر خرافات میں کمی لانا ہے تو آپ کو سال بھر ذہن سازی کرنا ہوگی، پھر بھی یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ سال بھر میں سب ٹھیک ہو جائے گا، صدیوں کی خرافات آپ سالوں میں ختم نہیں کر سکتے، سالوں کوششوں کے بعد آپ کچھ حد تک کامیاب ہوں گے، ہم یہاں کچھ نکات پیش کرتے ہیں اگر اچھے لگیں تو ٹھیک ورنہ صرف نظر کریں -
(1)اولا آپ تعزیہ بنانے سے کسی کو روک نہیں سکتے،اس لیے اتنا کریں کہ عوام کو امام عالی مقام کے روضے کے نقشے کی جانب پھیر دیں، عوام اسے بآسانی قبول کر لے گی ، اس سے مختلف ڈیزائن ختم ہو جائیں گے -
(2) دوسری کوشش یہ ہو کہ جلوس میں تعزیہ لے کر نہ گھوما جائے اس کی ماحول سازی کی جائے، عوام کو جلوس محمدی کی طرز پر جلوس نکالنے کی ترغیب دی جائے، جلوس نعت و منقبت کے ساتھ نکلے، جس طرح جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں جھنڈے لے کر نکلتے ہیں ویسی ہی اجازت یہاں بھی دی جائے، یہ بہت ضروری ہے کہ جلوس محمدی میں جو خرافات در آئی ہیں ان پر بھی کنٹرول کیا جائے ورنہ تعزیہ دار جو کہ ٹوٹل جاہل ہیں آپ کی بات نہیں مانیں گے - جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم لگ بھگ علما کنٹرول کرتے ہیں اس لیے پہلے ان خرافات پر کنٹرول ضروری ہے، عوام کو ڈھول سے ہٹانے کے لیے ڈی جے کی مشروط اجازت ہو، بعدہ ڈی جے حکومتی معاملہ یا خرافات کی بنا پر بند کیا جا سکتا ہے، یا پھر جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ڈی جے سے پاک کردیا جائے -
(3) تیسری کوشش یہ ہو کہ تعزیہ دفنانے کا رواج ختم کرایا جائے، سبھی تعزیہ دفن نہیں کیے جاتے اس لیے اس میں کامیابی جلد مل جائے گی، جلوس کا اختتام جہاں کیا جائے وہاں فاتحہ خوانی اور لنگر کا انتظام ہونا چاہیے، اس طرح مصنوعی کربلا میں ہونے والی خرافات سے بچا جاسکتا ہے -
(4) چوتھی کوشش یہ ہو کہ براق یا دُل دُل اور ذوالجناح کے متعلق عوام اہل سنت کو بتایا جائے، غیر مسلموں کے مجسموں کی مثال دیتے ہوئے صاف کہا جائے کہ یہ چیز ہماری نسلوں کو شرک تک لے جائے گی، ابھی ہم آپ ضرور اسے خدا نہیں مان رہے لیکن آگے ایسا ہی ہوگا، یہ چیز اتنی صاف دکھتی ہے کہ عوام سمجھے گی، لیکن یہ سب سے مشکل مرحلہ ہوگا، چوں کہ براق میں سونا چاندی نقدی بہت چڑھتی ہے اس لیے اس کے نکالنے والوں کو روکنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوگا - ہاں جب چڑھاوا اور عوام کی عقیدت کم ہوگی اپنے آپ بند ہوجائے گی -
(5) پانچویں کوشش یہ ہو کہ تعزیہ داروں سے مراسم بہتر کیے جائیں، انھیں رابطے میں رکھیں ان کے سکھ دکھ میں شریک ہوں، آپ کے اس رویے سے بالکلیہ نہ سہی آپ کی کچھ نہ کچھ باتیں یہ حضرات چند سالوں میں ضرور مانیں گے اور یہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوگی -
(6) چھٹی کوشش یہ ہو کہ جن خانقاہوں سے ان بدعات کو فروغ دیا جارہا ہے ان سے براہ راست مذاکرات ہوں، ہمارے چوٹی کے علما کو ان سے بات کرنے پر راضی کیا جائے، سادات کے سات خون ہم پہلے ہی معاف کر چکے ہیں ایسے میں اگر وہ ہمارا خون کر دیتے ہیں تو ایک اور معاف کردیں، یعنی ادھر سے انکار ہو تو دل پر نہ لیں، ہمارے علما ان سے عرض کریں کہ حضور! شریعت کے خلاف کام نہ کریں، آپ کریں گے تو عوام کیا کرے گی یہ ظاہر ہے، تعزیہ داری کو فروغ دینے والے کاموں سے اجتناب کریں، اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم آپ لوگ شرکت تو نہ کریں، نیز علما کے فتاویٰ کو سوال پوچھنے پر درست قرار دیں، یہی کافی ہوگا، ایسا کرنے سے کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا -
(7) ساتویں اور اہم بات یہ ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے مابین رشتہ داریوں کا ذکر ہر محفل میں ہونا چاہیے، دشمنان صحابہ کرام بڑے چالاک ہیں انھوں نے یہ تقسیم کرکے بڑے بڑے صحابہ کو سائڈ لائن کردیا ہے،پہلے بنو امیہ سے نفرت دلائی جاتی ہے پھر جب لوگوں کو صحابہ کرام کا خاندان پتہ چلتا ہے تو وہ صحابہ کو بھی اچھا نہیں سمجھتے، یہاں سے بیماری کا آغاز ہوتا ہے اور انجام ہم سب جانتے ہیں، عوام کو بتایا جائے کہ سیدہ ام حبیبہ جو ہمارے آقائے علیہ السلام کی بیوی ہیں وہ بنو امیہ سے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جن کو آقا علیہ السلام نے اپنی دو بیٹیاں بیاہ دیں وہ بنو امیہ سے ہیں، جلیل القدر صحابہ کرام بنو ہاشم بنو امیہ سے ہوے اور ہر ایک نے دین متین کے فروغ کے لئے جان کی بازی لگائی، عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ آقا علیہ السلام کی حیات طیبہ سے حسنین کریمیں کے زمانوں بل کہ بعد تک دونوں جانب سے رشتہ داریاں رہیں، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنھما کے مابین رشتہ داریوں کا ذکر بھی کثرت سے ہو، تاکہ لوگ یہ جان سکیں کہ ان کے نزدیک دشمنیاں ہوتیں تو اتنی قریبی رشتہ داریاں ممکن نہ ہوتیں، اگر ہم ایسا کریں تو روافض اور نواصب دونوں خائب و خاسر ہوں اور اہل سنت کامیاب و کامران، اب وہ وقت آگیا ہے جب عوام کو روافض و نواصب کے مکروہ عزائم سے آگاہ کیا جائے تاکہ آنے والی نسل ان دونوں کا مقابلہ بخوبی کر سکے -
یہ کام کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ احسن ہو، صبر ہو، دین کا جذبہ ہو تبھی کچھ ہو سکے گا، اگر ہم نے دس سے پندرہ سالوں میں تیس سے پچاس فیصد بھی کامیابی حاصل کر لی تو یہ بہت بڑی بات ہوگی -
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
نوٹ :آپ اپنی رائے بھی رکھیں اور کوئی خامی ہو تو وہ بھی بتائیں بس یاد رہے کہ زور زبردستی کا حال ہم دیکھ چکے اب حکمت اور پیار کا راستہ بچا ہے -
18/7/2024
11/1/1446
یوم عاشورا ختم ہوا، ہنگامہ ختم ہوا، علمائے کرام جس شدت سے ان ایام میں محرم الحرام کی غلط رسومات کا رد کرتے ہیں اس کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوتا ہے، اگر دین کا درد ہے تو اپنے بھائیوں پر اس قدر سخت تیور اپنانے سے پہلے ایک بار یہ سوال اپنے ضمیر سے ضرور کریں کہ آپ نے عوام کو ان خرافات سے بچانے کے لیے سال میں کتنے لوگوں سے ملاقات کی؟ کتنے لوگوں کو روافض کے طریقہ کار سے آگاہ کیا؟ کتنے دن آپ اس کار خیر کے لیے نکلے؟ اگر جواب نہیں ہے تو پھر اس قدر چراغ پا ہونے کا حق آپ کو ہے؟
اگر تعزیہ دار یونٹ بناکر کام کرتے ہیں تو آپ اکیلے کثیر جماعت کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ آپ نے کتنے لوگوں کی ٹیم بنائی؟ نہیں بنائی، تو کیوں نہیں بنائی؟ آپ چاہتے ہیں کہ سال بھر کچھ نہ کیا جائے اور ایک محرم سے عوام کو دس تاریخ تک خرافات سے روک لیا جائے، یہ بانجھ سے بچہ کی امید سے زیادہ مشکل امر ہے، سال بھر جو افراد آپ کے دوست ہوتے ہیں ان دس دنوں میں آپ کے دشمن ہوجاتے ہیں، پھر روافض، نواصب، دیگر فرقے ان کا بآسانی شکار کر لیتے ہیں، اگر خرافات میں کمی لانا ہے تو آپ کو سال بھر ذہن سازی کرنا ہوگی، پھر بھی یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ سال بھر میں سب ٹھیک ہو جائے گا، صدیوں کی خرافات آپ سالوں میں ختم نہیں کر سکتے، سالوں کوششوں کے بعد آپ کچھ حد تک کامیاب ہوں گے، ہم یہاں کچھ نکات پیش کرتے ہیں اگر اچھے لگیں تو ٹھیک ورنہ صرف نظر کریں -
(1)اولا آپ تعزیہ بنانے سے کسی کو روک نہیں سکتے،اس لیے اتنا کریں کہ عوام کو امام عالی مقام کے روضے کے نقشے کی جانب پھیر دیں، عوام اسے بآسانی قبول کر لے گی ، اس سے مختلف ڈیزائن ختم ہو جائیں گے -
(2) دوسری کوشش یہ ہو کہ جلوس میں تعزیہ لے کر نہ گھوما جائے اس کی ماحول سازی کی جائے، عوام کو جلوس محمدی کی طرز پر جلوس نکالنے کی ترغیب دی جائے، جلوس نعت و منقبت کے ساتھ نکلے، جس طرح جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں جھنڈے لے کر نکلتے ہیں ویسی ہی اجازت یہاں بھی دی جائے، یہ بہت ضروری ہے کہ جلوس محمدی میں جو خرافات در آئی ہیں ان پر بھی کنٹرول کیا جائے ورنہ تعزیہ دار جو کہ ٹوٹل جاہل ہیں آپ کی بات نہیں مانیں گے - جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم لگ بھگ علما کنٹرول کرتے ہیں اس لیے پہلے ان خرافات پر کنٹرول ضروری ہے، عوام کو ڈھول سے ہٹانے کے لیے ڈی جے کی مشروط اجازت ہو، بعدہ ڈی جے حکومتی معاملہ یا خرافات کی بنا پر بند کیا جا سکتا ہے، یا پھر جلوس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ڈی جے سے پاک کردیا جائے -
(3) تیسری کوشش یہ ہو کہ تعزیہ دفنانے کا رواج ختم کرایا جائے، سبھی تعزیہ دفن نہیں کیے جاتے اس لیے اس میں کامیابی جلد مل جائے گی، جلوس کا اختتام جہاں کیا جائے وہاں فاتحہ خوانی اور لنگر کا انتظام ہونا چاہیے، اس طرح مصنوعی کربلا میں ہونے والی خرافات سے بچا جاسکتا ہے -
(4) چوتھی کوشش یہ ہو کہ براق یا دُل دُل اور ذوالجناح کے متعلق عوام اہل سنت کو بتایا جائے، غیر مسلموں کے مجسموں کی مثال دیتے ہوئے صاف کہا جائے کہ یہ چیز ہماری نسلوں کو شرک تک لے جائے گی، ابھی ہم آپ ضرور اسے خدا نہیں مان رہے لیکن آگے ایسا ہی ہوگا، یہ چیز اتنی صاف دکھتی ہے کہ عوام سمجھے گی، لیکن یہ سب سے مشکل مرحلہ ہوگا، چوں کہ براق میں سونا چاندی نقدی بہت چڑھتی ہے اس لیے اس کے نکالنے والوں کو روکنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہوگا - ہاں جب چڑھاوا اور عوام کی عقیدت کم ہوگی اپنے آپ بند ہوجائے گی -
(5) پانچویں کوشش یہ ہو کہ تعزیہ داروں سے مراسم بہتر کیے جائیں، انھیں رابطے میں رکھیں ان کے سکھ دکھ میں شریک ہوں، آپ کے اس رویے سے بالکلیہ نہ سہی آپ کی کچھ نہ کچھ باتیں یہ حضرات چند سالوں میں ضرور مانیں گے اور یہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوگی -
(6) چھٹی کوشش یہ ہو کہ جن خانقاہوں سے ان بدعات کو فروغ دیا جارہا ہے ان سے براہ راست مذاکرات ہوں، ہمارے چوٹی کے علما کو ان سے بات کرنے پر راضی کیا جائے، سادات کے سات خون ہم پہلے ہی معاف کر چکے ہیں ایسے میں اگر وہ ہمارا خون کر دیتے ہیں تو ایک اور معاف کردیں، یعنی ادھر سے انکار ہو تو دل پر نہ لیں، ہمارے علما ان سے عرض کریں کہ حضور! شریعت کے خلاف کام نہ کریں، آپ کریں گے تو عوام کیا کرے گی یہ ظاہر ہے، تعزیہ داری کو فروغ دینے والے کاموں سے اجتناب کریں، اگر یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم آپ لوگ شرکت تو نہ کریں، نیز علما کے فتاویٰ کو سوال پوچھنے پر درست قرار دیں، یہی کافی ہوگا، ایسا کرنے سے کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا -
(7) ساتویں اور اہم بات یہ ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے مابین رشتہ داریوں کا ذکر ہر محفل میں ہونا چاہیے، دشمنان صحابہ کرام بڑے چالاک ہیں انھوں نے یہ تقسیم کرکے بڑے بڑے صحابہ کو سائڈ لائن کردیا ہے،پہلے بنو امیہ سے نفرت دلائی جاتی ہے پھر جب لوگوں کو صحابہ کرام کا خاندان پتہ چلتا ہے تو وہ صحابہ کو بھی اچھا نہیں سمجھتے، یہاں سے بیماری کا آغاز ہوتا ہے اور انجام ہم سب جانتے ہیں، عوام کو بتایا جائے کہ سیدہ ام حبیبہ جو ہمارے آقائے علیہ السلام کی بیوی ہیں وہ بنو امیہ سے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جن کو آقا علیہ السلام نے اپنی دو بیٹیاں بیاہ دیں وہ بنو امیہ سے ہیں، جلیل القدر صحابہ کرام بنو ہاشم بنو امیہ سے ہوے اور ہر ایک نے دین متین کے فروغ کے لئے جان کی بازی لگائی، عوام کو یہ بھی بتایا جائے کہ آقا علیہ السلام کی حیات طیبہ سے حسنین کریمیں کے زمانوں بل کہ بعد تک دونوں جانب سے رشتہ داریاں رہیں، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنھما کے مابین رشتہ داریوں کا ذکر بھی کثرت سے ہو، تاکہ لوگ یہ جان سکیں کہ ان کے نزدیک دشمنیاں ہوتیں تو اتنی قریبی رشتہ داریاں ممکن نہ ہوتیں، اگر ہم ایسا کریں تو روافض اور نواصب دونوں خائب و خاسر ہوں اور اہل سنت کامیاب و کامران، اب وہ وقت آگیا ہے جب عوام کو روافض و نواصب کے مکروہ عزائم سے آگاہ کیا جائے تاکہ آنے والی نسل ان دونوں کا مقابلہ بخوبی کر سکے -
یہ کام کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ کا طریقہ احسن ہو، صبر ہو، دین کا جذبہ ہو تبھی کچھ ہو سکے گا، اگر ہم نے دس سے پندرہ سالوں میں تیس سے پچاس فیصد بھی کامیابی حاصل کر لی تو یہ بہت بڑی بات ہوگی -
کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
نوٹ :آپ اپنی رائے بھی رکھیں اور کوئی خامی ہو تو وہ بھی بتائیں بس یاد رہے کہ زور زبردستی کا حال ہم دیکھ چکے اب حکمت اور پیار کا راستہ بچا ہے -
18/7/2024
11/1/1446