کفار و مشرکین کے تہوار میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جو کہ مسلمان ہے کفار و مشرکین کے تہوار میں شرکت کرتا ہے لہذا کفار و مشرکین کے تہور میں شرکت کرنا یا ان کو ان کے تہوار کی مبارک بادی دینا کیسا ہے؟مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد احمد رضا ،مہراج گنج یوپی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سائل:- محمد احمد رضا ،مہراج گنج یوپی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک العزیز الوھاب
کفار و مشرکین کے تہوار وںمیں شرکت حرام اشد حرام بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے۔
کفار و مشرکین کے تہوار وںمیں شرکت حرام اشد حرام بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
’’وبخروجہ الی نیروز المجوس والموافقۃ معھم فیما یفعلون فی ذلک الیوم (الی ان قال) و باھدائہ ذلک الیوم للمشرکین و لو بیضۃ تعظیما لذلک الیوم‘‘۔ یعنی مجوسیوں کے تہوار نوروز میں شریک ہونے اور اس دن کے مشرکانہ افعال میں ان کی موافقت کرنے کی وجہ سے (مزیدفرمایا) اور اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے مشرکین کو اس دن تحفہ دینے کی وجہ سے (مسلمان کافر ہوجاتا ہے) اگرچہ تحفہ میں ایک انڈا ہی دے۔
(الفتاویٰ الہندیہ،ج:۲،ص:۲۷۷)
الفتاویٰ الکبریٰ الفقہیہ میں ہے:
’’من أقبح البدع موافقة المسلمين النصارى في أعيادهم بالتشبه بأكلهم والهدية لهم وقبول هديتهم فيه“
یعنی بدترین بدعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا نصاریٰ کی عیدوں پر ان کے ساتھ موافقت کرنا ان کے ساتھ کھانا انہیں تحفہ دینا ان سے تحفہ قبول کرنا ۔
(الفتاویٰ الکبریٰ الفقہیہ، ج:۴، ص:۲۳۹،ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)
کشاف القناع عن متن الاقناع میں ہے:
”و یحرم شھود عید الیھود والنصاریٰ و غیرھم من الکفار‘‘۔یعنی یہود و نصاریٰ اور دیگر کفار کی عیدوں میں شرکت کرنا حرام ہے۔
(کشاف القِناع عن متن الاقناع،ج:۳، ص:۱۳۱، ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
’’ہولی دیوالی ہندوؤں کے شیطانی تہوارہیں جب ایران خلافت فاروقی میں فتح ہوا تو بھاگے ہوئے آتش پرست کچھ ہندوستان میں آئے ان کے یہاں دوعیدیں تھیں، نوروزکہ تحویل حمل ہے اور مہرگان کہ تحویل میزان وہ عیدیں اور ان میں آگ کی پرستش ہندوؤں نے ان سے سیکھیں اور یہ چاند سورج دونوں کو پوجتے ہیں لہٰذا ان وقتوں میں یہ ترمیم کی کہ میکھ سنکھ رانت کی پورنماشی میں ہولی، اور تلاسنکھ رانت کی اماوس میں دیوالی، یہ سب رسومِ کفار ہیں، مسلمانوں کو ان میں شرکت حرام اور اگر پسند کریں تو صریح کفر ہے‘‘
(فتاویٰ رضویہ، ج:۱۴، ص: ۶۸۰، ط: رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فتاویٰ مصطفویہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے:
’’ایسے میلوں میں بحیثیت تماشائی جانا حرام حرام حرام اشد حرام بہت اخبث نہایت ہی اشنع کام بحکم فقہاے کرام معاذاللہ کفرانجام ہے‘‘
(فتاویٰ مصطفویہ قدیم،ص:۹۶)
فتاویٰ شارح بخاری میں ہے:’’ان مشرکانہ مذہبی تیوہاروں پر ہندوؤں کو مبارک باد دینا اشدحرام بلکہ منجرالی الکفر ہے۔جو مسلمان ایسا کرتے ہیں ان پر توبہ و تجدید ایمان و نکاح لازم ہے،اور اس پر پیسہ لینا بھی حرام و گناہ ہے‘‘۔
(فتاویٰ شارح بخاری،ج:۲،ص:۵۶۶)
غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت سے باز رہنا فرض ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا‘‘
غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت سے باز رہنا فرض ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا‘‘
(سورۃ الفرقان:۷۲)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب بیہودہ پر گزرتے ہیں اپنی عزت سنبھالے گزر جاتے ہیں۔حافظ عماد الدین ابن کثیر دمشقی رضی اللہ عنہ اس آیت کے تحت ارشاد فرماتے ہیں :
”وقال أبو العالية وطاؤس وابن سیرین والضحاک والربیع بن انس وغیرھم: ھی اعیاد المشرکین‘‘۔ یعنی ابو العالیہ وطاؤ س وابن سیرین وضحاک اور ربیع بن انس رحمہم اللہ نے کہا اس آیت میں جھوٹی گوا ہی نہیں دیتے سے مراد مشرکین کی عیدیں ہیں
(تفسير ابن کثیر،ج: ۶، ص:۱۱۸، ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)
نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
’’وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ‘‘
(سورۃ الانعام:۶۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور اے سننے و الے جب تو انہیں دیکھے جو ہماری آیتوں میں پڑتے ہیں تو ان سے منہ پھیر لے جب تک اور بات میں پڑیں اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں کافروں ، مشرکوں، بدمذہبوں، بے دینوں کی صحبت میں بیٹھنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ ان کے پاس نہ بیٹھو اور اگر بھول کر بیٹھ جاؤ تو یاد آنے پر اٹھ جاؤ۔حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”لا تعلموا رطانة الأعاجم ولا تدخلوا على المشركين في كنائسهم يوم عيدهم، فإن السخطة تنزل عليهم“۔ یعنی غیر مسلموں کی گفتگو نہ سیکھو اور مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں میں نہ جاؤ کیونکہ ان پر اللہ تبارک و تعالی کا غضب نازل ہوتا ہے۔
(السنن الکبریٰ و البیھقی)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”من بنی فی بلاد الأعاجم فصنع نیروزھم و مھر جانھم و تشبہ بھم حتی یموت و ھو کذلک حشر معھم یوم القیامۃ‘‘
یعنی غیر مسلموں کی سر زمین میں رہنے والا مسلمان ان کی عید کو انہی کی طرح منائے اور اسی رویّہ پر اس کی موت ہوجائے تو قیامت کے دن وہ بھی انہی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (السنن الکبریٰ و البیھقی)
لہٰذاصورت مسئولہ میں کسی مسلمان کا کفار و مشرکین کے تہوار مثلا ہندؤوں کی ہولی و دیوالی، عیسائیوں کی کرسمس، یہودیوں کی عید پوریم وغیرہ میں شریک ہونا یا ان کو اس کی مبارکباد دینا ناجائز و حرام بلکہ کفرانجام ہے،کار قبیح و فعل شنیع اور اگر بطور تعظیم و تکریم ہو تو کفر صریح ہے۔ جیساکہدرمختار شرح تنویر الابصار و جامع البحار میں ہے:”لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم أهدى لمشرك يوم النيروز بيضة يريد تعظيم اليوم فقد كفر وحبط عمله“۔ یعنی اگر کوئی شخص پچاس سال اللہ کی عبادت کرے، پھر مشرکین کی عید کے موقع پر اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے، تو اس نے کفریہ کام کیا اور اپنے تمام اعمال ضائع کر لیے۔
لہٰذاصورت مسئولہ میں کسی مسلمان کا کفار و مشرکین کے تہوار مثلا ہندؤوں کی ہولی و دیوالی، عیسائیوں کی کرسمس، یہودیوں کی عید پوریم وغیرہ میں شریک ہونا یا ان کو اس کی مبارکباد دینا ناجائز و حرام بلکہ کفرانجام ہے،کار قبیح و فعل شنیع اور اگر بطور تعظیم و تکریم ہو تو کفر صریح ہے۔ جیساکہدرمختار شرح تنویر الابصار و جامع البحار میں ہے:”لو أن رجلا عبد الله خمسين سنة ثم أهدى لمشرك يوم النيروز بيضة يريد تعظيم اليوم فقد كفر وحبط عمله“۔ یعنی اگر کوئی شخص پچاس سال اللہ کی عبادت کرے، پھر مشرکین کی عید کے موقع پر اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے، تو اس نے کفریہ کام کیا اور اپنے تمام اعمال ضائع کر لیے۔
(الدر المختار شرح تنوير الابصار وجامع البحار، ص:۷۵۹، ط: دارالکتب العلمیہ بیروت)
واللہ تعالیٰ اعلم
_________(❤️)_________
کتبہ:- عبدالقوی محمد سبطین رضا مرتضوی عفی عنہ
دارالافتا جامعہ تاج الشریعہ دھامی گچھ اتردیناج پور
۱۹؍صفرالمظفر۱۴۴۵ھ