وہ لڑکے جن سے نکاح کرنے کے بعد لڑکیوں کے لئے پچھتاوا ممکنات میں سے ہے۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
وہ لڑکے جو ہمیشہ والدین کے لاڈ و پیار کے سائے میں پلے ہوں ، ایسے لڑکے نہ دنیاوی نشیب و فراز سے واقف ہوتے ہیں اور نہ دین سیکھے ہوتے ہیں ۔
وہ لڑکے جو ہمیشہ والدین کے لاڈ و پیار کے سائے میں پلے ہوں ، ایسے لڑکے نہ دنیاوی نشیب و فراز سے واقف ہوتے ہیں اور نہ دین سیکھے ہوتے ہیں ۔
جس بنا پر اسکول و کالج کی زندگی غیر شرعی سرگرمیوں سے بھری ملتی ہیں ،یعنی زنا و عیاشیاں وغیرہ ۔
یہ نکاح کے اغراض و مقاصد سے بالکل بے خبر معلوم ہوتے ہیں ۔انکی نظر میں نکاح صرف کونٹریکٹ ہے ،جس میں ایک لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کرنا اور اس کے ساتھ آزادانہ زندگی بسر کرنا معاشرتاً عیب نہیں۔
حالانکہ نکاح کی یہ فیسیلیٹی اس کے لئے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں کیونکہ اس طرح کی زندگی وہ اپنے اسکول و کالج میں گذار چکے ہوتے ہیں۔اور اب بھی گذار رہے تھے ۔پارٹنر کا رد و بدل کرنا ان کے خصائل میں شامل ہوتا ہے ۔آج اس لڑکی کے ساتھ تو کل اس لڑکی کے ساتھ ۔یہ کہنا قبیح نہیں کہ لڑکیاں ان کی نظر میں ٹیشو پیپر یا یوز اینڈ تھرو چائنہ مشین کی مانند ہوتی ہیں ۔
وہ لڑکے ،جو علوم عصریہ و دینیہ ،دونوں سے واقف ہوں ۔ لیکن اپنی زندگی کا فیصلہ بالخصوص ازدواجی معاملات میں خود کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔والدین کے محتاج ہوتے ہیں ۔ اگر اس قابل ہیں بھی کہ وہ خود اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہوں مگر والدین کے دباؤ و غنڈہ گردی کی وجہ سے مسترد کر کے معاملہ ان پر ہی چھوڑ دیں ۔ بتائیں کہ جو لڑکے اپنی زندگی کے فیصلے میں کسی تھرڈ پارٹی کے محتاج ہوں ،وہ میچیوریٹی کی کس لیول پر ہیں ؟ وہ کس قدر ایممیچیور ہیں کہ وہ والدین کے مزاج کے تابع ہیں ؟ جبکہ انسانی فطرت ہے کہ دو انسانوں کے مزاج و فکر میں اختلاف ہوتا ہے ۔ بہر حال اگر اپنے بچولئے پن کی وجہ سے والدین کی پسند کے مطابق نکاح کر لیں تو ممکن ہے کہ زوج و زوجہ کے مابین بے شمار مزاجی اختلافات ہوں ۔جس بنا پر دونوں ایک دوسرے سے بیزار ہونگے اور نتیجہ طلاق کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا ۔
اگر لڑکے ہر اعتبار سے میچیور بھی ہوں ،اور کسی پسند کے بھی حامل ہوں لیکن معاشرتی رنگ میں رنگے والدین کی غنڈہ گردی کی وجہ سے اپنی پسند کو ٹھکرا دیں ۔ جبکہ شریعت مطہرہ نے انہیں حق دیا ہے کہ اپنی پسند کو ترجیح دیں ۔ لیکن وہ جد و جہد میں ناکامیاب رہیں ۔ اب بتائیں کہ ان لڑکے سے مستقبل میں کیا توقع ہو ؟
وہ لڑکے ،جو علوم عصریہ و دینیہ ،دونوں سے واقف ہوں ۔ لیکن اپنی زندگی کا فیصلہ بالخصوص ازدواجی معاملات میں خود کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔والدین کے محتاج ہوتے ہیں ۔ اگر اس قابل ہیں بھی کہ وہ خود اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہوں مگر والدین کے دباؤ و غنڈہ گردی کی وجہ سے مسترد کر کے معاملہ ان پر ہی چھوڑ دیں ۔ بتائیں کہ جو لڑکے اپنی زندگی کے فیصلے میں کسی تھرڈ پارٹی کے محتاج ہوں ،وہ میچیوریٹی کی کس لیول پر ہیں ؟ وہ کس قدر ایممیچیور ہیں کہ وہ والدین کے مزاج کے تابع ہیں ؟ جبکہ انسانی فطرت ہے کہ دو انسانوں کے مزاج و فکر میں اختلاف ہوتا ہے ۔ بہر حال اگر اپنے بچولئے پن کی وجہ سے والدین کی پسند کے مطابق نکاح کر لیں تو ممکن ہے کہ زوج و زوجہ کے مابین بے شمار مزاجی اختلافات ہوں ۔جس بنا پر دونوں ایک دوسرے سے بیزار ہونگے اور نتیجہ طلاق کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا ۔
اگر لڑکے ہر اعتبار سے میچیور بھی ہوں ،اور کسی پسند کے بھی حامل ہوں لیکن معاشرتی رنگ میں رنگے والدین کی غنڈہ گردی کی وجہ سے اپنی پسند کو ٹھکرا دیں ۔ جبکہ شریعت مطہرہ نے انہیں حق دیا ہے کہ اپنی پسند کو ترجیح دیں ۔ لیکن وہ جد و جہد میں ناکامیاب رہیں ۔ اب بتائیں کہ ان لڑکے سے مستقبل میں کیا توقع ہو ؟
اگر خدانخواستہ ساس و بہو کے مابین اختلاف و افتراق ہو تو وہ لڑکے ہینڈل کیوں کر کریں گے ؟ کیا اگر بیوی حق پر ہوگی تو وہ احقاق حق کرنے میں کامیاب ہوگا یا خاطی ماں کی حمایت میں مظلوم بیوی کی مخالفت کرے گا ؟
کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے لڑکے والدین و بہن سے مرعوب ہو کر راہ میں زوجہ کو تنہا چھوڑ دیں ؟
ایسے لڑکے ، جو گھر کے بڑے ہوں مگر نلّا و بے روزگار بھی ، انکے شب و روز آوارہ گیری میں گذرتے ہوں اور انکے چھوٹے بھائی بہن بھی ہوں ۔لیکن اچانک انکی والدہ کسی خطرناک مرض کی مریضہ ہو گئیں ۔ ایسے میں والدہ اپنے عیش و آرام کے لئے سوچتی ہیں کہ ان کی شادی کر دیں تاکہ بہو آ کر گھر کے کام کاج کو سنبھالے ۔ بیٹے کو بھی یہی کہہ کر شادی کے لئے راضی کرواتی ہوں ۔ بتائیں بیٹے کی نظر میں اس کی منکوحہ کی حیثیت کیا ہوگی ؟ وہ زوجہ ہوگی یا کام کرنے والی نوکرانی ؟
ایسے لڑکے ، جو گھر کے بڑے ہوں مگر نلّا و بے روزگار بھی ، انکے شب و روز آوارہ گیری میں گذرتے ہوں اور انکے چھوٹے بھائی بہن بھی ہوں ۔لیکن اچانک انکی والدہ کسی خطرناک مرض کی مریضہ ہو گئیں ۔ ایسے میں والدہ اپنے عیش و آرام کے لئے سوچتی ہیں کہ ان کی شادی کر دیں تاکہ بہو آ کر گھر کے کام کاج کو سنبھالے ۔ بیٹے کو بھی یہی کہہ کر شادی کے لئے راضی کرواتی ہوں ۔ بتائیں بیٹے کی نظر میں اس کی منکوحہ کی حیثیت کیا ہوگی ؟ وہ زوجہ ہوگی یا کام کرنے والی نوکرانی ؟
لڑکے سے لے کر والدین تک کے ذہن اس جانب ڈھل چکے ہیں کہ بہو کام کرنے کے لئے آئے گی ۔ اس کنڈیشن میں شادی کے بعد کیا گارنٹی ہے کہ لڑکی کو عافیت و سکون محسوس ہو ۔
وہ لڑکے ، جو بذات خود یا انکے والدین نکاح کے لئے ایسے خاندان تلاشتے ہوں جو مال کے اعتبار سے ٹھیک ٹھاک ہوں تاکہ بطور جہیز خوب چیزیں حاصل ہوں ۔اور مزید لڑکی انگور کی سی چاہتے ہوں گرچہ خود یا انکی اولادیں لنگور کی سی ہوں ۔ ایسے لوگ نہایت ہی نچلے درجے کے ایممیچیور و لالچی ہوتے ہیں ۔بھلا جو کفو کا خیال نہ کرے اس گھر میں لڑکی بیاہ کر سکون و عافیت کی توقع حماقت نہیں تو کیا ذہانت ہوگی ؟
وہ لڑکے ، جو بذات خود یا انکے والدین نکاح کے لئے ایسے خاندان تلاشتے ہوں جو مال کے اعتبار سے ٹھیک ٹھاک ہوں تاکہ بطور جہیز خوب چیزیں حاصل ہوں ۔اور مزید لڑکی انگور کی سی چاہتے ہوں گرچہ خود یا انکی اولادیں لنگور کی سی ہوں ۔ ایسے لوگ نہایت ہی نچلے درجے کے ایممیچیور و لالچی ہوتے ہیں ۔بھلا جو کفو کا خیال نہ کرے اس گھر میں لڑکی بیاہ کر سکون و عافیت کی توقع حماقت نہیں تو کیا ذہانت ہوگی ؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- محمد آفتاب عالم کولکاتہ انڈیا
کتبہ:- محمد آفتاب عالم کولکاتہ انڈیا