Type Here to Get Search Results !

غازی ملک ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ تعارف

غازی ملک ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ

« مختصر سوانح حیات»
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
غازی ملک ممتاز حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
اسم گرامی: ملک ممتاز حسین۔
القابات: غازیِ اسلام، غازیِ ملت، محافظِ ناموسِ رسالت، پروانۂ شمعِ رسالت، شہیدِ ناموسِ مصطفیٰﷺ۔
والد ماجد:
ملک بشیر اعوان۔ والد صاحب نہایت ہی ایماندار، محنت مزدوری کرنے والے ہیں، آپ کہتے ہیں: میں نے ہمیشہ اپنی اولاد کو رزقِ حلال کھلایا ہے، کبھی اپنی اولاد کو حرام کا لقمہ نہیں کھلایا۔
سلسلہ نسب: غازی ملک ممتاز حسین قادری بن ملک بشیر اعوان بن ملک خان محمد بن ملک دادن خان۔
خاندانی پس منظر: ملک دادن خان علیہ الرحمہ غازی صاحب کے پڑدادا تھے۔ یہ خدا رسیدہ اور خدا ترس بزرگ تھے۔ مسافروں کو کھانا کھلانا فرض جانتے تھے۔ آج بھی لوگ ان کی پرہیزگاری و سخاوت کو بیان کرتے ہیں اور قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا مزار شریف اسلام آباد میں "کھڈا مارکیٹ" کے ساتھ سی،ڈے،اے، کی عمارت کے عقب میں ہےٖ۔ غازی صاحب کا آبائی گاؤں "باغ بھٹاں" ہے، باغ بھٹاں موجودہ "آبپارہ" کے قریب واقع تھا۔ اسلام آباد کی تعمیر کی غرض سے حکومت نے سب دیہاتوں کو منہدم کر کے ان کے مکینوں کو یہاں سے بے دخل کر دیا تھا۔ آپ نسباً "قطب شاہی اعوان" برادری سے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت محمد بن حنفیہ بن مولا علی کرم اللہ وجہہ تک منتہی ہوتا ہے۔ اس قوم میں میں بڑے بڑے اولیاء، اور نامور سپہ سالار پیدا ہوئے ہیں۔
ولادت باسعادت: آپ کی ولادت بروز منگل 8 ربیع الاول (یا ماہ ربیع الآخر)1405ھ بمطابق 1 جنوری 1985ء کو صادق آباد کے علاقہ "مسلم ٹاؤن" راولپنڈی (پاکستان ) میں ہوئی۔
ولادت سے قبل بشارت: آپ کے والدِ محترم کہتے ہیں کہ ممتاز کی ولادت سے دو سال قبل میں نے ایک عجیب  واقعہ دیکھا۔ میرا معمول تھا کہ میں رات کے پچھلے پہر اٹھ کر تہجد کی نماز ادا کرتا تھا اور اس مقصد کےلئے ہمارے گھر کا ایک کونہ مختص تھا جہاں مصلیٰ بچھا ہوتا تھا۔ جس نے گھر والوں میں سے نماز ادا کرنی ہوتی وہ اسی جگہ نماز ادا کرتا۔ ایک رات میں بیدار ہوا اور نماز کےلئے مذکورہ گوشے میں پہنچا تو دیکھا کہ ایک نورانی شخصیت اس مصلے پر نماز ادا کر رہی ہے، میں انہیں دیکھنے لگا، انہوں نے نماز مکمل کی اور خاموشی سے جانے لگے، پھر اچانک واپس مڑے اور مجھے فرمایا: "اس گھر کے جنوبی کونے میں ایک اللہ کا ولی پیدا ہوگا، جو پوری دنیا میں اسلام کی عزت کا پرچم بلند کرے گا اور تمہارا نام روشن کرے گا" یہ کہتے ہوئے وہ تشریف لے گئے۔ دوسال بعد میرے بیٹے ممتاز حسین کی ولادت اسی جگہ ہوئی، جہاں بزرگ نے نشاندہی فرمائی تھی۔ اس کے بعد میں اس بات کو بھول گیا تا آنکہ 4 جنوری 2011ء کو سلمان تاثیر قتل ہوا، اور سارے معاملات سامنے آئے۔ پھر مجھے وہ بزرگ والا واقعہ یاد آیا کہ جس شخص کے متعلق اس بندۂ خدا نے خبر دی تھی وہ تو ممتاز حسین نکلا۔ ایک اور بات کہ غازی صاحب کی ولادت سے ہمارے گھر کے معاشی حالات بھی بہتر ہوگئے۔
تحصیلِ علم: آپ نے میٹرک تک تعلیم اپنے گھر کے قریب پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکول "عائشہ لاثانی پبلک اسکول" مسلم ٹاؤن میں حاصل کی۔ بچپن سے ہی آپ خاموش طبع اپنے کام سے کام رکھنے والے بغیر کسی کی مدد کے سکول کےلئے تیار ہوجانا اپنا ہوم ورک بغیر کسی کی مدد کے کر لینا وغیرہ۔ اسکول کی تقریبات میں نعتیں شوق سے پڑھتے تھے۔ نعتیہ مقابلے میں بھی حصہ لیتے تھے۔ اسی طرح محلے میں جہاں کہیں نعت خوانی یا میلاد شریف کا پروگرام ہوتا اس میں ضرور شرکت کرتے۔ میٹرک کے بعد "سویڈش کالج" میں الیکٹرونکس ڈپلومہ کیا۔ پھر اسی دوران 2002ء میں محکمہ پولیس میں بھرتی ہوگئے۔ آپ جسمانی اور ذہنی طور پر انتہائی مضبوط اور نشانہ بازی میں اپنے بیج کے تمام لڑکوں سے مسابقت رکھتے تھے۔
بیعت: میٹرک کے بعد امیرِ دعوتِ اسلامی ابوبلال حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری حفظہ اللہ کے دستِ حق پرست پر بذریعہ خط بیعت ہوگئے، اور دعوتِ اسلامی کے اجتماعات میں شریک ہونے لگے۔
سیرت و خصائص: غازیِ اسلام، غازیِ ملت، محافظِ ناموسِ رسالتﷺ، پروانۂ شمعِ رسالتﷺ، پیکرِ غیرت و حمیت، شہیدِ ناموسِ مصطفیٰ، جناب ملک ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ۔
آپ فنافی الرسولﷺ تھے۔ رسول اللہﷺ کی محبت آپ کا سرمایۂ حیات تھا۔ ہر وقت ذکرِ مصطفیٰﷺ کرنا اور سننا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ آپ کا مسلک عشق و محبت ہے۔ ایک مرتبہ آپ فرمانے لگے کہ اگر اللہ جل شانہ مجھ سے پوچھے ممتاز قادری! مانگ کیا مانگتا ہے؟ تو میں عرض کروں گا اے باری  تعالیٰ! اپنے نبیﷺ کے ساری امتیوں کو اپنے نبیﷺ کا عشق عطاء فرما۔
آپ بچپن سے ہی سعادت مند تھے۔ والدین، اساتذہ، بزرگوں، سبھی مسلمانوں کے ساتھ ادب سے پیش آتے تھے۔ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کیا۔ ہمیشہ نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔ بزرگ فرماتے ہیں: جو نمازی نہیں بن سکتا وہ غازی کیسے بن سکتا ہے؟ اکثر لوگوں کو محبت بھرے انداز میں نیکی کی دعوت اور برائی سے منع کرتے رہتے تھے۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کا نعتیہ کلام اکثر یاد تھا۔ علماءِ کرام کے بیانات شوق سے سنتے تھے۔ اسی سے محبتِ مصطفیٰﷺ میں اضافہ ہوا۔ آپ انتہائی بااخلاق اور نیک سیرت کے مالک تھے۔ محلے کی بوڑھی خواتین بازار سے سودا سلف منگوانے کےلئے اکثر آپ کو پیسے دے دیتیں اور آپ بلا چوں  چرا سوداسلف خرید کر آتے۔ جب کوئی بوڑھا شخص یا محلے کی عمر رسیدہ خواتین بازار سے سامان لے کر آرہی ہوتیں تو آپ سامان اٹھا کر گھر پہنچا دیتے۔ بعض مرتبہ بوڑھی خواتین سے گھر کا کوڑا کرکٹ لے کر پھینک آتے۔ آپ کی طبیعت میں عاجزی و انکساری، خلوص و ایمانداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ دینِ اسلام سے سچی محبت و اطاعت کا اندازہ آپ کی سنت کے مطابق شادی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان مواقع پر تو بڑے بڑے حاجی صاحبان کے پاؤں بھی ڈگمگا جاتے ہیں، جواز یہ پیش کرتے ہیں: جی بچے نہیں مان رہے، بچوں کا شوق ہے، حالانکہ خلافِ شرع اور فضول و بےہودہ رسومات کےلئے پیسہ  حاجی صاحب کے ہاتھ سے جا رہا ہوتا ہے۔ آپ کے بھائی کہتے  ہیں: ہم نے سوچا تھا کہ سب سے چھوٹے بھائی کی شادی ہے اور خوب ارمان نکالیں گے۔ جیسے ہی غازیِ ملت کو معلوم ہوا فرمایا میری شادی انتہائی سادگی سے ہوگی، میرے سسرال کو جہیز سے بالکل منع کر دیں، اور میری شادی پر دیگر پروگراموں کی بجائے نعت خوانی ہوگی۔
گونر سے کیا دشمنی تھی: آپ کی گورنر پنجاب سے کوئی ذاتی رنجش یا دشمنی نہیں تھی۔ وہ شراب کا رسیا تھا، ایک سکھ عورت سے اس کا ناجائز بیٹا یہ کہہ رہا تھا کہ اس کا باپ سچا مسلمان نہیں، لیکن یہ سب کچھ اس کا ذاتی فعل قرار دے کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا، لیکن کیا ایک سچا مسلمان رسول اللہ ﷺ کی شان میں اس کی گستاخی کو کیسے برداشت کر سکتا تھا؟ 14 جون 2009ء کو ضلع ننکانہ میں ایک عیسائی عورت آسیہ مسیح نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی، عدالت میں اس نے اعترفِ جرم کیا۔ عدالت نے اسے 8 نومبر 2010ء کو سزائے موت اور ایک لاکھ جرمانہ کا حکم سنایا۔ (یہ عدالت نہ کسی مولوی کی تھی اور نہ ہی جج صاحب کوئی عالم یا مفتی تھے بلکہ یہ تمام سب کچھ ریاست کے قوانین کے ماتحت ہوا۔) 20 نومبر کو گورنر پنجاب نے ملعونہ سے ملاقات  کرکے کانفرنس کی، اور اسے رہائی کا یقین دلایا۔ (یہ توہینِ مذب کے ساتھ توہینِ عدالت بھی تھا، لیکن تمام ادارے سب خاموش  تماشائی تھے۔) اس سزا کو "ظالمانہ سزا" اور تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون (جو کہ قرآن و سنت سے ماخوذ ہے) کو "کالا قانون" کہا، علماء کے فتووں کو "جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں" کے الفاظ بکے۔ پورے ملک میں تمام شعبۂ ہائے زندگی کے افراد نے گورنر کے اس طرز پر احتجاج کیا۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ترمیمی بل پیش کر دیا گیا کہ اس قانون کو ختم کر دیا جائے یا اس میں ترمیم کی جائے۔ ادھر آپ نے وکلاء سے معلوم کیا کہ گورنر کے خلاف ایف آئی آر کیوں نہیں درج ہو رہی۔ وہ کہنے لگے کہ ان کو "استثنا" حاصل ہے۔ آپ کے بھائی کہتے ہیں: اس دوران میں  نے دیکھا کہ ہر کسی سے مسکرا کر ملنے والا، اور بااخلاق شخصیت کا حامل میرے بھائی نے اپنی جسمانی اور ظاہری حالت بہت خراب کرلی تھی، لباس پر توجہ نہیں، کھانے پینے کا ہوش نہیں، رات بھر جاگتے رہتے، ایک ماہ کے بیٹے کی کوئی خبر نہیں، بیمار بیوی پر کوئی توجہ نہیں، ہر وقت بے چینی کا شکار اور مضطرب نظر آتے ہیں۔ جیسے کچھ کھو گیا ہو، جیسے کوئی لٹ گیا ہو، میں بتا نہیں سکتا کہ غازی ممتاز صاحب کی حالت  دیکھ کر گھر والے کس قدر پریشان ہوگئے تھے۔ کیونکہ نہ کچھ بتاتے تھے، اور نہ کچھ نظر آتا تھا کہ ماجرا کیا ہے؟ میں نے کہا بھائی جان! آپ کے بیٹے کی طبیعت ناساز ہے، کسی ڈاکٹر کو دیکھاؤ۔ کہنے لگے: آپ اسے کل ڈاکٹر کے پاس لے جانا مجھ میں ہمت نہیں کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جا سکوں۔
عدالتی رپورٹ کے مطابق آپ کا بیان: "مجھے سلمان تاثیر سے ملاقات کا موقع ملا۔ میں نےکہا: محترم! آپ نے بحیثیت گورنر قانون تحفظِ ناموس رسالت کو "کالا قانون" کہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ اس پر اچانک وہ چلایا اور کہنے لگا: "نہ وہ صرف کالا قانون ہے بلکہ (نعوذ باللہ) وہ میری نجاست ہے"۔ میں نے ٹریگر دبا دیا اور وہ میرے سامنے ڈھیر ہوگیا۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے، میں نے یہ تحفظِ ناموسِ رسول اللہ ﷺ کےلئے کیا ہے۔ آپ کے اس اقدام سے اٹھنے والے سب فتنے تھم گئے، گستاخان پر زمین تنگ ہوگئی، اور جو اس قانون کو ختم کرنےکی قرار دادیں پیش کر رہےتھے، ان کی زبانیں گنگ ہوگئیں، پھر وہ بھی اس قانون کے تحفظ کی باتیں کرنے لگے۔ پورے ملک میں مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، سارے مسلمانوں کا قرض و فرض ایک غازی صاحب نے چکا دیا۔
گورنر کا جنازہ تازیانۂ عبرت: پاکستان کے پلید ذہنیت رکھنے والے، اور اغیار کے نظام کے متوالے سیاستدانوں کےلئے ان کے "بڑے" کا جنازہ نشانِ عبرت ہے۔ پورے ملک میں جنازہ پڑھانے کو کوئی تیار نہ تھا، بالآخر پیپلز پارٹی کے ایک باریش کارکن کےساتھ علامہ کا لاحقہ لگاکر چالیس سیکنڈ میں جنازہ پڑھایا گیا۔ آج چند موم بتی والی آنٹیاں، اور لنڈے کے کوٹ پہننے والے بینگنوں کے علاوہ کوئی نام لیوا نہیں ہے اور غازیِ ملت لاکھوں مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہیں۔ اس بات کی گواہی جنازہ دے چکا ہے۔
جیل میں کرم نوازیاں: جب غازی صاحب کو جیل لے جایا گیا تو قیدیوں نے شاندار استقبال کیا۔ ہر طرف سے یہ صدا آتی تھی "ہمارا سردار آگیا، مصطفیٰ کا جان  نثار آگیا" غازی صاحب فرماتے ہیں: مجھے بارہا رسول اللہﷺ کی زیارت ہوئی جب مجھ پر تشدد کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوتے تھے، تو میں اس وقت خانۂ کعبہ اور گنبدِ خضرا کےقریب اپنے آپ کو موجود پاتا تھا۔ غازی صاحب کی بشارتوں کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔

غیر شرعی عدالتی فیصلہ: 1 اکتوبر 2011ء کو دہشت گردی کی عدالت کے جج پرویز علی شاہ نے پرویزی فیصلے میں آپ کو دو مرتبہ سزائے موت، اور دو لاکھ جرمانے کی سزا سنائی۔ پھر دہشت گردی کی دفعات ختم کردی گئیں۔ 7 اکتوبر 2015ء کو جج  آصف کھوسہ نے کسی کے دباؤ پر تمام دفعات بحال کر دیں۔
عوامی رد عمل کے خوف سے آپ کو شہید کرنے کا منصوبہ مکمل خفیہ رکھا گیا۔ عوام اور غازی صاحب کے خاندان کو دھوکہ دیا گیا، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ نیند کی حالت میں آپ کو بیدار کرکے بتایا گیا کہ صبح آپ کو پھانسی دی جائے گی، ادھر سے گھر والوں کو جھوٹ بول کر بلایا گیا۔ آپ نے گھر والوں سے ملاقات میں انہیں اطمینان کے ساتھ جھوم جھوم کر نعتیں سنائیں، اور بتایا کہ بیداری کی حالت میں رسول اللہ ﷺ، خلفاء راشدین، غوث اعظم، اور داتا علی ہجویری کی زیارتیں ہوئی ہیں، اور ان حضرات نے میری قربانی کی قبولیت کی بشارت دی ہے۔ آپ کو شہید کرنے کےلئے چار بجے کا وقت مقرر کیا گیا۔ اہلِ خانہ سے ملاقات کے بعد آپ نے آبِ زم زم اور عجوہ کھجور سے روزہ رکھا، نمازِ تہجد ادا کی اور وقتِ مقررہ سے پہلے ہی پھانسی گھاٹ کی طرف  جانے لگے۔ آپ سے کہا گیا: ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ فرمانے لگے: "سامنے رسول اللہ ﷺ جلوہ افروز ہیں اور انتظار فرما رہے ہیں"۔ آپ نے دو رکعت نفل ادا کیے، نعرۂ تکبیر، اور نعرۂ رسالت لگاتے ہوئے، فدائےمصطفیٰ ﷺ، بارگاہِ مصطفیٰ ﷺ میں حاضر ہوگیا۔
شہادت: آپ کی شہادت بروز پیر 20جمادی الاول 1437ھ بمطابق 29 فروری 2016ء کو ہوئی۔
تاریخی جنازہ: غازی ملت علیہ الرحمہ کا جنازہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ جس میں حکومتی رکاوٹوں، میڈیا کی بےغیرتی کے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق 60 لاکھ افراد شریک ہوئے۔
ماخذ و مراجع: پروانۂ شمع رسالت۔ محافظ ناموس رسالت۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area