سلسلہ وار قسط پنجم کا نصف اول
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
صدقات واجبہ کو مدرسہ میں خرچ کرنے کے لئے حیلہ شرعی کے بعض جائز طریقے۔
جن مدرسہ میں طلباء کو کھانا دیا جاتا ہے وہاں حیلہ شرعی کرنے کا طریقہ اس کی کئی صورتیں ہیں
(1) پہلا یہ ہے کہ مدرسہ کے اسٹور روم سے غلے نکال کر کھانا پکا کر طلباء کو کھلانا تو یہ طریقہ شرعاً جائز نہیں ہے ۔کیونکہ اس صورت میں اباحت ہے ملک و ملکیت نہیں ہے امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ,اس میں /یعنی مدرسہ میں /مال اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مہتمم اس مال کو جدا رکھے اور خاص تملیک فقیر کے مصارف کرے ۔مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جاسکتی ۔نہ مدرسہ کی تعمیر یا مرمت یا فرش وغیرہ میں صرف ہوسکتی ۔نہ یہ ہوسکتا ہے کہ جن طلباء کو مدرسہ سے کھانا دیا جاتا ہے اس روپے سے کھانا پکاکر ان کو کھلایا جائے کہ یہ صورت اباحت ہے اور زکوۃ میں تملیک لازم ہے ہاں یوں کرسکتے ہیں کہ جن طلباء کو کھانا دیا جاتا ہے ان کو نقد روپیہ بہ نیت زکوۃ دے کر مالک کردیں پھر وہ اپنے کھانے کے لئے واپس دیں یا جن طلباء کا وظیفہ نہ اجرۃ بلکہ محض بطور امداد ہے ان کے وظیفہ میں دیں یا کتابیں خرید کر طلبہ کو ان کا مالک کردیں ۔ہاں اگر روپیہ بہ نیت زکوۃ کسی مصرف زکوۃ دے کر مالک کردیں وہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے تو تنخواہ مدرسین و ملازمین وغیرہ جملہ مصارف مدرسہ میں صرف ہوسکتا ہے۔
صدقات واجبہ کو مدرسہ میں خرچ کرنے کے لئے حیلہ شرعی کے بعض جائز طریقے۔
جن مدرسہ میں طلباء کو کھانا دیا جاتا ہے وہاں حیلہ شرعی کرنے کا طریقہ اس کی کئی صورتیں ہیں
(1) پہلا یہ ہے کہ مدرسہ کے اسٹور روم سے غلے نکال کر کھانا پکا کر طلباء کو کھلانا تو یہ طریقہ شرعاً جائز نہیں ہے ۔کیونکہ اس صورت میں اباحت ہے ملک و ملکیت نہیں ہے امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ,اس میں /یعنی مدرسہ میں /مال اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مہتمم اس مال کو جدا رکھے اور خاص تملیک فقیر کے مصارف کرے ۔مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جاسکتی ۔نہ مدرسہ کی تعمیر یا مرمت یا فرش وغیرہ میں صرف ہوسکتی ۔نہ یہ ہوسکتا ہے کہ جن طلباء کو مدرسہ سے کھانا دیا جاتا ہے اس روپے سے کھانا پکاکر ان کو کھلایا جائے کہ یہ صورت اباحت ہے اور زکوۃ میں تملیک لازم ہے ہاں یوں کرسکتے ہیں کہ جن طلباء کو کھانا دیا جاتا ہے ان کو نقد روپیہ بہ نیت زکوۃ دے کر مالک کردیں پھر وہ اپنے کھانے کے لئے واپس دیں یا جن طلباء کا وظیفہ نہ اجرۃ بلکہ محض بطور امداد ہے ان کے وظیفہ میں دیں یا کتابیں خرید کر طلبہ کو ان کا مالک کردیں ۔ہاں اگر روپیہ بہ نیت زکوۃ کسی مصرف زکوۃ دے کر مالک کردیں وہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے تو تنخواہ مدرسین و ملازمین وغیرہ جملہ مصارف مدرسہ میں صرف ہوسکتا ہے۔
فتاویٰ رضویہ جلد جدید 10ص 254)
حیلہ شرعی کا طریقہ
حیلہ شرعی کا طریقہ
طریقہ دوئم کسی مصرف زکوۃ معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے /یعنی بات مان لیں /اس کو مال زکوۃ سے کچھ روپے بہ نیت زکاۃ دے کر مالک کردے ۔پھر اس سے کہے کہ تم اپنی طرف سے فلاں سید ۔یا فلاں مدرسہ یا فلاں مسجد کی نذر کردو ۔اس میں دونوں مقصود حاصل ہوجائیں گے کہ زکوۃ تو اس فقیر کو گئی اور یہ جو سید نے یا مدرسہ نے پایا وہ اس کی طرف سے نذرانہ ۔یبہ ہوا ۔اور اس طرح زکوۃ دینے والے کا فرض ادا ہوگیا اور اس فقیر کو خدمت سید یا مدرسہ کو دینے کا کامل ثواب زکوۃ دینے والے اور اس فقیر دونوں کو ملا مگر اس طرح حیلہ شرعی میں دقت اتنی ہے کہ اگر اس نے نہ مانا یعنی اس فقیر نے وہ رقم مدرسہ کو نہیں دیا یا جس کام میں دینے کو کہا اس میں نہیں دیا تو اسے کوئی راہ جبر کی نہیں یعنی اس فقیر پر سختی یا زبردستی دینے کے لئے جبر نہیں کرسکتے کیونکہ آخر وہ اس مال کا مالک مستقل ہوچکا اسے اختیار ہے چاہے دے یا نہ دے
حیلہ شرعی کرتے وقت یہ کہنا کہ یہ روپیہ یا یہ غلہ مدرسہ کو دے دو تو اس طرح حیلہ شرعی کرنا کیا جائز ہوگا؟
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
حیلہ شرعی کرتے وقت یہ کہنا کہ یہ روپیہ یا یہ غلہ مدرسہ کو دے دو تو اس طرح حیلہ شرعی کرنا کیا جائز ہوگا؟
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
رقم زکوۃ کسی فقیر کو حیلہ شرعی کرنے کے لئے اس شرط پر دے کہ اس روپیہ یا غلہ کو مدرسہ یا مسجد میں دے دو یہ جائز ہے ۔حضور صدرالشریعہ مفتی امجد علی رضوی صاحب رحمتہ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کہ زکاۃ کسی مسکین کو اس شرط پر دے کر یہ کہنا کہ یہ روپیہ زید کو دیدوکہ زید کسی نیک کام یا جہاں مناسب سمجھے صرف کرے ۔کیا ایسی صورت میں اہل زکاۃ کی زکاۃ اس حیلہ سے جائز ہو جائے گی؟ کہ جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ،زکوۃ کا روپیہ حیلہ شرعی سے نیک کام میں صرف کرنا جائز ہے ۔مثلا فقیر کو روپیہ دے کر اسے مالک کردیا پھر اس فقیر نے اس کے کہنے سے یا بطور خود یا مسجد کے مصارف کے لئے دیا ۔یا اس کو دوسری جنس کم قیمت سے خرید کر مدرسہ میں صرف کیا گیا تو زکوۃ ادا ہو جائے گی ۔بلکہ دونوں کو ثواب ہوگا۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد اول ص 388)
حیلہ کرتے وقت یہ کہنا کہ واپس دے دینا ۔یا مت رکھنا کہنا کیسا ہے؟
یہ شرط فاسد ہے لیکن حیلہ شرعی صحیح ہو جائے گا اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی
شرح بہار شریعت میں ہے کہ ۔حیلہ کرے وقت شرعی فقیر کو یہ نہ کہے کہ واپس دے دینا۔رکھ مت لینا وغیرہ وغیرہ ۔بالفرض ایسا کہ بھی دیا تب بھی زکوۃ کی ادائیگی اور حیلہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ صدقات و و زکوۃ اور تحفہ دینے میں اس قسم کے شرطیہ الفاظ فاسد ہیں ۔اعلی حضرت امام اہل سنت مجددین و ملت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی علیہ رحمتہ الرحمن فتاوی شامی کے حوالہ سے فرماتے ہیں۔ہبہ اور صدقہ شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتے۔
یہ شرط فاسد ہے لیکن حیلہ شرعی صحیح ہو جائے گا اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی
شرح بہار شریعت میں ہے کہ ۔حیلہ کرے وقت شرعی فقیر کو یہ نہ کہے کہ واپس دے دینا۔رکھ مت لینا وغیرہ وغیرہ ۔بالفرض ایسا کہ بھی دیا تب بھی زکوۃ کی ادائیگی اور حیلہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ صدقات و و زکوۃ اور تحفہ دینے میں اس قسم کے شرطیہ الفاظ فاسد ہیں ۔اعلی حضرت امام اہل سنت مجددین و ملت مولانا شاہ احمد رضا خان بریلوی علیہ رحمتہ الرحمن فتاوی شامی کے حوالہ سے فرماتے ہیں۔ہبہ اور صدقہ شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتے۔
(شرح بہار شریعت جلد پنجم ص 134بحوالہ فتاوی رضویہ جلد جدید 10 ص 108)
اور تلخیص فتاوی رضویہ میں ہے کہ پھر زکاۃ صدقہ ہے اور صدقہ شرط فاسد سے فاسد نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ شرط ہی فاسد ہوجاتی ہے مثلا۔زکاۃ دی اور یہ شرط کرلی کہ یہاں رہےگا تو دونگا ورنہ نہ دونگا ۔یا اس شرط پر دیتا ہوں کہ تو یہ روپیہ فلاں کام میں صرف کرے اس کی مسجد بنادے یا کفن اموات میں اٹھادے تو قطعا زکاۃ ادا ہو جائے گی اور یہ بچ شرطیں سب باطل و مہمل ٹھریں گی۔
(تلخیص فتاوی رضویہ جلد سوم ص 44بحوالہ ۔فتاوع رضویہ کامل ج 8ص 21)
اس سے معلوم ہوا کہ حیلہ کرنے کے پہلے اس فقیر شرعی کو کہ سکتے ہیں کہ یہ رقم مدرسہ میں اپنی طرف سے بخوشی دے دو اگر نہیں دیا تو زبردستی نہیں کرسکتے
چند طلباء کو بلاکر یا ایک طالب علم کو بلاکر یہ کہنا کہ یہ زکوۃ کا روپیہ ہے اس کو تم مدرسہ میں دے دو کیا اس طرح کہنے سے حیلہ شرعی ہوجائے گا؟
الجواب صرف اس طرح کہ دینے سے حیلہ شرعی صحیح نہیں ہوگا کیونکہ اس میں تملیک نہیں پائی گئی ہاں اس کے ہاتھ میں دے کر اس کو اس پر قبضہ کرایا جائے حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجدی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ"زکوۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے لہذا طلباء سے یہ کہنا کہ یہ مال زکوۃ ہے اسے مدرسہ میں دے دو اور انہوں نے دے دیا صحیح نہیں بلکہ نادار بالغ طلباء کو مال زکوۃ دیدیا جائے اور وہ لوگ اس پر قبضہ کر لیں پھر بخوشی مدرسہ میں دے دیں ۔اگر طلباء نابالغ ہوں گے تو ان کا مدرسہ میں دینا شرعاً صحیح نہیں اگر دیں گے تو اس مال کا مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں۔
چند طلباء کو بلاکر یا ایک طالب علم کو بلاکر یہ کہنا کہ یہ زکوۃ کا روپیہ ہے اس کو تم مدرسہ میں دے دو کیا اس طرح کہنے سے حیلہ شرعی ہوجائے گا؟
الجواب صرف اس طرح کہ دینے سے حیلہ شرعی صحیح نہیں ہوگا کیونکہ اس میں تملیک نہیں پائی گئی ہاں اس کے ہاتھ میں دے کر اس کو اس پر قبضہ کرایا جائے حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجدی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ"زکوۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے لہذا طلباء سے یہ کہنا کہ یہ مال زکوۃ ہے اسے مدرسہ میں دے دو اور انہوں نے دے دیا صحیح نہیں بلکہ نادار بالغ طلباء کو مال زکوۃ دیدیا جائے اور وہ لوگ اس پر قبضہ کر لیں پھر بخوشی مدرسہ میں دے دیں ۔اگر طلباء نابالغ ہوں گے تو ان کا مدرسہ میں دینا شرعاً صحیح نہیں اگر دیں گے تو اس مال کا مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں۔
(فتاوی فیض رسول جلد اول ص 490 بحوالہ فتاوی عالمگیری جلد اول ص 178)
وہ اس لئے صحیح نہیں ہے کہ زکوۃ میں فقیر کو مالک کرنا ضروری ہے ۔اگر تملیک نہ ہو یا فقیر کو مالک نہ کیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی لہذا صرف یہ کہنا کہ اسے مدرسہ میں دے دو جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں ملک و ملکیت پائی نہیں گئی ۔ ہاں اس کے ہاتھ میں بنیت زکوۃ روپے دے کر اسے قبضہ کراکر مالک بنادیا جائے پھر طالب علم بچوں کے اور مدرسین و ملازمین کے کھانے کے لئے مدرسہ میں دے دے تب صحیح ہوگا اسی طرح اجناس بھی اس پر بھی قبضہ و مالک بنادیا جائے پھر وہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے تو اس سے زکوۃ ادا ہو جائے گی
اور امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔طلبہ اگر صاحب نصاب نہ ہوں انہیں زکوۃ دی جاسکتی ہے بلکہ انہیں دینا افضل ہے جب کہ وہ طلبہ علم دین بطور دین پڑھتے ہوں /تلخیص فتاوی رضویہ جلد سوم ص 110/ اس سے معلوم ہوا کہ وہ طلبہ جو علم دین بطور دین پڑھتے ہوں انہیں زکوۃ دینا افضل ہے نہ کہ علم دنیا پڑھنے والے طلبہ کو مثلا بی اے کرنے والے ۔میڈیکل کرنے والے انجینیرنگ کرنے والے کو اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہ بھی ہے کہ مدرسہ یا کہی بھی کمپیوٹر /computer, لگانے میں بھی رقم زکوۃ نہیں دے سکتے اور نہ اس کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لے سکتے ہیں کیونکہ یہ علم دین میں سے نہیں ہے یہ دنیا کمانے کا ذریعہ و ہنر ہے اور اس کورس کو نہ کرنے سے مدرسہ بھی بند نہیں ہوسکتا ۔ ۔ ہاں اس کورس سے ایک فائدہ یہ ہے کہ کمپیوٹر کورس کرنے کے بعد دینی کتابیں کمپوز کرسکتے ہیں اس میں دینی کتابیں محفوظ کرسکتے ہیں اس لئے اس کا کورس کرنا اور مدرسہ میں انتظام کرنا جائز ہے لیکن اس کے لئے صدقہ نافلہ خرچ کیا جاسکتا ہے یعنی عوامی چندہ سے اس کام کو انجام دیا جائیں اس میں حیلہ شرعی کا سہارا نہیں لیا جائے کیونکہ دین کی بقاء کے لئے دینی مدارس کا وجود ضروری ہے /نہ کہ کمپیوٹر کا / ۔اگر اس /یعنی مدرسہ /کا مدار صرف عطیات و خیرات پر رکھا جائے ۔تو مدارس کا خدا حافظ۔اس لئے بضرورت حیلہ شرعی کرنے کے بعد زکوۃ و صدقہ فطر کی رقوم مدارس میں صرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔اور یہ اپنی جگہ ثابت جو حکم بضرورت ہوتا ہے وہ قدر ضرورت سے متجاوز نہیں ہوتا۔
وہ اس لئے صحیح نہیں ہے کہ زکوۃ میں فقیر کو مالک کرنا ضروری ہے ۔اگر تملیک نہ ہو یا فقیر کو مالک نہ کیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی لہذا صرف یہ کہنا کہ اسے مدرسہ میں دے دو جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں ملک و ملکیت پائی نہیں گئی ۔ ہاں اس کے ہاتھ میں بنیت زکوۃ روپے دے کر اسے قبضہ کراکر مالک بنادیا جائے پھر طالب علم بچوں کے اور مدرسین و ملازمین کے کھانے کے لئے مدرسہ میں دے دے تب صحیح ہوگا اسی طرح اجناس بھی اس پر بھی قبضہ و مالک بنادیا جائے پھر وہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے تو اس سے زکوۃ ادا ہو جائے گی
اور امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔طلبہ اگر صاحب نصاب نہ ہوں انہیں زکوۃ دی جاسکتی ہے بلکہ انہیں دینا افضل ہے جب کہ وہ طلبہ علم دین بطور دین پڑھتے ہوں /تلخیص فتاوی رضویہ جلد سوم ص 110/ اس سے معلوم ہوا کہ وہ طلبہ جو علم دین بطور دین پڑھتے ہوں انہیں زکوۃ دینا افضل ہے نہ کہ علم دنیا پڑھنے والے طلبہ کو مثلا بی اے کرنے والے ۔میڈیکل کرنے والے انجینیرنگ کرنے والے کو اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہ بھی ہے کہ مدرسہ یا کہی بھی کمپیوٹر /computer, لگانے میں بھی رقم زکوۃ نہیں دے سکتے اور نہ اس کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لے سکتے ہیں کیونکہ یہ علم دین میں سے نہیں ہے یہ دنیا کمانے کا ذریعہ و ہنر ہے اور اس کورس کو نہ کرنے سے مدرسہ بھی بند نہیں ہوسکتا ۔ ۔ ہاں اس کورس سے ایک فائدہ یہ ہے کہ کمپیوٹر کورس کرنے کے بعد دینی کتابیں کمپوز کرسکتے ہیں اس میں دینی کتابیں محفوظ کرسکتے ہیں اس لئے اس کا کورس کرنا اور مدرسہ میں انتظام کرنا جائز ہے لیکن اس کے لئے صدقہ نافلہ خرچ کیا جاسکتا ہے یعنی عوامی چندہ سے اس کام کو انجام دیا جائیں اس میں حیلہ شرعی کا سہارا نہیں لیا جائے کیونکہ دین کی بقاء کے لئے دینی مدارس کا وجود ضروری ہے /نہ کہ کمپیوٹر کا / ۔اگر اس /یعنی مدرسہ /کا مدار صرف عطیات و خیرات پر رکھا جائے ۔تو مدارس کا خدا حافظ۔اس لئے بضرورت حیلہ شرعی کرنے کے بعد زکوۃ و صدقہ فطر کی رقوم مدارس میں صرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔اور یہ اپنی جگہ ثابت جو حکم بضرورت ہوتا ہے وہ قدر ضرورت سے متجاوز نہیں ہوتا۔
(حاشیہ فتاوی امجدیہ جلد اول ص 372)
لہذا زکوۃ و دیگر صدقات واجبہ کی رقم حیلہ کے بعد بھی دنیوی اسکول کالج اور دنیاوی کاموں وغیرہ میں صرف کی اجازت نہیں ہوگی اسی طرح کمپیوٹر کورس کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے اس میں خرچ کرنا زیادہ سے زیادہ امر جائز کام میں صرف ہوگا اور ناجائز تو ناجائز اور ناجائز کام کی اجازت بھی نہیں ہے بلکہ ہر جائز کام کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لینا جائز نہیں صرف نیک کاموں کے لئے جیسے علم دین کہ علم دین سیکھنا فرض ہے
حاشیہ فتاوی امجدیہ میں ہے کہ ۔دینی مدارس اور مصرف زکوۃ میں قدرمشترک مصرف خیر ہے ۔فقیر کو دینا بھی کارخیر اور دینی مدارس میں صرف بھی کارخیر ۔ اور اسکول کالج میں صرف کرنا کار خیر میں صرف نہیں ۔زیادہ سے زیادہ امر مباح ہوگا ۔جو ہمہ وجوہ کارخانہ دنیا ہے /ص372/اسی طرح یہ کورس بھی کار دنیا ہے علماء فرماتے ہیں کہ مسجد کے لئے بھی حیلہ شرعی کا سہارا نہیں لیا جائے جب کہ مسجد بنانا کثیر ثواب کا کام ہے جس نے دنیا میں مسجد بنایا خدا تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا
حیلہ شرعی جس فقیر سے کیا جائے اور اگر شک ہوکہ یہ بھروسہ مند نہیں ہے تو اس کےلئے ایک آسان طریقہ یعنی حیلہ شرعی کے لئے بھروسے کا آدمی نہ مل سکے تو اس کے لئےسب سے بہتر طریقہ
اگر بھروسے کا کوئی آدمی نہ مل سکے تو اس کا ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ اگر پانچ ہزار روپے زکوۃ بنتی ہو /یا جتنا روپے یا اجناس /تو کسی شرعی فقیر کے ہاتھ کوئی چیز مثلا چند کلو گندم /,,یا کوئی چیز مثلا قلم یا۔کچھ روپیے ۔یاکوئی کم قیمت والی چیز / پانچ ہزار کی بیچی جائے اور اسے سمجھا دیا جائے کہ اس کی قیمت تمہیں نہیں دینی پڑے گی بلکہ ہم تمہیں رقم دیں گے اسی سے ادا کردینا ۔جب وہ بیع قبول کرلے تو گندم/یا جو بھی سامان ہوں/ اسے دےدی جائے ۔اس طرح وہ آپ کا پانچ ہزار کا مقروض ہوگیا ۔اب اسے پانچ ہزار روپے زکوۃ کی مد میں دیں جب وہ اس پر قبضہ کرلے تو زکوۃ ادا ہوگئی ۔پھر آپ گندم کی قیمت کے طور پر وہ پانچ ہزار روپے واپس لے لیں / جو سامان ہو /۔اگر وہ دینے سے انکار کرے تو جبرا /زبردستی /بھی لے سکتے ہیں کیونکہ قرض زبردستی بھی وصول کیا جاسکتا ہے شرح بہار شریعت جلد پنجم ص 135/
سوال کیا ہر خیر کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لیا جاسکتا ہے؟
الجواب اس بات کو ذہن میں بیٹھا لیں کہ فقہاء کرام نے اہم ترین ضرورت و مجبوری کی وجہ سے مدارس عربیہ کے لئے حیلہ شرعی کی اجازت ہے نہ کہ ہر دینی کام مثلا تعمیر مسجد۔جلسہ وجلوس ۔قرات قرآن اور نعتیہ مقابلہ وغیرہ کے لئے۔
حاشیہ فتاوی امجدیہ میں ہے کہ ۔دینی مدارس اور مصرف زکوۃ میں قدرمشترک مصرف خیر ہے ۔فقیر کو دینا بھی کارخیر اور دینی مدارس میں صرف بھی کارخیر ۔ اور اسکول کالج میں صرف کرنا کار خیر میں صرف نہیں ۔زیادہ سے زیادہ امر مباح ہوگا ۔جو ہمہ وجوہ کارخانہ دنیا ہے /ص372/اسی طرح یہ کورس بھی کار دنیا ہے علماء فرماتے ہیں کہ مسجد کے لئے بھی حیلہ شرعی کا سہارا نہیں لیا جائے جب کہ مسجد بنانا کثیر ثواب کا کام ہے جس نے دنیا میں مسجد بنایا خدا تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا
حیلہ شرعی جس فقیر سے کیا جائے اور اگر شک ہوکہ یہ بھروسہ مند نہیں ہے تو اس کےلئے ایک آسان طریقہ یعنی حیلہ شرعی کے لئے بھروسے کا آدمی نہ مل سکے تو اس کے لئےسب سے بہتر طریقہ
اگر بھروسے کا کوئی آدمی نہ مل سکے تو اس کا ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ اگر پانچ ہزار روپے زکوۃ بنتی ہو /یا جتنا روپے یا اجناس /تو کسی شرعی فقیر کے ہاتھ کوئی چیز مثلا چند کلو گندم /,,یا کوئی چیز مثلا قلم یا۔کچھ روپیے ۔یاکوئی کم قیمت والی چیز / پانچ ہزار کی بیچی جائے اور اسے سمجھا دیا جائے کہ اس کی قیمت تمہیں نہیں دینی پڑے گی بلکہ ہم تمہیں رقم دیں گے اسی سے ادا کردینا ۔جب وہ بیع قبول کرلے تو گندم/یا جو بھی سامان ہوں/ اسے دےدی جائے ۔اس طرح وہ آپ کا پانچ ہزار کا مقروض ہوگیا ۔اب اسے پانچ ہزار روپے زکوۃ کی مد میں دیں جب وہ اس پر قبضہ کرلے تو زکوۃ ادا ہوگئی ۔پھر آپ گندم کی قیمت کے طور پر وہ پانچ ہزار روپے واپس لے لیں / جو سامان ہو /۔اگر وہ دینے سے انکار کرے تو جبرا /زبردستی /بھی لے سکتے ہیں کیونکہ قرض زبردستی بھی وصول کیا جاسکتا ہے شرح بہار شریعت جلد پنجم ص 135/
سوال کیا ہر خیر کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لیا جاسکتا ہے؟
الجواب اس بات کو ذہن میں بیٹھا لیں کہ فقہاء کرام نے اہم ترین ضرورت و مجبوری کی وجہ سے مدارس عربیہ کے لئے حیلہ شرعی کی اجازت ہے نہ کہ ہر دینی کام مثلا تعمیر مسجد۔جلسہ وجلوس ۔قرات قرآن اور نعتیہ مقابلہ وغیرہ کے لئے۔
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد 1ص،305)
ہر خیر میں صدقہ نافلہ خرچ کرسکتے ہیں اسی لئے ہر خیر کام کے لئے صدقات واجبہ کو خرچ کرنے کے لئےحیلہ شرعی کا سہارا نہیں لے سکتے ہیں فتاوی فقیہ ملت میں ہے زکاۃ و فطرہ اور دیگر صدقات واجبہ۔ کے اصل مستحقین فقراء وغیرہ ہیں ۔لیکن وہ مدارس عربیہ جن سے دین کی بقاء تحفظ وابستہ ہے اگر ان میں زکوۃ کی رقم صرف نہ کی جائے تو وہ مدارس بند ہو جائیں گے ۔جس کے سبب اسلام کو بڑا نقصان پہنچے گا تو اس ۔ اہم ترین ضرورت و مجبوری کی وجہ سے فقہاء کرام نے مدارس عربیہ کے لئے حیلہ کی اجازت دی ہے نہ کہ ہر دینی کام مثلا تعمیر مسجد ۔جلسہ و جلوس ۔قرات قرآن اور نعتیہ مقابلہ وغیرہ کے لئے (فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول ص ص305)
حضور شارح بخاری فرماتے ہیں کہ بلا ضرورت شرعیہ زکوۃ وفطرکی رقم مستحقین کے علاؤہ میں صرف کرنا سخت مذموم ہے خصوصا غیر دینی کاموں میں
کیونکہ اس میں فقراء و مساکین کی حق تلفی ہوگی ۔امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ۔اغنیاء کثیرالمال شکر نعمت بجا لائیں ۔ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیوی آسائش یا ظاہری آرائش میں اٹھانے والے مصارف خیر میں حیلوں کی آڑ نہ لیں فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 396/ لہذا زکوۃ جو ڈھائی فیصد غرباء ومساکین کا حق ہے وہ اسے ان لوگوں تک پہنچنے دیں اور ساڑھے ستانوے فیصد جو زکاۃ دینے والوں کے پاس بچتا ہے۔اس میں سے کچھ خیر کاموں میں لگائیں اور غریبوں کا حق نہ ماریں یعنی زکوۃ ایک ہزار /1000/میں 25روہے نکالنا ہے وہ مصارف زکوۃ کر دی جائیں اور /. نو سو ساڑھے ستانوے روپے /997.50روپے جو زکوۃ دینے والے کے پاس بچ گیا اس میں سے اپنی ضروریات اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کریں اور جمع کریں
کیونکہ اس میں فقراء و مساکین کی حق تلفی ہوگی ۔امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ۔اغنیاء کثیرالمال شکر نعمت بجا لائیں ۔ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیوی آسائش یا ظاہری آرائش میں اٹھانے والے مصارف خیر میں حیلوں کی آڑ نہ لیں فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 396/ لہذا زکوۃ جو ڈھائی فیصد غرباء ومساکین کا حق ہے وہ اسے ان لوگوں تک پہنچنے دیں اور ساڑھے ستانوے فیصد جو زکاۃ دینے والوں کے پاس بچتا ہے۔اس میں سے کچھ خیر کاموں میں لگائیں اور غریبوں کا حق نہ ماریں یعنی زکوۃ ایک ہزار /1000/میں 25روہے نکالنا ہے وہ مصارف زکوۃ کر دی جائیں اور /. نو سو ساڑھے ستانوے روپے /997.50روپے جو زکوۃ دینے والے کے پاس بچ گیا اس میں سے اپنی ضروریات اور دوسرے نیک کاموں میں خرچ کریں اور جمع کریں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
سلسلہ وار قسط پنجم کا نصف آخر
سلسلہ وار قسط پنجم کا نصف آخر
حیلہ شرعی کے بعض مسائل
سوال ۔کیا جس فقیر سے حیلہ شرعی کیا جاتا ہے اسے بھی ثواب ملتا ہے؟
الجواب:- جس فقیر سے حیلہ شرعی کیا جاتا ہے اسے بھی ثواب ملتا ہے زکوۃ ادا کرنے والے کو اور اس فقیر دونوں کو ثواب ملتا ہے اسے فرض کی ادائیگی کا ثواب اور اسے ہبہ کرنے کا ثواب ملتا ہے بلکہ جن جن کے ہاتھوں میں گیا سب کو ثواب ملے گا درمختار میں ہے کہ وحیلۃ التکفین بھا التصدق علی فقیر ثم یکفن فیکون الثواب لھما وکذا فی تعمیر النسجد
یعنی زکوۃ کے مال کے ساتھ کفن دینے کا حیلہ یہ ہے کہ فقیر پر وہ صدقہ کرے پھر وہ فقیر اس مال سے اسے کفن دے دے پس دونوں افراد کو ثواب ملے گا ۔مسجد کے تعمیر کا مسئلہ اسی طرح ہے /درمختار ۔کتاب الزکوۃ/اور اس کے تحت رد المحتار میں علامہ شامی رحمۃاللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ /قولہ ۔فیکون الثواب لھما /ای ثواب الزکاۃ للمزکی و ثواب التکفین للفقیر یعنی زکوۃ کا ثواب ادا کرنے والے کو اور کفن دینے کا ثواب فقیر کو ملے گا
(ردالمحتار .جلد سوم باب الزکاۃص191)
پھر اسی میں ہے کہ ۔بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ کفن دینے کا ثواب بھی زکوۃ دینے والے کے لئے ثابت ہوگا ۔کیونکہ خیر پر راہنمائی کرنے والا خیر کرنے والے کی طرح ہوتا ہے اگرچہ کم اور کیف میں ثواب مختلف ہوگا علامہ شامی فرماتے ہیں کہ امام سیوطی نے الجامع الصغیر میں یہ روایت نقل کی ہے،لو مرت الصدقۃ علی یدی مائۃ لکان لھم من الاجر مثل اجرالمبتدی من غیر ان ینقص من اجرہ شئی ۔یعنی اگر صدقہ سو ہاتھوں میں گھومے تو ان سب کے لئے اجر اسی طرح ہوگا جس طرح صدقہ آغاز کرنے والے کے لئے تھا اس کے اجر میں کوئی شئے کم نہ ہوگی۔
(ردالمحتار)
اس سے معلوم ہوا کہ کفن دفن بلکہ تعمیر مسجد میں بھی حیلہ شرعی کے ذریعہ زکوۃ استعمال کی جاسکتی ہے ۔کیونکہ زکوہ تو فقیر کے حق میں تھی جب فقیر نے قبضہ کرلیا تو اب وہ مالک ہوچکا ۔جو چاہے کرے ۔حیلہ شرعی کی برکت سے دینے والے کی زکوۃ بھی ادا ہوگئی اور فقیر بھی مسجد ۔مدرسہ ۔کفن دفن میں دیکر ثواب کا حقدار بن ہوگیا
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے کہ زکاۃ کی رقم حیلہ شرعی سے مسجد میں لگائی جاسکتی ہے ۔لیکن جہاں کے لوگ مسجد دوسری رقموں سے بناسکتے ہوں وہ آج کے مروجہ حیلہ شرعی زکاۃ کی رقم مسجد میں نہ لگائیں صرف مجبوری کی صورت میں لگائیں تاکہ غرباء و مساکین وغیرہ جو اس کے اصل مصارف میں ہیں اور ضرورت مند مدارس عربیہ کی حق تلفی نہ ہو۔
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول ص 325)
۔شرح بہار شریعت میں ہے کہ ۔حیلہ کرتے وقت ممکن ہوتو زیادہ افراد کے ہاتھ میں رقم پھرائی چاہے تاکہ سب کو ثواب ملے ۔مثلا حیلہ کے لئے فقیر شرعی کو بارہ لاکھ /یا جو ہو/ روپے دی۔قبضہ کے بعد وہ کسی بھی اسلامی بھائی کو تحفۃ دے دے یہ بھی قبضہ میں لے کر کسی اور کو مالک بنادے ۔یوں سبھی بہ نیت ثواب ایک دوسرے کو مالک بناتے رہیں ۔اخر والا /شخص/مسجد یا جس کام کے لئے حیلہ کیا تھا اس کے لئے دیدے تو انشاء اللہ سبھی کو بارہ لاکھ روپے یا جو روپیے ہیں صدقہ کرنے کا ثواب ملےگا۔
(شرح بہار شریعت جلد پنجم ص 134)
سوال ۔اگر مالک نصاب غنی کسی مکتب یا مدرسہ یا دارالعلوم یا جامعہ کے ذمہ دار یعنی بانی یا ناظم یا ۔مہتمم یا ۔محصل ۔یا مدرس۔ یا خزانچی یا کسی رکن کو زکوۃ کی رقم دے کر یہ تاکید کردے کہ ہمارے اسی رقم یعنی روپیے سے غلہ خرید کر یا ہمارے اسی غلے سے جو فطرہ یاعشرہ میں دیا ہوں اس سے کھانا بنواکر غریب طلباء کو کھلائیں ۔تو اسی رقم سے غلہ خرید کر یا اسی غلہ سے کھانا بنواکر طلباء کو کھلایا تو اس صورت میں ۔فطرہ ۔عشرہ ۔زکوۃ ادا ہوگی یا نہیں ہوگی؟
الجواب اس صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ اس میں غریب طلباء کا قبضہ نہیں پایا گیا ۔فتاوی فقیہ ملت میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے کہ ۔صورت مسئولہ میں زکاۃ کی اسی رقم سے غلہ خرید کر طلباء کو کھلانے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی اس لئے کہ کھانا کھلانے میں اباحت پائی جاتی ہے تملیک نہیں پائی جاتی ہے ۔جبکہ تملیک یعنی محتاج کو مالک بنا دینا زکاۃ کا رکن ہے ایسا ہی فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 380پر ہے عام طور پر مدارس اسلامیہ میں طلباء کو جو کھانا کھلایا جاتا ہے اس میں تملیک نہیں پائی جاتی ہے ۔اباحت پائی جاتی ہے یعنی طالب علم اس کھانے کا مالک نہیں ہوتا صرف اسے کھانے کی اجازت ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی طالب علم اپنا کھانا بیچ دے تو مدرسہ کے ذمہ داران کو ضرور اعتراض ہوتا ہے ۔جس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ طلبہ کو مدرسہ میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے اس کے وہ مالک نہیں ہوتے اگر وہ مالک ہوجاتے تو بیچنے پر مدرسہ والوں کو کوئی اعتراض نہ ہوتا۔
(فتاویٰ فقیہ ملت ج اول ص 298)
اس رقم زکاۃ کو دینی کام میں خرچ کی یہ صورت ہے کہ ۔مدارس دینیہ کے ذمہ داران بحیثیت وکیل حیلہ شرعی سے ان تمام زکاۃ کی رقم کو اور غلے کو کسی غریب بالغ غیر نصاب طالب علم کو یا کسی شرعی فقیروں کو دے کر مالک بنادیں ۔پھر وہ طالب علم یا وہ فقیر شرعی اس رقم کو قبضہ کرکے مدرسہ کے ذمہ دار بحیثیت وکیل کو دے دیں کہ اسے جس دینی کام میں چاہیں خرچ کریں تو اب اس کی دی رقم یا غلہ سے غریب طلباء کو کھانا کھلانے جائز ہے کہ اب وہ زکاۃ کی رقم یا غلہ نہیں ہے۔ اور ملکیت بدلنے سے مال بھی حکما بدل جاتا ہے
سوال کیا ہر خیر کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا لیا جاسکتا ہے؟
الجواب ۔حیلہ شرعی کے بعد ہر خیر میں وہ رقم خرچ کرسکتے ہیں مگر ہر خیر کام کے لئے حیلہ شرعی کا سہارا نہیں لے سکتے ہیں کیونکہ اس میں فقراء و مساکین کی حق تلفی ہوگی ۔امام اہل سنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ۔اغنیاء کثیرالمال شکر نعمت بجا لائیں ۔ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیوی آسائش یا ظاہری آرائش میں اٹھانے والے مصارف خیر میں حیلوں کی آڑ نہ لیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 396)
لہذا زکوۃ جو ڈھائی فیصد غرباء ومساکین کا حق ہے وہ اسے ان لوگوں تک پہنچنے دیں اور ساڑھے ستانوے فیصد جو زکاۃ دینے والوں کے پاس بچتا ہے۔اس میں سے کچھ خیر کاموں میں لگائیں اور غریبوں کا حق نہ ماریں
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی