مختصر سوانح خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
ہر قرن اور ہر زمانہ میں خالق دو جہاں نے کچھ ایسے نفوس قدسیہ پیدا فرمائے جنھوں نے مردہ قوموں کو جلا بخشی اور سالہا سال کے خوابیدہ لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کر منزل مقصود کا صحیح راستہ بتایا۔ جنھوں نے دین اسلام کی نصرت و حمایت کو اپنا نصب العین بنایا اور تا دمِ حیات دشمنان اسلام کے مقابل صف آرا رہے۔ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنھیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے گمراہوں کی ہدایت، سرکشوں کی اصلاح اورحق وباطل کےدرمیان امتیاز پیدا کرنےکے لیے مبعوث فرمایا۔ جنھوں نے کلمہ حق کی سر بلندی کےلیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ حق گوئی وراست بازی جن کا شعار تھا اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں حق گوئی سے باز نہ رکھ سکی۔ انھیں برگزیدہ نفوس قدسیہ میں سے سلطان الہند عطائے رسول خواجہ خواجگاں فخر ہندوستاں حضرت سرکار غریب نوازمعین الحق والدین چشتی اجمیری سنجری رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی بھی ہےجن کے قدوم میمنت لزوم کی برکت سے شمع اسلام جگمگا اٹھی۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا عرس سراپا قدس عموما پوری دنیا میں اور خصوصا اجمیر معلی کی بابرکت سرزمین پر بڑے تزک و احتشام کےساتھ منایا جاتا ہے۔ ملک و بیرون ملک سے لوگ جوق در جوق آپ کی بارگاہ میں حاضری دینے کےلیے آتے ہیں اور آپ کی مقدس بارگاہ سے فیوض و برکات لے کر جاتے ہیں۔ حضور سرکار غریب نواز کی بارگاہ مستجاب الدعوات بارگاہ ہےکہ وہاں پر ہر جائز دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ امام اہل سنت عطائے خواجہ غریب نواز امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ "مزار پاک سیدنا خواجہ معین الحق و الدین غریب نواز رضی اللہ عنہ ایسی جگہ ہے جہاں ہر نیک و جائز دعا مقبول بارگاہ ہوتی ہے"۔حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ نےاپنی پوری زندگی اللہ کے رسول ﷺ کی محبت اوردین کی سربلندی کےلیے وقف کردی اوردین اسلام کی خاطر جان مال سب کچھ قربان کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ رضی اللہ عنہ عوام و خواص کی عقیدتوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور ان شاءاللہ عزوجل رہتی دنیا تک بنے رہیں گے اورلوگ آپ سے اکتساب فیض کرتے رہیں گے اللہ عزوجل ہمیں آپ رضی اللہ عنہ سے سچی عقیدت ومحبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کے فضائل کو اگر مجھ جیسا حقیر بیان کرنے کی کوشش کرے تو یہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ پھربھی آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ سے اکتساب فیض کے واسطے آپ کی حیات طیبہ سے چند گوشے سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کرتا ہوں قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں؛
ولادت:
ہر قرن اور ہر زمانہ میں خالق دو جہاں نے کچھ ایسے نفوس قدسیہ پیدا فرمائے جنھوں نے مردہ قوموں کو جلا بخشی اور سالہا سال کے خوابیدہ لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کر منزل مقصود کا صحیح راستہ بتایا۔ جنھوں نے دین اسلام کی نصرت و حمایت کو اپنا نصب العین بنایا اور تا دمِ حیات دشمنان اسلام کے مقابل صف آرا رہے۔ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جنھیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے گمراہوں کی ہدایت، سرکشوں کی اصلاح اورحق وباطل کےدرمیان امتیاز پیدا کرنےکے لیے مبعوث فرمایا۔ جنھوں نے کلمہ حق کی سر بلندی کےلیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ حق گوئی وراست بازی جن کا شعار تھا اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں حق گوئی سے باز نہ رکھ سکی۔ انھیں برگزیدہ نفوس قدسیہ میں سے سلطان الہند عطائے رسول خواجہ خواجگاں فخر ہندوستاں حضرت سرکار غریب نوازمعین الحق والدین چشتی اجمیری سنجری رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی بھی ہےجن کے قدوم میمنت لزوم کی برکت سے شمع اسلام جگمگا اٹھی۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا عرس سراپا قدس عموما پوری دنیا میں اور خصوصا اجمیر معلی کی بابرکت سرزمین پر بڑے تزک و احتشام کےساتھ منایا جاتا ہے۔ ملک و بیرون ملک سے لوگ جوق در جوق آپ کی بارگاہ میں حاضری دینے کےلیے آتے ہیں اور آپ کی مقدس بارگاہ سے فیوض و برکات لے کر جاتے ہیں۔ حضور سرکار غریب نواز کی بارگاہ مستجاب الدعوات بارگاہ ہےکہ وہاں پر ہر جائز دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ امام اہل سنت عطائے خواجہ غریب نواز امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ "مزار پاک سیدنا خواجہ معین الحق و الدین غریب نواز رضی اللہ عنہ ایسی جگہ ہے جہاں ہر نیک و جائز دعا مقبول بارگاہ ہوتی ہے"۔حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ نےاپنی پوری زندگی اللہ کے رسول ﷺ کی محبت اوردین کی سربلندی کےلیے وقف کردی اوردین اسلام کی خاطر جان مال سب کچھ قربان کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ رضی اللہ عنہ عوام و خواص کی عقیدتوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور ان شاءاللہ عزوجل رہتی دنیا تک بنے رہیں گے اورلوگ آپ سے اکتساب فیض کرتے رہیں گے اللہ عزوجل ہمیں آپ رضی اللہ عنہ سے سچی عقیدت ومحبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کے فضائل کو اگر مجھ جیسا حقیر بیان کرنے کی کوشش کرے تو یہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ پھربھی آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ سے اکتساب فیض کے واسطے آپ کی حیات طیبہ سے چند گوشے سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کرتا ہوں قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں؛
ولادت:
آپ رضی اللہ عنہ کی جائے ولادت کے متعلق اقوال مختلف ہیں بعض حضرات کےمطابق آپ مقام سنجر میں پیدا ہوئے اوربعض کاقول ہےکہ آپ کی ولادت با سعادت سنجستان میں ہوئی اور بعض روایات میں آپ کی جائے ولادت سنجارکو بتایا گیا ہے اس کےعلاوہ دیگر اقوال بھی ہیں۔ اسی طرح آپ کے سن ولادت میں بھی مختلف روایات ہیں۔ ثانی اعلی حضرت حضور فیض ملت علامہ فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 14رجب المرجب 537ھ بروز پیر علاقۂ سجستان(سیستان) کے قصبہ سنجر میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا مبارک نام معین الدین حسن ہے آپ کے والدین آپ کو پیار سے حسن بلایا کرتے تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ عالم اسلام میں رحمت بن کرتشریف لائے۔ آپ جب اپنی والدہ ماجدہ کےشکم مبارک میں تھےتو اس وقت آپ کی والدہ ماجدہ بہت اچھے اچھےخواب دیکھا کرتی تھیں۔ گھر میں خوب خیر و برکت کا دور دورہ تھا۔ فکر و پریشانی سے نجات و امن تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ اکثر اپنے شکم مبارک سے تسبیح و تہلیل کی آوازیں سنا کرتیں جسے سن کر آپ پر ایک وجد و سرور کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ حضرت غریب نواز رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی اور پورا مکان انوار الہی سے جگمگا اٹھا۔
والدین:
آپ رضی اللہ عنہ عالم اسلام میں رحمت بن کرتشریف لائے۔ آپ جب اپنی والدہ ماجدہ کےشکم مبارک میں تھےتو اس وقت آپ کی والدہ ماجدہ بہت اچھے اچھےخواب دیکھا کرتی تھیں۔ گھر میں خوب خیر و برکت کا دور دورہ تھا۔ فکر و پریشانی سے نجات و امن تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ اکثر اپنے شکم مبارک سے تسبیح و تہلیل کی آوازیں سنا کرتیں جسے سن کر آپ پر ایک وجد و سرور کی کیفیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ حضرت غریب نواز رضی اللہ عنہ کی ولادت با سعادت ہوئی اور پورا مکان انوار الہی سے جگمگا اٹھا۔
والدین:
آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام حضرت غیاث الدین حسن رضی اللہ عنہ اور والدہ کا نام ام الورع بی بی ماہ نور تھا۔
نسب:
نسب:
آپ رضی اللہ عنہ کا نسبی تعلق خاندان سادات سے ہے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔ والد بزرگوار کی جانب سے آپ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح رسول اللہ ﷺ تک جا ملتا ہے:- خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمدباقر بن امام علی زین العابدین بن سیدنا امام حسین بن علیِ مرتضٰی زوج سیدہ فاطمۃ الزہراء بنت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ و رضی اللہ عنہم اجمعین۔
والدہ محترمہ کی جانب سے آپ کا شجرۂ نسب کچھ اس طرح ہے: بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سیدعبداللہ بن سیدحسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدناعلیِ مرتضیٰ زوج سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہم اجمعین بنت محمد رسول اللہﷺ۔ گویا کہ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔
جود و سخاوت:
والدہ محترمہ کی جانب سے آپ کا شجرۂ نسب کچھ اس طرح ہے: بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سیدعبداللہ بن سیدحسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدناعلیِ مرتضیٰ زوج سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہم اجمعین بنت محمد رسول اللہﷺ۔ گویا کہ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔
جود و سخاوت:
آپ رضی اللہ عنہ کی غریب نوازی و سخاوت محتاج تعارف نہیں، آپ بچپن ہی سے دوسروں کے کام آنے والے، ان کا دکھ بانٹنے والے،مسکینوں،غریبوں،فقیروں کےساتھ بھلائی کرنے والے، ان کی دل جوئی کرنے والے تھے۔ بچپن میں جب آپ رضی اللہ عنہ دودھ پینے کی عمرمیں تھے ایک روز آپ اپنی والدہ محترمہ کی گود میں دودھ نوش فرما رہےتھے، اتنے میں ایک غریب عورت آئی، اس کی گود میں ایک ننہا سا بچہ تھا جو بھوک کے سبب زار و قطار رو رہا تھا، بچہ کو روتا دیکھ خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ نے عورت سےکہا: تمہارا بچہ بھوکا ہے اسے دودھ کیوں نہیں پلاتی؟ یہ سن کر دکھیاری ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے،درد بھری آہ سےبولی: اے سیدہ ! کئی دن سے ایک لقمہ بھی حلق سے نیچے نہیں اترا، اس لیے بچہ دودھ سےمحروم ہے۔ اتنا سننا تھا کہ حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ نے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے اشارہ کیا،گویا کہ والدہ ماجدہ کی خدمت میں عرض کر رہےتھے کہ آپ بچے کو دودھ پلا دیجیے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی درخواست پرآپ کی والدہ محترمہ نےاس بچہ کو گود میں لیا اور دودھ پلایا۔ آپ رضی اللہ عنہ بچے کو دیکھ کر خوب مسکرائے اورخوشی کا اظہار فرمایا۔ روایات میں آیا ہے کہ آپ بچپن میں اپنے ہم عمر بچوں کو گھر بلا کر انہیں کھانا کھلایا کرتے تھے۔ آپ کے عہد طفلی ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن صبح کے وقت لوگ نئے کپڑے پہنے خوشی خوشی عیدگاہ کی طرف بڑھ رہےتھے، حضرت غریب نواز نےبھی نیا اورقیمتی لباس پہنا اورعیدگاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک درد ناک منظر دیکھا۔ کنارے پر ایک بچہ کھڑا ہے آنکھوں سے نابینا، کپڑے پرانے، غربت زدہ حال اور چہرےپر اداسی وغم دیکھ کرآپ کا دل بھر آیا۔ آپ نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھر لے آئے، اپنا قیمتی لباس اتار کر غریب بچے کو پہنایا، خود پرانے کپڑے پہنے اور اس غریب بچے کو لے کر عید گاہ کی طرف چلے گیے۔
تعلیم:
تعلیم:
آپ رضی اللہ عنہ کی عمر شریف جب ۱۵سال کی ہوئی تو آپ کے والد گرامی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ والدکے انتقال کے بعدحضرت خواجہ غریب نواز نے وراثت میں ملے باغ کی رکھوالی شروع کر دی۔ ایک دن ایک بزرگ ابراہیم قندوزی نامی تشریف لائے،حضرت خواجہ نے انگور کے خوشے پیش کیے، بزرگ نے انگور نہ کھائے اور کھلی کے ایک ٹکڑے کو دانتوں سے چبا کر خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا۔ کھلی کا کھانا تھا کہ آپ کا دل انوار الہی سے روشن ہو گیا اور راہ حق میں نکل پڑے۔سمرقند میں کلام اللہ حفظ کیا اور ابتدائی کتابیں پڑھنا شروع کیں مگر کچھ عرصہ کے بعد آپ نے بخارا کا رخ کیا۔ بخارا میں مولانا شیخ حسام الدین بخاری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے تلامذہ میں شریک ہو گیے اور چند سالوں میں قرآن، تفسیر، فقہ اور علوم معقول و منقول کی تکمیل کی۔تکمیل تعلیم پر آپ کے استاذ گرامی نے آپ کو دستار فضیلت عطا فرمائی۔کہا جاتا ہے کہ تحصیل علم کے لیے آپ بخارا میں پانچ سال تک رہے۔
حضرت خواجہ مرشد کی بارگاہ میں:
حضرت خواجہ مرشد کی بارگاہ میں:
ظاہری علوم حاصل کر لینے کے بعد آپ کے دل میں اللہ عزوجل کی محبت کاجذبہ اٹھا مگر اللہ عزوجل کی معرفت پانے کےلیے مرشد کامل کی بیعت کرنا ضروری تھا اس سوچ کےتحت آپ بخارا ہی سے مرشد کی تلاش میں نکل پڑے ان دنوں نیشا پور کے قریب ایک قصبہ ہارون یا ہرون تھا، جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی (ہرونی) رضی اللہ عنہ رونق افروز تھے اور ان کی بزرگی کا چرچہ دور دراز تک تھا۔ حضرت خواجہ غریب نوازنے جب ان کے روحانی کمالات کی شہرت سنی تو آپ ان کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی حقیقتا ایک عظیم المرتبت بزرگ تھے،آپ کا تعلق سلسلہ چشتیہ سے تھا اور آپ کو سلسلہ چشتیہ میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے جب پہلی مرتبہ حضرت غریب نواز کو دیکھا تو نور باطن سے معلوم ہوگیا کہ اس نوجوان کی قسمت میں ولایت ہے اور یہ جوان آسمان ولایت پر آفتاب بن کر چمکے گا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت غریب نواز کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی بعض اوقات بغداد شریف جایا کرتے تھے اور بغداد شریف میں انہوں نے حضرت غریب نواز کو اپنا مرید بنایا (کما ذکر فی"انیس الارواح") مرشد کامل نے اپنے سلسلہ میں داخل فرمانے کے بعد چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور مرید صادق کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا "ترا بخدا رسانیدم و مقبول حضرت اوست گردانیدم" (میں نے تجھے خدائے بزرگ و برتر تک پہنچا دیا اور حق تعالٰی کا مقبول بنا دیا)۔
سلسلہ طریقت: آپ کا سلسلہ طریقت ۱۵ واسطوں سے رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ (سید عالم جناب محمد رسول اللہ ﷺ، حضرت مولائے کائنات مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم، خواجہ حسن بصری، خواجہ عبدالواحد بن زید، خواجہ فضیل ابن عیاض، خواجہ ابراہیم بن ادہم البلخی، خواجہ حذیفہ مرعشی، خواجہ ابو ہبیرہ بصری، خواجہ ممشاد علوی ، خواجہ ابو اسحاق شامی، خواجہ ابو احمد ابدال، خواجہ ابو محمد چشتی، خواجہ ابو یوسف چشتی، خواجہ قطب الدین مودود چشتی، خواجہ شریف زندانی، خواجہ عثمان ہارونی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہم اجمعین)
زیارت حرمین شریفین:حضرت سلطان الہند خواجہ بزرگ اپنے مرشدکی بارگاہ میں کم و بیش بیس سال رہے، مرشد کامل نے گوہر شب تاب کی تراش و خراش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا روحانیت کی اعلی قدروں سےروشناس کرایا۔ خوداپنےہمراہ اکناف عالم کے اولیاءاللہ اور شناوران راہ طریقت سے ملاقاتیں کرائیں، تا آنکہ رحمۃ للعالمین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ رحمت میں لے کر حاضرہوئے۔ دربار رسولﷺ میں مرشد کامل نےمرید فاضل کوپیش کیا توسید المرسلین خاتم المعصومینﷺ کےمرقدمبارک سے آواز آئی "معین الدین مجھے پیارا ہے اور میں نے اسے قبول کیا اور اپنا بنایا"۔
روایات میں آیا ہے کہ آپ اپنے مرشد کامل کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کےبعدحضور اقدس ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ عثمان ہارونی نےمواجہہ شریف کے سامنے کرکے آپ کوحکم دیا کہ معین الدین!بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام عرض کرو۔ آپ نےبارگاہ اقدس میں نہایت ادب و احترام کےساتھ عرض کیا: "الصلوٰۃ و السلام علیک یا سید المرسلین و خاتم النبیین"۔تربت اقدس سےجواب آیا: "وعلیک السلام یا قطب المشائخ"۔یہ صرف سلام کا جواب نہ تھا بلکہ اس سارے زمانے کی عظمتیں برکتیں خواجہ غریب نواز کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔سلام کا جواب سنتے ہی مرشد کامل نے درود شریف پڑھنے کی ہدایت کی آپ درود شریف پڑھتے رہے۔
سرکار اقدس ﷺ کا دیدار اور ہندوستان تشریف آوری:اسی شب نماز عشاءکے بعدنیند کا غلبہ ہوا اور آنکھ لگ گئی۔ خواب میں آقائےکریم ﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: معین الدین! ہم نے تمہیں بحکم الہی آج سے سلطان الہند مقرر فرما دیا ہے، اپنےمرشد سے اجازت لو اور ہندوستان جا کر ہمارے دین کا خوب چرچہ کرو۔آپ نے یہ خواب اپنے مرشد کامل کو عرض کیا تو انہوں نے وہیں بیٹھے آنکھیں بند کراکے پورے ہندوستان کی سیر کرائی، بارگاہ خداوندی سے قبولیت کی سند اور رسول کریم ﷺکی طرف سےسلطان الہند کا تقرر نامہ عطا ہوا۔ ایک روایت میں ہے کہ اپنے مرشد سے خرقہ خلافت حاصل کرنے کے بعد اپنے شیخ سے اجازت لے کرحرمین شریفین کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے اور مدینہ طیبہ میں زیارت سیدکونینﷺ سے مشرف ہوئے۔ آپﷺنے حضرت خواجہ سے فرمایا: "اے قطب المشائخ! تم معین الدین ہو!اس جہاں کی ظلمت کفر کو نور اسلام سے روشن کرو!"۔ممکن ہے کہ ایک بار اپنے پیر ومرشد کے ہمراہ روضۂ اقدس کی زیارت ہوئی ہو اور دوسری بار ان سے اجازت لیکر گئے ہوں۔سیدعرب وعجمﷺ ک ےحکم کے بعد ہندوستان آتے ہوئے آپ نے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر انوار پر حاضرہوکر چلہ کشی فرمائی اور یہ مشہور زمانہ شعر کہا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
چلہ کشی سےفراغت کے بعد لاہور سے دہلی اور وہاں سے اجمیر شریف تشریف لائے۔ جہاں جہاں سے گزرے ہزاروں کفار و مشرکین کو دامن اسلام سے وابستہ کر پیارے آقاﷺکی غلامی سے سرفراز فرماتے گئے۔
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ تبلیغ اسلام کا نصب العین لے کر ہندوستان تشریف لائے تھے، اپنے اس نصب العین کی خاطر آپ نے مضبوط کردار اور جد وجہد کی جو مثال پیش کی اگر وہ آب زر سے لکھی جائے پھر بھی حق ادا نہ ہو۔آپ کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آپ کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں تھیں، کئی طاقتور مخالفوں کا سامنا کیا۔ والی اجمیر پرتھوی راج بھی آپ کا مخالف تھا۔ آپ نے ہرمشکل کا مقابلہ کیا اورکوئی مشکل،کوئی مخالفت آپ کے سامنے ٹھہر نہ سکی۔ آپ کا ناقابل شکست جذبہ، بلند تصور، پاکیزہ دل،آہنی عزم، دقیق نظر اور اعلی روحانی قوت ہر مشکل پر غالب آتی گئی۔ یہ حضرت خواجہ غریب نواز جیسی شخصیات کا ہی کمال ہے جو ان مشکلات کےمقابلے ثابت قدم رہ سکیں۔ ما و شما کی کیا حقیقت بڑے بڑے سورما ایسی جگہوں پر ہمت ہار جاتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت دین کا ہر خاص و عام معترف ہے، آپ نے کفرستان میں ایمان کے دیپ جلائے، نوے لاکھ سے زائد لوگوں کو کلمہ پڑھا کر دین اسلام میں داخل کیا۔ بر صغیر کی اکثر آبادی انھیں مسلمانوں کی نسل سے ہے جن کو خواجہ غریب نواز نے کلمہ پڑھا کر دین اسلام میں داخل کیا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ نہایت بلند مرتبہ روحانی شخصیت ہیں، آپ کی ذات بابرکات کی شہرت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ہے، ہر رنگ و نسل، مذہب اور ملک کے لوگوں میں آپ کے نام لیواؤں کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں موجود ہے۔
وصال باکمال اور تکفین و تدفین: مصدقہ روایات کے مطابق آپ کا وصال باکمال ۶رجب المرجب ۶۲۷ہجری میں ہوا، چنانچہ آپ کے وصال کا واقعہ یوں ہےکہ جس رات آپ کاوصال ہونے والا تھا اس رات عشاء کی نماز جماعت سے ادا کرنے کے بعد آپ اپنے حجرے میں تشریف لے گئے حسب معمول حجرے کے باہرچند درویش بیٹھےہوئےتھے۔آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب دنیا سے جانے کا وقت بالکل قریب ہے۔ آپ اللہ عزوجل کے ذکر میں کچھ اس قدر مشغول ہوئے کہ آپ کے دل میں وصل مولا کی محبت انتہا تک پہنچ گئی حتی کہ آپ اللہ عزوجل کی محبت اورجدائی میں تڑپنے لگے، اللہ عزوجل کے نور کی تجلیات آپ کی روح پر نازل ہو رہی تھیں۔ آخر محبت اتنی شدید غالب آئی کہ اللہ عزوجل کی محبت میں کھو گئے اور ملک الموت نے اپنا کام انجام دے دیا یعنی آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا۔ آپ کا وصال آپ کے مریدین، خلفاء، عقیدت مندوں اور اجمیر کے رہنے والوں کے لیے انتہائی دل سوز سانحہ تھا۔ آپ کے انتقال کی خبر بہت جلد اجمیراور اس کےگرد ونواح میں پھیل گئی۔ اشک بار ہوکر لوگ جوق در جوق آئے۔ آخرکار آپ کےجسم مبارک کوغسل دے کر کفن پہنایا گیا اور اس کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی۔آپ کی نماز جنازہ میں بے پناہ لوگوں کاہجوم تھا۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت فخرالدین نے پڑھائی اور آپ کو آپ کے حجرے ہی میں دفن کیا گیا کہ جہاں آپ کا وصال ہوا تھا۔ آپ کا مزار مقدس صدیوں سے اجمیر شریف میں مرجع خلائق ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کا کوئی بھی گوشہ اتباع شریعت سے خالی نہ تھا۔ آپ ہمہ وقت اللہ عزوجل کی رضا کے لئے کوشاں رہتے، مخلوق خدا پرمہربانی اور غریب نوازی ہی کا سبب ہے کہ آپ کو دنیا غریب نواز کے لقب سے جانتی ہے۔حضرت علامہ حسن رضا خاں بریلوی قدس سرہ العزیز آپ کی شان میں یوں رقمطراز ہیں:
خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلی تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
ہے تری ذات عجب بحر حقیقت پیارے
کسی تیراک نے پایا نہ کنارہ تیرا
گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ اے ابر کرم زور برسنا تیرا
محی دیں غوث ہیں اور خواجہ معین الدیں ہیں
اے حسن کیوں نہ ہو مضبوط عقیدہ تیرا۔
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خدائے وحدہ لا شریک ہمیں سیدنا غریب نواز رضی اللہ عنہ کی سچی عقیدت و محبت عطا فرمائے اور تا دم حیات آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کہ؛
ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے۔
آمین یا رب العالمین
بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ اجمعین۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
سلسلہ طریقت: آپ کا سلسلہ طریقت ۱۵ واسطوں سے رسول اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ (سید عالم جناب محمد رسول اللہ ﷺ، حضرت مولائے کائنات مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم، خواجہ حسن بصری، خواجہ عبدالواحد بن زید، خواجہ فضیل ابن عیاض، خواجہ ابراہیم بن ادہم البلخی، خواجہ حذیفہ مرعشی، خواجہ ابو ہبیرہ بصری، خواجہ ممشاد علوی ، خواجہ ابو اسحاق شامی، خواجہ ابو احمد ابدال، خواجہ ابو محمد چشتی، خواجہ ابو یوسف چشتی، خواجہ قطب الدین مودود چشتی، خواجہ شریف زندانی، خواجہ عثمان ہارونی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہم اجمعین)
زیارت حرمین شریفین:حضرت سلطان الہند خواجہ بزرگ اپنے مرشدکی بارگاہ میں کم و بیش بیس سال رہے، مرشد کامل نے گوہر شب تاب کی تراش و خراش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا روحانیت کی اعلی قدروں سےروشناس کرایا۔ خوداپنےہمراہ اکناف عالم کے اولیاءاللہ اور شناوران راہ طریقت سے ملاقاتیں کرائیں، تا آنکہ رحمۃ للعالمین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ رحمت میں لے کر حاضرہوئے۔ دربار رسولﷺ میں مرشد کامل نےمرید فاضل کوپیش کیا توسید المرسلین خاتم المعصومینﷺ کےمرقدمبارک سے آواز آئی "معین الدین مجھے پیارا ہے اور میں نے اسے قبول کیا اور اپنا بنایا"۔
روایات میں آیا ہے کہ آپ اپنے مرشد کامل کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کےبعدحضور اقدس ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ عثمان ہارونی نےمواجہہ شریف کے سامنے کرکے آپ کوحکم دیا کہ معین الدین!بارگاہ رسالت مآبﷺ میں سلام عرض کرو۔ آپ نےبارگاہ اقدس میں نہایت ادب و احترام کےساتھ عرض کیا: "الصلوٰۃ و السلام علیک یا سید المرسلین و خاتم النبیین"۔تربت اقدس سےجواب آیا: "وعلیک السلام یا قطب المشائخ"۔یہ صرف سلام کا جواب نہ تھا بلکہ اس سارے زمانے کی عظمتیں برکتیں خواجہ غریب نواز کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔سلام کا جواب سنتے ہی مرشد کامل نے درود شریف پڑھنے کی ہدایت کی آپ درود شریف پڑھتے رہے۔
سرکار اقدس ﷺ کا دیدار اور ہندوستان تشریف آوری:اسی شب نماز عشاءکے بعدنیند کا غلبہ ہوا اور آنکھ لگ گئی۔ خواب میں آقائےکریم ﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: معین الدین! ہم نے تمہیں بحکم الہی آج سے سلطان الہند مقرر فرما دیا ہے، اپنےمرشد سے اجازت لو اور ہندوستان جا کر ہمارے دین کا خوب چرچہ کرو۔آپ نے یہ خواب اپنے مرشد کامل کو عرض کیا تو انہوں نے وہیں بیٹھے آنکھیں بند کراکے پورے ہندوستان کی سیر کرائی، بارگاہ خداوندی سے قبولیت کی سند اور رسول کریم ﷺکی طرف سےسلطان الہند کا تقرر نامہ عطا ہوا۔ ایک روایت میں ہے کہ اپنے مرشد سے خرقہ خلافت حاصل کرنے کے بعد اپنے شیخ سے اجازت لے کرحرمین شریفین کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے اور مدینہ طیبہ میں زیارت سیدکونینﷺ سے مشرف ہوئے۔ آپﷺنے حضرت خواجہ سے فرمایا: "اے قطب المشائخ! تم معین الدین ہو!اس جہاں کی ظلمت کفر کو نور اسلام سے روشن کرو!"۔ممکن ہے کہ ایک بار اپنے پیر ومرشد کے ہمراہ روضۂ اقدس کی زیارت ہوئی ہو اور دوسری بار ان سے اجازت لیکر گئے ہوں۔سیدعرب وعجمﷺ ک ےحکم کے بعد ہندوستان آتے ہوئے آپ نے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر انوار پر حاضرہوکر چلہ کشی فرمائی اور یہ مشہور زمانہ شعر کہا:
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
چلہ کشی سےفراغت کے بعد لاہور سے دہلی اور وہاں سے اجمیر شریف تشریف لائے۔ جہاں جہاں سے گزرے ہزاروں کفار و مشرکین کو دامن اسلام سے وابستہ کر پیارے آقاﷺکی غلامی سے سرفراز فرماتے گئے۔
حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ تبلیغ اسلام کا نصب العین لے کر ہندوستان تشریف لائے تھے، اپنے اس نصب العین کی خاطر آپ نے مضبوط کردار اور جد وجہد کی جو مثال پیش کی اگر وہ آب زر سے لکھی جائے پھر بھی حق ادا نہ ہو۔آپ کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، آپ کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں تھیں، کئی طاقتور مخالفوں کا سامنا کیا۔ والی اجمیر پرتھوی راج بھی آپ کا مخالف تھا۔ آپ نے ہرمشکل کا مقابلہ کیا اورکوئی مشکل،کوئی مخالفت آپ کے سامنے ٹھہر نہ سکی۔ آپ کا ناقابل شکست جذبہ، بلند تصور، پاکیزہ دل،آہنی عزم، دقیق نظر اور اعلی روحانی قوت ہر مشکل پر غالب آتی گئی۔ یہ حضرت خواجہ غریب نواز جیسی شخصیات کا ہی کمال ہے جو ان مشکلات کےمقابلے ثابت قدم رہ سکیں۔ ما و شما کی کیا حقیقت بڑے بڑے سورما ایسی جگہوں پر ہمت ہار جاتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت دین کا ہر خاص و عام معترف ہے، آپ نے کفرستان میں ایمان کے دیپ جلائے، نوے لاکھ سے زائد لوگوں کو کلمہ پڑھا کر دین اسلام میں داخل کیا۔ بر صغیر کی اکثر آبادی انھیں مسلمانوں کی نسل سے ہے جن کو خواجہ غریب نواز نے کلمہ پڑھا کر دین اسلام میں داخل کیا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ نہایت بلند مرتبہ روحانی شخصیت ہیں، آپ کی ذات بابرکات کی شہرت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ہے، ہر رنگ و نسل، مذہب اور ملک کے لوگوں میں آپ کے نام لیواؤں کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں موجود ہے۔
وصال باکمال اور تکفین و تدفین: مصدقہ روایات کے مطابق آپ کا وصال باکمال ۶رجب المرجب ۶۲۷ہجری میں ہوا، چنانچہ آپ کے وصال کا واقعہ یوں ہےکہ جس رات آپ کاوصال ہونے والا تھا اس رات عشاء کی نماز جماعت سے ادا کرنے کے بعد آپ اپنے حجرے میں تشریف لے گئے حسب معمول حجرے کے باہرچند درویش بیٹھےہوئےتھے۔آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب دنیا سے جانے کا وقت بالکل قریب ہے۔ آپ اللہ عزوجل کے ذکر میں کچھ اس قدر مشغول ہوئے کہ آپ کے دل میں وصل مولا کی محبت انتہا تک پہنچ گئی حتی کہ آپ اللہ عزوجل کی محبت اورجدائی میں تڑپنے لگے، اللہ عزوجل کے نور کی تجلیات آپ کی روح پر نازل ہو رہی تھیں۔ آخر محبت اتنی شدید غالب آئی کہ اللہ عزوجل کی محبت میں کھو گئے اور ملک الموت نے اپنا کام انجام دے دیا یعنی آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا۔ آپ کا وصال آپ کے مریدین، خلفاء، عقیدت مندوں اور اجمیر کے رہنے والوں کے لیے انتہائی دل سوز سانحہ تھا۔ آپ کے انتقال کی خبر بہت جلد اجمیراور اس کےگرد ونواح میں پھیل گئی۔ اشک بار ہوکر لوگ جوق در جوق آئے۔ آخرکار آپ کےجسم مبارک کوغسل دے کر کفن پہنایا گیا اور اس کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی۔آپ کی نماز جنازہ میں بے پناہ لوگوں کاہجوم تھا۔ نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت فخرالدین نے پڑھائی اور آپ کو آپ کے حجرے ہی میں دفن کیا گیا کہ جہاں آپ کا وصال ہوا تھا۔ آپ کا مزار مقدس صدیوں سے اجمیر شریف میں مرجع خلائق ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کا کوئی بھی گوشہ اتباع شریعت سے خالی نہ تھا۔ آپ ہمہ وقت اللہ عزوجل کی رضا کے لئے کوشاں رہتے، مخلوق خدا پرمہربانی اور غریب نوازی ہی کا سبب ہے کہ آپ کو دنیا غریب نواز کے لقب سے جانتی ہے۔حضرت علامہ حسن رضا خاں بریلوی قدس سرہ العزیز آپ کی شان میں یوں رقمطراز ہیں:
خواجہ ہند وہ دربار ہے اعلی تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا
ہے تری ذات عجب بحر حقیقت پیارے
کسی تیراک نے پایا نہ کنارہ تیرا
گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ اے ابر کرم زور برسنا تیرا
محی دیں غوث ہیں اور خواجہ معین الدیں ہیں
اے حسن کیوں نہ ہو مضبوط عقیدہ تیرا۔
اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خدائے وحدہ لا شریک ہمیں سیدنا غریب نواز رضی اللہ عنہ کی سچی عقیدت و محبت عطا فرمائے اور تا دم حیات آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کہ؛
ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے۔
آمین یا رب العالمین
بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ اجمعین۔
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
راقم السطور احقر العباد
فقیر محمد شعیب خان نجمیؔ رضوی لکھیم پوری
متعلم مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی شریف
6307364323
متعلم مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی شریف
6307364323