•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
صحابہ کو گالی دینے والا کیا کافر ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی صحابہ کو نہ مانتا ہوں ان کو سب کرتا ہو اور ولیوں کو نہ مانے تو کیا وہ مسلمان ہے۔ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی صحابہ کو نہ مانتا ہوں ان کو سب کرتا ہو اور ولیوں کو نہ مانے تو کیا وہ مسلمان ہے۔ برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد مفید عالم قادری
♦•••••••••••••••••••••••••♦
♦•••••••••••••••••••••••••♦
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صحابہ کرام کو یا ولی اللہ کو نہ ماننا سخت محرومی کا سبب ہے۔
اور کفر پر خاتمہ کا خوف ہے، کہ یہ اللہ کے مقبول بندے ہیں، اور جو ان کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے، جو ان سے جنگ کرے وہ اللہ سے جنگ کرتا ہے۔
البتہ تکفیر اور ایمان کا معاملہ الگ ہے۔
امام محمد غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایمان و کفر کی بڑی واضح تعریف بیان کی ہے ، ایسی تعریف جس کے بعد شکوک شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے، حق و باطل مجسم شکل میں سامنے آجاتا ہے، نیز اس کے توسط سے تکفیر کا نہایت پیچیدہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے،
امام غزالی رحمہ اللہ ایمان و کفر کی تعریف کرتے ہیں الکفر ھو تکذیب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ، والایمان تصدیقہ فی جمیع ما جاء بہ،،
یعنی نبی کریم کی لائی ہوئی باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی آپ علیہ السلام کی تکذیب کفر ہے۔
اور ان باتوں کی تصدیق ایمان ہے۔
(فیصل التفریقہ بین الاسلام و الزندقہ)
فقیر حنفی قادری کے محدود مطالعے کی حد تک کفر و ایمان کی یہ سب سے واضح اور مختصر تعریف ہے ،امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کو مزید واضح کیا ہے، فرماتے ہے:
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
صحابہ کرام کو یا ولی اللہ کو نہ ماننا سخت محرومی کا سبب ہے۔
اور کفر پر خاتمہ کا خوف ہے، کہ یہ اللہ کے مقبول بندے ہیں، اور جو ان کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے، جو ان سے جنگ کرے وہ اللہ سے جنگ کرتا ہے۔
البتہ تکفیر اور ایمان کا معاملہ الگ ہے۔
امام محمد غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایمان و کفر کی بڑی واضح تعریف بیان کی ہے ، ایسی تعریف جس کے بعد شکوک شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے، حق و باطل مجسم شکل میں سامنے آجاتا ہے، نیز اس کے توسط سے تکفیر کا نہایت پیچیدہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے،
امام غزالی رحمہ اللہ ایمان و کفر کی تعریف کرتے ہیں الکفر ھو تکذیب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ، والایمان تصدیقہ فی جمیع ما جاء بہ،،
یعنی نبی کریم کی لائی ہوئی باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی آپ علیہ السلام کی تکذیب کفر ہے۔
اور ان باتوں کی تصدیق ایمان ہے۔
(فیصل التفریقہ بین الاسلام و الزندقہ)
فقیر حنفی قادری کے محدود مطالعے کی حد تک کفر و ایمان کی یہ سب سے واضح اور مختصر تعریف ہے ،امام غزالی رحمہ اللہ نے اس کو مزید واضح کیا ہے، فرماتے ہے:
کل مکذب للرسول فھو کافر فھو مکذب رسول ،
گویا ایمان کی بنیاد تصدیق رسالت ہے، اور کفر کی بنیاد تکذیب رسالت ہے، جو شخص نبی علیہ السلام کی تصدیق کرنے والا ہو وہ مومن ہے اور جب تک تکذیب رسالت کا مرتکب نہ ہوگا وہ مومن ہی ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کی ایمان کا مرکز و محور ذات پاک نبی علیہ السلام ہے، ،بندہ کتنا ہی بڑا گنہگار ہو اگر وہ ذات پاک نبی کی تصدیق و تسلیم کرنے والا ہو تو وہ مومن ہی ہوگا
اگرچہ ایسا انسان کمال ایمان اور حلاوت ایمان سے محروم ہے، اور یہ کی اسے اپنے کیے کی سزا دوزخ میں جھیلنا ہوگی۔
امام غزالی کی مذکورہ بالا توضیح سے یہ بھی معلوم ہوا کی ایمان کا تعلق کسی شیخ عالم فقیہ مجتہد حاکم مرشد یا غوث و قطب اور محدث و مجدد کے ماننے نہ ماننے پر موقف نہیں ہے، یہاں تک کے کسی صحابی کے ماننے نہ ماننے پر بھی ایمان کا موقف نہیں ہے ،
جب تک براہ راست تکذیب رسالت نہ ہو تو ایمان ہی ہوگا کفر نہ ہوگا، یہ الگ بات ہے وہ گمراہ یا خاطی ٹھہرے ،، ذات رسالت کے علاوہ کوئی دوسری ذات خواہ وہ علم و تقویٰ کی کسی بھی چوٹی پر کیوں نہ ہو ایمان کے معاملہ میں وہ مرکز و معیار نہیں بن سکتی۔ عقیدت و محبت میں ایسی باتیں کہہ جانا الگ بات ہے اور مقام تحقیق الگ ہے ۔ شان صحابہ اور منکرین خلافت شیخین کے تعلق سے بلعموم فقہا نے تکفیر کا قول کیا ہے،
کتب فقہ سے اس سیاق میں درجن بھر سے زائد تکفیری عبارتیں نقل کرنے کے بعد امام اہلسنت نے لکھا ہے کہ اگر ایسے بدتمیز لوگ کسی امر ضروری دینی کے منکر نہ ہوں، تو متکلمین ان کی بھی تکفیر نہیں کرتے اور اس حوالے سے میرا موقف بھی یہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ،والاحوط فیہ قول المتکلمین انھم ضلال من کلاب النار لا کفار و بہ ناخذ
یعنی اس میں محتاط متکلمین کا قول یہ ہے کہ وہ گمراہ اور جہنمی کتے ہیں کافر نہیں اور یہی ہمارا مسلک ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 259)
علامہ شامی صاب الاختیار علامہ مجد الدین ابو الفضل حنفی کی ایک عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں، اس کلام میں خوارج کی عدم تکفیر کی قطعیت ہے اور اس میں اس بات پر صریح دلالت موجود ہے کہ سب صحابہ اگر کسی تاویل کی بنیاد پر ہو، خواہ وہ تاویل فاسد ہی کیوں نہ ہو اس کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاۓ گی،۔
اور اس بات پر بھی اس حکم میں سارے صحابہ یکساں ہیں، اس میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ وہ بدعت موجب اعتقاد و عمل دلیل قطعی کے خلاف ہو ۔اس صاحب بدعت کی سے مانع شبہ قرار نہیں دیا جاۓ گا ، مثلا اس کی بدعت سیدہ عائشہ پر تہمت کی طرف لے جاتی ہو کی براءت اللہ پاک نے قرآن کی نص قطعی سے فرمادی۔ یا صدیق اکبر کی صحبت کے انکار کی طرف لے جاتی ہو جن کی صحبت قرآن سے ثابت ہے، یا وہ یہ کہتا ہو کہ وحی پہنچانے میں جبریل سے غلطی ہو گئ، یا اس قسم کی اور باتیں کرتا ہو، تو اس کی تکفیر کی جاۓ گی،،
(مجموعہ رسائل ابن عابدین، 2. 360)
واضح رہے کہ علماء کی ایک بڑی تعداد مطلقا سب صحابہ کو کفر کہتی ہے،، لیکن اس پر مزید کلام کر کے جواب کو ہم طویل نہیں کرنا چاہتے،،، اخر میں امام اہلسنت کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہیں
امام اہلسنت سے شیعہ عورت کے تعلق سے سوال ہوا ہم سوال اور جواب دونوں ہی ذکر کرتے ہیں
مسئلہ از پٹنہ لودی کٹرہ مرسلہ مولانا مولوی عبدالوحید غلام صدیق صاحب بہاری ١٠ ربیع الآخر ١٣١٤ھ
حضرت مولانا اعزکم الله فی الدارین تسلیم،ایك شیعہ عورت سے سنی نے نکاح کیا آیا درست ہوگا یا نہیں؟ جلد فتوی مرتب فرماکر روانہ کیجئے ضرورت شدیدہ ہے۔میری خاص رائے عدم مناکحت پر ہے۔منکرین ضروریات دین کافر ہیں اورکفر کے سبب نکاح مسلمان سے کب درست ہے،والسلام!
الجواب:
شیعہ تین قسم ہیں:
اول غالی کہ منکر ضروریات دین ہوں،مثلا ۱قرآن مجید کوناقص بتائیں،بیاض عثمانی کہیں یا امیر المومنین مولاعلی کرم الله وجہہ خواہ دیگر ائمہ اطہار کوانبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم خواہ کسی ایك نبی سے افضل جانیں یار ب العزت جل وعلا پر بدع یعنی ۲حکم دے کرپشیمان ہونا،پچتا کر بدل دینا،یا پہلے مصلحت کا علم نہ ہونا بعد کو مطلع ہوکر تبدیل کرنا مانیں،یا حضور پر نور سید المرسلین صلی الله تعالٰی علیہ وسلم پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی تہمت رکھیں الی غیر ذلك من الکفریات اس کے علاوہ دیگر کفریات)یہ لوگ یقینا قطعاً اجماعا کافر مطلق ہیں اور ان کے احکام مثل مرتد،فتاوٰی ظہیریہ وفتاوٰی ہندیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے: احکامھم احکام المرتدین ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔آج کل کے اکثر بلکہ تمام رفاض تبرائی اسی قسم کے ہیں کہ وہ عقیدہ کفریہ سابقہ میں ان کے عالم جاہل مرد عورت سب شریك ہیں الا ماشاء ﷲ(مگر جو الله تعالٰی چاہے۔) جوعورت ایسے عقیدہ کی ہو مرتدہ ہے کہ نکاح نہ کسی مسلم سے ہوسکتا ہے نہ کافر سے نہ مرتد سے نہ اس کے ہم مذہب سے۔جس سے نکاح ہوگازنائے محض ہوگا اور اولاد ولدالزنا۔
دوم تبرائی کہ عقاید کفریہ اجماعیہ سے اجتناب اور صرف سَبّ صحابہ رضی الله تعالٰی عنہم کا ارتکاب کرتاہو،ان میں سے منکران خلافت شیخین رضی الله تعالٰی عنہما اور انھیں برا کہنے والے فقہائے کرام کے نزدیك کافر و مرتد ہیں نص علیہ فی الخلاصۃ والھندیۃ وغیرھما(خلاصہ اور ہندیہ میں اس پر نص ہے۔)مگر مسلك محقق قول متکلمین ہے کہ یہ بدعتی ناری جہنمی کلاب النار ہیں مگر کافر نہیں،ایسی عورت سے نکاح اگرچہ صحیح ہے مگر شدید کراہت مکروہ ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 11 صفحہ 350)
_________(❤️)_________
گویا ایمان کی بنیاد تصدیق رسالت ہے، اور کفر کی بنیاد تکذیب رسالت ہے، جو شخص نبی علیہ السلام کی تصدیق کرنے والا ہو وہ مومن ہے اور جب تک تکذیب رسالت کا مرتکب نہ ہوگا وہ مومن ہی ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کی ایمان کا مرکز و محور ذات پاک نبی علیہ السلام ہے، ،بندہ کتنا ہی بڑا گنہگار ہو اگر وہ ذات پاک نبی کی تصدیق و تسلیم کرنے والا ہو تو وہ مومن ہی ہوگا
اگرچہ ایسا انسان کمال ایمان اور حلاوت ایمان سے محروم ہے، اور یہ کی اسے اپنے کیے کی سزا دوزخ میں جھیلنا ہوگی۔
امام غزالی کی مذکورہ بالا توضیح سے یہ بھی معلوم ہوا کی ایمان کا تعلق کسی شیخ عالم فقیہ مجتہد حاکم مرشد یا غوث و قطب اور محدث و مجدد کے ماننے نہ ماننے پر موقف نہیں ہے، یہاں تک کے کسی صحابی کے ماننے نہ ماننے پر بھی ایمان کا موقف نہیں ہے ،
جب تک براہ راست تکذیب رسالت نہ ہو تو ایمان ہی ہوگا کفر نہ ہوگا، یہ الگ بات ہے وہ گمراہ یا خاطی ٹھہرے ،، ذات رسالت کے علاوہ کوئی دوسری ذات خواہ وہ علم و تقویٰ کی کسی بھی چوٹی پر کیوں نہ ہو ایمان کے معاملہ میں وہ مرکز و معیار نہیں بن سکتی۔ عقیدت و محبت میں ایسی باتیں کہہ جانا الگ بات ہے اور مقام تحقیق الگ ہے ۔ شان صحابہ اور منکرین خلافت شیخین کے تعلق سے بلعموم فقہا نے تکفیر کا قول کیا ہے،
کتب فقہ سے اس سیاق میں درجن بھر سے زائد تکفیری عبارتیں نقل کرنے کے بعد امام اہلسنت نے لکھا ہے کہ اگر ایسے بدتمیز لوگ کسی امر ضروری دینی کے منکر نہ ہوں، تو متکلمین ان کی بھی تکفیر نہیں کرتے اور اس حوالے سے میرا موقف بھی یہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں ،والاحوط فیہ قول المتکلمین انھم ضلال من کلاب النار لا کفار و بہ ناخذ
یعنی اس میں محتاط متکلمین کا قول یہ ہے کہ وہ گمراہ اور جہنمی کتے ہیں کافر نہیں اور یہی ہمارا مسلک ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 259)
علامہ شامی صاب الاختیار علامہ مجد الدین ابو الفضل حنفی کی ایک عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں، اس کلام میں خوارج کی عدم تکفیر کی قطعیت ہے اور اس میں اس بات پر صریح دلالت موجود ہے کہ سب صحابہ اگر کسی تاویل کی بنیاد پر ہو، خواہ وہ تاویل فاسد ہی کیوں نہ ہو اس کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاۓ گی،۔
اور اس بات پر بھی اس حکم میں سارے صحابہ یکساں ہیں، اس میں اس بات پر بھی دلالت ہے کہ وہ بدعت موجب اعتقاد و عمل دلیل قطعی کے خلاف ہو ۔اس صاحب بدعت کی سے مانع شبہ قرار نہیں دیا جاۓ گا ، مثلا اس کی بدعت سیدہ عائشہ پر تہمت کی طرف لے جاتی ہو کی براءت اللہ پاک نے قرآن کی نص قطعی سے فرمادی۔ یا صدیق اکبر کی صحبت کے انکار کی طرف لے جاتی ہو جن کی صحبت قرآن سے ثابت ہے، یا وہ یہ کہتا ہو کہ وحی پہنچانے میں جبریل سے غلطی ہو گئ، یا اس قسم کی اور باتیں کرتا ہو، تو اس کی تکفیر کی جاۓ گی،،
(مجموعہ رسائل ابن عابدین، 2. 360)
واضح رہے کہ علماء کی ایک بڑی تعداد مطلقا سب صحابہ کو کفر کہتی ہے،، لیکن اس پر مزید کلام کر کے جواب کو ہم طویل نہیں کرنا چاہتے،،، اخر میں امام اہلسنت کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہیں
امام اہلسنت سے شیعہ عورت کے تعلق سے سوال ہوا ہم سوال اور جواب دونوں ہی ذکر کرتے ہیں
مسئلہ از پٹنہ لودی کٹرہ مرسلہ مولانا مولوی عبدالوحید غلام صدیق صاحب بہاری ١٠ ربیع الآخر ١٣١٤ھ
حضرت مولانا اعزکم الله فی الدارین تسلیم،ایك شیعہ عورت سے سنی نے نکاح کیا آیا درست ہوگا یا نہیں؟ جلد فتوی مرتب فرماکر روانہ کیجئے ضرورت شدیدہ ہے۔میری خاص رائے عدم مناکحت پر ہے۔منکرین ضروریات دین کافر ہیں اورکفر کے سبب نکاح مسلمان سے کب درست ہے،والسلام!
الجواب:
شیعہ تین قسم ہیں:
اول غالی کہ منکر ضروریات دین ہوں،مثلا ۱قرآن مجید کوناقص بتائیں،بیاض عثمانی کہیں یا امیر المومنین مولاعلی کرم الله وجہہ خواہ دیگر ائمہ اطہار کوانبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم خواہ کسی ایك نبی سے افضل جانیں یار ب العزت جل وعلا پر بدع یعنی ۲حکم دے کرپشیمان ہونا،پچتا کر بدل دینا،یا پہلے مصلحت کا علم نہ ہونا بعد کو مطلع ہوکر تبدیل کرنا مانیں،یا حضور پر نور سید المرسلین صلی الله تعالٰی علیہ وسلم پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی تہمت رکھیں الی غیر ذلك من الکفریات اس کے علاوہ دیگر کفریات)یہ لوگ یقینا قطعاً اجماعا کافر مطلق ہیں اور ان کے احکام مثل مرتد،فتاوٰی ظہیریہ وفتاوٰی ہندیہ وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے: احکامھم احکام المرتدین ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔آج کل کے اکثر بلکہ تمام رفاض تبرائی اسی قسم کے ہیں کہ وہ عقیدہ کفریہ سابقہ میں ان کے عالم جاہل مرد عورت سب شریك ہیں الا ماشاء ﷲ(مگر جو الله تعالٰی چاہے۔) جوعورت ایسے عقیدہ کی ہو مرتدہ ہے کہ نکاح نہ کسی مسلم سے ہوسکتا ہے نہ کافر سے نہ مرتد سے نہ اس کے ہم مذہب سے۔جس سے نکاح ہوگازنائے محض ہوگا اور اولاد ولدالزنا۔
دوم تبرائی کہ عقاید کفریہ اجماعیہ سے اجتناب اور صرف سَبّ صحابہ رضی الله تعالٰی عنہم کا ارتکاب کرتاہو،ان میں سے منکران خلافت شیخین رضی الله تعالٰی عنہما اور انھیں برا کہنے والے فقہائے کرام کے نزدیك کافر و مرتد ہیں نص علیہ فی الخلاصۃ والھندیۃ وغیرھما(خلاصہ اور ہندیہ میں اس پر نص ہے۔)مگر مسلك محقق قول متکلمین ہے کہ یہ بدعتی ناری جہنمی کلاب النار ہیں مگر کافر نہیں،ایسی عورت سے نکاح اگرچہ صحیح ہے مگر شدید کراہت مکروہ ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 11 صفحہ 350)
_________(❤️)_________
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
♦•••••••••••••••••••••••••♦
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی قادری
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی قادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینتال
9917420179📲
ہلدوانی نینتال
9917420179📲