Type Here to Get Search Results !

سرکارِ غوثِ اعظم! حیات وخدمات


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈• 
 سرکارِ غوثِ اعظم! حیات وخدمات 
_________(❤️)_________ 
  (حافظ) افتخار احمد قادری برکاتی 
♦•••••••••••••••••••••••••♦
قطب الاقطاب، غوث الغاث، فرد الاحباب، قطب الاکمل الاشرف، غوث الاعظم الارفع، غوث الثقلین، غیث الکونین، عالم الربانی، غوث الصمدانی، محی الدین ابو محمد عبد القادر الحسنی الحسینی الجیلانی رضی الله تعالیٰ عنہ کی ولادتِ باسعادت یکم رمضان المبارک بروز جمعہ 470ھ 1075ء کو گیلان میں ہوئی- (سیرتِ غوث اعظم، صفحہ 24) آپ کا اسمِ گرامی ،،سید عبد القادر،، اور کنیت ،، ابی محمد ،، لقب ،، محی الدین ،، محبوبِ سبحانی ہے- اکثر اولیاء کرام ومشائخ ذی وقار نے آپ کی ولادتِ باسعادت سے پہلے آپ کے ورود مسعود کی خبر بتائی- کچھ نے ولادتِ باسعادت کے تھوڑے ہی دنوں بعد اور اکثر نے آپ کے مشہور ہونے سے پہلے آپ کی عظمت وجلالت کی خبر دی- ان میں سے چند کے اقوال یہاں پیش کئے جاتے ہیں:
      قلائد الجواھر میں شیخ محمد سبکی سے مروی ہے: میں نے اپنے شیخ طریقت حضرت ابو بکر بن ہورا رضی الله عنہما سے سنا: عراق کے اوتاد کی تعداد آٹھ ہیں- جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں- 
 (1) حضرتِ خواجہ معروف کرخی 
(2) حضرتِ امام احمد بن حنبل
(3) حضرتِ خواجہ بشیر حافی 
(4) حضرتِ منصور بن عمار
(5) حضرتِ خواجہ سر سقطی
(6) حضرتِ جنید بغدادی
(7) حضرتِ سہل بن عبد ﷲ تستری
 حضرتِ شیخ عبد القادر جیلانی- راوی نے سوال کیا حضرت کون عبد القادر؟ تو ارشاد فرمایا: یہ شخص شرفائے عجم سے ہوگا اور بغداد میں آکر قیام کرے گا- اس کا ظہور پانچویں صدی ہجری میں ہوگا اور یہ صدیقین و اوتاد و اقطاب زمانہ سے ہوگا- 
 (قلائد الجواھر)
       غیظ الناظر میں ہے: حضرتِ شیخ ابو احمد عبد الله بن علی بن موسیٰ نے 464ھ میں فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ عنقریب عجم میں ایک لڑکا بڑا صاحب کرامت اور ذی شرف پیدا ہوگا- جو اس کو دیکھے گا فائدہ پائے گا- وہ فرمائے گا: ،،قدمى هذه على رقبة كل ولى الله،، اور اسی کتاب میں ہے: حضرتِ شیخ عقیل سنجی رضی الله عنہ سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کا قطب کون ہے؟ تو ارشاد فرمایا: اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے- سوائے اولیاء الله کے کوئی اس کو نہیں جانتا- پھر عراق کی جانب اشارہ کر کے ارشاد فرمایا: اس طرف ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا- وہ بغداد میں وعظ کہے گا اور اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جان لے گا- وہ قطب زمانہ ہوگا اور فرمائے گا: ،،قدمى هذه على رقبة كل ولى الله،،
      زبدة الابرار میں ہے: ایک روز چند درویش حضرت شیخ علی بن وہب رضی الله عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے- تو آپ نے دریافت کیا کہ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ عجم سے- پھر دریافت کیا کہ کس شہر سے؟ انہوں نے کہا کہ جیلان سے- تو حضرتِ شیخ نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ تمہارے چہرے کو روشن کرے اس شخص کے ذریعے جو الله کے فضل سے تم میں عنقریب ظاہر ہوگا- جس کا نام عبد القادر ہوگا- اس کے ظہور کی جگہ عراق اور مسکن بغداد ہوگا- وہ کہے گا میرا قدم تمام اولیاء الله کی گردنوں پر ہے اور اس کے ہم عصر تمام اولیاء الله، الله کے حکم سے اس کے قول کو قبول کریں گے- (مسالک السالکین، جلد اول، صفحہ 337)
  قلائد الجواھر میں ہے: جب آپ عالم شباب میں حضرتِ تاج العارفین شیخ ابو الوفا رضی الله عنہ کی خدمت میں تشریف لاتے تو حضرتِ شیخ ابو الوفا رضی الله عنہ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے اور حاضرین سے بھی ارشاد فرماتے کہ ولی الله کی تعظیم کو اٹھو اور بعض اوقات دس پانچ قدم آپ کے استقبال کو بھی آگے بڑھتے- ایک بار لوگوں نے حضرتِ ابو الوفا رضی الله عنہ سے اس تعظیم و تکریم کی وجہ پوچھی- تو آپ نے ارشاد فرمایا: یہ نوجوان ایک عظیم الشان ولی ہوگا- ہر خاص و عام اس کی طرف رجوع کریں گے اور گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ بغداد میں ایک مجمع عظیم میں ،، قدمى هذه على رقبة كل ولى الله،، کہہ رہا ہے اور یہ اپنے اس قول میں حق بجانب ہوگا- اور تمام اولیاء الله اس کے سامنے اپنی گردنیں جھکائیں گے- یہ سب کا قطب ہوگا- تو تم میں سے جو کوئی اس کا وقت پائے اس کو چاہیے کہ اس کی خدمت اپنے اوپر لازم کرے- اس کے بعد حضرت شیخ ابو الوفا رضی الله عنہ نے آپ سے فرمایا: اے عبد القادر! آج وقت ہمارے ہاتھ ہے اور قریب ہے کہ یہ وقت تمہارے ہاتھ آئے گا اور یہ دستور ہے کہ ہر ایک چراغ روشن ہو کر گل ہو جاتا ہے- مگر تمہارا چراغ قیامت تک روشن رہے گا- یہ فرما کر حضرت شیخ ابو الوفا رضی الله عنہ نے اپنی جانماز، تسبیح، قمیص، پیالہ اور اپنا عصا آپ کو عنایت فرمایا اور کہا: اے عبد القادر! تمہارا وقت ایک عظیم الشان وقت ہوگا- اس وقت تم اس سفید داڈھی کو مت بھولنا- یہی کہتے کہتے روح پر فتوح حضرت شیخ ابو الوفا رضی الله عنہ کی عالم بقا کو پرواز کر گئی- حضرت عمر بزار کہتے ہیں: وہ تسبیح جو آپ کو حضرتِ تاج العارفین نے دی تھی جب اس کو زمین پر رکھا جاتا تو اس کا ہر ایک دانہ از خود گردش کرتا تھا- آپ کی وفات کے بعد حضرتِ شیخ علی بن ہیتی نے اسے لیا اور پیالہ کو جب کوئی لینا چاہتا تو وہ خود بخود ہاتھ میں آجاتا تھا- غیظ الناظر میں ہے: حضرتِ شیخ نجیب سہروردی رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرتِ حماد دباس رضی الله عنہ کو فرماتے سنا: اس عجمی کا قدم ایک وقت کل اولیاء الله کی گردنوں پر ہوگا اور حضرتِ شیخ نجیب یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس سے زیادہ مشائخین کو ایسا ہی فرماتے سنا- قلائد الجواھر میں ہے: جب آپ عالم شباب میں تھے تو حضرت شیخ حماد رضی الله عنہ نے آپ کی نسبت فرمایا: میں نے ان کے سر پر دو جھنڈے دیکھے جو زمین سے لے کر ملاء اعلیٰ تک پہنچے تھے اور افق اعلیٰ میں ان کے نام کی دھوم دھام سنی ہے- (مسالک السالکین، جلد اول، صفحہ 338)
 تحصیل علم: 
 غوث الصمدانی محی الدین ابو محمد عبد القادر الحسنی الحسینی الجیلانی رضی الله عنہ کی جانب ابتدا ہی سے الله رب العزت کی رحمتیں متوجہ تھیں- پھر آپ کے مرتبہ کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟ آپ نے خود ہی اپنے بچپنے کے واقعات کی اس طرح نشان دہی فرمائی ہے کہ عمر کے ابتدائی دور میں جب بھی کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی کہ لہو ولعب سے باز رہو- جسے سن کر میں رک جایا کرتا اور اپنے گرد و پیش پر جب نظر ڈالتا تو کوئی آواز دینے والا دکھائی نہ دیتا- جس کی وجہ سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتی اور میں جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتا- اب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سنا کرتا ہوں- اگر مجھے کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراً میرے کانوں میں آکر مجھے آگاہ کر دیتی ہے کہ تمہیں اس لیے نہیں پیدا کیا کہ تم سویا کرو- (مسالک السالکین، جلد اول، صفحہ، 342)
جب حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کی عمر شریف چار سال کی ہوئی تو آپ کے والدِ ماجد حضرتِ سیدنا ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رضی الله عنہ نے آپ کو مکتب میں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے- آپ استاذ کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گئے- استاذ نے کہا! بیٹے پڑھو ،،بسم الله الرحمن الرحيم،، تو آپ نے بسم الله شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ ،،الم،، سے لے کر مکمل سترہ پارے از بر استاذ کو سنا دیے- استاذ نے حیرت سے دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا اور کیسے یاد کیا؟ آپ نے ارشاد فرمایا: میری والدہ ماجدہ سترہ پاروں کی حافظہ ہیں- جن کا وہ اکثر ورد کیا کرتی تھیں- جب میں شکم مادر میں تھا تو یہ سترہ سپارے سنتے سنتے یاد ہو گئے- گھر پر علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد 488ھ میں جبکہ آپ کی عمر مبارک اٹھارہ سال کی تھی- آپ بغداد تشریف لائے اور اس وقت کے شیوخ آئمہ، بزرگانِ دین اور محدثین کی خدمت کا قصد فرمایا- پہلے علومِ قرآنیہ کو روایت و درایت اور تجوید و قرآت کے اسرار و رموز کے ساتھ حاصل کیا اور زمانے کے بڑے محدثین اور اہل فضل و کمال و مستند علماء کرام سے سماع حدیث فرما کر علوم کی تحصیل فرمائی- حتیٰ کہ تمام اصولی، فروعی، مذہبی اور اختلافی علوم میں علمائے بغداد ہی سے نہیں بلکہ تمام ممالک اسلامیہ کے علماء سے سبقت لے گیے اور آپ کو تمام علماء پر فوقیت حاصل ہو گئی- سب نے آپ کو اپنا مرجع بنا لیا- اس کے بعد الله رب العزت نے آپ کو مخلوق کے سامنے ظاہر فرمایا اور آپ کی مقبولیت تامہ عوام وخواص کے قلوب میں ڈال دی اور آپ کو قطعبیت کبریٰ اور ولایتِ عظمیٰ کا مرتبہ عطا فرمایا- حتیٰ کہ چار دانگ عالم کے تمام فقہاء، علماء، طلباء اور فقراء کی توجہ آپ کے آستانہ کی جانب ہوگئی- حکمت و دانائی کے چشمے آپ کی زبان سے جاری ہو گیے اور عالم ملکوت سے عالمِ دنیا تک آپ کے کمال و جلال کا شہرہ ہو گیا- الله رب العزت نے آپ کے ذریعے علاماتِ قدرت و امارات اور دلائل خصوصیت و براہین، کرامات آفتاب نصف النہار سے زیادہ واضح اور ظاہر کردیا- بخشش کے خزانوں کی کنجیاں اور تصرفات وجود کی لگامیں آپ کے قبضہ اقتدار و دست اختیار میں سپرد کیں- تمام مخلوق کے دلوں کو آپ کی عظمت و ہیئت کے سامنے سرنگوں کر دیا اور اس وقت کے تمام اولیاء کو آپ کے سایہ قدم اور دائرہ حکم میں دیدیا- کیونکہ آپ من جانب الله اسی پر مامور تھے- جیسا کہ آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ میرا قدم ہر ولی الله کی گردن پر ہے- (اخبار الاخیار، صفحہ 20) آپ کو بیعت وخلافت کا شرف حضرتِ شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رضی الله عنہ سے حاصل تھا اور آپ نے اپنے شیخ طریقت کی بارگاہ میں راہ طریقت و سلوک کو حاصل کیا- نیز آپ نے آدابِ طریقت و تعلیم سلوک محمد بن مسلم الاباس قدس سرہ سے بھی حاصل کیا- ان کے علاوہ وقت کے ممتاز شیخ طریقت سے بھی آپ نے فیوض و برکات حاصل کئے-
 اخلاق عظمہ:
 حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کے اخلاق وعادات ،،انك لعلى خلق عظيم،، کا نمونہ اور ،،انك لعلى هدى مستقيم،، کا مصداق تھے- آپ اتنے عالی مرتبت، جلیل القدر، وسیع علم ہونے اور شان وشوکت کے باوجود ضعیفوں میں بیٹھتے، فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے- سلام کرنے میں پہل کرتے- طالب علم اور مہمانوں کے ساتھ کافی دیر بیٹھتے- بلکہ ان کی لغزشوں اور گستاخیوں سے درگذر فرماتے- اگر آپ کے سامنے کوئی جھوٹی قسم بھی کھاتا تو اپنے علم وکشف سے جاننے کے باوجود اس کو رسوا نہ کرتے- اپنے مہمان اور ہمنشیں سے دوسروں کو بہ نسبت انتہائی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے- آپ کبھی نافرمانوں، سرکشوں، ظالموں، اور مالداروں کے لیے کھڑے نہ ہوتے- نہ کبھی کسی وزیر وحاکم کے دروازے پر جاتے اور مشائخ وقت میں سے کوئی بھی حسنِ خلق، وسعتِ قلب، کرم نفس، مہربانی اور عہد کی نگہداشت میں آپ کی برابری نہیں کر سکتا تھا-(اخبار الاخیار، صفحہ 21)
 ایک روز آپ نے ایک فقیر کو شکستہ خاطر ایک گوشے میں بیٹھا ہوا دیکھا، دریافت فرمایا کہ کس خیال میں ہو اور کیا حال ہے؟ فقیر نے عرض کیا! میں دریا کے کنارے گیا تھا اور ملاح کو دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں تھا کہ کشتی میں بیٹھ کر دریا پار اتر جاتا- ابھی اس فقیر کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ ایک شخص نے تیس اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی آپ کو نذر کی- آپ نے وہ تھیلی فقیر کو دے کر فرمایا: اسے لے جا کر ملاح کو دے دو- بعض مشائخِ وقت نے آپ کے اوصاف میں لکھا ہے: کہ حضرتِ شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ بڑے بارونق، ہنس مکھ، خندہ رو، بڑے شرمیلے، وسیع الاخلاق، نرم طبیعت، کریم الاخلاق، پاکیزہ اوصاف اور مہربان وشفیق تھے- جلیس کی عزت کرتے، مغموم کو دیکھ کر امداد فرماتے، ہم نے آپ جیسا فصیح وبلیغ کسی کو نہیں دیکھا اور بعض مشائخِ کرام نے آپ کے اوصاف کو اس طرح بیان کیا ہے: کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ الله علیہ بکثرت رونے والے، الله رب العزت سے بہت زیادہ ڈرنے والے، آپ کی ہر دعا فوراً قبول ہوتی، نیک اخلاق، پاکیزہ اوصاف، بد گوئی سے بہت دور بھاگنے والے اور حق کے سب سے زیادہ قریب تھے- احکامِ الٰہی کی نافرمانوں کے لیے بڑے سخت گیر تھے- لیکن آپ اپنے لیے کبھی غصہ نہ فرماتے، کسی سائل کو اگرچہ وہ آپ کے بدن کے کپڑے ہی لے جاتے واپس نہ لیتے، توفیقِ الٰہی آپ کی رہنما اور تائید ایزدی آپ کی معاون تھی- علم نے آپ کو مہذب بنایا، قرب نے آپ کو مؤدب بنایا، خطاب الٰہی آپ کا مشیر اور ملاحظہ خداوندی آپ کا سفیر تھا- انسیت آپ کی ساتھی اور خندہ روئی آپ کی صفت تھی، سچائی آپ کا وظیفہ، فتوحات آپ کا سرمایہ، بردباری آپ کا فن، یاد الٰہی آپ کا وزیر، غور و فکر آپ کا مونس، مکاشفہ آپ کی غذا اور مشاہدہ آپ کی ساتھی تھی- آدابِ شریعت آپ کا مظہر اور اوصاف وحقیقت آپ کا باطن تھا- 
 عبادت وریاضت:
  حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ عبادت وریاضت کے متعلق خود ہی ارشاد فرماتے ہیں: کہ پچیس سال تک میں دنیا سے قطع تعلق کر کے عراق کے صحراؤں اور ویرانوں میں اس طرح گشت کرتا رہا کہ نہ میں کسی کو پہچانتا تھا اور نہ مجھے کوئی پہچانتا- رجال الغیب اور جنات کی میرے پاس آمد رہتی تھی- میں انہیں راہ حق کی ہدایت کرتا- چالیس سال تک میں نے فجر کی نماز عشاء کے وضو سے ادا کی اور پندرہ سال یہ حال رہا کہ نمازِ عشاء کے بعد قرآن مجید اس طرح شروع کرتا کہ ایک پاؤ پر کھڑا ہو جاتا اور ایک ہاتھ سے دیوار کی مینخ پکڑ لیتا- تمام شب اسی حالت میں رہتا حتیٰ کہ صبح کے وقت قرآن مجید مکمل کر دیتا- تین دن سے چالیس دن تک بسا اوقات ایسا ہوا کہ نہ تو کچھ کھانے پینے کو ملا اور نہ ہی سونے کی نوبت آئی- گیارہ سال تک برج بغداد میں عبادت الہٰی میں مصروف رہا- حتیٰ کہ اس برج میں میری اقامت اتنی طویل مدت تک رہی کہ وہ برج ہی برج عجمی کے نام سے مشہور ہو گیا اور الله رب العزت سے عہد کیا کہ جب تک غیب سے کھانا نہ ملے گا نہ کھاؤ گا- مدت دراز تک یہی کیفیت رہی لیکن میں نے اپنا عہد نہیں توڑا اور الله رب العزت سے جو وعدہ کیا اس کی خلاف ورزی نہ کی- حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سفر میں ایک شخص نے میرے پاس آکر کہا کہ اس شرط میں مجھے اپنی رفاقت میں لیجیے کہ صبر بھی کروں گا اور حکم کے خلاف کچھ نہ کروں گا- ایک دفعہ اس نے مجھے ایک جگہ بٹھایا اور وعدہ لے کر کہ جب تک میں نہ آؤں آپ یہاں سے نہ جائیں- یہ کہہ کر وہ چلا گیا- میں ایک سال اس کے انتظار میں بیٹھا رہا لیکن وہ شخص نہ آیا- ایک سال کے بعد اس شخص نے آکر مجھے اسی جگہ بیٹھا دیکھا، پھر وہی وعدہ کر کے چلا گیا- تین مرتبہ اسی طرح ہوا- آخری مرتبہ وہ اپنے ساتھ دودھ اور روٹی اور کہا کہ میں خضر ہوں- اور مجھے حکم ہے کہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر یہ کھانا کھاؤں- چنانچہ ہم نے کھانا کھایا، فارغ ہونے کے بعد حضرتِ خضر علیہ السلام نے فرمایا: اب اٹھئے سیر و سیاحت ختم کیجئے اور بغداد میں جاکر بیٹھ جائیے- لوگوں نے پوچھا کہ ان تین سالوں میں کھانے پینے کی کیا صورت رہی؟ فرمایا: ہر چیز زمین سے پیدا ہو کر میرے سامنے موجود ہو جاتی- (اخبار الاخیار، صفحہ 15/16)
 کشف و کرامات :
حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کے کشف وکرامات کے متعلق حضرتِ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ الله علیہ اخبار الاخیار میں ارشاد فرماتے ہیں: آپ سے لاتعداد کرامتیں ظاہر ہوئیں، مخلوق کے ظاہر وباطن میں تصرف کرنا، انسان اور جنات پر آپ کی حکومت، لوگوں کے راز اور پوشیدہ امور سے واقفیت، عالمِ ملکوت کے بواطن کی خبر، عالم جبروت کے حقائق کا کشف، عالمِ لاہوت کے سربستہ اسرار کا علم، مواہب غیبیہ کی عطا، باذن الٰہی حوادثِ زمانہ کا تصرف وانقلاب، باذن الٰہی مارنے اور جلانے کے ساتھ متصف ہونا، اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا، مریضوں کی صحت، بیماروں کو شفا، طے زمان ومکان، زمین وآسمان پر اجرائے حکم، پانی پر چلنا، ہوا میں اڑنا، لوگوں کے تخیل کا بدلنا، اشیاء کی طبیعت کا تبدیل کر دینا، غیب کی اشیاء کا منگانا، ماضی ومستقبل کی باتوں کو بتانا اور اسی طرح کے دوسرے کرامات مسلسل اور عام و خاص کے درمیان آپ کے قصد وارادہ سے بلکہ اظہارِ حقانیت کے طریقے پر ظاہر ہوئے- حضرتِ شیخ علی بن ہیتی رحمۃ الله علیہ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے اپنے زمانے میں شیخ عبد القادر سے زیادہ کرامات والا کوئی نہیں دیکھا- جس وقت جس کا دل چاہتا آپ کی کرامت کا مشاہدہ کر لیتا اور کرامت کبھی آپ کے بارے میں اور کبھی آپ کی وجہ سے- امام عبد الله یافعی رحمۃ الله علیہ کا بیان ہے کہ آپ کی کرامتیں حد تواتر تک پہنچ گئی ہیں اور باتفاق سب کو اس کا علم ہے- دنیا کے کسی شیخ میں ایسی کرامتیں نہیں پائی گئیں- (اخبار الاخیار، صفحہ 20/21) یہاں پر حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کی چند کرامات تبرکاً پیش کر رہا ہوں قارئین ملاحظہ فرمائیں:
مردوں کو زندہ کرنا
        اسرار السالکین میں ہے کہ ایک دن حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ بازار تشریف لے جا رہے تھے دیکھتے ہیں کہ ایک نصرانی اور ایک مسلمان میں مباحثہ ومجادلہ ہو رہا ہے- نصرانی بہت سارے دلائل سے اپنے پیغمبر حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت ثابت کر رہا تھا اور مسلمان اپنے پیغمبر نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت میں بہت سے دلائل پیش کر رہا تھا- آخر میں نصرانی نے کہا: کہ میرے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ،، قم باذن الله ،، کہہ کر مردے زندہ کر دیتے تھے تم بتاؤ کہ تمہارے پیغمبر نے کتنے مردے زندہ کیے ہیں؟ یہ سن کر مسلمان نے سکوت اختیار کیا، یہ سکوت حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کو نہایت ہی ناگوار معلوم ہوا اور نصرانی سے ارشاد فرمایا کہ میرے پیغمبر علیہ السلام کا ادنیٰ معجزہ یہ ہے کہ ان کے ادنیٰ خادم مردوں کو جلا سکتے ہیں- تو جس مردے کو کہے اسے میں ابھی زندہ کر دوں- یہ سن کر نصرانی آپ کو ایک بہت ہی پرانے قبرستان میں لے گیا- ایک بہت ہی پرانی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس مردے کو زندہ کر دیجیے- حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ نے فرمایا یہ قبر ایک قوال کی ہے اور تیرے پیغمبر ،، قم باذن الله ،، کہہ کر مردوں کو جلاتے تھے مگر میں کہتا ہوں ،، قم باذنى ،، یعنی اٹھ میرے حکم سے- صرف اتنا کہنا تھا کہ قبر شق ہوئی اور صاحب قبر جو قوال تھا اپنے ساز و سامان کے ساتھ قبر سے گاتا بجاتا باہر آگیا- اور کلمہ شہادت زبان سے ادا کیا- یہ دیکھ کر نصرانی بصدق دل ایمان لایا اور آپ کے خدام ذوی الاحتشام میں داخل ہو گیا-(سراج السالکین ، جلد اول، صفحہ 346)
کراماتِ عجیبہ: 
        ایک مرتبہ حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ نے سید احمد رفاعی کو کہلا بھیجا ،،مالعشق،، عشق کی حقیقت کیا ہے؟ سید احمد کبیر رفاعی کو یہ سنتے ہی ایک کیفیت پیدا ہوئی اور ،،العشق نار يحرق ما سوا الله،، یعنی عشق ایک آگ ہے کہ جلا دیتی ہے سب کو جو سوائے الله ہے- کے نعرے لگانے لگے، سامنے ایک درخت تھا اس میں آگ لگی اور اس درخت کے ساتھ یہ جل کر راکھ ہو گئے- اس کے بعد پانی میں تبدیل ہوئے- آپ نے یہ سن کر خادم سے کہا: جلد جاؤ اور اس پانی کو اٹھا لاؤ- اب جو خادم دیکھتا ہے تو اس پانی نے پھر انسانی شکل اختیار کر لی اور سید احمد کبیر رفاعی زندہ ہوگئے- خادم سے یہ کیفیت سن کر آپ نے فرمایا: جو ولی اس مقام فنا در فنا میں پہنچتا ہے پھر اپنے قالب عنصری کی طرف رجوع نہیں کر سکتا- سوائے ان کے اور ایک اور بزرگ کے کسی کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا-(مسالک السالکین، جلد اول، صفحہ 345)
پانی پر نمازِ باجماعت پڑھنا:
     ایک مرتبہ حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ اہل بغداد کی نظروں سے غائب ہو گئے- لوگوں نے تلاش کیا، تو معلوم ہوا کہ دریائے دجلہ کی طرف تشریف لے گئے ہیں یہاں تک کہ جب لوگ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ پانی پر چل رہے ہیں اور مچھلیاں پانی سے نکل نکل کر آپ کو سلام علیک کہہ رہی ہیں اور قدم مبارک چھو رہی ہیں- اسی اثنا میں ایک بڑی نفیس جائے نماز دیکھی جو تخت سلیمانی کی طرح ہوا میں معلق ہو کر بچھ گئی اور اس پر دو سطریں لکھی تھیں- پہلی سطر میں ،، الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون ،، اور دوسری سطر میں ،، سلام عليكم اهل البيت انه حميد مجيد ،، لکھا تھا- اتنے میں بہت سے لوگ آکر جانماز کے گرد جمع ہو گئے وہ ظہر کا وقت تھا تکبیر ہوئی اور آپ امام ہوئے اور نماز قائم ہوئی- جب آپ تکبیر کہتے تو حاملان عرش آپ کے ساتھ تکبیر کہتے اور جب آپ تسبیح پڑھتے تو ساتوں آسمان کے فرشتے آپ کے ساتھ تسبیح پڑھتے اور جب آپ ،، سمع الله لمن حمده ،، کہتے تو آپ کے لبوں سے سبز رنگ کا نور نکل کر آسمانوں کی طرف جاتا جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے یہ دعا کی:،، اے پروردگار! میں تیری درگاہ میں تیرے حبیب اور بہترین خلائق حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کو وسیلہ کر کے دعا کرتا ہوں کہ میرے مریدوں اور مریدوں کے مریدوں کو جو میری طرف منسوب ہوں، بغیر توبہ کے روح قبض نہ کرنا،،حضرتِ سہل بن عبد الله تستری فرماتے ہیں: ہم نے آپ کی اس دعا پر فرشتوں کے بڑے گروہ کو آمین کہتے سنا- جب دعا ختم ہوئی تو ہم نے ایک ندا سنی ،،ابشر فانى قد استجبت لك،، اے عبد القادر خوش ہو جاؤ کہ ہم نے تمہاری دعا قبول فرمائی- شیخ بقا بن بطور رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے مریدوں میں پرہیزگار اور گہنگار دونوں ہی ہوں گے- فرمایا: ہاں- مگر پرہیزگار میرے لیے اور میں گنہگاروں کے لیے ہوں-(برکات قادریت، صفحہ: 23) 
وصالِ مبارک:
      نزالجواہر میں فتوح الغیب سے مذکور ہے کہ جب حضرتِ شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله عنہ بیمار ہوئے تو حضرت کے فرزند ارجمند جناب شیخ سیف الدین عبد الوہاب رضی الله عنہ نے عرض کیا: یا سیدی! آپ کے بعد میں کس چیز پر عمل کروں؟ حضرت نے فرمایا: پرہیزگاری اختیار کرو اور خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرو اور اس کے سوا کسی سے امید نہ رکھو- اور اپنی تمام حاجتیں الله رب العزت سے چاہ اور خدا کے سوا کسی پر اعتماد نہ رکھ، اور توحید کو لازم کر لے، کہ تمام اتفاق ہے- پھر اس کلمے کو تین بار ،، التوحید، التوحید، التوحید کہا اور فرمایا: جب دل خدائے تعالیٰ کے ساتھ درست ہوتا ہے تو اس دل سے کوئی چیز جدا نہیں ہوتی اور جو علوم کہ ان کے ساتھ احتیاج ہو یا باہر نہیں جاتے اور فرمایا کہ معزز ہوں بغیر پوست کے- دوسرے فرزند جو گرد بیٹھے ہوئے تھے ان کو ارشاد ہوا کہ میرے نزدیک سے دور رہو کیونکہ میں ظاہر میں تمہارے ساتھ ہوں اور باطن میں دوسروں کے ساتھ، اور فرمایا کہ تمہارے سوا دوسری خلقت میرے پاس حاضر ہوئی ہے- اس کے لیے جگہ چھوڑ دو اور جگہ کشادہ کر دو اور ان کا ادب کرو اور اپنی حد پر رہو- یہاں مہربانی اور بڑی بخشش ہے اس لیے ان کے واسطے جگہ تنگ نہ کرو اور حضرت کی بارگاہ میں مقربوں کی ارواحیں اور رحمت کے فرشتے حاضر ہو کر سلام کرتے تھے، اور حضرت ہر ایک کو تمام دن و رات سلام کا جواب اس طرح دیتے تھے ،، وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته غفر الله لى ولكم وتاب الله على وعليكم ،، آپ گیارہ تا سترہ ربیع الثانی 561ھ 1166ء شب دو شنبہ بعد نمازِ عشاء 91_ سال کی عمر شریف میں بغداد شریف میں وصال فرمایا - (سیرتِ غوثِ اعظم، صفحہ 244) نمازِ جنازہ حضرتِ سید سیف الدین عبد الوہاب رضی الله عنہ نے پڑھائی، آپ کے جنازے میں اتنی کثرت تھی کہ بغداد میں کوئی شخص باقی نہ رہا جو حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کے جنازے میں شریک نہ ہوا ہو- حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کا مزار مبارک آپ کے مدرسہ عالیہ کے رواق میں باب ازج کے نزدیک بغداد شریف (عراق) میں واقع ہے- ہر سال عرس کی تاریخ میں بے شمار مخلوق فیوض روحانی سے مستفیض ہو کر لوٹتی ہے اور ہمہ دم زائرین کا اژدھام رہتا ہے-
       حضور غوثِ رضی الله عنہ کے ارشادات:  
   حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ کے فرد ارجمند حضرت سیدنا عبد الوہاب رحمتہ الله تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: حضور غوثِ اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ نے 521/ ہجری سے 567/ ہجری تک مخلوق کو وعظ ونصیحت فرمایا- (اخبار الاخیار، صفحہ 15/ قلائد الجواہر، صفحہ، 18) حضور غوث الاعظم رضی الله تعالیٰ عنہ نے ہفتہ میں تین دن جمعہ، منگل اور بدھ کو وعظ ونصیحت فرمانے کے لیے متعین فرمائے تھے- حضرت ابراہیم بن اسعد علیہ الرحمتہ والرضوان فرماتے ہیں: جب حضور غوثِ اعظم رضی الله عنہ علماء کا لباس پہن کر اونچے مقام پر جلوہ افروز ہوکر وعظ فرماتے تو لوگ آپ کے کلام مبارک کو بغور سنتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے- عماد الدین ابنِ کثیر علیہ الرحمتہ والرضوان اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں: آپ نیک بات کی تلقین فرماتے اور برائی کو روکنے اور اس سے بچنے کی تاکید فرماتے- امراء، سلاطین، خاص وعام کو ممبر پر رونق افروز ہوکر ان کے سامنے نیک باتیں بتاتے- جو کوئی ظالم شخص کو حاکم مقرر کرتا تو اس کو اس سے منع کرتے- آپ کو برائی سے روکنے پر کسی سے قطعاً خوف وخطر نہ ہوتا- (قلائد الجواہر، صفحہ/08)
    حضور غوث الاعظم رضی الله عنہ نے بغداد شریف میں قائم کیے ہوئے اپنے مدرسہ قادریہ میں علم وفضل اور رشد وہدایت کے جو موتی نچھاور کیے ان کی آب وتاب آج بھی برقرار ہے- آپ کے ارشادات کے فیوض وبرکات سے ہم آج بھی فیضیاب ہو سکتے ہیں- حضور غوث اعظم رضی الله عنہ کے چند ارشاداتِ عالیہ:
علم الیقین غور وفکر اور دلیل سے حاصل ہوتا ہے- 
 عارف کا بسم الله کہنا الله تعالیٰ کے کن فیکون کہنے کے برابر ہے-
دنیا بندے کو اپنے خدا سے دور کر دیتی ہے-
 دل کو ہر طرح کی آلائشوں سے پاک رکھنے کا نام تصوف ہے-
الله کے نور کی تجلیات ہی روح کی غذا ہے-
عمل کے بغیر علم مفید نہیں- 
میں علم دین پڑھ کر قطب بن گیا ہوں-
 خوف خدا ہی کامیابی وکامرانی کی کنجی ہے- 
بندہ خدمت کرنے سے مخدوم بن جاتا ہے- 
ہر شخص کو حدودِ شریعت کی پاسداری کرنی چاہیے- 
عالم باعمل کا درجہ الله کے نائب کا ہے
 اعتقاد درست کرنا واجب ہے کیونکہ یہ اعتقاد ہی اصل میں بنیاد ہیں- 
 مجھے علم ہی نے مہذب بنایا ہے- 
حرام غذا نور ایمان کو ڈھانپ لیتی ہے- 
لوگوں میں علم پھیلانا اور راہِ حق کی طرف بلانا علم کی زکوٰۃ ہے- 
ایمان ڈھال کی طرح بلاؤں اور آفات سے بچاتا ہے-
ظلم دنیا کو تاریکی کی گہرائیوں میں ڈال دیتا ہے- 
علم زندگی اور جہالت موت ہے- 
 جو تمہارے ساتھ محبت رکھے اس سے محبت رکھو-
 جو تم پر نظر رکھے تم اس پر نظر رکھو- 
 کھانا کھلانا اور حسنِ اخلاق افضل واکمل اعمال ہیں- 
الله ہی تمام امور کا ذمہ دار ہے-
دنیا جتنی تیرے نصیب میں ہے وہ تجھ کو مل کر رہے گی- 
جن اور انسان ارادہ خواہش نفس سے معصوم نہیں-
صرف بت پرستی ہی شرک نہیں نفس کی پیروی کرنا بھی شرک ہے- 
ناشکری ناشکرے کو دنیا وآخرت میں ذلیل کرتی ہے- 
 الله ہی کے دربار میں ایمان کے بعد کفر سے پناہ مانگ- 
 سنی ہوئی خبر، دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہوتی، بات میں غبار اور التباس واختلاط وشک وشبہ نہیں ہوتا-
دل توحید ومعرفت کی جگہ اور سینہ واردات و عجائباتِ غیبی کے نازل ہونے کا مقام ہے-  تعلیم سے اگر الله کسی ایک شخص پر ہدایت فرما دے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ جس پر الله آفتاب طلوع کرے-
اگر دعا کرنے سے نفع نہ ہو تو نقصان بھی نہ پائے گا-
اپنے نفس کی خواہشات کی مخالفت میں الله کی مدد کرو-
قرآن وحدیث سے باہر جانے میں ہلاکت ہے-
مومن اپنے دل پر چیزیں دیکھتا ہے-
خالق اپنی تمام مخلوق سے بہتر اور ارفع واعلیٰ ہے- 
الله کی سزا اس کی نعمت اور بلا اس کی دوا ہے-
الله کا وعدہ نقد ہے اور حال اس کا ادھار ہے-
خدا کے سب کام بمصلحت نیک ہیں
جسے الله نے معرفتِ حق کا علم دیا ہے وہ سوال سے بچا رہتا ہے-
دنیاوی شیرینی کے لیے پہلے تلخی چکھنا ضروری ہے کڑوے پر صبر کیے بغیر شہد تک پہنچنا مشکل ہے- 
سب بدیوں سے بڑی بدی نیند اور نیک کاموں سے غفلت ہے جو سوئے گا اس کی بہت سی نیکیاں فوت ہو جائیں گی-
 جاہل نا عقل اور ناقاص فہم ہوتا ہے-
انجام پر نظر رکھنے والا عاقل ہے- 
شکر باللسان دل کی کیفیت کا اظہار ہے-
 صبر پورا ایمان ہے-
ہر شے اسمائے الٰہی میں سے ہے-
الله تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ ظاہر ہے-
فقر وتصوف سعی اور کوشش ہے-
عابد کا محل اونچا اور رتبہ بلند ہے- 
وقت کی مناسبت سے اپنے آپ کو بہتر کاموں میں مشغول رکھو اور اپنے اعضاء کو فضول کاموں سے بچاؤ-
معرفتِ حق ابدی عمل ہے-
_________(❤️)_________ 
کتبہ:- 
حضرت علامہ مولانا حافظ و قاری
افتخار احمد قادری برکاتی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
 کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area