(سوال نمبر 5180)
اگر کوئی شخص گولی مار کر تانگ توڑ دے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متیں اس مسئلہ کے بارہ میں کہ اگر کوئی بندہ کسی کو ٹانگ پر گولی مار دے جس کی وجہ سے اسکی ٹانگ کٹ جائے تو اس پر کیا قصاص لازم آئے گا؟
مہربانی فرما کر اس مسئلہ پر شرعی راہنمائی کیجئے
سائل:- سید حسن علی بخاری شاھدرہ لاہور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں اگر عمدا گولی سے تانگ توڑ دیا ہے اور تانگ جسم سے الگ ہوگیا کسی کام کے نہیں تو قصاص یے اور اگر سہوا توڑ دیا تو دیت یے ۔
١/ قاتل سے خون کا صلہ قیمت عوض لینے کو دیت کہتے ہیں یعنی خون کا بدلہ خون ممکن نہ ہوتا تو قاتل سے مقتول کے ورثا کو تاوان کی شکل میں کچھ مال نقد جنس دلا دیا جائے
واضح رہے پہلے خون بہا کا دستور نہ تھا۔ اسلام نے اسے جائز قرار دیا۔
حضرت عباس نے رضی اللہ عنہ نے قرآن حکیم کی آیت
یا ایھا الذین آمنو کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ الخ (سورۃ بقرہ آیت 188)
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں بھی خون بہا قبول کر لیا جائے۔ اتباع بالمعروف سے مراد یہ ہے کہ دستور کے مطابق طلب کرے اور نہایت اچھے طریقے سے ادا کرے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الدریات)۔
قتل غیر عمد میں ۔قاتل سے دیت لئے جائیں گے قصاص نہیں۔
یاد رہے کہ بغیر عمدکے قتل میں قصاص نہیں دیت ہے۔دوسرے یہ کہ دیت سے دنیاوی معافی ہوجاتی ہے آخرت کے وبال سے بچنے کے لیے کوئی نیکی کرنا چاہیے۔ خیال رہے کہ قتل خطاء بھی جرم ہے کیونکہ یہ قتل بے احتیاطی کی سزا دوزخ ہے (المرأة ج ٥ص ٣٠٠ مكتبة المدينة)
مذکورہ صورت میں جتنے میں مان لے کافی ہے
روایت ہے حضرت عمرو ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو دانستہ قتل کرے تو وہ مقتول کے ولیوں پر پیش کیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو قتل کریں اور اگر چاہیں تو
دیت لے لیں وہ دیت تیس حقہ، تیس جزعہ اور چالیس خلفہ ہیں اور جس چیز پر وہ صلح کرلیں وہ انہیں کی ہے (ترمذی)
٢/ شریعت میں قصاص سے مراد برابر بدلہ ہے۔ یعنی جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانٹ کے بدلے دانت۔ یعنی جیسا کوئی کسی پر جرم کرے اسے ویسی ہی سزا دی جائے۔ قِصَاصٌ کسی جرم یا کسی کام کا بدلہ یعنی کام کے آثار کا پیچھا کرتے ہوئے کام کرنے والے تک پہنچنا ‘ تاکہ اس کے ساتھ بھی وہی کام کیا جائے
حدیث پاک میں ہے
سیدنا عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے مگر تین میں سے ایک سبب سے (قصاص میں) جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی، اپنے دین کو چھوڑنے والا، جماعت کو ترک کردینے والا لایا بخاری (کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ : إن النفس بالنفس)
حدیث پاک میں ہے
عن ابن عباس رضي اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تجاوز اللہ عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ ،وہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ۔
(مستدرک حاکم ۲: ۱۹۸، مطبوعہ: دارالمعرفة بیروت)
آقا علیہ السلام نے فرما یا
اللہ تعالی نے میری امت کی غلطیوں اور بھول بھلیوں اور جو وہ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اسے معاف کر دیا ہے ۔
درمختار مع الشامی،
والزنا الموجب للحد وطء․․․ مکلف خرج الصبي والمعتوہ ناطق․․․ طائع في قبل مشتہاة حالا أو ماضیا خرج المکرہ،
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
قتل عمد کا حکم یہ ہے کہ ایسا شخص نہایت سخت گنہگار ہے۔ کفر کے بعد تمام گناہوں
میں سب سے بڑا گناہ ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا،
(1)( پ ۵ ،ع ۱۰)
جو کسی مومن کو قصداً قتل کرے اس کی سزا جہنم میں مدتوں رہنا ہے،
قتل عمد کی سزا دنیا میں فقط قصاص ہے یعنی یہی متعین ہے۔ ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کر دیں یا قاتل سے مال لے کر مصالحت کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے مگر بغیر مرضی قاتل اگر مال لینا چاہیں تونہیں ہو سکتا۔ یعنی قاتل اگر قصاص کو کہے تو اولیائے مقتول اس سے مال نہیں لے سکتے۔ مال پر مصالحت کی صورت میں دیت کی برابر یا کم یا زیادہ تینوں صورتیں جائز ہیں ۔ یعنی مال لینے کی صورت میں یہ ضرور نہیں کہ دیت سے زیادہ نہ ہو اور جس مال پر صلح ہوئی وہ دیت کی قسم سے ہو یا دوسری جنس سے ہو دونوں صورتوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ (بهار ح ١٧ص ٧٥٦ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اگر کوئی شخص گولی مار کر تانگ توڑ دے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متیں اس مسئلہ کے بارہ میں کہ اگر کوئی بندہ کسی کو ٹانگ پر گولی مار دے جس کی وجہ سے اسکی ٹانگ کٹ جائے تو اس پر کیا قصاص لازم آئے گا؟
مہربانی فرما کر اس مسئلہ پر شرعی راہنمائی کیجئے
سائل:- سید حسن علی بخاری شاھدرہ لاہور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں اگر عمدا گولی سے تانگ توڑ دیا ہے اور تانگ جسم سے الگ ہوگیا کسی کام کے نہیں تو قصاص یے اور اگر سہوا توڑ دیا تو دیت یے ۔
١/ قاتل سے خون کا صلہ قیمت عوض لینے کو دیت کہتے ہیں یعنی خون کا بدلہ خون ممکن نہ ہوتا تو قاتل سے مقتول کے ورثا کو تاوان کی شکل میں کچھ مال نقد جنس دلا دیا جائے
واضح رہے پہلے خون بہا کا دستور نہ تھا۔ اسلام نے اسے جائز قرار دیا۔
حضرت عباس نے رضی اللہ عنہ نے قرآن حکیم کی آیت
یا ایھا الذین آمنو کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ الخ (سورۃ بقرہ آیت 188)
کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں بھی خون بہا قبول کر لیا جائے۔ اتباع بالمعروف سے مراد یہ ہے کہ دستور کے مطابق طلب کرے اور نہایت اچھے طریقے سے ادا کرے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الدریات)۔
قتل غیر عمد میں ۔قاتل سے دیت لئے جائیں گے قصاص نہیں۔
یاد رہے کہ بغیر عمدکے قتل میں قصاص نہیں دیت ہے۔دوسرے یہ کہ دیت سے دنیاوی معافی ہوجاتی ہے آخرت کے وبال سے بچنے کے لیے کوئی نیکی کرنا چاہیے۔ خیال رہے کہ قتل خطاء بھی جرم ہے کیونکہ یہ قتل بے احتیاطی کی سزا دوزخ ہے (المرأة ج ٥ص ٣٠٠ مكتبة المدينة)
مذکورہ صورت میں جتنے میں مان لے کافی ہے
روایت ہے حضرت عمرو ابن شعیب سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو دانستہ قتل کرے تو وہ مقتول کے ولیوں پر پیش کیا جائے گا اگر وہ چاہیں تو قتل کریں اور اگر چاہیں تو
دیت لے لیں وہ دیت تیس حقہ، تیس جزعہ اور چالیس خلفہ ہیں اور جس چیز پر وہ صلح کرلیں وہ انہیں کی ہے (ترمذی)
٢/ شریعت میں قصاص سے مراد برابر بدلہ ہے۔ یعنی جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال، آنکھ کے بدلے آنکھ، دانٹ کے بدلے دانت۔ یعنی جیسا کوئی کسی پر جرم کرے اسے ویسی ہی سزا دی جائے۔ قِصَاصٌ کسی جرم یا کسی کام کا بدلہ یعنی کام کے آثار کا پیچھا کرتے ہوئے کام کرنے والے تک پہنچنا ‘ تاکہ اس کے ساتھ بھی وہی کام کیا جائے
حدیث پاک میں ہے
سیدنا عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہے مگر تین میں سے ایک سبب سے (قصاص میں) جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی، اپنے دین کو چھوڑنے والا، جماعت کو ترک کردینے والا لایا بخاری (کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ : إن النفس بالنفس)
حدیث پاک میں ہے
عن ابن عباس رضي اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تجاوز اللہ عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ ،وہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ۔
(مستدرک حاکم ۲: ۱۹۸، مطبوعہ: دارالمعرفة بیروت)
آقا علیہ السلام نے فرما یا
اللہ تعالی نے میری امت کی غلطیوں اور بھول بھلیوں اور جو وہ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اسے معاف کر دیا ہے ۔
درمختار مع الشامی،
والزنا الموجب للحد وطء․․․ مکلف خرج الصبي والمعتوہ ناطق․․․ طائع في قبل مشتہاة حالا أو ماضیا خرج المکرہ،
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
قتل عمد کا حکم یہ ہے کہ ایسا شخص نہایت سخت گنہگار ہے۔ کفر کے بعد تمام گناہوں
میں سب سے بڑا گناہ ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا،
(1)( پ ۵ ،ع ۱۰)
جو کسی مومن کو قصداً قتل کرے اس کی سزا جہنم میں مدتوں رہنا ہے،
قتل عمد کی سزا دنیا میں فقط قصاص ہے یعنی یہی متعین ہے۔ ہاں اگر اولیائے مقتول معاف کر دیں یا قاتل سے مال لے کر مصالحت کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے مگر بغیر مرضی قاتل اگر مال لینا چاہیں تونہیں ہو سکتا۔ یعنی قاتل اگر قصاص کو کہے تو اولیائے مقتول اس سے مال نہیں لے سکتے۔ مال پر مصالحت کی صورت میں دیت کی برابر یا کم یا زیادہ تینوں صورتیں جائز ہیں ۔ یعنی مال لینے کی صورت میں یہ ضرور نہیں کہ دیت سے زیادہ نہ ہو اور جس مال پر صلح ہوئی وہ دیت کی قسم سے ہو یا دوسری جنس سے ہو دونوں صورتوں میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ (بهار ح ١٧ص ٧٥٦ مكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/11/2023
21/11/2023