اصلاحی گفتگو خود قابل اصلاح ہے
____________________________________
جلسہ کے اسٹیج سے اجاگر ہونے والے مصلح قوم و ملت میں ایک نام مفتی شمس الدین مکرانہ کا بھی آتا ہے مگر ان کا انداز بیان ، الفاظ و جملے مکرانہ کے پتھر کی گھسائی کرکے پتھر تو چمکایا جاسکتا ہے مگر کسی انسان کی اصلاح اس طرح کبھی نہیں کی جاسکتی ہے
مثلًا ایک شخص کے کپڑے میں کالا دھبہ لگاہو اور آپ اس سے کہیں کہ آپ کے کپڑے پر کچھ داغ لگاہوا ہے
آپ کےاس طرز تخاطب سے وہ شخص اس گندگی کو دیکھے گا بھی اور اسے صاف کرنے کی بھی کوشش کرےگا ساتھ ہی آپ کا شکرگزار بھی ہوگا
مگر اسی شخص کو اگر اس طرح کہاجائے کہ
کتنے گندے رہتے ہو ، تمہیں معلوم نہیں صفائی آدھا ایمان ہے ، ملیچ بن کر رہتے ہو ، صفائی کا کچھ خیال نہیں ہے ، تم سے بہتر تو روڈ کی صفائی کرنے والے رہتے ہیں
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا اس سے اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے؟ بلکہ وہ بتانے والے کا باغی ہوجائے گا دوسری مرتبہ اس سے ملاقات سے بھی گھبرائے گا
عوامی جلسوں میں علما اور شعرا کی اصلاح کا کیا مطلب ہے، کیا عوام نے آپ کو اسی لیے بلایا ہے
خرچ کیاہے عوام نے تو عوام کو کچھ دے کر جائیں ، مانتا ہوں کہ وہ بھی قابل اصلاح ہیں، مگر ان سے اپنے قیام گاہ میں جاکر احسن انداز میں سمجھائیں ، آپ تو ایسی ڈانٹ اور پھٹکار لگارہے ہیں جیسے کہ مدرسوں میں طلبا کو کوئی مدرس ڈانٹ رہاہو ، اس لیے مکرانوی صاحب سے گذارش ہے کہ پہلے خود کی اصلاح کرلیں ، کیا آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی ؟
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(125)
(ترجمہ)اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو۔
کیا آپ کا انداز خطاب قرآن کے مطابق ہے؟ سنجیدگی سے غور کریں اور اپنا انداز خطاب بدلیں
پھر عوامی جلسے میں عوام کے اصلاح کی بات کریں وہ بھی احسن انداز میں کریں ، آپ کی طرح بازاری زبان بغیر قرآن و حدیث کے ہوٹلوں میں بیٹھی عوام بھی کرتی رہتی ہے
عوام تو پہلے ہی علما سے دور ہوتی جارہی ہے مزید کیوں انہیں کستاخی پر ابھار رہے ہیں ، اگر علما و شعرا کی اصلاح کا اتناہی جذبہ آپ کے سینے میں موجیں مار رہاہے ہے تو ایک جلسہ آپ کرلیں جس میں صرف مبلغین ، مقررین اور شعرا ہوں اور وہ مجلس عوام سے خالی ہو ، پھر اصلاحی بات کریں
پہلے قرآن کریم کا خود مطالعہ فرمالیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے برائی مٹانے کے کیا طریقہ بیان فرمایا ہے چنا نچہ ارشاد ربانی ہے
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَؕ-نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ
(ترجمہ) سب سے اچھی بھلائی سے بُرائی کو دفع کرو ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں ۔
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ: بُرائی کو اس خصلت و عادت سے دفع کروجو سب سے اچھی ہو۔} مفسرین نے اس خوب صورت جملے کے کثیرمعنی بیان فرمائے ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
اپنے مَکارمِ اَخلاق سے خطا کاروں پر اس طرح عفْو ورحمت فرمائیں جس سے دین میں کوئی سستی نہ ہو۔
____________________________________
جلسہ کے اسٹیج سے اجاگر ہونے والے مصلح قوم و ملت میں ایک نام مفتی شمس الدین مکرانہ کا بھی آتا ہے مگر ان کا انداز بیان ، الفاظ و جملے مکرانہ کے پتھر کی گھسائی کرکے پتھر تو چمکایا جاسکتا ہے مگر کسی انسان کی اصلاح اس طرح کبھی نہیں کی جاسکتی ہے
مثلًا ایک شخص کے کپڑے میں کالا دھبہ لگاہو اور آپ اس سے کہیں کہ آپ کے کپڑے پر کچھ داغ لگاہوا ہے
آپ کےاس طرز تخاطب سے وہ شخص اس گندگی کو دیکھے گا بھی اور اسے صاف کرنے کی بھی کوشش کرےگا ساتھ ہی آپ کا شکرگزار بھی ہوگا
مگر اسی شخص کو اگر اس طرح کہاجائے کہ
کتنے گندے رہتے ہو ، تمہیں معلوم نہیں صفائی آدھا ایمان ہے ، ملیچ بن کر رہتے ہو ، صفائی کا کچھ خیال نہیں ہے ، تم سے بہتر تو روڈ کی صفائی کرنے والے رہتے ہیں
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا اس سے اصلاح کی توقع کی جاسکتی ہے؟ بلکہ وہ بتانے والے کا باغی ہوجائے گا دوسری مرتبہ اس سے ملاقات سے بھی گھبرائے گا
عوامی جلسوں میں علما اور شعرا کی اصلاح کا کیا مطلب ہے، کیا عوام نے آپ کو اسی لیے بلایا ہے
خرچ کیاہے عوام نے تو عوام کو کچھ دے کر جائیں ، مانتا ہوں کہ وہ بھی قابل اصلاح ہیں، مگر ان سے اپنے قیام گاہ میں جاکر احسن انداز میں سمجھائیں ، آپ تو ایسی ڈانٹ اور پھٹکار لگارہے ہیں جیسے کہ مدرسوں میں طلبا کو کوئی مدرس ڈانٹ رہاہو ، اس لیے مکرانوی صاحب سے گذارش ہے کہ پہلے خود کی اصلاح کرلیں ، کیا آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی ؟
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(125)
(ترجمہ)اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو۔
کیا آپ کا انداز خطاب قرآن کے مطابق ہے؟ سنجیدگی سے غور کریں اور اپنا انداز خطاب بدلیں
پھر عوامی جلسے میں عوام کے اصلاح کی بات کریں وہ بھی احسن انداز میں کریں ، آپ کی طرح بازاری زبان بغیر قرآن و حدیث کے ہوٹلوں میں بیٹھی عوام بھی کرتی رہتی ہے
عوام تو پہلے ہی علما سے دور ہوتی جارہی ہے مزید کیوں انہیں کستاخی پر ابھار رہے ہیں ، اگر علما و شعرا کی اصلاح کا اتناہی جذبہ آپ کے سینے میں موجیں مار رہاہے ہے تو ایک جلسہ آپ کرلیں جس میں صرف مبلغین ، مقررین اور شعرا ہوں اور وہ مجلس عوام سے خالی ہو ، پھر اصلاحی بات کریں
پہلے قرآن کریم کا خود مطالعہ فرمالیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے برائی مٹانے کے کیا طریقہ بیان فرمایا ہے چنا نچہ ارشاد ربانی ہے
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَؕ-نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ
(ترجمہ) سب سے اچھی بھلائی سے بُرائی کو دفع کرو ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں ۔
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَ: بُرائی کو اس خصلت و عادت سے دفع کروجو سب سے اچھی ہو۔} مفسرین نے اس خوب صورت جملے کے کثیرمعنی بیان فرمائے ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
اپنے مَکارمِ اَخلاق سے خطا کاروں پر اس طرح عفْو ورحمت فرمائیں جس سے دین میں کوئی سستی نہ ہو۔
(ابوسعود، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹۶، ۴ / ۶۳، ملخصاً)
سُبْحَانَ اللّٰہ! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اور آپ کے ذریعے آپ کی امت کی کتنی پیاری تربیت فرمائی ہے، اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘(حم السجدہ:۳۴)
ترجمہ: اور اچھائی اور برائی برابرنہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کےدرمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔(صراط الجنان)
جس تاریخ میں جلسہ نہ ہو تو فرصت سے ان آیتوں پر ضرور غور کریں پھر اصلاح کے میدان میں کود جائیں
مگر جو اصلاح کا پہلو ہے اسی کو چھیڑیں ،ابھی حال ہی میں ایک مشہور ثناخواں محترم محمد علی فیضی کا پڑھا ہوا کلام حضور آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں پر آپ کے تبصرے نشر ہورہے ہیں ، تبصرہ کچھ یوں ہیں
منہ ہے دیکھنے کا ، ایک وقت نماز نہیں، جمعہ تک نہیں اور حضور کے دیکھنے کی بات کرتے ہو ،
مفتی صاحب! آپ کو اس کلام میں کیا خرابی نظر آئی ؟ آپ کہیں گے خرابی پڑھنے والے میں ہے
تو پوچھنا چاہوں گا کہ اگر واقعی جیسا آپ نے تذکرہ کیا ہے اور محمد علی فیضی صاحب ویسے ہی ہیں تو آپ نے اکیلے میں ان کی احسن انداز میں اصلاح کی کوشش کی؟ ان کو ثنا خواں ہو نے کا احساس دلایا ؟
اگر بدعملی مان بھی لیا جائے تو یہ تمنا کرنا کس زاویے سے غلط ہے ؟
اتنا تو ضرور ہے کہ ہر مصلح کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے پھر وہ کسی کی اصلاح کرے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)
(ترجمہ) اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔
اس تناظر میں آپ کو خطاب سے روکا تو جاسکتا ہے مگر حضور آپ کو دیکھنا چاہتاہوں یہ تمنا کرنے والوں کو ہرگز نہیں روکا جاسکتا کیوں کہ حمد و ثنا کرنے کا حق تو گنہگار سے گنہگار مسلمان کو بھی حاصل ہے
اور قرآن پاک میں صاف طور پر اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کےلیے حکم ہے
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(64)
(ترجمہ) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
ہوسکتاہے اس کے جواب میں آپ فاسق کی نعت خوانی کے متعلق فتویٰ پیش کریں اور مبارک پور کے جلسے میں آپ نے یہ جملہ کہابھی کہ داڑھی منڈوں کو نعت پڑھنے کا کوئی حق نہیں ہے تو جوابا عرض ہے کہ فاسق کو اپنے نبی کی تعریف و توصیف سے اور اپنے خالق کی حمد و ثنا سے کسی نے نہیں روکا بلکہ اس کے اسٹیج پر آنے اور اس کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے روکا ہے کیوں کہ حدیث پاک میں ہے
" من وقَّر صاحب بدعة فقد أعان على هدم الإسلام
جس نے صاحب بدعت کی تعظیم کی اس نے اسلام کے ڈھانے میں مدد کی
آپ کی دلیل تو مارے گھٹنا پھوٹے سر کی مصداق ہے
کیا فاسق شخص نماز نہیں پڑھ سکتا؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ امامت نہیں کرسکتا
اسی طرح فاسق شخص اپنے نبی کی نعت تو پڑھ سکتاہے مگر ممبر رسول پر بلانے سے اس کی تعظیم ہوتی ہے اس لیے منع ہے
جس تناظر میں آپ دیکھ رہے ہیں اس تناظر میں تو آپ کسی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے بھی روک سکتے ہیں ! یہ کہہ کر کہ نبیین و صدیقین و شہدا کے راستے پر چلنے کے قابل بنائے ہو اپنے کو ، دن رات تو گناہ کرتے ہو اور تمنا ہے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہونے کے
اس طرح تو عام لوگو کا یہ دعا کرنا کہ حشرمیں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کوثر نصیب فرما
اس کو بھی غلط کہا جاسکتاہے
پھر تو وادخلنا دارالسلام کہنے پر بھی پابندی لگادیں گے آپ
کہیے مکرانوی صاحب کیا یہ کہنا درست ہوگا؟
آپ کی باتوں کا کوئی سر پیر ہے؟
کیا ممبر رسول پر بیٹھ کر آپ کا یہ تحقیر مسلم کرنا نہیں ؟ کیا شہرت حاصل کرنے کےلیے یہی کام رہ گیا ہے ،
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے
کچھ ہنر چاہیے بازار میں رہنے کے لیے
سُبْحَانَ اللّٰہ! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اور آپ کے ذریعے آپ کی امت کی کتنی پیاری تربیت فرمائی ہے، اسی طرح ایک اور آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُؕ-اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ‘‘(حم السجدہ:۳۴)
ترجمہ: اور اچھائی اور برائی برابرنہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کےدرمیان دشمنی ہوگی تو اس وقت وہ ایسا ہوجائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔(صراط الجنان)
جس تاریخ میں جلسہ نہ ہو تو فرصت سے ان آیتوں پر ضرور غور کریں پھر اصلاح کے میدان میں کود جائیں
مگر جو اصلاح کا پہلو ہے اسی کو چھیڑیں ،ابھی حال ہی میں ایک مشہور ثناخواں محترم محمد علی فیضی کا پڑھا ہوا کلام حضور آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں پر آپ کے تبصرے نشر ہورہے ہیں ، تبصرہ کچھ یوں ہیں
منہ ہے دیکھنے کا ، ایک وقت نماز نہیں، جمعہ تک نہیں اور حضور کے دیکھنے کی بات کرتے ہو ،
مفتی صاحب! آپ کو اس کلام میں کیا خرابی نظر آئی ؟ آپ کہیں گے خرابی پڑھنے والے میں ہے
تو پوچھنا چاہوں گا کہ اگر واقعی جیسا آپ نے تذکرہ کیا ہے اور محمد علی فیضی صاحب ویسے ہی ہیں تو آپ نے اکیلے میں ان کی احسن انداز میں اصلاح کی کوشش کی؟ ان کو ثنا خواں ہو نے کا احساس دلایا ؟
اگر بدعملی مان بھی لیا جائے تو یہ تمنا کرنا کس زاویے سے غلط ہے ؟
اتنا تو ضرور ہے کہ ہر مصلح کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے پھر وہ کسی کی اصلاح کرے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)
(ترجمہ) اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔
اس تناظر میں آپ کو خطاب سے روکا تو جاسکتا ہے مگر حضور آپ کو دیکھنا چاہتاہوں یہ تمنا کرنے والوں کو ہرگز نہیں روکا جاسکتا کیوں کہ حمد و ثنا کرنے کا حق تو گنہگار سے گنہگار مسلمان کو بھی حاصل ہے
اور قرآن پاک میں صاف طور پر اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کےلیے حکم ہے
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(64)
(ترجمہ) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
ہوسکتاہے اس کے جواب میں آپ فاسق کی نعت خوانی کے متعلق فتویٰ پیش کریں اور مبارک پور کے جلسے میں آپ نے یہ جملہ کہابھی کہ داڑھی منڈوں کو نعت پڑھنے کا کوئی حق نہیں ہے تو جوابا عرض ہے کہ فاسق کو اپنے نبی کی تعریف و توصیف سے اور اپنے خالق کی حمد و ثنا سے کسی نے نہیں روکا بلکہ اس کے اسٹیج پر آنے اور اس کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے روکا ہے کیوں کہ حدیث پاک میں ہے
" من وقَّر صاحب بدعة فقد أعان على هدم الإسلام
جس نے صاحب بدعت کی تعظیم کی اس نے اسلام کے ڈھانے میں مدد کی
آپ کی دلیل تو مارے گھٹنا پھوٹے سر کی مصداق ہے
کیا فاسق شخص نماز نہیں پڑھ سکتا؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ امامت نہیں کرسکتا
اسی طرح فاسق شخص اپنے نبی کی نعت تو پڑھ سکتاہے مگر ممبر رسول پر بلانے سے اس کی تعظیم ہوتی ہے اس لیے منع ہے
جس تناظر میں آپ دیکھ رہے ہیں اس تناظر میں تو آپ کسی کو سورہ فاتحہ پڑھنے سے بھی روک سکتے ہیں ! یہ کہہ کر کہ نبیین و صدیقین و شہدا کے راستے پر چلنے کے قابل بنائے ہو اپنے کو ، دن رات تو گناہ کرتے ہو اور تمنا ہے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہونے کے
اس طرح تو عام لوگو کا یہ دعا کرنا کہ حشرمیں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کوثر نصیب فرما
اس کو بھی غلط کہا جاسکتاہے
پھر تو وادخلنا دارالسلام کہنے پر بھی پابندی لگادیں گے آپ
کہیے مکرانوی صاحب کیا یہ کہنا درست ہوگا؟
آپ کی باتوں کا کوئی سر پیر ہے؟
کیا ممبر رسول پر بیٹھ کر آپ کا یہ تحقیر مسلم کرنا نہیں ؟ کیا شہرت حاصل کرنے کےلیے یہی کام رہ گیا ہے ،
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے
کچھ ہنر چاہیے بازار میں رہنے کے لیے
اب تو بدنامی کا شہرت سے بڑا رشتہ ہے
ننگے ہو جاتے ہیں اخبار میں رہنے کے لیے
اصلاح کے حوالے سے جو مصلح کےلیے قوانین ہیں وہ مصلح کو بتائے جائیں مگر عوام سے دور رکھ کر اور سننے والوں کےلیے جو قوانین ہیں وہ ان کو بتائے جائیں
مصلح کےلیے جہاں قرآن کا یہ فرمان ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)
(ترجمہ) اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔
وہیں سننے والوں کےلیے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ فرمان بھی سنائیں کہ آپ فرماتے ہیں
اُنْظُرْ اِلیٰ مَاقَال وَلَا تَنْظُرْ اِلیٰ مَنْ قَال
کہنے والے کو مت دیکھو کہ کون کہہ رہاہے ، کس حسب و نسب کا ہے ، بے عمل ہے یا با عمل ہے بلکہ کہہ کیا رہاہے اسے دیکھو اچھی بات ہو تو لےلو اور اس پر عمل کرو
الحكمة ضالة المؤمن، اينما وجدها أخذها
حکمت مومن کی کھوئی ہے دولت ہے ، جہاں سے ملے لےلو
جناچہ منقول ہے
قال امير المومنين رضى الله عنه: لا تنظر الى من قال وانظر الى ما قال. اقول: يعنى لا يمنع حال القائل من خسة النفس ودناءة النسب وترك لعمل وسوء الادب من قبول قوله وسماع كلامه واقتباس العلم والحكمة من فيه كما قيل [1] الحكمة ضالة المؤمن، اينما وجدها أخذها(شرح كلمات أمير المؤمنين، جلد : 1 صفحه : 12)
سب کو برا سمجھنا اور خود کو بہتر سمجھنا عجب و خود پسندی ہے یہ روحانی بیماری آپ کے اعمال صالحہ پر پانی پھیرنے کےلیے کافی ہے
حضرت سخی سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:-
لشکر ریاضت کو سوائے خطرات عُجب کے کوئی اور چیز شکست نہیں دے سکتی، عجب (خود پسندی) وغرور سے کی گئی عبادت سے بعذر گناہ بہتر ہے
دوسری جگہ فرماتے ہیں
تکبر اور فخر و غرور ورثہ شیطان فرعون و قارون ہے اور عاجزی ورثہ انبیاء و اولیاء ہے
حضرت سخی سلطان باہو محک الفقر کلاں میں ایک عبرت انگیز واقعہ بیان فرماتے ہیں
ایک نیک و پارسا ادمی کہیں جا رہا تھا ،اتفاق سے اس کے سامنے ایک ایسا فاسق ادمی آگیا جو اپنی عمر کا قیمتی سرمایہ فسق و فجور میں برباد کر چکا تھا ، اپنے سانسوں کی نعمت جاودانی کو خاک میں ملا کر سیاہ کر چکا تھا اور اپنے خرمن حیات کو آگ لگا کر جلا چکا تھا، حتی کہ اپنی آبرو بھی گوا چکا تھا ، پارسا ادمی نے ازروئے عُجب اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور بولا الہی مجھے اور اس فاسق کو کہیں جمع نہ کرنا- اسی دوران اس فاسق نے غَفُورُ الذُّنُوب پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر اپنے عجز پر نظر ڈالی اور جوئے بارِ اعمالِ شائستہ کی ٹہنی پکڑنی چاہی مگر پکڑ نہ سکا اس کے دل سے درد بھری آہ نکلی چشم گریا سے اشک حرماں بہا کر عرض کی پروردگار ! اس عاجز پر رحم فرما کہ تیرے سوا اس کی خبرگیری کرنے والا کوئی نہیں بالائے عرش غیب سے ندا آئی کہ
میں نے دونوں کی دعا قبول کی -چونکہ فاسق نے نیاز مندی کے ساتھ میرے دامنِ فضل کو اپنے دستِ امید سے پکڑا ہے اس لیے میں نے اسے اپنے دامنِ عفو میں چھپا کر بخش دیا ہے اور زاہد نے راہ عُجب اختیار کر کے اس کمتر کو نگاہ حقارت سے دیکھا حالانکہ عُجب مہلکِ دل اور منشائے آب وگل ہے پس وہ اَنَا خَیرٌ مِّنہ (میں اس سے بہتر ہوں) کہ ناکام مرتبے پر پہنچا اور میں نے اسے مردود کر دیا کہ جب بھی کوئی یہ شامت انگیز کلمہ کہتا ہے میں اس متکبر کو یہی مقام دیتا ہوں جو ریاضت عُجب آلودہ ہو جائے وہ کوئی مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی-
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
سن ! ابلیس نے کہا، میں نے اطاعت کی-
ندا آئی میں نے لعنت کی-
آدم علیہ السلام نے کہا، میں نے خطا کی-
ندا آئی میں نے بخش دی-
( بحوالہ شمسی تحقیقات در بیان قراءات)
طوفان نوح لانے سے اے اشک فائدہ
دو بوند ہی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں۔
ننگے ہو جاتے ہیں اخبار میں رہنے کے لیے
اصلاح کے حوالے سے جو مصلح کےلیے قوانین ہیں وہ مصلح کو بتائے جائیں مگر عوام سے دور رکھ کر اور سننے والوں کےلیے جو قوانین ہیں وہ ان کو بتائے جائیں
مصلح کےلیے جہاں قرآن کا یہ فرمان ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(2)كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(3)
(ترجمہ) اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے ۔کتنی سخت ناپسند ہے اللہ کو وہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔
وہیں سننے والوں کےلیے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ فرمان بھی سنائیں کہ آپ فرماتے ہیں
اُنْظُرْ اِلیٰ مَاقَال وَلَا تَنْظُرْ اِلیٰ مَنْ قَال
کہنے والے کو مت دیکھو کہ کون کہہ رہاہے ، کس حسب و نسب کا ہے ، بے عمل ہے یا با عمل ہے بلکہ کہہ کیا رہاہے اسے دیکھو اچھی بات ہو تو لےلو اور اس پر عمل کرو
الحكمة ضالة المؤمن، اينما وجدها أخذها
حکمت مومن کی کھوئی ہے دولت ہے ، جہاں سے ملے لےلو
جناچہ منقول ہے
قال امير المومنين رضى الله عنه: لا تنظر الى من قال وانظر الى ما قال. اقول: يعنى لا يمنع حال القائل من خسة النفس ودناءة النسب وترك لعمل وسوء الادب من قبول قوله وسماع كلامه واقتباس العلم والحكمة من فيه كما قيل [1] الحكمة ضالة المؤمن، اينما وجدها أخذها(شرح كلمات أمير المؤمنين، جلد : 1 صفحه : 12)
سب کو برا سمجھنا اور خود کو بہتر سمجھنا عجب و خود پسندی ہے یہ روحانی بیماری آپ کے اعمال صالحہ پر پانی پھیرنے کےلیے کافی ہے
حضرت سخی سلطان باہو رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:-
لشکر ریاضت کو سوائے خطرات عُجب کے کوئی اور چیز شکست نہیں دے سکتی، عجب (خود پسندی) وغرور سے کی گئی عبادت سے بعذر گناہ بہتر ہے
دوسری جگہ فرماتے ہیں
تکبر اور فخر و غرور ورثہ شیطان فرعون و قارون ہے اور عاجزی ورثہ انبیاء و اولیاء ہے
حضرت سخی سلطان باہو محک الفقر کلاں میں ایک عبرت انگیز واقعہ بیان فرماتے ہیں
ایک نیک و پارسا ادمی کہیں جا رہا تھا ،اتفاق سے اس کے سامنے ایک ایسا فاسق ادمی آگیا جو اپنی عمر کا قیمتی سرمایہ فسق و فجور میں برباد کر چکا تھا ، اپنے سانسوں کی نعمت جاودانی کو خاک میں ملا کر سیاہ کر چکا تھا اور اپنے خرمن حیات کو آگ لگا کر جلا چکا تھا، حتی کہ اپنی آبرو بھی گوا چکا تھا ، پارسا ادمی نے ازروئے عُجب اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور بولا الہی مجھے اور اس فاسق کو کہیں جمع نہ کرنا- اسی دوران اس فاسق نے غَفُورُ الذُّنُوب پروردگار کی طرف متوجہ ہو کر اپنے عجز پر نظر ڈالی اور جوئے بارِ اعمالِ شائستہ کی ٹہنی پکڑنی چاہی مگر پکڑ نہ سکا اس کے دل سے درد بھری آہ نکلی چشم گریا سے اشک حرماں بہا کر عرض کی پروردگار ! اس عاجز پر رحم فرما کہ تیرے سوا اس کی خبرگیری کرنے والا کوئی نہیں بالائے عرش غیب سے ندا آئی کہ
میں نے دونوں کی دعا قبول کی -چونکہ فاسق نے نیاز مندی کے ساتھ میرے دامنِ فضل کو اپنے دستِ امید سے پکڑا ہے اس لیے میں نے اسے اپنے دامنِ عفو میں چھپا کر بخش دیا ہے اور زاہد نے راہ عُجب اختیار کر کے اس کمتر کو نگاہ حقارت سے دیکھا حالانکہ عُجب مہلکِ دل اور منشائے آب وگل ہے پس وہ اَنَا خَیرٌ مِّنہ (میں اس سے بہتر ہوں) کہ ناکام مرتبے پر پہنچا اور میں نے اسے مردود کر دیا کہ جب بھی کوئی یہ شامت انگیز کلمہ کہتا ہے میں اس متکبر کو یہی مقام دیتا ہوں جو ریاضت عُجب آلودہ ہو جائے وہ کوئی مرتبہ حاصل نہیں کر سکتی-
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
سن ! ابلیس نے کہا، میں نے اطاعت کی-
ندا آئی میں نے لعنت کی-
آدم علیہ السلام نے کہا، میں نے خطا کی-
ندا آئی میں نے بخش دی-
( بحوالہ شمسی تحقیقات در بیان قراءات)
طوفان نوح لانے سے اے اشک فائدہ
دو بوند ہی بہت ہیں اگر کچھ اثر کریں۔
_________(❤️)_________
از قلم :- احمد رضا شمسی قادری جمالی