Type Here to Get Search Results !

کیا زنا ایک قرض ہے؟

کیا زنا ایک قرض ہے؟
 کیا زنا ایک قرض ہے؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
از قلم :- مفتی محمد نظام الدین قادری
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ زنا‌ (adultery) ایک قرض ہے اور اس کی ادائیگی اسی شخص کے گھر سے ہوگی مثلاً اس کی بہن بیٹی بیوی عرض یہ ہے کہ کیا کوئی ایسی حدیث یا روایت کسی سے منقول ہے یا نہیں اگر نہیں تو کیا اسکو حدیث یا مشاہدہ بتا کر بیان کرنا کیسا ہے ? مع حوالہ جواب (cevap) عنایت فرمائیں۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔ یہ خیال کہ زنا (zina) ایک قرض ہے اور اس کی ادائیگی اس زنا کرنے والے کی بہن بیٹی بیوی وغیرہ سے ہوگی , بالکل مہمل اور بےاصل بات ہے۔ اور قرآن وحدیث کے واضح ارشادات کے خلاف و متضاد ہے۔اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
"لاتزر وازرة وزر اخری”
(اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھاِئے گی۔
(سورہ فاطر: آیت نمبر ١٨)
بعض احادیث میں آیا کہ حضور علیہ السلام نے ایک سائل کے دل و دماغ میں زنا سے نفرت پیدا کرنے کے لیے
حکیمانہ اور پراثر اسلوب میں کچھ سوالات کیے۔
حدیث یوں ہے:
"عن أبي أمامة رضي الله عنه قال: إن فتى شابًّا أتى النبيَّ صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ائذن لي بالزنا! فأقبل القوم عليه فزجروه، وقالوا: مه مه! فقال: ((ادنه))، فدنا منه قريبًا، قال: فجلس، قال: ((أتحبه لأمك؟))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لأمهاتهم))، قال: ((أفتحبه لابنتك؟))، قال: لا والله يا رسول الله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لبناتهم))، قال: ((أفتحبه لأختك))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لأخواتهم))، قال: ((أفتحبه لعمتك؟))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لعمَّاتهم))، قال: ((أفتحبه لخالتك))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لخالاتهم))، قال: فوضع يده عليه، وقال: ((اللهم اغفر ذنبه، وطهر قلبه، وحصِّن فَرْجَه))، فلم يكن بعد – ذلك الفتى – يلتفت إلى شيء۔”
(رواه أحمد بإسناد صحيح)
امامِ اہلِ سنت مجدد دین وملت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
"ایک جوان حاضر خدمت اقدس ہوا اور آکر بے دھڑک عرض کی : یا رسول اللہ ! میرے لئے زنا حلال کردیجئے۔ نبی سے براہ راست یہ درخواست کس حد تک پہنچتی ہے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے اس کو قتل (katal) کرنا چاہا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے منع فرمایا اور اسے قریب بلایا، یہاں تک کہ اس کے زانو زانوئے اقدس سے مل گئے، پھر فرمایا: کیا تو پسند کرتا ہے کہ کوئی شخص تیری ماں سے زنا کرے؟ عرض کی: نہ۔ فرمایا: تیری بہن سے؟ عرض کی: نہ فرمایا: تیری بیٹی سے؟ عرض کی، نہ۔ فرمایا : تیری پھوپی سے؟ عرض کی: نہ۔ فرمایا: تیری خالہ سے؟ عرض کی: نہ۔ فرمایا: تو جس سے زنا کرے گا وہ بھی تو کسی کی ماں بہن بیٹی پھوپھی خالہ ہوگی۔ جب اپنے لئے پسند نہیں کرتا اوروں کے لئے کیوں پسند کرتا ہے۔ پھر دستِ اقدس اس کے سینہ پر ملا اور دعا کی: الٰہی! اس کے دل سے زنا کی محبت نکال دے۔
وہ صاحب فرماتے ہیں: اس وقت سے زنا سے زیادہ کوئی چیز مجھے دشمن (düşman) نہ تھی۔ پھر صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا:  
 اس وقت اگر تم اسے قتل کردیتے تو جہنم (Cehennem) میں جاتا۔ میری تمھاری مثل ایسی ہے جیسے کسی کا ناقہ بھاگ گیا، لوگ اسے پکڑنے کو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ بھڑکتا اور زیادہ بھاگتا ہے۔ اس کے مالک نے کہا تم رہنے دو تمھیں اس کی ترکیب نہیں آتی، پھر سبز گھاس کا ایک مٹھا ہاتھ میں لیا اور اسے دکھایا اور چمکارتا ہوا اس کے پاس گیا یہاں تک کہ بٹھا کر اس پر سوا ر ہولیا۔اوکما قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔”
(فتاویٰ رضویہ ج٩ص١٨٣ ، ١٨۴)
ہوسکتا ہے کہ کسی نے حضور علیہ السلام کے ارشاد (کیا تو پسند کرتا ہے کہ کوئی تیری ماں سے زنا کرے) سے یہ احمقانہ نتیجہ نکالا ہو کہ آدمی کا کسی عورت سے زنا کاری کرنا اس کی ماں بہن وغیرہ کے ساتھ زنا کیے جانے کا سبب ہے۔ حالاں کہ حدیث مبارک کے مضامین اور سیاق سباق(context) سے معمولی سے معمولی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ یہ نتیجہ قطعی غلط ہے۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ دنیا کے وضعی قوانین جن میں بہت جگہوں پر صاف صاف ظلم وزیادتی ہے مگر ان انسانوں کے بنائے ہوئے ان قوانین میں بھی کہیں ایسی کوئی مثال نہ ملے گی کہ کسی کی زنا کاری کی سزا اس کے اہلِ خانہ کے ساتھ زنا کاری کی گھناونی اور گندی شکل میں دی جائے تو اس حکیم مطلق کی نازل کردہ پاک اور ستھری شریعت میں ایسا ہونے کا ہرگز ہرگز تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
جو اس خیال کو حدیث بتائے اس سے حوالہ کا مطالبہ کیا جائے اور ان وعیدوں سے ڈرا کر متنبہ کیا جائے جو جھوٹی احادیث بیان کرنے والوں کے بارے میں آئی ہیں۔
اور جو اس کو اپنا مشاہدہ بتائے سخت خطا کار اور جہلِ مرکب کا شکار ہے یا اس کا یہ مہمل خیال اِس شرطیہ کے قبیل سے ہے کہ "اگر زید کا لڑکا کاتب ہے تو عمرو کا لڑکا ضرور شاعر (Şair) ہوگا”۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
_________(❤️)_________ 
کتبہ: محمد نظام الدین قادری:
 خادم درس و افتاء دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی، بستی۔ یوپی۔
٣/جمادی الآخرہ ١۴۴٣ھ//۵/جنوری ٢٠٢٢ء
نوٹ : بریکٹ میں دئیے گئے الفاظ ترکی زبان کے ہیں. البتہ بعض الفاظ انگریزی کے ہیں جو ظاہر ہیں.

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area