حضرت غوث پاک کے ذریعہ شیطان کی شکست قسط: نزدہم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم: شیرمہاراشٹر ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
ازقلم: شیرمہاراشٹر ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدر افتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
شیخ عارف ابوعمر وحریفنی کا بیان ہےکہ میں نے حضرت سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی سے سنا آپ نے فرمایا کہ میں رات دن ویرانوں میں مقیم رہتا اور بغداد میں مستقل رہائش اختیار نہیں کرتا تھا شیاطین خوفناک صورتوں اور مختلف قسم کے ہتھیار لے کر میرے پاس آتے یہ گروہ در گروہ پیادہ اور سوار ہوتے میرے ساتھ مقابلہ کرتے اور مجھ پر آگ کے شعلے پھینکتے میں اپنے دل میں اطمینان اور سکون کرتا کسی قسم کی بے چینی نہیں ہوتی مجھے اپنے باطن سے آواز آتی اے عبدالقادر! ہم نے تجھے ثابت قدم کردیا ہے اور اپنی امداد تیرے شامل حال کردی ہے، یہ لوگ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، میرے اٹھنے کی دیر ہوتی کہ یہ سارے شیاطین دائیں بائیں بھاگ جاتے البتہ ایک شیطان اکیلا میرے پاس آتا اور مجھے کہتا یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا ، الغرض وہ مجھے ڈراتا ، میں اسے طمانچہ مارتا اور وہ بھاگ جاتا، میں{ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم}، پڑھتا تو وہ میرے سامنے جل جاتا۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک نہایت بدصورت شخص میرے پاس آیا اس سے بدبو آرہی تھی اور کہنے لگا میں ابلیس ہوں۔ تیری خدمت کے لئے تیرے پاس آیا ہوں تو نے مجھے تھکا دیا اور میرے چیلے چاٹوں کو بھی عاجز کردیا۔ میں نے اسے کہا تو چلا جا مگر اس نے میری بات نہ مانی۔ دریں اثنا اوپر سے ایک ہاتھ نمودار ہوا جو اس کے بھیجے پر پڑا اور وہ زمین میں دھنس گیا پھر دوبارہ آگ کا شعلہ لئے ہوئے میرے پاس آیا اور میرا مقابلہ کرنے لگا اچانک ایک مرد ڈھاٹا لگائے ہوئے کمیت رنگ کے گھوڑے پر سوار میرے پاس آیا اس نے مجھے ایک تلوار دی اور ایڑیوں کے بل پر پیچھے ہٹ گیا۔ اب کے میں نے اس شیطان کو دیکھا کہ دور بیٹھے رو رہا ہے اور اپنے سر پر خاک ڈال رہا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے اے عبدالقادر! میں تجھ سے ناامید ہوچکا ہوں۔ میں نے کہا اولعین دور ہو۔ میں ہمیشہ تجھ سے ہشیار رہتا ہوں اس نے کہا یہ میرے لئے زیادہ سختی ہے، پھر مجھ پر منکشف ہوا کہ میرے ارد گرد مجھے پھنسانے کے لئے کئی رسیاں اور جال ہیں میں نے پوچھا یہ کیا ہیں؟
بتایا گیا کہ یہ دنیا کے جال ہیں جو تم جیسے لوگوں کو پھنسانے کے لئے بچھائے جاتے ہیں، میں ایک سال تک ان کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ کئی قسم کی رسیاں ہیں جو میرے ساتھ وابستہ ہو رہی ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ مجھے بتا گیا کہ یہ لوگوں کے اسباب ہیں جو تجھ سے وابستہ ہیں میں سال بھر اس کام میں توجہ دی تو وہ ساری رسیاں کٹ گئیں۔پھر مجھے اپنے باطن کا کشف عطا کیا گیا میں نے دیکھا کہ میرا دل علائق سے متعلق ہو رہا ہے، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ تیرے ارادے اور اختیارات ہیں میں نے سال بھر اس سلسلے میں مجاہدہ کیا وہ سب ختم ہوگئے اور میرا قلب رن سے آزاد ہوگیا، اس کے بعد مجھے اپنے نفس کا کشف ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس کی بیماریاں باقی ہیں اور اس کی ہوس زندہ ہے اور اس کا شیطان باغی اور سرکش ہے، ایک برس تک میں نے اس سلسلے میں کوشش کی تو نفس کی بیماریاں زائل ہوگئیں خواہشات مرگئیں اور اس کا شیطان مطیع وفرماں بردار ہوگیا اب سارا امرﷲ کے لئے ہوگیا۔ اور میں تنہا باقی رہ گیا سارا وجود تیرے پیچھے ہے اور میری رسائی ابھی تک مطلوب تک نہیں ہوئی، اس کے بعد میں توکل کے دروازے پر گیا تاکہ اس راہ سے میں اپنے مطلوب کا پتہ حاصل کروں وہاں میں نے ہجوم دیکھا، تو آگے گذر گیا، پھر شکر کے دروازے پر گیا کہ شاید یہاں سے محبوب کا کوئی نشان ملے تو یہاں بھی بھیڑ تھی، اب میں باب غنا کی طرف چلا وہاں بھی اژدہام تھا، اس کے بعد میں قرب کی دہلیز پر پہنچا کہ شاید یہاں محبوب حقیقی کا وصل ملے مگر وہی صورت پھر میں باب مشاہدہ پر گیا تاکہ یہاں سے اپنا مطلوب حاصل کروں مگر وہاں بھی ہجوم کی وجہ سے ناامیدی ہوئی بالآخر میں پھر پھرا کر باب فقر پر پہنچا حسن اتفاق سے وہ خالی تھا۔چنانچہ اس راہ سے میں اپنے مطلوب کے پاس پہنچ گیا یہاں میں نے ہر وہ خوشی دیکھی جو چھوڑ آیا تھا۔ یہاں میرے لئے غیبی خزانے کے دروازے کھول دئیے گئے مجھے عظیم اعزاز سے سرفراز کیا گیا، غنائے سرمدی اور آزادی کامل کی نعمتیں عطا کی گئیں اپنے بقا کے تصور کو مٹادیا گیا، بشری صفات منسوخ ہوگئیں اور وجود حقیقی عطا ہوا۔
(سیرت غوث اعظم)
حضرت غوث پاک پر شیطان کا فریب نہ چل سکا
آپ کے صاحبزادے شیخ ضیاء الدین ابو نصر موسیٰ فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں ایک بے آب و گیاہ بیابان میں پھر رہا تھا، پیاس سے زبان پر کانٹے پڑے ہوئے تھے اس وقت میں نے دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا میرے سر پر نمودار ہوا اور اس میں سے ٹپ ٹپ بوندیں گرنے لگیں مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ باران رحمت ہے۔ چنانچہ بارش کے اس پانی میں نے اپنی پیاس بجھالی اور ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ ایک عظیم الشان روشنی نمودار ہوئی جس سے آسمان کے کنارے روشن ہوگئے اس میں ایک صورت نمودار ہوئی اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ائے عبدالقادر! میں تیرا رب ہوں میں نے تیرے لئے سب چیزیں حلال کردی ہیں، میں نے{ اعوذباﷲ من الشطین الرجیم}، پڑھ کر اسے دھتکار دیا وہ روشنی فوراََ ظلمت سے بدل گئی اور وہ صورت دھواں بن گئی اس دھوئیں سے میں نے یہ آواز سنی ائے عبدالقادر! خدا نے تم کو تمہارے علم وتفقہ کی بدولت میرے مکرسے بچا لیا ورنہ میں اپنے اس مکر سے ستر صوفیا کو گمراہ کر چکا ہوں میں نے کہا بے شک میرے مولا کریم کا کرم ہے جو شامل حال ہے۔
سیدنا غوث اعظم سے پوچھا گیا، یا حضرت! آپ نے کیسے جانا کہ وہ شیطان ہے؟ فرمایا اس کے یہ کہنے سے کہ ائے عبدالقادر! میں نے حرام چیزیں تیرے لئے حلال کردیں کیوں کہﷲ تعالیٰ فحش باتوں کا حکم نہیں دیتا۔
(سیرت غوث اعظم)
شیطان پانی پانی ہوگیا
ایک مرتبہ شیطان نے امام شافعی علیہ الرحمتہ سے پوچھا تیرا اس ذات کے متعلق کیا خیال ہے جس نے مجھے جیسے چاہا پیدا کیا اور جو چاہا مجھ سے کرایا، اس کے بعد وہ مجھے چاہے تو جنت میں بھیج دے اور چاہے تو جہنم میں بھیج دے، کیا ایسا کرنے والا ظالم ہے یا عادل؟ امام شافعی علیہ الرحمتہ نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا ائے شخص! اگر اس نے تجھے تیرے منشاء کے مطابق پیدا کیا تو واقعی تو مظلوم ہے اور اگر اس نے تجھے اپنے ارادۂ قدرت کے تحت پیدا کیا تو تو پھر اس کی مرضی ہے جو کرے۔ شیطان نے جب یہ سنا تو شرم سے پانی پانی ہوگیا اور کہنے لگا کہ یہی سوال کرکے میں نے ستر ہزار عابدوں کو ضلالت وگمراہی کے غار میں ڈھکیل دیا ہے۔
(مکاشفتہ القلوب)
حضرت حاتم اصم سے شیطان کی گفتگو
حضرت حاتم اصم رضی اﷲ عنہ سے منقول ہےکہ آپ نے فرمایا ہر نمودار ہونے والی صبح کو شیطان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا کھاؤگے؟
کیا پہنوگے؟ اور کہاں ٹہروگے؟
میں اس سے کہتا ہوں۔
موت کا غم کھاؤں گا، کفن پہنوں گا، اور قبر میں جاکر ٹہروں گا
امام غزالی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں۔
اصل حاجت تین چیزیں ہیں روٹی، کپڑا، گھراور حدیث شریف میں ہے
آدمی کو تین چیزوں کے سوا دنیا میں کچھ حق نہیں، چند لقمے کہ اس سے پیٹھ کو سیدھا کریں، اور ایک ٹکڑا کپڑا کا ستر چھپائے اور چھوٹا ساگھر جس میں جھک کر داخل ہوسکے اسی طرح جو چیزیں گھر کے لئے ضروری ہیں وہ بھی حاجت میں داخل ہیں مگر یہ عام لوگوں کے لئے خاصان خدا کے قلوب ان ضروریات میں بھی مصروف نہیں رہتے ان کی نگاہیں صرف اپنے خالق حقیقی پر رہتی ہیں۔
(موت کا سفر)
دلِ مومن میں شیطان کی رسائی نہیں، پھر؟
حضرت خواجہ گیسو دراز علیہ الرحمتہ کے پاس بوقت چاشت اس آیت کریمہ سے متعلق گفتگوچھڑ گئی۔
{فَاعْبُدٌوﷲَ مُخَلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ}، لطائف قشیری میں ہے{ الاخلاص مالا یفسیدلا الشیطان ولا یکتبہ المکان ولا یصلع الا الرحمن۔} حضرت نے فرمایا کہ اخلاص ایک باطنی راز ہے بندہ اور اس کے خدا کے درمیان اور شیطان کی کسی طرح دل تک رسائی نہیں ہوسکتی ورنہ ایک لمحہ میں وہ ایمان کو غارت کردے اور ایک بھی مرد مومن دنیا میں نہ چھوڑے اس لئےﷲ تعالیٰ نے دل تک پہنچنے کا راستہ اس کے لئے مکمل طور پر بند کردیا ہے۔
عوارف میں لکھا ہے کہ شیطان دل سے متصل پتوں پر جاکر بیٹھتا ہے اور اس جگہ تھوکتا ہے جن رگوں کے ذریعہ خون دل میں جاتا ہے ان ہی رگوں سے خون کے ساتھ مل کر وہ تھوک دل کے اندر چلا جاتا ہے اورشیطان دل تک اسی طرح رسائی حاصل کرتا ہے اور یہ وسوسے، وہم، خلجان اور فاسد خیالات اور گمان جو انسان کے دل کو پریشان رکھتے ہیں سب اسی وجہ سے ہے۔
(جوامع الکلم)
ابلیس کا مقصد اور صدر آدم
ایک مرتبہ ابلیس حوا علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنا لڑکا ان کو دے کر کہا کہ ذرا اس بچے کا خیال رکھئے گا یہ آپ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا، حوا علیہ السلام نے رکھ لیا حضرت آدم علیہ السلام کہیں گئے ہوئے تھے جب گھر میں آئے اور اس بچہ کو گھر میں دیکھا تو پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ حوا نے جواب دیا کہ یہ ابلیس کا بچہ ہے مجھ کو اس نے تھوڑی دیر نگہبانی کے لئے دیا ہے حضرت آدم علیہ السلام سخت خفا ہوئے اور اس بچہ کو چار ٹکڑے کرکے باہر پھینک دیا پھر آپ کچھ دن کے بعد باہر گئے پھر آپ کے پیچھے ابلیس آیا اور اس نے ماں حوا سے پوچھا کہ میرے بچہ کو آپ نے کیا کیا؟ ماں حوا نے کہا تیرے بیٹے کو آدم علیہ السلام نے مار ڈالا اور چار ٹکڑے کرکے باہر پھینک دیا۔ ابلیس نے وہیں پر کھڑے ہوکر پکارا ’’یا خناس‘‘ وہ لڑکا فوراََ اٹھ کھڑا ہوا اور شیطان کے پاس چلا آیا شیطان نے اس کو پھر ماں حوا کے حوالہ کیا اور چلا گیا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مردوں پر ہر مصیبت صرف عورتوں کی وجہ سے آتی ہے۔
غرض ماں حوانے اس شیطان کے بچے کو پھر رکھ لیا آدم علیہ السلام جب واپس آئے تو پھر اس بچے کو دیکھا اس مرتبہ انہوں نے اس کو مار کر جلا دیا اور خاک کو باہر پھینک دیا۔ابلیس نے پھر ’یاخناس‘ کہہ کر پکارا اور وہ بچہ اٹھ کر اپنے استاد کے پاس آگیا شیطان نے پھر اس کو ماں حوا کے حوالے کیا اس مرتبہ جو آدم علیہ السلام گھر واپس آکر اس کو دیکھا تو نہ صرف اس کو مار دیا بلکہ پکا کر کھا گئے ابلیس نے پھر پکارا ’’یاخناس‘‘ اس وقت آدم علیہ السلام کے سینے سے لبیک کی آواز آئی۔ ابلیس نے کہا میرا مقصد یہی تھا وہ مجھ کو حاصل ہوگیا اب بیٹے تو وہیں آدم کے سینے میں پڑا رہ۔ ( جاری ہے )
(جوامع الکلم)
شیخ عارف ابوعمر وحریفنی کا بیان ہےکہ میں نے حضرت سیدی شیخ عبدالقادر جیلانی سے سنا آپ نے فرمایا کہ میں رات دن ویرانوں میں مقیم رہتا اور بغداد میں مستقل رہائش اختیار نہیں کرتا تھا شیاطین خوفناک صورتوں اور مختلف قسم کے ہتھیار لے کر میرے پاس آتے یہ گروہ در گروہ پیادہ اور سوار ہوتے میرے ساتھ مقابلہ کرتے اور مجھ پر آگ کے شعلے پھینکتے میں اپنے دل میں اطمینان اور سکون کرتا کسی قسم کی بے چینی نہیں ہوتی مجھے اپنے باطن سے آواز آتی اے عبدالقادر! ہم نے تجھے ثابت قدم کردیا ہے اور اپنی امداد تیرے شامل حال کردی ہے، یہ لوگ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، میرے اٹھنے کی دیر ہوتی کہ یہ سارے شیاطین دائیں بائیں بھاگ جاتے البتہ ایک شیطان اکیلا میرے پاس آتا اور مجھے کہتا یہاں سے چلے جاؤ ورنہ میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا ، الغرض وہ مجھے ڈراتا ، میں اسے طمانچہ مارتا اور وہ بھاگ جاتا، میں{ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم}، پڑھتا تو وہ میرے سامنے جل جاتا۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک نہایت بدصورت شخص میرے پاس آیا اس سے بدبو آرہی تھی اور کہنے لگا میں ابلیس ہوں۔ تیری خدمت کے لئے تیرے پاس آیا ہوں تو نے مجھے تھکا دیا اور میرے چیلے چاٹوں کو بھی عاجز کردیا۔ میں نے اسے کہا تو چلا جا مگر اس نے میری بات نہ مانی۔ دریں اثنا اوپر سے ایک ہاتھ نمودار ہوا جو اس کے بھیجے پر پڑا اور وہ زمین میں دھنس گیا پھر دوبارہ آگ کا شعلہ لئے ہوئے میرے پاس آیا اور میرا مقابلہ کرنے لگا اچانک ایک مرد ڈھاٹا لگائے ہوئے کمیت رنگ کے گھوڑے پر سوار میرے پاس آیا اس نے مجھے ایک تلوار دی اور ایڑیوں کے بل پر پیچھے ہٹ گیا۔ اب کے میں نے اس شیطان کو دیکھا کہ دور بیٹھے رو رہا ہے اور اپنے سر پر خاک ڈال رہا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے اے عبدالقادر! میں تجھ سے ناامید ہوچکا ہوں۔ میں نے کہا اولعین دور ہو۔ میں ہمیشہ تجھ سے ہشیار رہتا ہوں اس نے کہا یہ میرے لئے زیادہ سختی ہے، پھر مجھ پر منکشف ہوا کہ میرے ارد گرد مجھے پھنسانے کے لئے کئی رسیاں اور جال ہیں میں نے پوچھا یہ کیا ہیں؟
بتایا گیا کہ یہ دنیا کے جال ہیں جو تم جیسے لوگوں کو پھنسانے کے لئے بچھائے جاتے ہیں، میں ایک سال تک ان کے پیچھے لگا رہا یہاں تک کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ کئی قسم کی رسیاں ہیں جو میرے ساتھ وابستہ ہو رہی ہیں، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ مجھے بتا گیا کہ یہ لوگوں کے اسباب ہیں جو تجھ سے وابستہ ہیں میں سال بھر اس کام میں توجہ دی تو وہ ساری رسیاں کٹ گئیں۔پھر مجھے اپنے باطن کا کشف عطا کیا گیا میں نے دیکھا کہ میرا دل علائق سے متعلق ہو رہا ہے، میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ تیرے ارادے اور اختیارات ہیں میں نے سال بھر اس سلسلے میں مجاہدہ کیا وہ سب ختم ہوگئے اور میرا قلب رن سے آزاد ہوگیا، اس کے بعد مجھے اپنے نفس کا کشف ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس کی بیماریاں باقی ہیں اور اس کی ہوس زندہ ہے اور اس کا شیطان باغی اور سرکش ہے، ایک برس تک میں نے اس سلسلے میں کوشش کی تو نفس کی بیماریاں زائل ہوگئیں خواہشات مرگئیں اور اس کا شیطان مطیع وفرماں بردار ہوگیا اب سارا امرﷲ کے لئے ہوگیا۔ اور میں تنہا باقی رہ گیا سارا وجود تیرے پیچھے ہے اور میری رسائی ابھی تک مطلوب تک نہیں ہوئی، اس کے بعد میں توکل کے دروازے پر گیا تاکہ اس راہ سے میں اپنے مطلوب کا پتہ حاصل کروں وہاں میں نے ہجوم دیکھا، تو آگے گذر گیا، پھر شکر کے دروازے پر گیا کہ شاید یہاں سے محبوب کا کوئی نشان ملے تو یہاں بھی بھیڑ تھی، اب میں باب غنا کی طرف چلا وہاں بھی اژدہام تھا، اس کے بعد میں قرب کی دہلیز پر پہنچا کہ شاید یہاں محبوب حقیقی کا وصل ملے مگر وہی صورت پھر میں باب مشاہدہ پر گیا تاکہ یہاں سے اپنا مطلوب حاصل کروں مگر وہاں بھی ہجوم کی وجہ سے ناامیدی ہوئی بالآخر میں پھر پھرا کر باب فقر پر پہنچا حسن اتفاق سے وہ خالی تھا۔چنانچہ اس راہ سے میں اپنے مطلوب کے پاس پہنچ گیا یہاں میں نے ہر وہ خوشی دیکھی جو چھوڑ آیا تھا۔ یہاں میرے لئے غیبی خزانے کے دروازے کھول دئیے گئے مجھے عظیم اعزاز سے سرفراز کیا گیا، غنائے سرمدی اور آزادی کامل کی نعمتیں عطا کی گئیں اپنے بقا کے تصور کو مٹادیا گیا، بشری صفات منسوخ ہوگئیں اور وجود حقیقی عطا ہوا۔
(سیرت غوث اعظم)
حضرت غوث پاک پر شیطان کا فریب نہ چل سکا
آپ کے صاحبزادے شیخ ضیاء الدین ابو نصر موسیٰ فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں ایک بے آب و گیاہ بیابان میں پھر رہا تھا، پیاس سے زبان پر کانٹے پڑے ہوئے تھے اس وقت میں نے دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا میرے سر پر نمودار ہوا اور اس میں سے ٹپ ٹپ بوندیں گرنے لگیں مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ باران رحمت ہے۔ چنانچہ بارش کے اس پانی میں نے اپنی پیاس بجھالی اور ﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ ایک عظیم الشان روشنی نمودار ہوئی جس سے آسمان کے کنارے روشن ہوگئے اس میں ایک صورت نمودار ہوئی اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ائے عبدالقادر! میں تیرا رب ہوں میں نے تیرے لئے سب چیزیں حلال کردی ہیں، میں نے{ اعوذباﷲ من الشطین الرجیم}، پڑھ کر اسے دھتکار دیا وہ روشنی فوراََ ظلمت سے بدل گئی اور وہ صورت دھواں بن گئی اس دھوئیں سے میں نے یہ آواز سنی ائے عبدالقادر! خدا نے تم کو تمہارے علم وتفقہ کی بدولت میرے مکرسے بچا لیا ورنہ میں اپنے اس مکر سے ستر صوفیا کو گمراہ کر چکا ہوں میں نے کہا بے شک میرے مولا کریم کا کرم ہے جو شامل حال ہے۔
سیدنا غوث اعظم سے پوچھا گیا، یا حضرت! آپ نے کیسے جانا کہ وہ شیطان ہے؟ فرمایا اس کے یہ کہنے سے کہ ائے عبدالقادر! میں نے حرام چیزیں تیرے لئے حلال کردیں کیوں کہﷲ تعالیٰ فحش باتوں کا حکم نہیں دیتا۔
(سیرت غوث اعظم)
شیطان پانی پانی ہوگیا
ایک مرتبہ شیطان نے امام شافعی علیہ الرحمتہ سے پوچھا تیرا اس ذات کے متعلق کیا خیال ہے جس نے مجھے جیسے چاہا پیدا کیا اور جو چاہا مجھ سے کرایا، اس کے بعد وہ مجھے چاہے تو جنت میں بھیج دے اور چاہے تو جہنم میں بھیج دے، کیا ایسا کرنے والا ظالم ہے یا عادل؟ امام شافعی علیہ الرحمتہ نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا ائے شخص! اگر اس نے تجھے تیرے منشاء کے مطابق پیدا کیا تو واقعی تو مظلوم ہے اور اگر اس نے تجھے اپنے ارادۂ قدرت کے تحت پیدا کیا تو تو پھر اس کی مرضی ہے جو کرے۔ شیطان نے جب یہ سنا تو شرم سے پانی پانی ہوگیا اور کہنے لگا کہ یہی سوال کرکے میں نے ستر ہزار عابدوں کو ضلالت وگمراہی کے غار میں ڈھکیل دیا ہے۔
(مکاشفتہ القلوب)
حضرت حاتم اصم سے شیطان کی گفتگو
حضرت حاتم اصم رضی اﷲ عنہ سے منقول ہےکہ آپ نے فرمایا ہر نمودار ہونے والی صبح کو شیطان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا کھاؤگے؟
کیا پہنوگے؟ اور کہاں ٹہروگے؟
میں اس سے کہتا ہوں۔
موت کا غم کھاؤں گا، کفن پہنوں گا، اور قبر میں جاکر ٹہروں گا
امام غزالی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں۔
اصل حاجت تین چیزیں ہیں روٹی، کپڑا، گھراور حدیث شریف میں ہے
آدمی کو تین چیزوں کے سوا دنیا میں کچھ حق نہیں، چند لقمے کہ اس سے پیٹھ کو سیدھا کریں، اور ایک ٹکڑا کپڑا کا ستر چھپائے اور چھوٹا ساگھر جس میں جھک کر داخل ہوسکے اسی طرح جو چیزیں گھر کے لئے ضروری ہیں وہ بھی حاجت میں داخل ہیں مگر یہ عام لوگوں کے لئے خاصان خدا کے قلوب ان ضروریات میں بھی مصروف نہیں رہتے ان کی نگاہیں صرف اپنے خالق حقیقی پر رہتی ہیں۔
(موت کا سفر)
دلِ مومن میں شیطان کی رسائی نہیں، پھر؟
حضرت خواجہ گیسو دراز علیہ الرحمتہ کے پاس بوقت چاشت اس آیت کریمہ سے متعلق گفتگوچھڑ گئی۔
{فَاعْبُدٌوﷲَ مُخَلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ}، لطائف قشیری میں ہے{ الاخلاص مالا یفسیدلا الشیطان ولا یکتبہ المکان ولا یصلع الا الرحمن۔} حضرت نے فرمایا کہ اخلاص ایک باطنی راز ہے بندہ اور اس کے خدا کے درمیان اور شیطان کی کسی طرح دل تک رسائی نہیں ہوسکتی ورنہ ایک لمحہ میں وہ ایمان کو غارت کردے اور ایک بھی مرد مومن دنیا میں نہ چھوڑے اس لئےﷲ تعالیٰ نے دل تک پہنچنے کا راستہ اس کے لئے مکمل طور پر بند کردیا ہے۔
عوارف میں لکھا ہے کہ شیطان دل سے متصل پتوں پر جاکر بیٹھتا ہے اور اس جگہ تھوکتا ہے جن رگوں کے ذریعہ خون دل میں جاتا ہے ان ہی رگوں سے خون کے ساتھ مل کر وہ تھوک دل کے اندر چلا جاتا ہے اورشیطان دل تک اسی طرح رسائی حاصل کرتا ہے اور یہ وسوسے، وہم، خلجان اور فاسد خیالات اور گمان جو انسان کے دل کو پریشان رکھتے ہیں سب اسی وجہ سے ہے۔
(جوامع الکلم)
ابلیس کا مقصد اور صدر آدم
ایک مرتبہ ابلیس حوا علیہ السلام کے پاس آیا اور اپنا لڑکا ان کو دے کر کہا کہ ذرا اس بچے کا خیال رکھئے گا یہ آپ کا کوئی نقصان نہیں کرے گا، حوا علیہ السلام نے رکھ لیا حضرت آدم علیہ السلام کہیں گئے ہوئے تھے جب گھر میں آئے اور اس بچہ کو گھر میں دیکھا تو پوچھا کہ یہ لڑکا کون ہے؟ حوا نے جواب دیا کہ یہ ابلیس کا بچہ ہے مجھ کو اس نے تھوڑی دیر نگہبانی کے لئے دیا ہے حضرت آدم علیہ السلام سخت خفا ہوئے اور اس بچہ کو چار ٹکڑے کرکے باہر پھینک دیا پھر آپ کچھ دن کے بعد باہر گئے پھر آپ کے پیچھے ابلیس آیا اور اس نے ماں حوا سے پوچھا کہ میرے بچہ کو آپ نے کیا کیا؟ ماں حوا نے کہا تیرے بیٹے کو آدم علیہ السلام نے مار ڈالا اور چار ٹکڑے کرکے باہر پھینک دیا۔ ابلیس نے وہیں پر کھڑے ہوکر پکارا ’’یا خناس‘‘ وہ لڑکا فوراََ اٹھ کھڑا ہوا اور شیطان کے پاس چلا آیا شیطان نے اس کو پھر ماں حوا کے حوالہ کیا اور چلا گیا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مردوں پر ہر مصیبت صرف عورتوں کی وجہ سے آتی ہے۔
غرض ماں حوانے اس شیطان کے بچے کو پھر رکھ لیا آدم علیہ السلام جب واپس آئے تو پھر اس بچے کو دیکھا اس مرتبہ انہوں نے اس کو مار کر جلا دیا اور خاک کو باہر پھینک دیا۔ابلیس نے پھر ’یاخناس‘ کہہ کر پکارا اور وہ بچہ اٹھ کر اپنے استاد کے پاس آگیا شیطان نے پھر اس کو ماں حوا کے حوالے کیا اس مرتبہ جو آدم علیہ السلام گھر واپس آکر اس کو دیکھا تو نہ صرف اس کو مار دیا بلکہ پکا کر کھا گئے ابلیس نے پھر پکارا ’’یاخناس‘‘ اس وقت آدم علیہ السلام کے سینے سے لبیک کی آواز آئی۔ ابلیس نے کہا میرا مقصد یہی تھا وہ مجھ کو حاصل ہوگیا اب بیٹے تو وہیں آدم کے سینے میں پڑا رہ۔ ( جاری ہے )
(جوامع الکلم)
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ترسیل دعوت: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی پوجانگر میراروڈ ممبئی
ترسیل دعوت: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی پوجانگر میراروڈ ممبئی