Type Here to Get Search Results !

امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا جھوٹا قصہ قسط اول


امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا جھوٹا قصہ
(سلسلہ "کربلا کے کچھ جھوٹے واقعات" سے منسلک) 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
واقعۂ کربلا میں جو قصے کہانیاں داخل ہو گئیں یا جن من گھڑت واقعات کو واقعۂ کربلا کے ساتھ جوڑا گیا ان میں سے امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا واقعہ بہت مشہور ہے۔
اس واقعے کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ اردو زبان میں واقعۂ کربلا پر لکھی جانے والی تقریباً ہر کتاب میں یہ موجود ہے، یہاں تک کہ بعض معتبر مصنفین نے بھی اپنی کتابوں میں اسے نقل کیا ہے۔
جن کتابوں میں یہ واقعہ لکھا گیا ہے، ان کی تعداد سو کے قریب ہے۔ یہ تمام کتب واقعۂ کربلا کے پیش آنے کے سیکڑوں بلکہ ہزار سال بعد لکھی گئی ہیں تو ظاہر سی بات ہے کہ لکھنے والوں نے کہیں سے اخذ کیا ہوگا اور وہ ماخذ ہی ہمیں حقیقت بتا سکتا ہے لہذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کا اصل ماخذ کیا ہے؟ 
وہ تمام کتب جن میں یہ واقعہ درج ہے، انھیں ہم تین حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ پہلی تو وہ کتابیں ہیں جن میں کسی کتاب کا حوالہ نہیں ہے، بس واقعہ موجود ہے، 
دوسری وہ ہیں جن میں ماضی قریب میں لکھی جانے والی کسی کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے، 
اور تیسری وہ ہیں جن میں ایک ایسے ماخذ کا ذکر کیا گیا ہے جو اس واقعے کا اصل مرکز ہے۔
پہلی دو قسموں کو الگ کرتے ہیں کیوں کہ وہ اصل ماخذ تک معاون نہیں بن سکتیں۔
اب جو تیسری قسم کی کتابیں ہیں ان میں جس ماخذ کا ذکر ہے وہ "روضۃ الشھداء" نامی کتاب ہے۔
یہ کتاب فارسی زبان میں ہے اور مصنف کا نام ملا حسین بن علی کاشفی ہے جس کا انتقال 910ھ میں ہوا۔
یہی وہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے اس من گھڑت قصے کو بیان کیا ہے ورنہ کتب تاریخ میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ ایک شیعہ مرزا تقی لسان نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سب سے پہلے امام مسلم کے بچوں کی شہادت کا واقعہ "روضۃ الشھداء" میں بیان کیا گیا ہے اور پہلے مؤرخین میں صرف عاصم کوفی نے بچوں کا تذکرہ کیا ہے وہ بھی نام لیے بغیر اور شہادت کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ مرزا تقی نے ایک کتاب کے حوالے سے یہ تک لکھا ہے کہ امام حسین کی شہادت کے بعد جب اہل بیت کو قیدی بنا کر لایا گیا تو امام مسلم کے چھوٹے صاحبزادے ان کے ساتھ قیدی تھے۔ اس واقعے کے سلسلے میں "روضۃ الشھداء" پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب اور صاحب کتاب پر ہم تفصیل سے کلام کریں گے لیکن اس سے پہلے تاریخ کی روشنی میں اس واقعے کی حقیقت کو ملاحظہ فرمائیں جسے محقق اہل سنت، حضرت علامہ محمد علی نقشبندی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں کہ امام مسلم بن عقیل (جب کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو پہلے) مدینے میں رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں گئے اور نماز ادا کرنے کے بعد دو راستہ بتانے والوں کو اجرت پر لے کر ان کے ساتھ (جانب کوفہ) چل پڑے۔ راستے میں سب کو بہت زیادہ پیاس لگی جس کی وجہ سے وہ دونوں مر گئے اور مرتے وقت امام مسلم کو پانی کا راستہ بتا گئے۔
(الکامل فی التاریخ، ج4، ص21، مطبوعہ بیروت) 
یہ ایسی کتاب کا حوالہ ہے جسے شیعہ و سنی دونوں معتبر جانتے ہیں۔ اس میں امام مسلم کے بچوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ امام مسلم کا مدینے جانا، راستے میں پیاس لگنا، دونوں راستہ بتانے والوں کی موت ہو جانا، اس پورے واقعے میں امام مسلم کا بچوں کو ساتھ لے جانا مذکور نہیں ہے۔ اگر بچے ساتھ تھے تو کہیں تو ذکر ہونا چاہیے تھا؟ خصوصاً پیاس کے وقت ان کی حالت کا ذکر ہونا چاہیے تھا۔
علامہ ابن خلدون، علامہ ابن کثیر اور طبری نے بھی امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا ذکر نہیں کیا حالانکہ مدینہ جانے، راستہ بتانے والوں کو ساتھ لینے اور پیاس کی شدت سے انتقال کر جانے کا تذکرہ کیا ہے۔
(تاریخ ابن کثیر، ج8، ص198۔ تاریخ ابن خلدون، ج2، ص512۔ تاریخ طبری، ج4، ص147) 
جاری... 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- عبد مصطفی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area