Type Here to Get Search Results !

سب سے پہلے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تخلیق ہوئی


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
 سب سے پہلے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تخلیق ہوئی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
محترم قارئینِ کرام : 
اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جہاں بے مثال بشر ہونے کا شرف عطا فرمایا وہیں حِسّی و معنوی نورانیت سے بھی نوازا ۔ حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں : حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں ۔ ظاہِری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔
(رِسالۂ نورمع رسائل نعیمیہ صفحہ نمبر 39)
حضرت سیّدنا جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب سے پہلی تخلیق کے متعلّق سوال کیا تو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوداپنی نورانیت کویوں بیان فرمایا:اے جابر! اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔
( الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف ، ص 63، حدیث:18، مواھب لدنیہ،ج1،ص36)
حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّکے ہاں نور تھا۔
 (مواھب لدنیہ،ج1،ص39)(الحافظ الکبیر ابی بکر عبدالرزاق بن ھمام الصنعانیؒ ( متوفی ٢١١ ھجری ) الجزء المفقود من الجزء الاوّل من المصنّف ( مصنَّف عبدالرزاق )(الحافظ شھاب الدین ابوالعباس احمد بن ابی بکر بن عبدالملک بن محمد القسطلانیؒ المصری الشافعی( متوفی ٩٢٣ ھجری )(علامہ عبدالقادرؒ بن شیخ بن عبدﷲ العنید روس الحسینی الحضرمی الیمنی الہندی( متوفی ١٠٣٨ ھجری )النور السّافر عن اخبار القرن العاشر)(العلامتہ الفہامہ علی بن ابراھیم بن احمد بن علی بن عمر عرف نورالدین بن برھان الدین الحلبی الشافعیؒ القاھری المصریؒانسان العیون فی سیرہ الامین المامون)(امام محمد بن عبدالباقی المالکیؒ الزرقانی المصری ( متوفی ١١٢٢ ھجری ) شرح العلامتہ الزرقانی علی المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ للعلامتہ القسطلانی))(المفسر المحدث الشیخ اسماعیل بن محمد العجلونی الجرّاحی( متوفی ١١٦٢ ھجری )کشف الخفاء ومزیل الالباس عمّا اشتھر من الاحادیث علی السنتہ النّاس)(حکیم دیوبند مولوی اشرفعلی تھانوی دیوبندی نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)(قصص الانبیاء صفحہ نمبر 23 عبد الرشید قاسمی دیوبندی)(مولوی اسلم قاسمی دیوبندی فاضل دارالعلوم دیوبند اردو ترجمہ سیرت حلبیہ،چشتی)
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت آدم علیہ السَّلام کو پیدا فرمایا تو ان کے بیٹوں کو باہم فضیلت دی ۔ آپ علیہ السَّلام نے ان کی ایک دوسرے پر فضیلت ملاحظہ فرمائی ۔ (پھر نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : آدم علیہ السَّلام نے سب سے آخر میں مجھے ایک بلند نورکی صورت میں دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب یہ کون ہے ؟ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارا بیٹا احمد ہے ، یہ اوّل بھی ہے، آخر بھی ہے اور یہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہے ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ، جلد نمبر 5 ، صفحہ نمبر 483)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیِ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نورانیت کےجلووں کو دیکھا تو سب نے اپنےاپنےاندازمیں اظہار کیا :
(1) حضرت سیّدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےسامنےکے مبارک دانتوں میں کُشادَگی تھ ی، جب آپ گفتگو فرماتے تو اُن میں سے نور دکھائی دیتا تھا ۔ (جامع صغیر، ص403، حدیث:6482)
شیخ الاسلام علّامہ عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : یہ نور محسوس ہوتا تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کُل ذاتِ شریفہ ظاہری و باطنی طور پر نور تھی حتّٰی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے اصحاب میں سے جس کو چاہتے اُسے نور عطا فرماتے جیسا کہ حضرت سیّدنا طفیل بن عَمرو دَوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کوعطافرمایا ۔ (فیض القدیر، ج5،ص93 ،چشتی)
(2) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں : بَوَقتِ سحر کھو جانے والی سوئی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرۂ انور کی روشنی کی کرن سے مل گئی ۔ (القول البدیع، ص302)
(3)حضرت سیّدنا ابوہریرہرضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: جب نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسکراتے تو درو دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے ۔
(مصنف عبدالرزاق، جلد 10،صفحہ 242، حدیث: 20657)
نورانی بشریت
یاد رہے نور اور بشر ایک دوسرے کی ضد نہیں کہ ایک جگہ جمع نہ ہو سکیں کیونکہ حضرت جبریل علیہ السَّلام نوری مخلوق ہونے کے باوجود حضرت سیّدتنا بی بی مریم رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سامنے انسانی شکل میں جلوہ گَر ہوئے تھے ۔ جیسا کہ قراٰنِ حکیم میں ہے:
 فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا (پ16، مریم:17) 
ترجمہ : تو اس کی طرف ہم نے اپنا روحانی بھیجا وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا ۔“نیزحضرت مَلَکُ الموت علیہ السَّلام بشری صورت میں حضرت سیّدناموسیٰ کلیم اللہ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔
(بخاری،ج1،ص450،حدیث:1339،چشتی)
بزرگانِ دین کا عقیدہ
جلیل القدر مُفَسِّرین ، مُحَدِّثِیْن ، علمائے ربّانِیِّین اور اولیائے کاملین نے بھی نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور ہونے کو بیان فرمایا ۔ جیسا کہ قراٰنِ مجید کی آیت :
قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ (پ6،المآئدۃ:15) 
ترجمہ : بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب) کے تحت امام ابو جعفر محمد بن جَرير طَبَری (سالِ وفات 310ہجری) ، امام ابومحمد حسین بغوی (سالِ وفات 510ہجری) ، امام فخرالدین رازی (سالِ وفات 606ہجری) ، امام ناصرالدین عبداللہبن عمربَیضاوی(سالِ وفات685 ہجری) ، علّامہ ابوالبرکات عبداللہنَسَفی (سالِ وفات 710ہجری )علّامہ ابوالحسن علی بن محمد خازِن(سالِ وفات 741ہجری)، امام جلال الدین سُیُوطی شافعی (سالِ وفات 911ہجری) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین سمیت کثیر مُفَسِّرین نے فرمایا کہ اس آیتِ طیبہ میں موجود لفظ”نور“ سے مراد نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرَکات ہے ۔
حضرت علامہ قاضی عِیاض مالکی (سالِ وفات 544ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ سورج چاند کی روشنی میں زمین پر نہیں پڑتا تھا کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہیں۔
(الشفا ، جلد نمبر 1 ، صفحہ نمبر 368)
نورِ مصطفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم غالب آ گیا
شارحِ بخاری امام احمدبن محمد قَسطلانی (سالِ وفات 923ہجری) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جب ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور کو پیدا فرمایا تو اُسے حکم فرمایا کہ تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو دیکھے چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمام انبیاء علیہم السّلام کے نور کو ہمارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نور سے ڈھانپ دیا ۔ انہوں نے عرض کی : مولیٰ یہ کس کے نور نے ہمیں ڈھانپ لیا ؟ تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا : ہٰذَا نُورُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبدِاللہِ یعنی یہ عبداللہ کے بیٹے محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا نور ہے ۔ (المواھب اللدنیۃ جلد 1 صفحہ 33)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
نورانیتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قرآن و حدیث کی روشنی میں
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
شیخ الاسلام وہابیہ ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں :
قد جآءکم من اللہ نور و کتاب مبین ۔ تمہارے پاس اللہ کا نور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اور روشن کتاب آگئی ۔ (تفسیر ثنائی جلد اوّل صفحہ نمبر 352 ، شیخ الاسلام وہابیہ ثناء اللہ امرتسری) ۔ وہابیو یہی ہم کہتے ہیں نور سے مراد ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے اپنے بڑے کی تفسیر مان لو ؟ یہ ہم نے نہیں غیر مقلد وھابی حضرات کے شیخ الاسلام صاحب لکھ رہے ہیں دعوت حق اے بھٹکے ہوئے لوگو اے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی شانوں کا انکار کرنے والو یہی امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم نور بھی ہیں اور بے مثال بشر بھی ایسے بشر کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم جیسا کوئی بشر نہیں ہے آو پلٹ آو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کی غلامی کی طرف اور عقیدہ حق کو اپنا لو یا پھر وہی فتوی جو مسلمانان اہلسنت و جماعت مشرک و گمراہ کے فتوے لگا کر انتشار پھیلاتے ہو کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم کو اللہ کا نور کہیں وہ مشرک ہیں لکھو کہ ثناء اللہ امرتسری مشرک و گمراہ تھا یا پھر عقیدہ حق کو اپنا لو آئیں بائیں شائیں مت کریں یہ مولوی حجت نہیں کا ڈھگوسلہ مت چلانا سیدھا جواب دو ثناء اللہ امرتسری مشرک و گمراہ ہے کہ نہیں ؟
علامہ فاسی رحمۃ اللہ علیہ مطالع المسرات صفحہ نمبر 220 پر لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نور حسی اور معنوی ظاہر ہے ،آنکھوں اور عقلوں کے لیے چمکنے والا،بے شک اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نام اس آیت میں نور رکھا ہے ۔
امام مُلا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ شرح شفاشریف جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 114 میں لکھتے ہیں اور کون سی رکاوٹ ہے کہ اس آیت میں کہ دونوں نعتیں یعنی نور اور کتاب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لیے ہوں ۔بےشک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم نورِ عظیم ہیں بوجہ اپنے کمالِ ظہور کے انوارمیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کتابِ مبین ہیں اس حیثیت سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم جمیع اسرارکے جامع ہیں اور احکام واخبار کے مظہر ہیں ۔
نورانیتِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
 يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ، وَّدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا
(سورۃ االاحزاب آیت45,46)
ترجمہ : اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم بے شک ہم نے تجھے بھیجا حاضر و ناظر بنا کر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والااور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا‌ اور نور بانٹنے والا آفتا ب بنا کر ۔
عربی لغت میں سراج سے مراد سورج ہے اور منیر ا سے مراد نور بانٹنے والا،یا نور تقسیم کرنے والا،جو لوگ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کا ترجمہ کرتے ہیں روشن آفتاب وہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عربی میں روشن کے لیے لفظ منور استعمال ہو تا ہے جبکہ منیر سے مراد نور تقسیم کرنے والا کےہیں ۔
اگر ہم قرآن پاک کے الفاظ سِرَاجًا مُّنِیْرًا کی گہرائی میںجاکر دیکھیں ،تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورج کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وجعل فیھا سراج اور چاند کے لیے لفظ استعمال کیا ہے وقمرًا منیرًا ۔چونکہ سراج یعنی سور ج کی حکمرانی دن کو ہوتی ہےیعنی وہ دن کو روشنی بکھیرتا ہے اور قمر یعنی چاند کی حکمرانی رات کو ہوتی ہےاوروہ رات کو روشنی تقسیم کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنےمحبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے لیے یہ دونوں الفاظ یکجا کر دئیےاور سِرَاجًا مُّنِیْرًا ارشاد فرما کر یہ عیاں کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے نور کی ضیا پاشیاں دن کو بھی ہوتی ہیں اور رات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا نور روشنی بکھیرتا ہے۔
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ
(سورۃ توبہ آیت 33)
ترجمہ : کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) اپنے مونہوں سے ٰ(پھونکیں مار کر) بجھا دیں مگر اللہ انہیں ایسا نہیں کر نے دے گا وہ اپنے نور کو پورا کرکے چھوڑے گا اگرچہ کا فروں کو برا ہی لگے ۔ اس آیت میں بھی نور سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہی ہیں حوالہ کے لیے کتابیں درج ہیں ۔ (تفسیر دُرّ ِ منشور جلد3صفحہ 231)(نسیم الریاض جلد2صفحہ 396) (مطالع المسرات، استناداً،صفحہ104)(موضوعاتِ ملاعلی قاری صفحہ99)(زرقانی علی المواہب جلد 3صفحہ149،چشتی)
اللہ جل شانہُ ایک اور مقام پر یہ ارشاد فرماتا ہے : يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ ۭ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ (سورۃ الصف، آیت 8)
ترجمہ : چاہتے ہیں کافر لوگ کہ اللہ کے نور (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں( سے بجھا دیں اور اللہ کو تو اپنا نور پورا کرنا ہے اگرچہ کافر برا ہی منائیں ۔
یہاں بھی نور سے مراد نورِ مصطفیصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہی ہے ،حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم اللہ کا نور ہیں ۔کافریہ چاہتے تھے کہ نعوز با للہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کو قتل کر دیں تا کہ اسلام کی شمع گل ہو جائےمگر اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا محافظ و نگہبان ہے ۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر نور العرفان کے صفحہ نمبر 305 میں امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف موضوعاتِ کبیر کے حوالے سےبیان کیا ہے کہ کہ ملا علی قاری نے موضوعات ِکبیر کے آخر میں فرمایاکہ قرآن مجید میں ہر جگہ نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔
(نور العرفان ازمفتی احمد یار خاں نعیمی صفحہ305 ,882۔چشتی)
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ ۭ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ ۭ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ ۙ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۭ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ ۭ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ (سورہ النور آیت 35)
ترجمہ : اس کے نور (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم) کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کے اندر ایک چراغ ہے جس کے اور ایک فانوس ہےوہ فانوس گویا ایک ستارے کی مانند ہے جو موتی کی طرح چمکتا ہوا روشن ہے جو جلتا ہے ایک برکت والے زیتون کےدرخت مبارک کے تیل سے،جو نہ مشرق کا نہ مغرب کا ،قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے ، نور کے اوپر ایک اور نور ہے ،اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے ۔
اس آیت میں مثل نورہ اس کے نور سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔ (تفسیر کبیرجلد7صفحہ 403،)(تفسیرمظہری جلد 6 صفحہ 522)( تفسیر دُرِ منشور ، علامہ سیوطی جلد 5صفحہ 48)(شرح شمائل القار ی جلد 1صفحہ 47،چشتی)(اشعۃُاللمعات جلد1صفحہ 725)(جواہر البحار جلد1صفحہ6)(تفسیر خازن جلد3صفحہ332)(زرقانی علی المواہب جلد6صفحہ238)(تفسیر حقانی جلد5صفحہ 244)(موضوعاتِ قاری صفحہ 99)(شواہد النبوت صفحہ3،)(تفسیر روح البیان جلد 4 صفحہ141)
امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِيْ زُجَاجَةٍ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ يَّكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْۗءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌنُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے حضرت کعب اور حضرت ابنِ جبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اس کے نور کی مثال نورِمحمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہے ۔ حضرت سہل تستری نے فرمایا اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ آسمان اور زمین والوں کا ہادی ہے اس کا نور ،نورِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی مثل جب کہ وہ پیٹھوں میںتھا طاق کی طرح ہے یعنی اس کے نور کی صفت اس طرح تھی اور مصباح سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا قلب مبارک ہے ،زجاجہ [فانوس] حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا سینا ہے یعنی وہ چمکتا ہوا موتی روشن ستارہ ہےاس لیے کہ اس میں ایمان اور حکمت ہے ۔ برکت والے درخت یعنی نورِ ابراہیم علیہ السّلام سے منور ہےنورِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثال شجرہ مبارکہ سے بیان کی گئی ہے اور قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اٹھے یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نبوت کلام سے قبل اس تیل کی طرح خودبخود لوگوں کے لیے ظاہر ہو جائے ۔ (شفا شریف جلد 1 صفحہ 13)(شرح شفا القاری جلد1 صفحہ 108،چشتی)(زرقانی مواہب الدنیہ جلد6 صفحہ238)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ذات اقدس نور ہے اللہ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی نورانیت کو کبھی براہ ِراست اور کبھی تشبیہ و استعارہ کے روپ میں قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔ درج ذیل آیت میں نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے نور مقدس کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے :
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰى ۔ ترجمہ : اس چمکتے ہوئے تارے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی قسم جب یہ معراج سے اترے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے النجم کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ نجم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ھو ا کے معنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا انوار سے بھرا اورغیر اللہ سے منقطع کشادہ سینہ مبارک ہے ۔ (شفا شریف جلد 1صفحہ 28)(تفسیر روح البیان جلد 6 صفحہ 4)(تفسیر مظہری ،جلد9 صفحہ 103)(شرح زرقانی جلد 6 صفحہ 216)
اس آیت مقدسہ میں نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ، ستارہ آسمان کا نور اور اس کی زینت ہوتا ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم زمین کا نور اور اس کی زینت ہیں ۔ جن مفسرین کرام نے نجم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی ذات مبارکہ کو لیا ہے ، ان کا حوالہ پیش خدمت ہے۔
(تفسیر خازن،جلد 4صفحہ 190)( تفسیر صاوی جلد 4 صفحہ 114)(تفسیر خزائن العرفان صفحہ 625،چشتی)
وَالْفَجْرِ ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ (پارہ 30 سورہ فجر)
ترجمہ : قسم ہے صبح کی اور قسم ہےدس راتوں کی ۔
حضرت ابن عطا ء رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول والفجر o و لیال عشرo کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ فجر سے مراد حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ایمان کا مطلع ہیں ، ایمان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے ظاہر ہوا ۔آپ ہی کا وجود تاریکیوں میں فجر کی علامت ہے۔
(شفا شریف جلد 1صفحہ82)
وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ ، وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ ، النَّجْمُ الثَّاقِبُ ۔ (سورۃ طارق)
ترجمہ : آسمان کی قسم اور رات کو آنے والے کی قسم ،اور کچھ تم نے جانا رات کو آنے والا کیا ہے ،خوب چمکتا ہوا تارا ہے ۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان انجم ھنا ایضاً محمد ۔ یعنی نجم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ہیں ۔
(شفا شریف ،جلد 1صفحہ 30)(نسیم الریاض جلد1صفحہ215)
وَالشَّمْسِ وَضُحٰهَا ، وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهَا ۔ (سورۃ الشمس)
ترجمہ : سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے ۔
اس آیت میں شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا دل انور ہے اور ضحی سے مراد نور نبوت کی روشنی ہے ،اور قمر سے مراد مرشد کامل ہے ۔ بعض تفا سیر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے چہرہ انور کو وضحی کہا گیا ہے اور لیل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کی زلفیں ، ضحی وہ وقت ہوتا ہے جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے آسمان پر جلوہ گر ہوتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم چونکہ منبع انوار ہیں اس لئے ضحی کا وقت وہ ہو تا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے چہرہ انور کی روشنی سے پورا عالم منور ہوتا ہے ، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں : شمس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کا دل مبارک ہے ، ضحی سے مراد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے نور نبوت کی روشنی ہے اور قمر سے مراد مرشد کامل ہو تا ہے ، جو پیغمبر کے نقش قدم پر ہوتا ہے جس طرح چاند سورج کی پیروی کرتا ہے یعنی سورج کے بعد طلوع ہوتا ہے اس طرح مرشد کامل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم کے بعد چاند کی مانند حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم سے روشنی لے کر تقسیم کرتا ہے ۔ (تفسیر عزیزی پارہ نمبر 30 صفحہ نمبر 188ٍ،چشتی)
حضرت سیّدہ آمنہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا جس نے جملہ عالم مشرق و مغرب کو منور کر دیا۔ بصریٰ و روم و شام کے محلات نظر آگئے۔فاطمہ بنت عبداللہ بھی اس وقت موجود تھیں انہوں نے دیکھا کہ ہمارا گھر آپ کے نور سے معمور ہو گیا ۔ (مواہب الدنیا مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 14)
ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ بوقت سحر میں کپڑا سی رہی تھی کہ اچانک چراغ بجھ گیا اور سوئی ہاتھ سے گر گئی پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے چہرہ مبارک کے نور میں میں نے سوئی تلاش کر لی اور اسی روشنی سے دھاگا سوئی میں ڈال لیا۔
(جواہر البحار صفحہ 814 نسیم الریاض جلد 1 صفحہ 328 مطالع المسرات صفحہ 239،چشتی)
حدیث قدسی : حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ)سے روایت ہے" اللہ تعالٰی نے(اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس پر ) فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے عداوت کی میرا اس سے اعلان جنگ ہے اور جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اسکی آنکھیں ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا جس وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اگر وہ مجھ سے پناہ مانگ کر کسی بری چیز سے بچنا چاہے تو میں اسے ضرور بچاتا ہوں۔
(بخاری شریف مطبوعہ مجتبائی جلد 2 صفحہ 963 :مشکٰوۃ مطبوعہ کانپور کتاب الداعوات جلد 1)
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث قدسی کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : " اور اسی طرح جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کر لیتا ہے تو اس مقام پر پہنچ جا تا ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے " کنت لہ سمعاً و بصراً" فرمایا ہے ، جب اللہ کے جلال کا نور اس کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ دورونزدیک کی بات کو سن لیتا ہے اور جب یہی نور اس کا بصر ہو گیا تو وہ دورونزدیک کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے اور جب یہی نور جلال اس کا ہاتھ ہو جائے تو یہ بندہ مشکل اور آسان دور اور قریب کی چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہو جاتا ہے ۔
 (امام فخرالدین رازی تفصیر کبیر سورہ کہف(آیت ام حسبت ان اصحٰب الکھف)جلد 21 صفحہ 91)
اس حدیث قدسی کی شرح میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے مقرب بندہ کی شان میں جو کچھ لکھا ہے وہ عبد اور بشر سمجھتے ہوئے لکھا ہے ، جس ظاہر ہے کہ اس طرح ان صفاتِ عالیہ کا اس بندے کے لئے ماننا اس کی عبدیت اور بشریت کے منا فی نہیں ۔
اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صلٰی علیہ وسلم کو کہیں بھی اپنے طور پر بشر نہیں کہا، بلکہ اگر ضرورت پیش آگئی تو نبی ہی سے کہلوایا کہ وہ بشر ہیں اگر اللہ اپنے طور پر اعلان فرما دیتا کہ نبی بشر ہیں تو سارا جھگڑا ہی ختم ہو جاتا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالٰی نے یٰسین ۔ طٰہ ۔ نور ۔ سراجاً منیرا اور بہت سے صفاتی ناموں سے پکارا ہے ۔
انوار محمدیہ من مواہب اللدنیا صفحہ 9 میں ہے" نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار سال پہلے اپنے رب کے حضور میں ایک نور تھا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت جبریل علیہ السّلام سے فرمایا اے جبریل آپ کی عمر کتنے سال ہے ؟ جبریل علیہ السّلام نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیک وسلم) اس کے سوا میں نہیں جانتا کہ ایک ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا تھا میں نے اسے بہتر ہزار مرتبہ دیکھا طلوع ہوتے دیکھا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبریل مجھے اپنے رب جل جلالہ کی قسم وہ ستارہ (نور) میں ہوں ۔ (جواہر البحار صفحہ 248 ۔ تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 974،چشتی)
نورانیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم علمائے دیوبند و اہلحدیث کی نظر میں
مسلمانوں کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں ، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور اﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے ،
ضابطہ اور اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کو دلیل و تلبیہ سے ثابت کرے اور سائل مدمقابل مخالف مدعی کے پیش کردہ دلائل کا ردوابطال کرے ۔ اہلسنت و جماعت کا عقیدہ و دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بفضلہ تعالیٰ صورت کے اعتبار سے بے مثل بشر اور حقیقت کے اعتبار سے نور ہیں، یعنی نور حسی نور معنوی ’’نور من نور اﷲ‘‘ ہیں اور نورانیت و بشریت میں منافات نہیں ہے، اہل سنت و جماعت جب اس دعویٰ پر بطور دلیل متعدد آیات قرآنیہ، احادیث صحیحہ، جلیل القدر مفسرین و محدثین کرام، ائمہ دین متین کی تصریحات اور گرانقدر ارشادات و فرمودات پیش کرتے ہیں تو منکرین نورانیت مصطفی علیہ التحیتہ والثناء وہابیہ بہر نوع بہرصورت ان دلائل و شواہد کے ردوابطال کی کوشش کرتے ہیں اور خداداد شان نورانیت کو مٹانے کی مذموم سعی کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اکابر وہابیہ دیابنہ کا اپنی متعدد کتب و رسائل میں ہمارے دلائل و شواہد ضبط تحریر میں لاکر سرکار اقدس صلى الله عليه وسلم کے لئے نورانیت مقدسہ ثابت کرنا اہلسنت و جماعت کی حقانیت و صداقت اور عقیدہ و دعویٰ کے مضبوط و مستحکم ہونے اور منکرین کے ساکت و عاجز ہونے اور اصول و ضوابط سے عاری ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ علمائے دیوبند و علمائے اہلحدیث کی مستند و معتبر کتب سے چند حوالہ جات ہدیہ قارئین ہیں ۔
علامہ رشید احمد گنگوہی قدجاء کم من اللہ نور و کتاب مبین کا ترجمہ لکھتے ہیں : تحقیق آئے ہیں تمہارے پاس اللہ کی جانب سے نور اور کتاب مبین‘‘ نور سے مراد حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات پاک ہے ۔ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو نور فرمایا اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم سایہ نہیں رکھتے تھے اور یہ واضح ہے کہ نور کے سوا تمام اجسام سایہ رکھتے ہیں ۔
(امداد السلوک ص 156)
نیز لکھتے ہیں ’’حضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور مومنوں کو میرے نور سے‘‘ (امداد السلوک ص 157)
 نیز لکھتے ہیں ’’آپ کی ذات اگرچہ اولاد آدم میں سے ہے لیکن آپ نے اپنی ذات کو اس طرح مطہر فرمایا کہ اب آپ سراپا نور ہوگئے ۔ (امداد السلوک صفحہ 85)
علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : (آیت مقدسہ میں) نور سے مراد حضور صلى الله عليه وسلم ہیں۔ اس تفسیر کی ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ مراد اوپر بھی قد جاء کم رسولنا فرمایا ہے تو یہ قرینہ ہے کہ اس پر کہ دونوں جگہ جاء کم کا فاعل ایک ہو۔
(رسالۃ النور صفحہ 31)
علامہ عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں : نور سے اشارہ ہے رسالت محمدی کی جانب اور کتاب مبین سے قرآن کی جانب‘‘ (تفسیر ماجدی جلد اول ص244)
علامہ ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی لکھتے ہیں : بے شک اﷲ کی طرف سے تمہارے پاس نور آچکا (یعنی نبی آخرالزمان) اور کتاب روشن (یعنی قرآن پاک) تفسیر فیوض القرآن ،صفحہ 239،چشتی)
علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) رحمتہ اﷲ نے اول ما خلق اﷲ نوری کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی کچھ اصل ہے۔
(فتاویٰ رشیدیہ ص 373)
علامہ حسین احمد مدنی نے بھی یہی حدیث نقل کی ہے (الشہاب الثاقب ص 47)
شاہ اسماعیل دہلوی لکھتے ہیں : جیسے کہ روایت ’’اول ماخلق اﷲ نوری‘‘ اس پر دلالت کرتی ہے‘‘ (یک روزہ ص 11)
علامہ اشرف علی تھانوی نے حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت بحوالہ امام عبدالرزاق رحمتہ اﷲ تعالیٰ نقل کی اور اس پر اعتماد کیا ۔ (نشر الطیب ص 6)
نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلکہ اپنے علماء و مشائخ کے لئے بھی نورانیت ثابت کرنا علمائے دیوبند کی کتب و رسائل سے ثابت ہے :
علامہ رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : حضرت ابوالحسن نوری رحمتہ اﷲ علیہ کو نوری اس لئے کہتے ہیں کہ آپ سے کئی بار نور دیکھا گیا ’’(امداد السلوک ص 157)
علامہ محمود الحسن علامہ رشید احمد گنگوہی کو نور مجسم اور قبر کو تربت انور قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
چھپائے جامۂ فانوس کیونکر شمع روش کو
تھی اس نور مجسم کے کفن میں وہ ہی عریانی
تمہاری تربت انور کو دے کر طور سے تشبیہ
کہو ہوں بار بار ’’ارنی‘‘ میری دیکھی بھی نادانی
(مرثیہ گنگوہی ص 12)
علامہ عاشق الٰہی بلند شہری لکھتے ہیں : پس بے نظیر شیخ وقت اور بے عدیل قطب زماں کی سوانح کوئی لکھے تو کیا لکھے بھلا جس مجسم نور اور سرتاپا کمال کا عضو عضو اور رواں رواں ایسا حسین ہو کہ عمر بھر ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بھی سیری نہ ہوسکے۔ اس کے کوئی محاسن بیان کرے تو کیا کرے‘‘ (تذکرۃ الرشید پہلا حصہ ص 3)
علامہ سرفراز گکھڑوی حضرت شیر ربانی علیہ الرحمہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : دیوبند میں چار نوری وجود ہیں۔ ان میں سے ایک (انور) شاہ صاحب ہیں۔
 (عبارات اکابر ص 37)
مکبہ فکر دیوبند معروف رسالہ میں لکھا ہے ’’مولانا احمد علی صاحب اﷲ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور تھے ۔ (رسالہ خدام الدین لاہور 24 مئی1992ء)
نیز اسی میں لکھا ہے : علامہ (شمس الحق) افغانی نے دریافت فرمایا حضرت (مخاطب مولوی احمد علی ہیں) کیا وجہ ہے کہ سید (احمد) صاحب کی قبر پرانوار مولانا (اسماعیل) کی بہ نسبت کم معلوم ہوتے ہیں ۔ (رسالہ خدام الدین 22 فروری 1963)
علامہ حسین احمد مدنی کے بارے میں مکتبہ فکر دیوبند کے معروف اخبار میں لکھا ہے : اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (یعنی ٹانڈوی صاحب) عالم نور میں رہتے ہیں، ان کی آنکھوں میں بھی نور ہے۔ ان کے دائیں بھی نور ہے،ان کے بائیں بھی نور ہے، ان کے چاروں طرف نور ہی نور ہے وہ خود نور ہوگئے ہیں ۔
(روزنامہ الجمعیت دہلی شیخ الاسلام نمبر ص 12، 1958،چشتی)
علامہ رفیع الدین لکھتے ہیں : وہ شخص (یعنی قاسم نانوتوی) ایک فرشتہ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیا ۔
(حکایات اولیاء یعنی ارواح ثلاثہ ص 259، سوانح قاسمی جلد اول ص 130)
اس عبارت میں بھی بانی دیوبند علامہ قاسم نانوتوی صاحب کو نور کہا گیا ہے کیونکہ روایت ہے خلقت الملائکۃ من نور یعنی فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا ہے ۔
(مسلم شریف جلد دوم ص 413)
اہلحدیث عالم علامہ ثناء اﷲ امرتسری نے قد جاء کم ۔۔۔ الخ آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں کیا ’’تمہارے پاس اﷲ کا نور محمد صلى الله عليه وسلم اور روشن کتاب قرآن شریف آئی‘‘ (تفسیر ثنائی جلد اول ص 362)
نیز لکھتے ہیں ’’ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا، خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نورہیں‘‘ ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد دوم ص 93،چشتی)
مشہور اہلحدیث عالم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں : اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا، پھر پانی، پھر پانی کے اوپر عرش کو پیدا کیا، پھر ہوا، پھر قلم اور دوات اور لوح پھر عقل کو پیدا کیا، پس نور محمدی آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی مخلوق کے لئے مادہ اولیہ ہے‘‘ نیز حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ قلم اور عقل کی اولیت اضافی ہے ۔ (ہدیۃ المہدی ص 56)
مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی لکھتے ہیں : نور النبی تجلی رحمۃ‘‘ یعنی نور نبی تجلی رحمت ہے ۔ (نفح الطیب ص 60)
مشہور اہلحدیث عالم حافظ محمد لکھوی لکھتے ہیں : نور نبی دا آپے دیندا لوکاں نوں روشنائی ۔ (تفسیر محمدی 4 ص 201)
مشہور اہلحدیث عالم علامہ پروفیسر ابوبکر غزنوی تقریظ میں لکھتے ہیں : قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ بشر بھی تھے اور نور بھی تھے۔۔۔ اور صحیح مسلک یہی ہے کہ وہ بشر ہوتے ہوئے از فرق تا بقدم نور کا سراپا تھے ۔ (تحریر 14 دسمبر 1971، تقریظ رسالہ بشریت و رسالت ص 17)
محترم قارئین : ان حوالہ جات کو پیش کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے جب تمام مکاتب فکر کے علماء اس مسلہ پر متفق ہیں تو پھر نفرتیں کیوں آئیں سب مل کر ان نفرتوں کو مٹائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شانیں محبت و عقیدت سے بیان کریں اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ 
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
(طالب دعا و دعا گو 
حضرت علامہ مولانا مفتی ڈاکٹر فیض احمد چشتی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area