ہم دو،ہمارے بارہ (فلم)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- حفیظ علیمی گونڈوی ممبئ
24/مئی شب شنبہ 2024ء
از قلم:- حفیظ علیمی گونڈوی ممبئ
24/مئی شب شنبہ 2024ء
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
فلمیں اور ڈرامے بالخصوص معاشرتی تہذیب و ثقافت کے آئینہ دار اور حقائق کے عکاس و تصویر ہوتےہیں۔
فلمیں اور ڈرامے دیکھنا مذہب اسلام میں ناجائز و حرام امر ہے لیکن ان کے عمومی و التزامی اثرات معاشرے کے تمدنی شعبے پر کتنے گہرے مرتب ہوتے ہیں اس کا منفی تصور حقائق سے چشم پوشی سے مستعار ہے،فلموں اور ڈراموں نے معاشرے میں جو انقلابی تبدیلی پیدا کیے ہیں اور حیرت انگیز طور پر تہذیب کو متاثر کیے ہیں اس کا بھی انکار وجود سورج کے انکار کے مترادف ہے۔
ماضی کی فلموں میں ڈرامائی طور پر جو کردار فلمایا جاتاتھا وہ حد درجہ معاشرتی حقائق سے لبریز ہوتا تھا اور ہر سماج کے جذبے کا پاس و لحاظ رکھتے ہوۓ بالخصوص مثبت پہلو کا انتخاب کیا جاتاتھا۔
لیکن برا ہو اسلام دشمن عناصر کا جس نے ہرمحاذ پر اسلام کے کلیات و جزئیات کو بدنام کرنے کے لیے مسلم معاشرتی تہذیب کا منفی تعاقب کیا اور اسلام بیزاری کا نہایت شد و مد سے پروپیگنڈہ جاری رکھا کہ اے دنیا والو دیکھو یہی اسلام کا اصلی چہرا اور چرتر ہے ،پر مکمل حصول کامیابی سے محرومی دامن گیر رہی،لیکن جب سے مسلم کش حکومت برسراقتدار ہوئی تب سے کھلم کھلا اسلامی شعائر و تہذیب اور مسلم معاشرے پر فلموں اور ڈراموں کے ذریعے جو منفیات پروسنے کا کام شروع ہوا وہ قابل افسوس اور لائق مذمت ہے!
کبھی "دی کشمیر فائل"کبھی "بہتر حوریں" کبھی کچھ کبھی کچھ اور اب مستقل مسلم تہذیب کو ٹارگیٹ کرکے ایک نئی فلم بنائی گئی جس کا نام
ہم دو ہمارے بارہ
رکھا گیاہے۔
شوتروں کے حوالے سے معلومات حاصل ہوئی کہ اس زہر افشاں و نفرت انگیز فلم میں عورتوں کی تذلیل و تحقیر,مردوں کی طرف سے ظلم و استبداد،عورتوں کو بچے پیدا کرنے کی مشین،نکاح و طلاق کی منفی باتیں، زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مجبور محض، بےاختیار اور تمام حقوق سے محروم دکھانے کی ناپاک و ذلیل کوشش کی گئی ہے۔
یقیناً ہمارا ایمان و ایقان ہے کہ مذہب اسلام جیسا کوئی مذہب نہیں،اسلامی اصول جیسا کوئی اصول نہیں،اسلامی تہذیب جیسی کوئی تہذیب نہیں اسلامی نظام زندگی وحسین طرز بندگی کا کسی دھرم میں تصور نہیں!
لیکن جب مسلمانوں کے خودساختہ اصول و تمدن اور شرافت سوز تہذیب کو اسلامی تہذیب کہہ کر اس پر بھرپور ضرب کاری ہوتی ہے تو غیر معمولی اضطرابی کیفیت سے دو چار ہونا پڑتاہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلم معاشرے نے اپنی شفاف تہذیب و ثقافت کو جس بےدردی سے کچلاہے، اپنی گھٹیا افکار و نظریات اور خود ساختہ تہذیب کو دنیا والوں کے سامنے ری پرژینٹ کیا اور اس سے اسلام کے حوالے سے دوسرے سماج و معاشرے پر جو منفی اثرات کا ترتب ہوا اسے بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا!
یقیناً ہم سب جانتے ہیں کہ دشمنوں کے ارادے نہایت ناپاک اور زہر افشاں ہیں کہ وہ مذہب اسلام کے اصولوں کی بیخ کنی کے لیے نالائق و غیر مہذب مسلمانوں کے معاشرتی و تمدنی کمیوں و خرابیوں کا سہارا لیتے ہیں۔
ماقبل کی فلموں میں جس طرح دیگر مذاہب، ان کے دھرم گروؤں، چھوا چھوت کا کلچر،اونچ نیچ کا تصور،منادر کا کرپشن اور ان سے ملحق بےشمار کردار کو فلموں میں فلمایا گیا جس سے سماجی بیداری کا انقلاب برپا ہوگیا،اسی طرح اب مسلم سماج کے تمدنی کرپشن کو فلمایا جارہاہے تو تکلیف تو ہوگی ہی!
مان لیجیے اگر فلم کار مسلمانوں میں فروغ پارہے ذات برادری کے منفی کردار کو فلمائیں،مزارات و مقابر کے کرپشن کو فلمائیں،مدارس کی تعلیمی و تمدنی کلچر اور رشوت و غصب حقوق کو فلمائیں ،مساجد کے نزاعی معاملات اور اراکین کے منصب داری کے جھگڑے کو فلمائیں،مسلم شادی نکاح کے ناپاک جہیزی و غیر شرعی رسم کو فلمائیں،عریانیت و دیوثی اور زنا کے بڑھتے ریشیو کو فلمائیں،تعلیمی پسماندگی و فکری آلودگی کو فلمائیں،باہمی منازعت و مخاصمت کو فلمائیں،بددیانتی ،بےایمانی،چوری چکاری چنڈالی ڈکیتی کو فلمائیں،بہنوں کے غصب حق وراثت کو فلمائیں،والدین و اقربا کی حق تلفی کو فلمائیں،تین طلاق کے ظالمانہ کردار کی قباحت کو فلمائیں،علما کی پسماندگی و غربت اور ان کے بےچارگی و بےکسی کو فلمائیں وغیرہ وغیرہ تو دنیا والوں پر کتنے گہرے منفی اثرات
مرتب ہوں گے؟
اور نتیجتا وہ اسلام کی پاکیزہ و شفاف تعلیمات سے بھی دور ہوں گے اور خود مسلم معاشرے میں اسمی و رسمی اور نیازی و درگاہی مسلمان تو ارتداد کی نذر ہوجائیں گے اور معاشرے میں نفرت و بیزاری کا طوفان برپا ہوجاۓگا،باہمی اعتماد و یقین کا جنازہ نکل جاۓگا،عداوت و منافرت کی آلودہ فضا میں سانس لینا مشکل ہوجاۓ گا۔
لہذا !ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے پابند بنیں،باہمی تعلقات کو وسیع و خوش گوار کریں،کرپشن کو ختم کریں،نور ایمان سے معاشرے کو منور کریں،اغیار کو کوئی معیوب و کمزور موقع فراہم نہ کریں،اپنی سیاسی و معاشرتی قیادت مضبوط کریں،تعلیم کو اہمیت و فوقیت دیں اور ہرمحاذ پر حد درجہ حسن اخلاق و کردار اور پاکیزہ نیت و خلوص کا مظاہرہ کریں۔۔
ان شاءاللہ تعالیٰ دشمن اپنے مقاصد غلیظہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔۔۔۔اور یہ بحیثیت مسلمان ہمارا اولین فریضہ بھی ہے جسے نبھانا ہم پر لازم ہے۔
جب تک ہم رجوع الی اللہ کرتے ہوۓ اسلام کے دامن رحمت پناہ میں نہیں آئیں گے تب تک سرخروئی و سرفرازئ دارین کی دولت بےبہا سے مالا مال نہیں ہوسکتے!
اگر یہ چاہیں کہ اسلام مخالف پروپیگنڈہ کو ناکام بنانے کےلیے احتجاج و دھرنا پردرشن ،قانونی چارہ جوئی یا جھگڑا لڑائی کا سہارا لیں گے تو یہ محض حماقت ہے ،اس کے لیے آسان راستہ خود کو اسلام کے سپرد کردینا ہے پھر جتنا زیادہ اسلام مخالف پروپیگنڈہ ہوگا اسلام اتنا ہی برق رفتاری سے اپنے اصلی چہرے کے ساتھ لوگوں تک پہنچے گا اور پھر انقلاب کا نیاسورج طلوع ہوگا۔۔۔۔۔
مسلمانوں سمٹ کر دین کے مرکز پہ آجاؤ
ابھی قدرت کو تم سے خدمت اسلام لیناہے۔
از: عبدالحفیظ علیمی گونڈوی
خطیب و امام سنی حنفی بریلوی جامع مسجد مانخورد ریلوےاسٹیشن بانی و سربراہ "جامعہ مولاۓ کائنات"منڈالہ مانخورد ممبئی ۔۔9838601209..
فلمیں اور ڈرامے بالخصوص معاشرتی تہذیب و ثقافت کے آئینہ دار اور حقائق کے عکاس و تصویر ہوتےہیں۔
فلمیں اور ڈرامے دیکھنا مذہب اسلام میں ناجائز و حرام امر ہے لیکن ان کے عمومی و التزامی اثرات معاشرے کے تمدنی شعبے پر کتنے گہرے مرتب ہوتے ہیں اس کا منفی تصور حقائق سے چشم پوشی سے مستعار ہے،فلموں اور ڈراموں نے معاشرے میں جو انقلابی تبدیلی پیدا کیے ہیں اور حیرت انگیز طور پر تہذیب کو متاثر کیے ہیں اس کا بھی انکار وجود سورج کے انکار کے مترادف ہے۔
ماضی کی فلموں میں ڈرامائی طور پر جو کردار فلمایا جاتاتھا وہ حد درجہ معاشرتی حقائق سے لبریز ہوتا تھا اور ہر سماج کے جذبے کا پاس و لحاظ رکھتے ہوۓ بالخصوص مثبت پہلو کا انتخاب کیا جاتاتھا۔
لیکن برا ہو اسلام دشمن عناصر کا جس نے ہرمحاذ پر اسلام کے کلیات و جزئیات کو بدنام کرنے کے لیے مسلم معاشرتی تہذیب کا منفی تعاقب کیا اور اسلام بیزاری کا نہایت شد و مد سے پروپیگنڈہ جاری رکھا کہ اے دنیا والو دیکھو یہی اسلام کا اصلی چہرا اور چرتر ہے ،پر مکمل حصول کامیابی سے محرومی دامن گیر رہی،لیکن جب سے مسلم کش حکومت برسراقتدار ہوئی تب سے کھلم کھلا اسلامی شعائر و تہذیب اور مسلم معاشرے پر فلموں اور ڈراموں کے ذریعے جو منفیات پروسنے کا کام شروع ہوا وہ قابل افسوس اور لائق مذمت ہے!
کبھی "دی کشمیر فائل"کبھی "بہتر حوریں" کبھی کچھ کبھی کچھ اور اب مستقل مسلم تہذیب کو ٹارگیٹ کرکے ایک نئی فلم بنائی گئی جس کا نام
ہم دو ہمارے بارہ
رکھا گیاہے۔
شوتروں کے حوالے سے معلومات حاصل ہوئی کہ اس زہر افشاں و نفرت انگیز فلم میں عورتوں کی تذلیل و تحقیر,مردوں کی طرف سے ظلم و استبداد،عورتوں کو بچے پیدا کرنے کی مشین،نکاح و طلاق کی منفی باتیں، زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مجبور محض، بےاختیار اور تمام حقوق سے محروم دکھانے کی ناپاک و ذلیل کوشش کی گئی ہے۔
یقیناً ہمارا ایمان و ایقان ہے کہ مذہب اسلام جیسا کوئی مذہب نہیں،اسلامی اصول جیسا کوئی اصول نہیں،اسلامی تہذیب جیسی کوئی تہذیب نہیں اسلامی نظام زندگی وحسین طرز بندگی کا کسی دھرم میں تصور نہیں!
لیکن جب مسلمانوں کے خودساختہ اصول و تمدن اور شرافت سوز تہذیب کو اسلامی تہذیب کہہ کر اس پر بھرپور ضرب کاری ہوتی ہے تو غیر معمولی اضطرابی کیفیت سے دو چار ہونا پڑتاہے۔
لیکن یہ بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلم معاشرے نے اپنی شفاف تہذیب و ثقافت کو جس بےدردی سے کچلاہے، اپنی گھٹیا افکار و نظریات اور خود ساختہ تہذیب کو دنیا والوں کے سامنے ری پرژینٹ کیا اور اس سے اسلام کے حوالے سے دوسرے سماج و معاشرے پر جو منفی اثرات کا ترتب ہوا اسے بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا!
یقیناً ہم سب جانتے ہیں کہ دشمنوں کے ارادے نہایت ناپاک اور زہر افشاں ہیں کہ وہ مذہب اسلام کے اصولوں کی بیخ کنی کے لیے نالائق و غیر مہذب مسلمانوں کے معاشرتی و تمدنی کمیوں و خرابیوں کا سہارا لیتے ہیں۔
ماقبل کی فلموں میں جس طرح دیگر مذاہب، ان کے دھرم گروؤں، چھوا چھوت کا کلچر،اونچ نیچ کا تصور،منادر کا کرپشن اور ان سے ملحق بےشمار کردار کو فلموں میں فلمایا گیا جس سے سماجی بیداری کا انقلاب برپا ہوگیا،اسی طرح اب مسلم سماج کے تمدنی کرپشن کو فلمایا جارہاہے تو تکلیف تو ہوگی ہی!
مان لیجیے اگر فلم کار مسلمانوں میں فروغ پارہے ذات برادری کے منفی کردار کو فلمائیں،مزارات و مقابر کے کرپشن کو فلمائیں،مدارس کی تعلیمی و تمدنی کلچر اور رشوت و غصب حقوق کو فلمائیں ،مساجد کے نزاعی معاملات اور اراکین کے منصب داری کے جھگڑے کو فلمائیں،مسلم شادی نکاح کے ناپاک جہیزی و غیر شرعی رسم کو فلمائیں،عریانیت و دیوثی اور زنا کے بڑھتے ریشیو کو فلمائیں،تعلیمی پسماندگی و فکری آلودگی کو فلمائیں،باہمی منازعت و مخاصمت کو فلمائیں،بددیانتی ،بےایمانی،چوری چکاری چنڈالی ڈکیتی کو فلمائیں،بہنوں کے غصب حق وراثت کو فلمائیں،والدین و اقربا کی حق تلفی کو فلمائیں،تین طلاق کے ظالمانہ کردار کی قباحت کو فلمائیں،علما کی پسماندگی و غربت اور ان کے بےچارگی و بےکسی کو فلمائیں وغیرہ وغیرہ تو دنیا والوں پر کتنے گہرے منفی اثرات
مرتب ہوں گے؟
اور نتیجتا وہ اسلام کی پاکیزہ و شفاف تعلیمات سے بھی دور ہوں گے اور خود مسلم معاشرے میں اسمی و رسمی اور نیازی و درگاہی مسلمان تو ارتداد کی نذر ہوجائیں گے اور معاشرے میں نفرت و بیزاری کا طوفان برپا ہوجاۓگا،باہمی اعتماد و یقین کا جنازہ نکل جاۓگا،عداوت و منافرت کی آلودہ فضا میں سانس لینا مشکل ہوجاۓ گا۔
لہذا !ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے پابند بنیں،باہمی تعلقات کو وسیع و خوش گوار کریں،کرپشن کو ختم کریں،نور ایمان سے معاشرے کو منور کریں،اغیار کو کوئی معیوب و کمزور موقع فراہم نہ کریں،اپنی سیاسی و معاشرتی قیادت مضبوط کریں،تعلیم کو اہمیت و فوقیت دیں اور ہرمحاذ پر حد درجہ حسن اخلاق و کردار اور پاکیزہ نیت و خلوص کا مظاہرہ کریں۔۔
ان شاءاللہ تعالیٰ دشمن اپنے مقاصد غلیظہ میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔۔۔۔اور یہ بحیثیت مسلمان ہمارا اولین فریضہ بھی ہے جسے نبھانا ہم پر لازم ہے۔
جب تک ہم رجوع الی اللہ کرتے ہوۓ اسلام کے دامن رحمت پناہ میں نہیں آئیں گے تب تک سرخروئی و سرفرازئ دارین کی دولت بےبہا سے مالا مال نہیں ہوسکتے!
اگر یہ چاہیں کہ اسلام مخالف پروپیگنڈہ کو ناکام بنانے کےلیے احتجاج و دھرنا پردرشن ،قانونی چارہ جوئی یا جھگڑا لڑائی کا سہارا لیں گے تو یہ محض حماقت ہے ،اس کے لیے آسان راستہ خود کو اسلام کے سپرد کردینا ہے پھر جتنا زیادہ اسلام مخالف پروپیگنڈہ ہوگا اسلام اتنا ہی برق رفتاری سے اپنے اصلی چہرے کے ساتھ لوگوں تک پہنچے گا اور پھر انقلاب کا نیاسورج طلوع ہوگا۔۔۔۔۔
مسلمانوں سمٹ کر دین کے مرکز پہ آجاؤ
ابھی قدرت کو تم سے خدمت اسلام لیناہے۔
از: عبدالحفیظ علیمی گونڈوی
خطیب و امام سنی حنفی بریلوی جامع مسجد مانخورد ریلوےاسٹیشن بانی و سربراہ "جامعہ مولاۓ کائنات"منڈالہ مانخورد ممبئی ۔۔9838601209..