(1) قرآن خوانی ،نمازتراویح اور نعت خوانی کے بدلے اجرت یا نذرانہ مقرر کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
(2) دوکان میں یا گھر پر سورہ بقرہ اجرت پر پڑھنا یا پڑھوانا جائز ہے یا نہیں؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
(2) دوکان میں یا گھر پر سورہ بقرہ اجرت پر پڑھنا یا پڑھوانا جائز ہے یا نہیں؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ایک مسجد کا امام ہے جو حافظ قران بھی ہے، رمضان شریف میں تراویح کی نماز امام صاحب ہی پڑھاتے ہیں ،مسجدکمیٹی کی طرف سے ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ تراویح کے نام پرمحلہ سے جوبھی چندہ اٹھتاہے وہ ختم تراویح کے دن نذرانہ کے طور پر حافظ صاحب کو دے دیا جاتاہے ۔
گزشتہ سال تراویح کا چندہ اکاون ہزار 51000 ملا تھا۔ مگر امسال چالیس ہزار 40000 چندہ وصول ہوا۔ جب کمیٹی کے لوگ حافظ صاحب کو چالیس ہزرا نذرانہ تراویح کا دیئے تو امام یعنی حافظ صاحب لینے سے انکار کردیئے کہنے لگے اتنا کم نذرانہ میں نہیں لونگا ختم تروایح میں لوگ کار، گاڑی وغیرہ دیتے ہیں مگر یہاں کچھ نہیں ملتا ہے
پھر بھی کمیٹی کے لوگ زبردستی ہاتھ میں حافظ صاحب کو چالیس ہزار روپیہ تھمادیئے اسکے بعد امام یعنی حافظ صاحب جمعہ کی تقریر کے دوران بولے آئندہ سال سے میں خود تروایح کا چندہ وصول کرونگا آپ لوگ کمیٹی کو تروایح کا چندہ مت دیجئےگا امسال جو لوگ ابھی تک تروایح کا چندہ نہیں دیئےہیں وہ حضرات مجھے لاکر دیں اتنے میں جمعہ کی نماز میں شور شرابا ہوگیا کسی نے کہا امام صاحب آپ کے کہنے کے مطابق کمیٹی کے لوگ چور ہیں کسی نے امام صاحب سے پوچھا تروایح کی نذرانہ کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ۔ تو امام صاحب کوئی جواب نہیں دیئے پھر بعد میں کمیٹی کی طرف سے دس ہزار روپیہ 10000 دیاگیا۔
اب کیا ایسے حافظ کے پیچھے پنجوقتہ و تروایح کی نماز پڑھنا جائز ہے ؟ قران وحدیث کی روشنی میں جواب جلد دیجیے۔
سائل:- ماسٹر محمد افتاب عالم حبیبی جامع مسجد باگ کھال رشرا ویسٹ ضلع ہگلی کلکتہ بنگال
از قلم:- حضور مصباح ملت شیخ طریقت مفتی اعظم بہار
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید ایک مسجد کا امام ہے جو حافظ قران بھی ہے، رمضان شریف میں تراویح کی نماز امام صاحب ہی پڑھاتے ہیں ،مسجدکمیٹی کی طرف سے ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ تراویح کے نام پرمحلہ سے جوبھی چندہ اٹھتاہے وہ ختم تراویح کے دن نذرانہ کے طور پر حافظ صاحب کو دے دیا جاتاہے ۔
گزشتہ سال تراویح کا چندہ اکاون ہزار 51000 ملا تھا۔ مگر امسال چالیس ہزار 40000 چندہ وصول ہوا۔ جب کمیٹی کے لوگ حافظ صاحب کو چالیس ہزرا نذرانہ تراویح کا دیئے تو امام یعنی حافظ صاحب لینے سے انکار کردیئے کہنے لگے اتنا کم نذرانہ میں نہیں لونگا ختم تروایح میں لوگ کار، گاڑی وغیرہ دیتے ہیں مگر یہاں کچھ نہیں ملتا ہے
پھر بھی کمیٹی کے لوگ زبردستی ہاتھ میں حافظ صاحب کو چالیس ہزار روپیہ تھمادیئے اسکے بعد امام یعنی حافظ صاحب جمعہ کی تقریر کے دوران بولے آئندہ سال سے میں خود تروایح کا چندہ وصول کرونگا آپ لوگ کمیٹی کو تروایح کا چندہ مت دیجئےگا امسال جو لوگ ابھی تک تروایح کا چندہ نہیں دیئےہیں وہ حضرات مجھے لاکر دیں اتنے میں جمعہ کی نماز میں شور شرابا ہوگیا کسی نے کہا امام صاحب آپ کے کہنے کے مطابق کمیٹی کے لوگ چور ہیں کسی نے امام صاحب سے پوچھا تروایح کی نذرانہ کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ۔ تو امام صاحب کوئی جواب نہیں دیئے پھر بعد میں کمیٹی کی طرف سے دس ہزار روپیہ 10000 دیاگیا۔
اب کیا ایسے حافظ کے پیچھے پنجوقتہ و تروایح کی نماز پڑھنا جائز ہے ؟ قران وحدیث کی روشنی میں جواب جلد دیجیے۔
سائل:- ماسٹر محمد افتاب عالم حبیبی جامع مسجد باگ کھال رشرا ویسٹ ضلع ہگلی کلکتہ بنگال
از قلم:- حضور مصباح ملت شیخ طریقت مفتی اعظم بہار
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ و بارک وسلم
صورت مسئولہ میں یعنی نماز تراویح ؛ وہ عبادت ہے اور شرعا اصل حکم یہ ہے کہ عبادات کے لئے ہر جگہ اجرت طے کرنا خواہ الفاظ سے ہو خواہ عرف سے ہو خواہ ذہن میں ہو کہ وہاں اتنا ملتا ہے یہ سب ناجائز و حرام ہے اور جو اجرت ناجائز وحرام ذریعہ سے لیا جائے بعینہ وہ شئی حلال بھی نہیں بعینہ اس حاصل کردہ روپیہ سے حج کرنا صدقہ کرنا سب ناجائز و حرام ہے کیونکہ تراویح کی نماز پڑھانے کی اجرت طے کرکے لینا یا اسے معلوم ہے کہ فلاں جگہ اتنا ہزار روپیہ ملتا ہے یا محلہ والے جانتے ہیں کہ ہم کو اتنا ہزار دینا ہے یا تلاوت قرآن برائے ایصال ثواب کے لئے ان تمام صورتوں میں اجرت لینا دینا حرام ہے ۔
*اس کا ناجائز و حرام ہونا ایسا جلی و واضح ہے جس میں کسی خادم فقہ کو توقف نہیں ہوسکتا اور اجارہ جس طرح صریح زبان سے ہوتا ہے ۔عرفا شرط معروف و معہود سے بھی ہوجاتا ہے*.. اور جو حافظ اجرت طے کرکے یا نہ کرکے بلکہ اسے معلوم ہے کہ وہاں کچھ ملتا ہے نماز تراویح ہمیشہ اسی شرط یا عرف کے لحاظ سے پڑھاتے ہیں وہ فاسق معلن ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور نماز واجب الاعادہ ہے ایسے کو امام بنانا ناجائز ہے
فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
"ذکر الہی ،تلاوت قرآن پاک ،تراویح اور نعت خوانی پر اجرت لینا دینا دونوں حرام ہے لینے دینے والے دونوں گنہگار ہوتے ہیں" اس بات میں اصل کلی یہ ہے کہ استیجارعلی الطاعات حرام وباطل ہے یعنی طاعات وعبادات پر اجرت لینا دینا دونوں حرام ہے ۔مگر چند اشیاء کہ جن کو متاخرین علماء نے بنظر حال زمانہ جائز رکھا ہے وہ اس سے مستشنی ہیں اور ان میں تراویح ۔قران خوانی و نعت خوانی شامل نہیں ہیں ۔اب خواہ اجرت زبان سے مقرر کی جائے یا اس علاقے کا عرف عام ہو کہ اجرت دی اور لی جاتی ہے اور کہیں نہ ملے تو مطالبہ کریں یا دوبارہ وہاں نہ جائیں ۔اس لئے کہ اجارہ جس طرح صریح زبان سے ہوتا ہے ۔عرفا شرفا معروف ومعہود سے بھی ہوتا ہے مثلا پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہے اور پڑھنے والے سمجھ رہے ہیں کہ ضرور کچھ نہ کچھ ملے گا انہوں نے اس طور پر پڑھا پڑھوایا اجارہ ہوگیا اور اب یہ دو وجہ سے حرام ہے ایک تو یہ طاعات پر اجارہ ہے جو خود حرام ہے دوسرا اجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ہوگیا۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ و بارک وسلم
صورت مسئولہ میں یعنی نماز تراویح ؛ وہ عبادت ہے اور شرعا اصل حکم یہ ہے کہ عبادات کے لئے ہر جگہ اجرت طے کرنا خواہ الفاظ سے ہو خواہ عرف سے ہو خواہ ذہن میں ہو کہ وہاں اتنا ملتا ہے یہ سب ناجائز و حرام ہے اور جو اجرت ناجائز وحرام ذریعہ سے لیا جائے بعینہ وہ شئی حلال بھی نہیں بعینہ اس حاصل کردہ روپیہ سے حج کرنا صدقہ کرنا سب ناجائز و حرام ہے کیونکہ تراویح کی نماز پڑھانے کی اجرت طے کرکے لینا یا اسے معلوم ہے کہ فلاں جگہ اتنا ہزار روپیہ ملتا ہے یا محلہ والے جانتے ہیں کہ ہم کو اتنا ہزار دینا ہے یا تلاوت قرآن برائے ایصال ثواب کے لئے ان تمام صورتوں میں اجرت لینا دینا حرام ہے ۔
*اس کا ناجائز و حرام ہونا ایسا جلی و واضح ہے جس میں کسی خادم فقہ کو توقف نہیں ہوسکتا اور اجارہ جس طرح صریح زبان سے ہوتا ہے ۔عرفا شرط معروف و معہود سے بھی ہوجاتا ہے*.. اور جو حافظ اجرت طے کرکے یا نہ کرکے بلکہ اسے معلوم ہے کہ وہاں کچھ ملتا ہے نماز تراویح ہمیشہ اسی شرط یا عرف کے لحاظ سے پڑھاتے ہیں وہ فاسق معلن ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے اور نماز واجب الاعادہ ہے ایسے کو امام بنانا ناجائز ہے
فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے کہ
"ذکر الہی ،تلاوت قرآن پاک ،تراویح اور نعت خوانی پر اجرت لینا دینا دونوں حرام ہے لینے دینے والے دونوں گنہگار ہوتے ہیں" اس بات میں اصل کلی یہ ہے کہ استیجارعلی الطاعات حرام وباطل ہے یعنی طاعات وعبادات پر اجرت لینا دینا دونوں حرام ہے ۔مگر چند اشیاء کہ جن کو متاخرین علماء نے بنظر حال زمانہ جائز رکھا ہے وہ اس سے مستشنی ہیں اور ان میں تراویح ۔قران خوانی و نعت خوانی شامل نہیں ہیں ۔اب خواہ اجرت زبان سے مقرر کی جائے یا اس علاقے کا عرف عام ہو کہ اجرت دی اور لی جاتی ہے اور کہیں نہ ملے تو مطالبہ کریں یا دوبارہ وہاں نہ جائیں ۔اس لئے کہ اجارہ جس طرح صریح زبان سے ہوتا ہے ۔عرفا شرفا معروف ومعہود سے بھی ہوتا ہے مثلا پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہے اور پڑھنے والے سمجھ رہے ہیں کہ ضرور کچھ نہ کچھ ملے گا انہوں نے اس طور پر پڑھا پڑھوایا اجارہ ہوگیا اور اب یہ دو وجہ سے حرام ہے ایک تو یہ طاعات پر اجارہ ہے جو خود حرام ہے دوسرا اجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ہوگیا۔
(فتاوی مرکز تربیت افتاء سال ہیزدہم ص 94)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدی امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا ( سوائے تعلیم قرآن و علوم دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری حال زمانہ جائز رکھا ) مطلقا حرام ہے اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور
اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا ( سوائے تعلیم قرآن و علوم دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری حال زمانہ جائز رکھا ) مطلقا حرام ہے اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 486)
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تراویح ضرور عبادت و طاعت ہے تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام ہے اس کی اجرت کو طے کرکے لینے کو فقہاء نے حرام فرمایا خواہ وہ طے لفظ سے ہو یا عرف سے ہو
الاشباہ میں ہے کہ
ای ان الاجارۃ باطلۃ وعلی فرض الاعتقاد فاسدۃ فللتحریم وجھان متعاقبان و ذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفا کالمشروط لفظا یعنی اجارہ باطل ہے اور فرض انعقاد پر وہ فاسد ہے ۔تو اس کےحرام ہونے کی یکے بعد دیگرے دو وجہیں ہیں ۔اور یہ اس لئے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور لفظوں میں مشروط کی طرح ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تراویح ضرور عبادت و طاعت ہے تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام ہے اس کی اجرت کو طے کرکے لینے کو فقہاء نے حرام فرمایا خواہ وہ طے لفظ سے ہو یا عرف سے ہو
الاشباہ میں ہے کہ
ای ان الاجارۃ باطلۃ وعلی فرض الاعتقاد فاسدۃ فللتحریم وجھان متعاقبان و ذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفا کالمشروط لفظا یعنی اجارہ باطل ہے اور فرض انعقاد پر وہ فاسد ہے ۔تو اس کےحرام ہونے کی یکے بعد دیگرے دو وجہیں ہیں ۔اور یہ اس لئے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور لفظوں میں مشروط کی طرح ہے۔
(الاشباہ والنظائر جلد اول ص 131)
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اور اجارہ جس طرح صریح زبان سے ہوتا ہے ۔عرفا شرط معروف و معہود سے بھی ہوتا ہے مثلا پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا ۔انہوں نے اس طور پر پڑھا ۔انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا ۔اجارہ ہوگیا ۔اور اب وہ دو وجہ سے حرام ہوا ۔ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ۔دوسرے اساجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ۔یہ دوسرا حرام
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 487)
*ای ان الاجارۃ باطلۃ و علی فرض الانعقاد فاسدۃ فللتحریم وجھات متعاقبان ۔وذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفا کالمشروط لفظا*. یعنی اجارہ باطل ہے اور فرض انعقاد پر وہ فاسد ہے ۔تو اس کے حرام ہونے کی یکے بعد دیگرے دو وجھیں ہیں ۔اور یہ اس لئے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور و مسلم لفظوں میں مشروط کی طرح ہے۔
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اور اجارہ جس طرح صریح زبان سے ہوتا ہے ۔عرفا شرط معروف و معہود سے بھی ہوتا ہے مثلا پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ۔وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا ۔انہوں نے اس طور پر پڑھا ۔انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا ۔اجارہ ہوگیا ۔اور اب وہ دو وجہ سے حرام ہوا ۔ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ۔دوسرے اساجرت اگر عرفا معین نہیں تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ۔یہ دوسرا حرام
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 487)
*ای ان الاجارۃ باطلۃ و علی فرض الانعقاد فاسدۃ فللتحریم وجھات متعاقبان ۔وذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفا کالمشروط لفظا*. یعنی اجارہ باطل ہے اور فرض انعقاد پر وہ فاسد ہے ۔تو اس کے حرام ہونے کی یکے بعد دیگرے دو وجھیں ہیں ۔اور یہ اس لئے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور و مسلم لفظوں میں مشروط کی طرح ہے۔
(الاشباہ والنظائر جلد 1 ص 131)
مگر جبکہ وہاں عام رواج ہے ۔تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے ۔اب اس حلال ہونے کے دو طریقے ہیں ۔
لہذا نماز تراویح ۔تلاوت قرآن بغرض ایصال ثواب وتسبیح و تہلیل پر اجرت لینا دینا دونوں ناجائز و حرام ہیں جیسا کہ سرکار امام اہل سنت حضور امام احمد رضا خان صاحب بریلی شریف نے فتاوی رضویہ میں تحقیق فرمائی ہے کہ ہمارے بعض مشائخ نے آج کل دینی امور میں سستی کی وجہ سے قرآن کی تعلیم پر ( یعنی مدرس کو ) اجرت لینے کو بہتر قرار دیا ہے تو اس سے پرہیز کرنے پر قرآن پاک کا حفظ خطرہ میں پڑھ سکتا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے تعلیم قرآن کے ساتھ فقہ کو زائد کردیا ہے اور مجمع کے متن میں امامت کو زائد کیا اور بعض نے اذان و اقامت اور واعظ کو شامل کیا ہے مگر ہمارے کسی مشائخ نے نماز تراویح پڑھانے پڑھوانے کی اجرت اور ۔تلاوت قرآن بغرض ایصال گھر میں یا قبر پر یا کسی مدرسہ میں پڑھنے یا پڑھوانے پر اجرت کو جائز قرار نہیں دیا ہے اگر کوئی طے کرکے اجرت لیتا ہے یا انہیں معلوم ہے کہ وہاں اجرت دی جاتی یا مشہور ہے کہ مسجد اور محلہ کے لوگ حافظ صاحب کو تراویح پڑھانے کے لئے رکھا اور انہی کو اجرت دینے کے لئے چندہ کیا جاتا ہے تو ہمیں امامت تراویح کی اجرت ضرور ملے گی یہ تمام صورتوں میں یہ اجرت حرام ہے *اور جہاں یہ صورت ہو وہاں امام تراویح کو بد و حرام خور کہنے والے پر اصلا الزام نہیں*.۔جیسا کہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں
مگر جبکہ وہاں عام رواج ہے ۔تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے ۔اب اس حلال ہونے کے دو طریقے ہیں ۔
لہذا نماز تراویح ۔تلاوت قرآن بغرض ایصال ثواب وتسبیح و تہلیل پر اجرت لینا دینا دونوں ناجائز و حرام ہیں جیسا کہ سرکار امام اہل سنت حضور امام احمد رضا خان صاحب بریلی شریف نے فتاوی رضویہ میں تحقیق فرمائی ہے کہ ہمارے بعض مشائخ نے آج کل دینی امور میں سستی کی وجہ سے قرآن کی تعلیم پر ( یعنی مدرس کو ) اجرت لینے کو بہتر قرار دیا ہے تو اس سے پرہیز کرنے پر قرآن پاک کا حفظ خطرہ میں پڑھ سکتا ہے اور اسی پر فتویٰ ہے تعلیم قرآن کے ساتھ فقہ کو زائد کردیا ہے اور مجمع کے متن میں امامت کو زائد کیا اور بعض نے اذان و اقامت اور واعظ کو شامل کیا ہے مگر ہمارے کسی مشائخ نے نماز تراویح پڑھانے پڑھوانے کی اجرت اور ۔تلاوت قرآن بغرض ایصال گھر میں یا قبر پر یا کسی مدرسہ میں پڑھنے یا پڑھوانے پر اجرت کو جائز قرار نہیں دیا ہے اگر کوئی طے کرکے اجرت لیتا ہے یا انہیں معلوم ہے کہ وہاں اجرت دی جاتی یا مشہور ہے کہ مسجد اور محلہ کے لوگ حافظ صاحب کو تراویح پڑھانے کے لئے رکھا اور انہی کو اجرت دینے کے لئے چندہ کیا جاتا ہے تو ہمیں امامت تراویح کی اجرت ضرور ملے گی یہ تمام صورتوں میں یہ اجرت حرام ہے *اور جہاں یہ صورت ہو وہاں امام تراویح کو بد و حرام خور کہنے والے پر اصلا الزام نہیں*.۔جیسا کہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 437)
مفتی اختر حسین قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
آج کل اکثر رواج ہوگیا ہے کہ حافظ کو اجرت دے کر تراویح پڑھاتے ہیں ۔یہ ناجائز ہے ۔دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں ۔اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر کرلیں کہ یہ لیں گے ۔یہ دین گے بلکہ اگر یہ معلوم کہ یہاں کچھ ملتا ہے ۔اگرچہ اس سے طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے کہ المعروف کالمشروط
مفتی اختر حسین قادری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
آج کل اکثر رواج ہوگیا ہے کہ حافظ کو اجرت دے کر تراویح پڑھاتے ہیں ۔یہ ناجائز ہے ۔دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں ۔اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر کرلیں کہ یہ لیں گے ۔یہ دین گے بلکہ اگر یہ معلوم کہ یہاں کچھ ملتا ہے ۔اگرچہ اس سے طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے کہ المعروف کالمشروط
(فتاوی علیمیہ جلد اول ص 253)
ہاں نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے اس کو تنہا بھی پڑھنا جائز ہے اور جماعت کے ساتھ سنت کفایہ ہے اور سنت کفایہ کو ادا کرنے کے لئے حرام کام استعمال نہیں کیا جاسکتا جہاں بغیر اجرت کے حافظ نہ ملے وہاں ختمی تراویح کے بدلے سورت تراویح جماعت سے پڑھیں یا صرف ہر رکعت میں سورہ اخلاص بھی پڑھنا جائز ہے اسی میں بھلائی ہے ہاں اگر بے غیر طے کئے حافظ مل جائے تو بہت ہی عمدہ عمل ہے کہ نماز تراویح میں ایک ختم قرآن سننا سنت مؤکدہ ہے
بعض کا کہنا ہے کہ عالم اپنا راستہ نکال لیا اور حافظ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں
یہ جملہ وہی لکھ سکتے ہیں جو احکام شریعت سے غافل ہوں گے یہ قول اسی کا ہوسکتا جن پر علم دین روشن نہیں ہے
اس سے بڑھ کر اس کا جہل مرکب یہ ہے کہ مسائل شرعیہ وہ بھی احکام حلال و حرام سمجھانے کو بے کار کہتا ہے گویا وہ مسائل شرعیہ سے انکار رکھتا ہے سبحان اللہ جہالت کی یہ حالت اور فقہاء سے نفرت بے شک ایسے لوگ حدیث وفقہ کے احکام سمجھنے کے قابل ہیں ان کو سمجھایا جائے کہ حکم فقہ یہی ہے یہی مذہب ہے معترض پر فرض ہے کہ ان جہالتوں سے باز آئے اور مسائل شرع میں بے علم وفہم زبان کھولنے سے توبہ کرے ولاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم
اسی طرح آج کل کا ایک رواج یہ بھی ہے کہ دوکان پر یا گھر میں اجرت پر سورہ بقرہ پڑھوایا جاتا ہے ؛ پڑھنا یا پڑھوانا دونوں حرام ہے یہ اجرت بھی حرام ہے ۔
ہمارے علمائے کرام تراویح کی نماز پڑھانے کی کئی سہل صورتیں بھی نقل فرما چکے ہیں ۔
ہاں حافظ صاحب یا کسی امام تراویح کے لئے جواز کی ایک صورت فتاوی علیمیہ میں یہ ہے کہ "ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دونگا یا نہیں لونگا پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کرے تو اس میں حرج نہیں کہ الصریح یفوق الدلالۃ"
جواز کی مذکورہ صورت کے علاؤہ ایک صورت یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک میں نماز پنچگانہ کا امام بہ تعین تنخواہ اسی حافظ کو دیا جائے جس سے تراویح پڑھوانا ہے ۔اس طور پر بھی حکم جواز ہوگا یا صرف نماز عشاء کی امامت کے لئے مقرر کر لیا جائے اور پھر وہ تراویح بھی پڑھائے اب وہ رقم تراویح کی اجرت نہیں بلکہ نماز عشاء کی امامت کی اجرت ہوگی اور بھی جواز کی بعض صورتیں ہیں جن کو اپنا کر ناجائز کام سے بچا جاسکتا ہے (فتاوی علیمیہ جلد اول ص 253)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو ۔نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو تو بطور صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ہوتا
*ھل جزاء الاحسان الاحسان۔ واللہ یحب المحسنین*.,یعنی احسان کی جزاء صرف احسان ہے ۔اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
*مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے ۔تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر محض حرام ہے ۔اب کے حلال ہونے کے دو طریقے ہیں ۔
(1) صورت اول :-
اول یہ کہ قبل قرات پڑھنے والے صراحۃ کہہ دیں کہ ہم کچھ نہ لیں گے ۔پڑھوانے والے صاف انکار کردیں کہ تمہیں کچھ نہ دیا جائے گا ۔اس شرط کے بعد وہ پڑھیں ۔اور پھر پڑھوانے والے بطور صلہ جو چاہیں دے دیں ۔یہ لینا دینا حلال ہوگا ۔
لانتفاء الاجارۃ بوجھیھا ۔اما اللفظ فظاہر و اما العرف فلانھم نصوا علی نفیھا والصریح یفوق الدلالۃ ۔فلم یعارضہ العرف المعھود کما نص علیہ الامام فقیہ النفس قاضی خان رحمہ اللہ تعالیٰ فی الخانیۃ وغیرہ فی غیرھا من السادۃ الربانیۃ یعنی دو وجہ سے اجارہ نہ ہونے کی وجہ سے ۔ایک لفظ کے اعتبار سے ظاہر ہے ۔دوسرا عرف کی وجہ سے کیونکہ انہوں نے اس وجہ کی نفی پر نص کردی ہے اور صریح بات فائق ہوتی ہے ۔تو عرف معہود اس کے معارض نہ ہوسکے گا جیسا کہ امام فقیہ النفس قاضی خان نے اس پر اپنے فتاوی اور دیگر فقہاء نے دوسری کتب میں نص فرمائی ہے۔
(2) صورت دوم:-
دوم پڑھوانے والے پڑھنے والوں سے نہ تعیین وقت و اجرت ان سے مطلق کار خدمت پر پڑھنے والوں کو اجارے میں لیں ۔مثلا یہ ان سے کہیں ۔ہم نے کل صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بعوض ایک روپیہ کے اپنے کام کاج کے لئے اجارہ میں لیا ۔وہ کہیں ہم نے قبول کیا ۔اب یہ پڑھنے والے اتنے گھنٹوں کے لئے ان کے نوکر ہوگئے ۔وہ جو کام چاہیں لیں ۔اس اجارہ کے بعد وہ ان سے کہیں ۔اتنے پارے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثواب فلاں کو بخش دو۔ یا مجلس میلاد مبارک پڑھ دو ۔یہ جائز ہوگا ۔اور لینا دینا حلال ۔لان الاجارۃ وقعت علی منافع ابدانھم لاعلی الطاعات والعبادات یعنی کیونکہ یہ اجارہ ان کے ابدان سے انتفاع پر ہوا ہے نہ کہ ان کی عبادات و طاعات پر ہوا ہے۔
ہاں نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے اس کو تنہا بھی پڑھنا جائز ہے اور جماعت کے ساتھ سنت کفایہ ہے اور سنت کفایہ کو ادا کرنے کے لئے حرام کام استعمال نہیں کیا جاسکتا جہاں بغیر اجرت کے حافظ نہ ملے وہاں ختمی تراویح کے بدلے سورت تراویح جماعت سے پڑھیں یا صرف ہر رکعت میں سورہ اخلاص بھی پڑھنا جائز ہے اسی میں بھلائی ہے ہاں اگر بے غیر طے کئے حافظ مل جائے تو بہت ہی عمدہ عمل ہے کہ نماز تراویح میں ایک ختم قرآن سننا سنت مؤکدہ ہے
بعض کا کہنا ہے کہ عالم اپنا راستہ نکال لیا اور حافظ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں
یہ جملہ وہی لکھ سکتے ہیں جو احکام شریعت سے غافل ہوں گے یہ قول اسی کا ہوسکتا جن پر علم دین روشن نہیں ہے
اس سے بڑھ کر اس کا جہل مرکب یہ ہے کہ مسائل شرعیہ وہ بھی احکام حلال و حرام سمجھانے کو بے کار کہتا ہے گویا وہ مسائل شرعیہ سے انکار رکھتا ہے سبحان اللہ جہالت کی یہ حالت اور فقہاء سے نفرت بے شک ایسے لوگ حدیث وفقہ کے احکام سمجھنے کے قابل ہیں ان کو سمجھایا جائے کہ حکم فقہ یہی ہے یہی مذہب ہے معترض پر فرض ہے کہ ان جہالتوں سے باز آئے اور مسائل شرع میں بے علم وفہم زبان کھولنے سے توبہ کرے ولاحول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم
اسی طرح آج کل کا ایک رواج یہ بھی ہے کہ دوکان پر یا گھر میں اجرت پر سورہ بقرہ پڑھوایا جاتا ہے ؛ پڑھنا یا پڑھوانا دونوں حرام ہے یہ اجرت بھی حرام ہے ۔
ہمارے علمائے کرام تراویح کی نماز پڑھانے کی کئی سہل صورتیں بھی نقل فرما چکے ہیں ۔
ہاں حافظ صاحب یا کسی امام تراویح کے لئے جواز کی ایک صورت فتاوی علیمیہ میں یہ ہے کہ "ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دونگا یا نہیں لونگا پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کرے تو اس میں حرج نہیں کہ الصریح یفوق الدلالۃ"
جواز کی مذکورہ صورت کے علاؤہ ایک صورت یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک میں نماز پنچگانہ کا امام بہ تعین تنخواہ اسی حافظ کو دیا جائے جس سے تراویح پڑھوانا ہے ۔اس طور پر بھی حکم جواز ہوگا یا صرف نماز عشاء کی امامت کے لئے مقرر کر لیا جائے اور پھر وہ تراویح بھی پڑھائے اب وہ رقم تراویح کی اجرت نہیں بلکہ نماز عشاء کی امامت کی اجرت ہوگی اور بھی جواز کی بعض صورتیں ہیں جن کو اپنا کر ناجائز کام سے بچا جاسکتا ہے (فتاوی علیمیہ جلد اول ص 253)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو ۔نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو تو بطور صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ہوتا
*ھل جزاء الاحسان الاحسان۔ واللہ یحب المحسنین*.,یعنی احسان کی جزاء صرف احسان ہے ۔اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے
*مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے ۔تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر محض حرام ہے ۔اب کے حلال ہونے کے دو طریقے ہیں ۔
(1) صورت اول :-
اول یہ کہ قبل قرات پڑھنے والے صراحۃ کہہ دیں کہ ہم کچھ نہ لیں گے ۔پڑھوانے والے صاف انکار کردیں کہ تمہیں کچھ نہ دیا جائے گا ۔اس شرط کے بعد وہ پڑھیں ۔اور پھر پڑھوانے والے بطور صلہ جو چاہیں دے دیں ۔یہ لینا دینا حلال ہوگا ۔
لانتفاء الاجارۃ بوجھیھا ۔اما اللفظ فظاہر و اما العرف فلانھم نصوا علی نفیھا والصریح یفوق الدلالۃ ۔فلم یعارضہ العرف المعھود کما نص علیہ الامام فقیہ النفس قاضی خان رحمہ اللہ تعالیٰ فی الخانیۃ وغیرہ فی غیرھا من السادۃ الربانیۃ یعنی دو وجہ سے اجارہ نہ ہونے کی وجہ سے ۔ایک لفظ کے اعتبار سے ظاہر ہے ۔دوسرا عرف کی وجہ سے کیونکہ انہوں نے اس وجہ کی نفی پر نص کردی ہے اور صریح بات فائق ہوتی ہے ۔تو عرف معہود اس کے معارض نہ ہوسکے گا جیسا کہ امام فقیہ النفس قاضی خان نے اس پر اپنے فتاوی اور دیگر فقہاء نے دوسری کتب میں نص فرمائی ہے۔
(2) صورت دوم:-
دوم پڑھوانے والے پڑھنے والوں سے نہ تعیین وقت و اجرت ان سے مطلق کار خدمت پر پڑھنے والوں کو اجارے میں لیں ۔مثلا یہ ان سے کہیں ۔ہم نے کل صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بعوض ایک روپیہ کے اپنے کام کاج کے لئے اجارہ میں لیا ۔وہ کہیں ہم نے قبول کیا ۔اب یہ پڑھنے والے اتنے گھنٹوں کے لئے ان کے نوکر ہوگئے ۔وہ جو کام چاہیں لیں ۔اس اجارہ کے بعد وہ ان سے کہیں ۔اتنے پارے کلام اللہ شریف کے پڑھ کر ثواب فلاں کو بخش دو۔ یا مجلس میلاد مبارک پڑھ دو ۔یہ جائز ہوگا ۔اور لینا دینا حلال ۔لان الاجارۃ وقعت علی منافع ابدانھم لاعلی الطاعات والعبادات یعنی کیونکہ یہ اجارہ ان کے ابدان سے انتفاع پر ہوا ہے نہ کہ ان کی عبادات و طاعات پر ہوا ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 19 ص 487.488)
کیا اس زمانے میں جہاں امام کو امامت کی ۔مؤذن کو اذان دینے کی ۔اور مدرس کو تعلیم قرآن و فقہ کا درس دینے کے لئے بمجبوری اجرت کو جائز قرار دیا گیا کیا وہاں انہی وجہوں سے حفاظ کے لئے تنخواہ یا اجرت جائز قرار نہیں دیا گیا
*اوراگر کوئی کہے کہ آج کل اس پر لوگوں کا تعامل اور عموم بلوی بھی ہے کیا اس صورت میں اجرت طے کرکے تراویح کی نماز کےجواز کا حکم نہیں ہوسکتا*. ؟.
الجواب ۔ہاں تعامل و عموم بلوی کی وجہ سے بھی جائز نہیں کہا جائے گا کہ طاعت و اطاعت پر اجرت طے کرنا ناجائز ہے علمائے متقدمین کے نزدیک متفقہ فیصلہ تھا کہ تلاوت قرآن برائے برکت یا برائے میت کو ایصال ثواب ۔تعلیم قرآن یعنی مدرسین کے لئے یا خطاب کے خطیب کو یا نعت خواں کو یا مؤذن کو یا امام خواہ پنچگانہ یا جمعہ یا عیدین یا نماز تراویح یا نماز تسبیح کو جنازہ پڑھانے والے کو وغیرہ تمام عبادات و طاعات پر اجرت لینا دینا حرام ہے اور آج بھی حرام ہے علمائے متقدمین کا یہی فتوی اور درس عمل ہے لیکن علمائے متاخرین نے بنظر حال زمانہ کو دیکھتے ہوئے لوگوں میں سستی اور کاہلی پر غور کرتے ہوئے درس قرآن درس فقہ کے لئے مدرسین کو اور اذان کے لئے مؤذن کو پنچگانہ نماز کے لئے امام کو اجرت جائز قرار دیا پھر بعد میں مقرر کے لئے بھی جائز قرار دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی بنظر حال زمانہ یا عموم بلوی یا تعامل کی وجہ سے بھی نماز تراویح کے امام کے لئے تلاوت قرآن برائے ایصال ثواب یا برائے برکت گھر یا نعت خوان کو اور دوکان میں یا گھر میں سورہ بقرہ کا ایک ختم کرانا ان تمام میں علمائے متقدمین کے ساتھ ساتھ علمائے متاخرین نے بھی اجرت کو حرام مقرر کیا یہی صحیح مذہب ہے اس میں کوئی قیل وقال کی گنجائش نہیں ہے
کیا جو حفاظ رمضان شریف میں اپنا علاقہ و مدرسہ چھوڑ کر باہر مثلا دہلی ممبئی کاٹھمانڈو یا کہیں جاتے ہیں اس نیت سے کہ وہاں زیادہ روپیہ یا نذرانہ ملتا ہے کیا یہ بھی حرام ہے؟
الجواب ۔بے شک یہ بھی حرام ہے کہ وہاں اس لئے جاتا ہے کہ روپیہ زیادہ ملے گا کبھی شرط کے ساتھ طے کرتے ہیں اور کہیں مشہور ہوتا ہے کہ وہاں اتنا ہزار دیا جاتا ہے اور دونوں طریقہ ناجائز ہے یہ عرف بھی شرط ہی ہے اور اس لئے باہر جاتے ہیں کہ علاقہ میں روپیہ کم ملتا ہے ورنہ وہ باہر کیوں جاتے ؟
*آج کل تراویح کے امام سے اجرت طے کرکے اراکین لوگ آپس میں چندہ کرتے ہیں کیا اس کے لئے چندہ دینا جائز ہے یا ناجائز*. ؟.
الجواب ۔یہ بھی ناجائز و حرام ہے کیونکہ فقہائے کرام نے فرمایا کہ تراویح کے امام کو اجرت طے کرکے تراویح پڑھوانا ناجائز ہے اسی لئے ناجائز کام کے لئے چندہ کرنا بھی ناجائز ہے اور اس کے لئے چندہ دینا بھی ناجائز ہے
اور جو مفتی حلال و حرام کے متعلق جواز و عدم جواز کو بے کار بحث کہہ رہے ہیں وہ خود بے کار منہ ساختہ مفتی ہوں گے کہ ایک شرعی بحث کو بے کار کہہ رہے لگتا ہے وہ شرعی حکم سے اور روشن دلائل شرعی سے غافل ہیں۔ ایسے مفتی سے ہوشیار رہیں یہ آپ کے لئے خطرہ ایمان ہے کیونکہ حلال و حرام کا علم سیکھنا فرض ہے اب جو کہتے ہیں کہ یہ بے کار بحث ہے وہ خود غور کریں کہ اس قول سے ان پر کیا حکم ہوگا ؟
الحاصل:-
تراویح کی نماز پڑھانے ۔اموات کے لئے ختم قرآن ۔قرات کے لئے اصل ضابطہ کی بنا پر اجرت لینے دینے کی ممانعت باقی ہے ۔اور عرف میں مقررہ و مشہور لفظا مشروط کی طرح ہے ۔لہذا ان باقی امور پر اجرت مقرر کی گئی یا عرفا معلوم ہے کہ اجرت پر پڑھ رہے ہیں یا پڑھانے والے اجرت دیں گے ۔اگر یہ نہ پڑھیں تو نہ دیں ۔اور وہ نہ دیں تو یہ نہ پڑھیں تو ایسی صورت میں لینا دینا ناجائز ہے ۔لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہونگے ۔اور اگر عرف میں ایسے نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھیں اور دل میں کسی عوض کا خیال نہ کریں حتی کہ یقین بھی ہو کہ نہ دیں گے اس کے باوجود پڑھیں ۔ایسی صورت میں کسی لفظی یا عرفی تقرر کے بغیر پڑھنے والوں کو دیں تو کوئی مضائقہ نہیں
اقول اس ارشادات میں ایک جملہ ہے کہ حتی کہ یقین بھی ہو جائے کہ یہ لوگ نہ کچھ دیں گے اور نہ ہم لیں گے تو مضائقہ نہیں ہے اور آج کل کے دور میں یہ یقینی بات نہیں ہے اس لئے جو اوپر فتاوی رضویہ اور فتاوی علیمیہ سے جائز طریقہ لکھا گیا ہے اس پر عمل کریں تو خیر ہے
واللہ اعلم باالصواب
کیا اس زمانے میں جہاں امام کو امامت کی ۔مؤذن کو اذان دینے کی ۔اور مدرس کو تعلیم قرآن و فقہ کا درس دینے کے لئے بمجبوری اجرت کو جائز قرار دیا گیا کیا وہاں انہی وجہوں سے حفاظ کے لئے تنخواہ یا اجرت جائز قرار نہیں دیا گیا
*اوراگر کوئی کہے کہ آج کل اس پر لوگوں کا تعامل اور عموم بلوی بھی ہے کیا اس صورت میں اجرت طے کرکے تراویح کی نماز کےجواز کا حکم نہیں ہوسکتا*. ؟.
الجواب ۔ہاں تعامل و عموم بلوی کی وجہ سے بھی جائز نہیں کہا جائے گا کہ طاعت و اطاعت پر اجرت طے کرنا ناجائز ہے علمائے متقدمین کے نزدیک متفقہ فیصلہ تھا کہ تلاوت قرآن برائے برکت یا برائے میت کو ایصال ثواب ۔تعلیم قرآن یعنی مدرسین کے لئے یا خطاب کے خطیب کو یا نعت خواں کو یا مؤذن کو یا امام خواہ پنچگانہ یا جمعہ یا عیدین یا نماز تراویح یا نماز تسبیح کو جنازہ پڑھانے والے کو وغیرہ تمام عبادات و طاعات پر اجرت لینا دینا حرام ہے اور آج بھی حرام ہے علمائے متقدمین کا یہی فتوی اور درس عمل ہے لیکن علمائے متاخرین نے بنظر حال زمانہ کو دیکھتے ہوئے لوگوں میں سستی اور کاہلی پر غور کرتے ہوئے درس قرآن درس فقہ کے لئے مدرسین کو اور اذان کے لئے مؤذن کو پنچگانہ نماز کے لئے امام کو اجرت جائز قرار دیا پھر بعد میں مقرر کے لئے بھی جائز قرار دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی بنظر حال زمانہ یا عموم بلوی یا تعامل کی وجہ سے بھی نماز تراویح کے امام کے لئے تلاوت قرآن برائے ایصال ثواب یا برائے برکت گھر یا نعت خوان کو اور دوکان میں یا گھر میں سورہ بقرہ کا ایک ختم کرانا ان تمام میں علمائے متقدمین کے ساتھ ساتھ علمائے متاخرین نے بھی اجرت کو حرام مقرر کیا یہی صحیح مذہب ہے اس میں کوئی قیل وقال کی گنجائش نہیں ہے
کیا جو حفاظ رمضان شریف میں اپنا علاقہ و مدرسہ چھوڑ کر باہر مثلا دہلی ممبئی کاٹھمانڈو یا کہیں جاتے ہیں اس نیت سے کہ وہاں زیادہ روپیہ یا نذرانہ ملتا ہے کیا یہ بھی حرام ہے؟
الجواب ۔بے شک یہ بھی حرام ہے کہ وہاں اس لئے جاتا ہے کہ روپیہ زیادہ ملے گا کبھی شرط کے ساتھ طے کرتے ہیں اور کہیں مشہور ہوتا ہے کہ وہاں اتنا ہزار دیا جاتا ہے اور دونوں طریقہ ناجائز ہے یہ عرف بھی شرط ہی ہے اور اس لئے باہر جاتے ہیں کہ علاقہ میں روپیہ کم ملتا ہے ورنہ وہ باہر کیوں جاتے ؟
*آج کل تراویح کے امام سے اجرت طے کرکے اراکین لوگ آپس میں چندہ کرتے ہیں کیا اس کے لئے چندہ دینا جائز ہے یا ناجائز*. ؟.
الجواب ۔یہ بھی ناجائز و حرام ہے کیونکہ فقہائے کرام نے فرمایا کہ تراویح کے امام کو اجرت طے کرکے تراویح پڑھوانا ناجائز ہے اسی لئے ناجائز کام کے لئے چندہ کرنا بھی ناجائز ہے اور اس کے لئے چندہ دینا بھی ناجائز ہے
اور جو مفتی حلال و حرام کے متعلق جواز و عدم جواز کو بے کار بحث کہہ رہے ہیں وہ خود بے کار منہ ساختہ مفتی ہوں گے کہ ایک شرعی بحث کو بے کار کہہ رہے لگتا ہے وہ شرعی حکم سے اور روشن دلائل شرعی سے غافل ہیں۔ ایسے مفتی سے ہوشیار رہیں یہ آپ کے لئے خطرہ ایمان ہے کیونکہ حلال و حرام کا علم سیکھنا فرض ہے اب جو کہتے ہیں کہ یہ بے کار بحث ہے وہ خود غور کریں کہ اس قول سے ان پر کیا حکم ہوگا ؟
الحاصل:-
تراویح کی نماز پڑھانے ۔اموات کے لئے ختم قرآن ۔قرات کے لئے اصل ضابطہ کی بنا پر اجرت لینے دینے کی ممانعت باقی ہے ۔اور عرف میں مقررہ و مشہور لفظا مشروط کی طرح ہے ۔لہذا ان باقی امور پر اجرت مقرر کی گئی یا عرفا معلوم ہے کہ اجرت پر پڑھ رہے ہیں یا پڑھانے والے اجرت دیں گے ۔اگر یہ نہ پڑھیں تو نہ دیں ۔اور وہ نہ دیں تو یہ نہ پڑھیں تو ایسی صورت میں لینا دینا ناجائز ہے ۔لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہونگے ۔اور اگر عرف میں ایسے نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھیں اور دل میں کسی عوض کا خیال نہ کریں حتی کہ یقین بھی ہو کہ نہ دیں گے اس کے باوجود پڑھیں ۔ایسی صورت میں کسی لفظی یا عرفی تقرر کے بغیر پڑھنے والوں کو دیں تو کوئی مضائقہ نہیں
اقول اس ارشادات میں ایک جملہ ہے کہ حتی کہ یقین بھی ہو جائے کہ یہ لوگ نہ کچھ دیں گے اور نہ ہم لیں گے تو مضائقہ نہیں ہے اور آج کل کے دور میں یہ یقینی بات نہیں ہے اس لئے جو اوپر فتاوی رضویہ اور فتاوی علیمیہ سے جائز طریقہ لکھا گیا ہے اس پر عمل کریں تو خیر ہے
واللہ اعلم باالصواب
_________(❤️)_________
فقیہ العصر محقق دورہ حضرت علامہ مولانا مفتی
فقیہ العصر محقق دورہ حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مرپاوی سیتا مڑھی بہار
مورخہ 23 شعبان المعظم 1444 بمطابق 16 مارچ 2023
ازقلم:- حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار
مورخہ 23 شعبان المعظم 1444 بمطابق 16 مارچ 2023
ازقلم:- حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار
حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی
ترسیل:-
ترسیل:-
محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی
سرپرست:-
سرپرست:-
حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی:-
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی:-
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر
حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی
(2) رکن خصوصی
شیخ طریقت علم فقہ کے روشن مینار سلسلہ ثنائیہ کے علمبردار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق خان صاحب رضوی ثنائی کھٹونوی نیپال
(3) رکن خصوصی
جامع معقولات و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
صدر المدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپا شریف
(5) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ محمد جیند عالم مصباحی بیتاہی امام جامع مسجد کنہولی پرسا سیتا مڑھی
(2) رکن خصوصی
شیخ طریقت علم فقہ کے روشن مینار سلسلہ ثنائیہ کے علمبردار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق خان صاحب رضوی ثنائی کھٹونوی نیپال
(3) رکن خصوصی
جامع معقولات و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف
(4) رکن سراج ملت حضرت مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
صدر المدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپا شریف
(5) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ محمد جیند عالم مصباحی بیتاہی امام جامع مسجد کنہولی پرسا سیتا مڑھی