Type Here to Get Search Results !

مدرسے کے بچے کو گھر بلا کر قران پڑھوانا کیسا ہے؟


  •┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4418)
مدرسے کے بچے کو گھر بلا کر قران پڑھوانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ مدرسے کے بچوں کو گھر پر بلا کر قرآن خوانی کروانے کی جائز صورت کیا ہے؟
سائل:- محمد امین ملتان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

مدرسے کے بچوں کو اپنے گھر بلا کر قران خوانی کروانے کی دو صورتیں ہیں ایک صورت ناجائز و حرام و گناہ ہے اور دوسری صورت جائز ہے 
پہلی صورت قران پڑھنے پر پڑھنے کی اجرت لینا دینا چاہے وہ پہلے طے کرے یا عرف میں عام ہو کہ پڑھنے پر تو ملنا ہی ملنا ہے کچھ نہ کچھ اجرت. اس طرح پڑھنا اور پڑھوانا جایز نہیں ہے۔
اور دوسری صورت نہ زبانی اجرت کی بات ہوئی، نہ ہی اس دی جانے والی چیز کا اجرت ہونا دلالۃ متعین ہے جیسا کہ عام طور پر ہمارے ہاں میلاد شریف گیارہویں شریف اور دیگر بزرگان دین کے ایصال ثواب یا گھر میں خیر وبرکت کے لیے قرآن خوانی کروائی جاتی ہے اور اس کے بعد کھانا شیرنی وغیرہ کا بھی اہتمام ہوتا ہے لیکن یہ اہتمام تلاوتِ قرآن کے عوض نہیں بلکہ ایصال ثواب اور صدقہ کی نیت سے ہوتا ہے اور پھر اس موقع پر موجود و غیر موجود مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛لینے،دینے والے سب اسے نیاز و تبرک کاکھانا سمجھتے ہیں کسی کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ تلاوتِ قرآن کے عوض دیااور لیا جارہا ہے، اس میں حرج نہیں بلکہ مستحب ومستحسن عمل ہے کہ یہ تلاوتِ قرآن کی اجرت نہیں بلکہ صدقہ و صلہ ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے 
نصوص المذھب من متون و شروح و فتاوی متفقۃ علی بطلان الاستئجار علی الطاعات ومنھا التلاوۃ کماسمعت الا مااستثناہ المتاخرون للضرورۃ کالتعلیم و الاذان و الامامۃ ولایصح الحاق التلاوۃ المجردۃ بالتعلیم لعدم الضرورۃ اذ لاضرورۃ داعیۃ الی الاستئجار علیھا بخلاف التعلیم لمافی الزیلعی وکثیر من الکتب لو لم یفتح لھم باب التعلیم بالاجر لذھب القرآن فافتوا بجوازہ ورأوہ حسنا۔اھ ولاشک ان المنع من الاستئجار علی التلاوۃ لاھداء ثوابھا الی المستاجر لیس فیہ ذھاب القرآن فلایصح قیاسھا علی التعلیم“نصوصِ مذہب یعنی متون،شروح اورفتاویٰ اس بات پر متفق ہیں کہ عبادات کہ جن میں تلاوتِ قرآن بھی شامل ہے جیسا کہ آپ سن چکے ، ان پر اجارہ باطل ہے ، سوائے ان صورتوں کے کہ جن کا متاخرین نے ضرورت کی بنا پر استثناء فرمایا ہے ۔ جیسا کہ تعلیم ،اذان اور امامت اور ضرورت متحقق نہ ہونے کی وجہ سے محض تلاوتِ قرآن کو تعلیمِ قرآن کے ساتھ ملحق کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ کوئی ایسی ضرورت کہ جو تلاوتِ قرآن پر اجارہ کی طرف داعی ہو ، موجود نہیں برخلاف تعلیمِ قرآن کے ، کیونکہ زیلعی اور کثیر کتب میں مذکور ہے کہ اگر اجرت کے ساتھ تعلیمِ قرآن کا دروازہ نہ کھولا جائے ، توقرآن پاک ضائع ہوجائے گا ، تو اس پر فقہاء نے جواز کا فتوی دیا اور اسے پسند فرمایا۔اھ اور شک نہیں کہ مستاجر کو ثواب ہدیہ کرنے کے لیے تلاوتِ قرآن پر اجارہ سے منع کردیا جائے ، تو اس میں ضیاعِ قرآن کا خطرہ نہیں ہے ، لہٰذا اسے تعلیم پر قیاس کرنا درست نہیں۔
(العقود الدریہ ،جلد 2،صفحہ218،219،مطبوعہ کراچی)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے 
اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیمِ قرآن عظیم وعلومِ دین و اذان و امامت وغیرہا معدودے چند اشیاء کہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بناچاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا ) مطلقاً حرام ہے اور تلاوتِ قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب ۔۔ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور اور اجارہ جس طرح صریح عقد زبان سے ہوتا ہے،عرفاً شرط معروف ومعہود سے بھی ہوجاتا ہے مثلاً پڑھنے پڑھوانے والوں نے زبان سے کچھ نہ کہا ، مگر جانتے ہیں کہ دینا ہوگا ،وہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ ملے گا،انہوں نے اس طور پر پڑھا، انہوں نے اس نیت سے پڑھوایا، اجارہ ہوگیا اور اب دو وجہ سے حرام ہوا: ایک تو طاعت پر اجارہ یہ خود حرام ،دوسرے اجرت اگر عرفاً معین نہیں ، تو اس کی جہالت سے اجارہ فاسد ، یہ دوسرا حرام ۔ ای ان الاجارۃ باطلۃ و علی فرض الانعقاد فاسدۃ فللتحریم وجھان متعاقبان وذلک لما نصوا قاطبۃ ان المعھود عرفاً کالمشروط لفظاً۔(یعنی حقیقت میں تو یہ اجارہ باطل ہے ، لیکن اگر منعقد فرض کرلیا جائے ، تو فاسد ہے ، تو یکے بعد دیگرے اس کے حرام ہونے کی دو وجہیں ہیں اور یہ اس لیے کہ تمام فقہاء کی نص ہے کہ عرف میں مشہور و مسلم لفظوں میں مشروط کی طرح ہے ۔مترجم )پس اگر قرار داد کچھ نہ ہو ،نہ وہاں لین دین معہود ہوتا ہو ، تو بعد کو بطور صلہ و حسن سلوک کچھ دے دینا جائز بلکہ حسن ہوتا ،مگر جبکہ اس طریقہ کا وہاں عام رواج ہے،تو صورت ثانیہ میں داخل ہوکر حرام محض ہے ۔(ملخصاً۔ فتاوی رضویہ ج 19،ص 486،487،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور )
فتاوی اجملیہ میں ہے 
تلاوتِ قرآن کریم پر اجرت لینا اور دینا بالکل ناجائز ہے ۔ اسی طرح جس مقام کے عرف میں اس پر لیا دیا جاتا ہے ، تو حسبِ دستور تلاوت پر لینا اور دینا بھی ناجائز ہے، ہاں جہاں نہ ایسا عرف و رواج ہو ،نہ دینے والا اور نہ لینے والا بہ نیتِ اجرت لیتے ،دیتے ہوں ، تو وہاں صدقہ و صلہ ہے ،اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔
(فتاوی اجملیہ ج 2، ص 620 ط شبیر برادرز،لاھور) (ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area