(سوال نمبر 4419)
مغرب کے بعد اور عشاء نماز سے پہلے چار رکعات نوافل کسی حدیث سے ثابت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عشاء کی نماز سے پہلے ایک سلام سے چار رکعتیں نفلی نماز پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- ساحل رضا بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
پہلی بات مکروہ اوقت کے علاہ جب بھی جتنی رکعات بھی آپ نوافل پڑھنا چایتے ہیں پڑھ سکتے ہیں۔
مذکورہ صورت میں مغرب کی فرض بعد اور عشاء کی نماز سے پہلے
دوسنت اور چار نفل کے مجموعہ کا نام ہی صلوٰۃ الاوابین ہے لہذا اگر کسی نے مغرب کی نماز کے بعد 2سنتیں اور 4 نفل پڑھے، تو اس کا صلوٰۃ الاوابین والا مستحب ادا ہوجائے گا۔خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سلام سے ہر صورت جائز ہے۔
یاد رہے عشاء کی فرض نماز سے پہلے بھی 4 رکعات نفل پڑھ سکتے ہیں اگرچہ حدیث میں اس کا ذکر نہیں وہ اس لئے کہ نوافل کی تعداد اور وقت متعین نہیں بس اوقات مکروہ نہ ہو اور بعد فجر اور بعد عصر نہ ہو
حدیث میں ہے
من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنة “ترجمہ: جوشخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے جن کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو یہ اُس کے حق میں بارہ برس کی عبادت کے برابر کی جائیں گی۔
مغرب کے بعد اور عشاء نماز سے پہلے چار رکعات نوافل کسی حدیث سے ثابت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ عشاء کی نماز سے پہلے ایک سلام سے چار رکعتیں نفلی نماز پڑھنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- ساحل رضا بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
پہلی بات مکروہ اوقت کے علاہ جب بھی جتنی رکعات بھی آپ نوافل پڑھنا چایتے ہیں پڑھ سکتے ہیں۔
مذکورہ صورت میں مغرب کی فرض بعد اور عشاء کی نماز سے پہلے
دوسنت اور چار نفل کے مجموعہ کا نام ہی صلوٰۃ الاوابین ہے لہذا اگر کسی نے مغرب کی نماز کے بعد 2سنتیں اور 4 نفل پڑھے، تو اس کا صلوٰۃ الاوابین والا مستحب ادا ہوجائے گا۔خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سلام سے ہر صورت جائز ہے۔
یاد رہے عشاء کی فرض نماز سے پہلے بھی 4 رکعات نفل پڑھ سکتے ہیں اگرچہ حدیث میں اس کا ذکر نہیں وہ اس لئے کہ نوافل کی تعداد اور وقت متعین نہیں بس اوقات مکروہ نہ ہو اور بعد فجر اور بعد عصر نہ ہو
حدیث میں ہے
من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنة “ترجمہ: جوشخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے جن کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو یہ اُس کے حق میں بارہ برس کی عبادت کے برابر کی جائیں گی۔
(سنن الترمذی،باب ما جاء في فضل التطوع وست ركعات بعد المغرب،ج 1،ص 209 ط لاھور)
حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملاعلی قاری رحمۃاللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں
المفهوم أن الركعتين الراتبتين داخلتان في الست“
حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کے بعد دو سنت مؤکدہ بھی اوابین کی چھ رکعتوں میں شامل ہیں۔
حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملاعلی قاری رحمۃاللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں
المفهوم أن الركعتين الراتبتين داخلتان في الست“
حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کے بعد دو سنت مؤکدہ بھی اوابین کی چھ رکعتوں میں شامل ہیں۔
(مرقاۃالمفاتیح،کتاب الصلوٰۃ،باب السنن وفضائلھا،ج 3 ص 226 ط کوئٹہ)
مرات میں ہے
اس نماز کا نام صلوٰۃ اوابین ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ چھ رکعتیں مغرب کی سنتوں و نفلوں کے ساتھ ہیں،بعض کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ۔مرقاۃ نے پہلی صورت کو ترجیح دی۔
مرات میں ہے
اس نماز کا نام صلوٰۃ اوابین ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ چھ رکعتیں مغرب کی سنتوں و نفلوں کے ساتھ ہیں،بعض کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ۔مرقاۃ نے پہلی صورت کو ترجیح دی۔
(مرأۃالمناجیح،ج 2،ص 226،نعیمی کتب خانہ،گجرات)
اوابین کے بارے میں تنویرالابصار مع درمختار میں ہے:(ست بعد المغرب) لیکتب من الأوابین (بتسلیمۃ)او ثنتین او ثلاث وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدي الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم
مغرب کے بعد چھ رکعتیں مستحب ہیں تاکہ اوابین (اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں) میں سے لکھا جائے،خواہ ایک سلام سے یا دو سے یا تین سلام سے پڑھے۔کیا سنت موکدہ کو صلوۃ الاوابین سے شمار کیا جائے گا اور سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجا سکتا ہےیا نہیں؟علامہ کمال ابن ہمام نے اسی کواختیار کیا ہے (یعنی سنت موکدہ کو اوابین میں سے شمار کریں گے اور چھ رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجا سکتاہے۔)
(تنویر الابصار مع درمختار،جلد2،صفحہ547،مطبوعہ کوئٹہ)
بحرالرائق میں ہے حكى في فتح القدير اختلافا بين أهل عصره في مسألتين۔ الأولى هل السنة المؤكدة محسوبة من المستحب في الأربع بعد الظهر وبعد العشاء وفي الست بعد المغرب أو لا ۔الثانية على تقدير الأول هل يؤدي الكل بتسليمة واحدة أو بتسليمتين واختار الأول فيهما
فتح القدیر میں اس زمانے کے علماء کے درمیان دو مسئلوں میں اختلاف حکایت کیا گیا ہے، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ (ظہر و عشا اور مغرب کے بعد والی دو رکعت)سنت موکدہ کو(احادیث میں بیان کردہ فضیلت والی رکعات یعنی) ظہر کے بعد والی 4،عشاء کے بعد والی 4اور مغرب کے بعد والی 6 مستحب رکعتوں میں شمار کیاجائے گایا نہیں؟دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سنت موکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گاتو کیا سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟صاحب فتح القدیر نے دونوں مسئلوں میں پہلی صورت (سنت موکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گااور ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھ اجاسکتا ہے اس صورت) کو اختیار کیا ہے۔
اوابین کے بارے میں تنویرالابصار مع درمختار میں ہے:(ست بعد المغرب) لیکتب من الأوابین (بتسلیمۃ)او ثنتین او ثلاث وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدي الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم
مغرب کے بعد چھ رکعتیں مستحب ہیں تاکہ اوابین (اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والوں) میں سے لکھا جائے،خواہ ایک سلام سے یا دو سے یا تین سلام سے پڑھے۔کیا سنت موکدہ کو صلوۃ الاوابین سے شمار کیا جائے گا اور سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجا سکتا ہےیا نہیں؟علامہ کمال ابن ہمام نے اسی کواختیار کیا ہے (یعنی سنت موکدہ کو اوابین میں سے شمار کریں گے اور چھ رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجا سکتاہے۔)
(تنویر الابصار مع درمختار،جلد2،صفحہ547،مطبوعہ کوئٹہ)
بحرالرائق میں ہے حكى في فتح القدير اختلافا بين أهل عصره في مسألتين۔ الأولى هل السنة المؤكدة محسوبة من المستحب في الأربع بعد الظهر وبعد العشاء وفي الست بعد المغرب أو لا ۔الثانية على تقدير الأول هل يؤدي الكل بتسليمة واحدة أو بتسليمتين واختار الأول فيهما
فتح القدیر میں اس زمانے کے علماء کے درمیان دو مسئلوں میں اختلاف حکایت کیا گیا ہے، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ (ظہر و عشا اور مغرب کے بعد والی دو رکعت)سنت موکدہ کو(احادیث میں بیان کردہ فضیلت والی رکعات یعنی) ظہر کے بعد والی 4،عشاء کے بعد والی 4اور مغرب کے بعد والی 6 مستحب رکعتوں میں شمار کیاجائے گایا نہیں؟دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سنت موکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گاتو کیا سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟صاحب فتح القدیر نے دونوں مسئلوں میں پہلی صورت (سنت موکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گااور ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھ اجاسکتا ہے اس صورت) کو اختیار کیا ہے۔
(البحرالرائق ،ج 2،ص 54 ط کوئٹہ)
(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
فتاوی رضویہ میں ہے
(نماز ِمغرب کے) فرض پڑھ کر چھ رکعتیں ایک ہی نیت سے،ہر دو رکعت پر التحیات و دُرود و دُعا اور پہلی تیسری پانچویں سبحانک اللھم سے شروع کرے ان میں پہلی دو سنت مؤکدہ ہوں گی، باقی چار نفل،یہ صلوٰۃ ِاوابین ہے اور اللہ اوابین (اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں) کے لیے غفور(بخشش فرمانے والا ) ہے۔
(الوظیفۃ الکریمہ ،ص 28،مکتبۃ المدینہ کراچی)
بہار شریعت میں ہے
بعد مغرب چھ رکعتیں مستحب ہیں ان کو صلوٰۃ الاوابین کہتے ہیں خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سلام سے یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔ظہر و مغرب و عشاء کے بعد جو مستحب ہے اس میں سنت موکدہ داخل ہے ،مثلاًظہر کے بعد چار پڑھیں تو موکدہ و مستحب دونوں ادا ہوگئیں اور یوں بھی ہو سکتا ہے کہ موکدہ و مستحب دونوں کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرے یعنی چار رکعت پر سلام پھیرے۔
(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
فتاوی رضویہ میں ہے
(نماز ِمغرب کے) فرض پڑھ کر چھ رکعتیں ایک ہی نیت سے،ہر دو رکعت پر التحیات و دُرود و دُعا اور پہلی تیسری پانچویں سبحانک اللھم سے شروع کرے ان میں پہلی دو سنت مؤکدہ ہوں گی، باقی چار نفل،یہ صلوٰۃ ِاوابین ہے اور اللہ اوابین (اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں) کے لیے غفور(بخشش فرمانے والا ) ہے۔
(الوظیفۃ الکریمہ ،ص 28،مکتبۃ المدینہ کراچی)
بہار شریعت میں ہے
بعد مغرب چھ رکعتیں مستحب ہیں ان کو صلوٰۃ الاوابین کہتے ہیں خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سلام سے یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔ظہر و مغرب و عشاء کے بعد جو مستحب ہے اس میں سنت موکدہ داخل ہے ،مثلاًظہر کے بعد چار پڑھیں تو موکدہ و مستحب دونوں ادا ہوگئیں اور یوں بھی ہو سکتا ہے کہ موکدہ و مستحب دونوں کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرے یعنی چار رکعت پر سلام پھیرے۔
(بہار شریعت، ج 1،ص ،666،667، مکتبۃالمدینہ،کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/09/2023
14/09/2023