ایک بار پھر امام مسلم بن عقیل کے بچوں پر بحث
(سلسلہ "کربلا سے متعلق کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
(سلسلہ "کربلا سے متعلق کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک)
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
پچھلی تحریر میں ہم نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کی شہادت کا جو طویل قصہ کتابوں میں موجود ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن پھر اعتراضات کی بوچھار کو دیکھ کر ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر ایک بار پھر آسان سے آسان لفظوں میں بحث کی جائے تاکہ ہر ایک کو سمجھ میں آ جائے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سنی و شیعہ، دونوں طرف کی کتب تواریخ میں امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے اس قصے کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ دوسری بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ دونوں طرف کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ امام مسلم جب کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں پیاس کی شدت سے آپ کے دو ساتھیوں کی موت ہو گئی جو آپ کو راستہ بتانے والے تھے۔ الکامل، البدایہ، طبری، خلدون، بحار الانوار وغیرہ میں امام مسلم کے حالات درج ہیں لیکن بچوں کا نام تک نہیں ہے۔ جب پیاس کی شدت سے دو ساتھیوں کی موت ہو گئی تو بچوں کا کیا ہوا، اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلم کا اپنے بچوں کو کوفہ لے جانا ہی ثابت نہیں ہے۔
اس قصے کو سب سے پہلے بیان کرنے والا ملا حسین کاشفی ایک ایسا غیر معتبر شخص ہے جس نے کئی من گھڑت واقعات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اس کی کتاب روضۃ الشھداء میں صرف یہی نہیں بلکہ کئی جھوٹے قصے موجود ہیں۔ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے قصے کو صرف روضۃ الشھداء میں ہونے کی وجہ سے کسی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ کتب تواریخ میں اس کا نام و نشان تک نہیں ہے بلکہ الٹا اس کی نفی موجود ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ جن معتبر علما نے اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ان کا کیا؟ اسے آسانی سے یوں سمجھیں کہ ایک شخص نے کوئی بات کہی پھر کسی دوسرے شخص نے اس بات کو آگے بیان کیا پھر اس پر بھروسہ کر کے تیسرے شخص نے بھی آگے بڑھا دیا پھر چوتھے، پانچویں......... اس طرح سیکڑوں لوگوں نے اسے ایک دوسرے پر اعتماد کر کے بیان کر دیا اور وہ بات کافی مشہور ہو گئی لیکن یہاں غور کریں کہ اگر پہلے شخص کی بات غلط تھی تو کیا اب ان سیکڑوں لوگوں کے بیان کرنے کی وجہ سے قبول کر لی جائے گی؟ ہرگز نہیں کیوں کہ ان سیکڑوں کے صحیح یا غلط ہونے کا دارومدار اس پہلے شخص پر ہے لہذا اگر پہلا صحیح ہے تو سیکڑوں لوگ بھی صحیح قرار دیے جائیں گے اور اگر پہلا غلط ہے تو وہ بات غلط ہی رہے گی۔ اسی طرح امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے قصے کو سب سے پہلے لکھنے والا شخص ہی جھوٹا ہے تو پھر بات ختم ہو جاتی ہے۔
شیعوں میں سے بعض نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ کتب تواریخ میں اس قصے کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور اگر چند کتابوں میں ہے بھی تو یہ ہے کہ امام حسین کی شہادت کے بعد امام مسلم کے چھوٹے بیٹے قید میں تھے۔ شیعوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سب سے پہلے اسے بیان کرنے والا ملا حسین کاشفی ہے اور جھوٹے قصے کہانیوں کو بیان کرنا اس کا من پسند طریقہ ہے۔
اس قصے کو صحیح کہنے کا مطلب ہے کئی جھوٹے قصوں کو قبول کرنے کا دروازہ کھولنا کیوں کہ روضۃ الشھداء میں اور بھی کئی افسانے موجود ہیں جن کی تفصیل ہمارے ایک دوسرے قسط وار مضمون "اسے بھی ہضم کیجیے" میں موجود ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
پچھلی تحریر میں ہم نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کی شہادت کا جو طویل قصہ کتابوں میں موجود ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن پھر اعتراضات کی بوچھار کو دیکھ کر ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر ایک بار پھر آسان سے آسان لفظوں میں بحث کی جائے تاکہ ہر ایک کو سمجھ میں آ جائے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سنی و شیعہ، دونوں طرف کی کتب تواریخ میں امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے اس قصے کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ دوسری بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ دونوں طرف کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ امام مسلم جب کوفہ کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں پیاس کی شدت سے آپ کے دو ساتھیوں کی موت ہو گئی جو آپ کو راستہ بتانے والے تھے۔ الکامل، البدایہ، طبری، خلدون، بحار الانوار وغیرہ میں امام مسلم کے حالات درج ہیں لیکن بچوں کا نام تک نہیں ہے۔ جب پیاس کی شدت سے دو ساتھیوں کی موت ہو گئی تو بچوں کا کیا ہوا، اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مسلم کا اپنے بچوں کو کوفہ لے جانا ہی ثابت نہیں ہے۔
اس قصے کو سب سے پہلے بیان کرنے والا ملا حسین کاشفی ایک ایسا غیر معتبر شخص ہے جس نے کئی من گھڑت واقعات کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اس کی کتاب روضۃ الشھداء میں صرف یہی نہیں بلکہ کئی جھوٹے قصے موجود ہیں۔ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے قصے کو صرف روضۃ الشھداء میں ہونے کی وجہ سے کسی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ کتب تواریخ میں اس کا نام و نشان تک نہیں ہے بلکہ الٹا اس کی نفی موجود ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ جن معتبر علما نے اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ان کا کیا؟ اسے آسانی سے یوں سمجھیں کہ ایک شخص نے کوئی بات کہی پھر کسی دوسرے شخص نے اس بات کو آگے بیان کیا پھر اس پر بھروسہ کر کے تیسرے شخص نے بھی آگے بڑھا دیا پھر چوتھے، پانچویں......... اس طرح سیکڑوں لوگوں نے اسے ایک دوسرے پر اعتماد کر کے بیان کر دیا اور وہ بات کافی مشہور ہو گئی لیکن یہاں غور کریں کہ اگر پہلے شخص کی بات غلط تھی تو کیا اب ان سیکڑوں لوگوں کے بیان کرنے کی وجہ سے قبول کر لی جائے گی؟ ہرگز نہیں کیوں کہ ان سیکڑوں کے صحیح یا غلط ہونے کا دارومدار اس پہلے شخص پر ہے لہذا اگر پہلا صحیح ہے تو سیکڑوں لوگ بھی صحیح قرار دیے جائیں گے اور اگر پہلا غلط ہے تو وہ بات غلط ہی رہے گی۔ اسی طرح امام مسلم بن عقیل کے بچوں کے قصے کو سب سے پہلے لکھنے والا شخص ہی جھوٹا ہے تو پھر بات ختم ہو جاتی ہے۔
شیعوں میں سے بعض نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کہ کتب تواریخ میں اس قصے کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور اگر چند کتابوں میں ہے بھی تو یہ ہے کہ امام حسین کی شہادت کے بعد امام مسلم کے چھوٹے بیٹے قید میں تھے۔ شیعوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ سب سے پہلے اسے بیان کرنے والا ملا حسین کاشفی ہے اور جھوٹے قصے کہانیوں کو بیان کرنا اس کا من پسند طریقہ ہے۔
اس قصے کو صحیح کہنے کا مطلب ہے کئی جھوٹے قصوں کو قبول کرنے کا دروازہ کھولنا کیوں کہ روضۃ الشھداء میں اور بھی کئی افسانے موجود ہیں جن کی تفصیل ہمارے ایک دوسرے قسط وار مضمون "اسے بھی ہضم کیجیے" میں موجود ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- عبد مصطفی
کتبہ:- عبد مصطفی