(سوال نمبر 5236)
سیکس ٹوئز مصنوعی جنسی کھلونے کا خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں اور علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا ایک شخص سیکس ٹوئز جو جنسی تسکین کے استعمال کرتے ہیں اس نیت سے فروخت کرنا چاہتا ہے کہ لوگ زنا اور عمل لوطت سے بچیں رہیں گے تو کیا اس کا بزنس حلال ہے نیز اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ کیا امام مالک رحمہ اللہ یا کوئی اور امام مشت زنی کو حلال کو سمجھتا تھے
سائل:- عادل معروف کوٹلی آزاد کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جنسکی تسکین مشت زنی شرعا جائز نہیں ہے کچھ قیود شروط کے ساتھ مخصوص حالات میں جائز ہے۔ (اس کے لئے فتوی نمبر 2810 کا مطالعہ کریں)
پر سیکس توئز بیچنے سے اس کام میں اضافہ ہوگا اس لئے جائز نہیں ہے۔
چونکہ مصنوعی جنسی کھلونے سے جنسی تسکین حاصل کرنا ناجائز اور گناہ ہے شریعت نے قضائے شہوت کا محل بیوی کو بنایا اس کے علاوہ قضائے شہوت کے لئے کسی اور محل کا استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے
فتاوی شامی میں ہے
وکذا الاستمناء بالکف وإن کرہ تحریما لحدیث ناکح الید ملعون، ولو خاف الزنی یرجی أن لا وبال علیہ.
بقی ہنا شیء وہو أن علة الإثم ہل ہی کون ذلک استمتاعا بالجزء کما یفیدہ الحدیث وتقییدہم کونہ بالکف ویلحق بہ ما لوأدخل ذکرہ بین فخذیہ مثلا حتی أمنی، أم ہی سفح الماء وتہییج الشہوة فی غیر محلہا بغیر عذر کما یفیدہ قولہ وأما إذا فعلہ لاستجلاب الشہوة إلخ؟ لم أر من صرح بشیء من ذلک والظاہر الأخیر؛ لأن فعلہ بید زوجتہ ونحوہا فیہ سفح الماء لکن بالاستمتاع بجزء مباح کما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین بخلاف ما إذا کان بکفہ ونحوہ وعلی ہذا فلو أدخل ذکرہ فی حائط أو نحوہ حتی أمنی أو استمنی بکفہ بحائل یمنع الحرارة یأثم أیضا ویدل أیضا علی ما قلنا ما فی الزیلعی حیث استدل علی عدم حلہ بالکف بقولہ تعالی ”والذین ہم لفروجہم حافظون“(المؤمنون: 5)الآیة
وقال فلم یبح الاستمتاع إلا بہما أی بالزوجة والأمة اہ فأفاد عدم حل الاستمتاع أی قضاء الشہوة بغیرہما ہذا ما ظہر لی واللہ سبحانہ أعلم. (الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/371،ط:)
البتہ کنڈوم بیچنا جائز ہے چونکہ کنڈوم (condom) کا استعمال ناجائز کاموں کے ساتھ ساتھ مباح اور جائز کاموں میں بھی ہوتا ہے، لہذا کنڈوم کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں۔
الأشباہ و النظائر میں ہے
الأصل فی الأشیاء الإباحۃ حتی یدل الدلیل علی عدم الإباحۃ ۔
(الأشباہ و النظائر: (252/1)
و فیه ایضاً: (ص: 502)
إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضیف الحکم إلی المباشر۔
یعنی جس طرح کنڈوم کا ناجائز استعمال ہے، اسی طرح اس کا مباح اور جائز استعمال بھی ہے؛ لہٰذا اس کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
سیکس ٹوئز مصنوعی جنسی کھلونے کا خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں اور علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا ایک شخص سیکس ٹوئز جو جنسی تسکین کے استعمال کرتے ہیں اس نیت سے فروخت کرنا چاہتا ہے کہ لوگ زنا اور عمل لوطت سے بچیں رہیں گے تو کیا اس کا بزنس حلال ہے نیز اس بات کی بھی وضاحت فرما دیں کہ کیا امام مالک رحمہ اللہ یا کوئی اور امام مشت زنی کو حلال کو سمجھتا تھے
سائل:- عادل معروف کوٹلی آزاد کشمیر انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
جنسکی تسکین مشت زنی شرعا جائز نہیں ہے کچھ قیود شروط کے ساتھ مخصوص حالات میں جائز ہے۔ (اس کے لئے فتوی نمبر 2810 کا مطالعہ کریں)
پر سیکس توئز بیچنے سے اس کام میں اضافہ ہوگا اس لئے جائز نہیں ہے۔
چونکہ مصنوعی جنسی کھلونے سے جنسی تسکین حاصل کرنا ناجائز اور گناہ ہے شریعت نے قضائے شہوت کا محل بیوی کو بنایا اس کے علاوہ قضائے شہوت کے لئے کسی اور محل کا استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے
فتاوی شامی میں ہے
وکذا الاستمناء بالکف وإن کرہ تحریما لحدیث ناکح الید ملعون، ولو خاف الزنی یرجی أن لا وبال علیہ.
بقی ہنا شیء وہو أن علة الإثم ہل ہی کون ذلک استمتاعا بالجزء کما یفیدہ الحدیث وتقییدہم کونہ بالکف ویلحق بہ ما لوأدخل ذکرہ بین فخذیہ مثلا حتی أمنی، أم ہی سفح الماء وتہییج الشہوة فی غیر محلہا بغیر عذر کما یفیدہ قولہ وأما إذا فعلہ لاستجلاب الشہوة إلخ؟ لم أر من صرح بشیء من ذلک والظاہر الأخیر؛ لأن فعلہ بید زوجتہ ونحوہا فیہ سفح الماء لکن بالاستمتاع بجزء مباح کما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین بخلاف ما إذا کان بکفہ ونحوہ وعلی ہذا فلو أدخل ذکرہ فی حائط أو نحوہ حتی أمنی أو استمنی بکفہ بحائل یمنع الحرارة یأثم أیضا ویدل أیضا علی ما قلنا ما فی الزیلعی حیث استدل علی عدم حلہ بالکف بقولہ تعالی ”والذین ہم لفروجہم حافظون“(المؤمنون: 5)الآیة
وقال فلم یبح الاستمتاع إلا بہما أی بالزوجة والأمة اہ فأفاد عدم حل الاستمتاع أی قضاء الشہوة بغیرہما ہذا ما ظہر لی واللہ سبحانہ أعلم. (الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/371،ط:)
البتہ کنڈوم بیچنا جائز ہے چونکہ کنڈوم (condom) کا استعمال ناجائز کاموں کے ساتھ ساتھ مباح اور جائز کاموں میں بھی ہوتا ہے، لہذا کنڈوم کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں۔
الأشباہ و النظائر میں ہے
الأصل فی الأشیاء الإباحۃ حتی یدل الدلیل علی عدم الإباحۃ ۔
(الأشباہ و النظائر: (252/1)
و فیه ایضاً: (ص: 502)
إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضیف الحکم إلی المباشر۔
یعنی جس طرح کنڈوم کا ناجائز استعمال ہے، اسی طرح اس کا مباح اور جائز استعمال بھی ہے؛ لہٰذا اس کی خرید و فروخت کرسکتے ہیں۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/11/2023
26/11/2023