(سوال نمبر 4720)
کیا نماز میں سینہ پر اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا دونوں طرح حدیث سے ثابت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
نماز میں لوگ ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں. اور کچھ لوگ سینے پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھتے ہیںصحیح و درست کون سا ہے؟ حدیث و قرآن کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں.!.
کیا نماز میں سینہ پر اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا دونوں طرح حدیث سے ثابت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
نماز میں لوگ ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے ہیں. اور کچھ لوگ سینے پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھتے ہیںصحیح و درست کون سا ہے؟ حدیث و قرآن کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں.!.
سائل:- محمد غیاث الدین قادری بیربھوم مغربی بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي علي رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
پہلی بات یہ کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے یعنی آقا علیہ السلام سے ہاتھ باندھنے کی دو صورتیں مروی ہیں ایک صورت زیر ناف کی ہے اور دوسری سینے پر ہاتھ باندھنے کی ہے ایسا نہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ دونوں صحیح احادیث سے ثابت ہے یعنی حالت نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا دونوں صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔پر راجح وہی ہے جو عند حنفیہ ہے باقی مالکی شافعی حنبلی اور اہل حدیث سلفی اس حدیث کو لیتے ہیں ۔۔
ابن خزیمہ اپنے صحیح میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی روایت لائیں ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھنے کا شرف پایا تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي علي رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
پہلی بات یہ کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے یعنی آقا علیہ السلام سے ہاتھ باندھنے کی دو صورتیں مروی ہیں ایک صورت زیر ناف کی ہے اور دوسری سینے پر ہاتھ باندھنے کی ہے ایسا نہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ دونوں صحیح احادیث سے ثابت ہے یعنی حالت نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا دونوں صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔پر راجح وہی ہے جو عند حنفیہ ہے باقی مالکی شافعی حنبلی اور اہل حدیث سلفی اس حدیث کو لیتے ہیں ۔۔
ابن خزیمہ اپنے صحیح میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی روایت لائیں ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھنے کا شرف پایا تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھی۔
(صحیح ابن خزیمہ بحوالہ فتاوی رضویہ)
اور ہم دیگر احادیث کے ساتھ اس حدیث کو بھی لیتےہیں
ابو داود و امام احمد نے علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ سنت سے ہے کہ نماز میں ہاتھ پر ہاتھ ناف کے نیچے رکھے جائیں۔
اور ہم دیگر احادیث کے ساتھ اس حدیث کو بھی لیتےہیں
ابو داود و امام احمد نے علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہ سنت سے ہے کہ نماز میں ہاتھ پر ہاتھ ناف کے نیچے رکھے جائیں۔
(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ، باب وضع الیمنٰی علی الیسرٰی في الصلاۃ، الحدیث ۷۵۶ ، ج ۱ ، ص ۲۹۳ بحوالہ بہار ح ٣ ص ٥٠٨ مكتبة المدينة)
معلوم ہوا کہ دونوں احادیث صحیح ہیں
فتاوی رضویہ میں ہے
میں کہتا ہوں ﷲ کی توفیق سے کہ اس مسئلہ پر ایک حدیث جید الاسناد پیش کروں اس کی تقریریوں ہے کہ حضور سے ہاتھ باندھنے کی دو صورتیں مروی ہیں ایک صورت زیر ناف کی ہے اور اس بارے میں متعدد احادیث وار د ہیں سب سے اہم روایت وہ ہے جسے ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں ذکر کیا کہ ہمیں وکیع نے موسی بن عمیر سے علقمہ بن وائل بن حجر نے اپنے والد گرامی رضی ﷲ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ میں نے دوران نماز نبی اکرم کو دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھے دیکھا ہے۔ امام علامہ قاسم بن قطلو بغاحنفی رحمہﷲ تعالی اختیار شرح مختار کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی سند جید اور تمام راوی ثقہ ہیں
(مصنف ابن ابی شیبہ وضع الیمین علی اشمال من کتاب الصلوۃ مطبوعہ ادرۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱/۳۹۰)(تخریج احادیث شرح مختار للقاسم بن قطلوبنا)
دوسری صورت سینے پر ہاتھ باندھنے کی ہے اس بارے میں ابن خزیمہ اپنے صحیح میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی روایت لائیں ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھنے کا شرف پایا تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھیں
(صحیح ابن خزیمہ باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوۃ مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت۱ / ۲۴۳)
چونکہ اس کی تعریف کا علم نہیں کہ کون سی روایت پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی ، اور دونوں روایات ثابت و مقبول ہیں تو لاجرم دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح ہوگی جب ہم نماز کے اس فعل بلکہ نمازکے تمام افعال پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ تمام کے تمام تعظیم پر مبنی نظر آتے ہیں اور مسلم ومعروف تعظیم کا طریقہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے لہذا امام محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا ہے قیام میں بقصد تعظیم ہاتھ باندھنے کا معاملہ معروف طریقے پر چھوڑا جائے اور قیام میں تعظیما ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی معروف ہے
(فتح القدیر باب صفت الصلوۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۲۴۹)
لہذا مردوں کے بارے میں ابن ابی شیبہ کی روایت راجح ہے فتاوی رضویہ ج ٦ص ٣٢ مكتبة المدينة
والله ورسوله اعلم بالصواب
معلوم ہوا کہ دونوں احادیث صحیح ہیں
فتاوی رضویہ میں ہے
میں کہتا ہوں ﷲ کی توفیق سے کہ اس مسئلہ پر ایک حدیث جید الاسناد پیش کروں اس کی تقریریوں ہے کہ حضور سے ہاتھ باندھنے کی دو صورتیں مروی ہیں ایک صورت زیر ناف کی ہے اور اس بارے میں متعدد احادیث وار د ہیں سب سے اہم روایت وہ ہے جسے ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں ذکر کیا کہ ہمیں وکیع نے موسی بن عمیر سے علقمہ بن وائل بن حجر نے اپنے والد گرامی رضی ﷲ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ میں نے دوران نماز نبی اکرم کو دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھے دیکھا ہے۔ امام علامہ قاسم بن قطلو بغاحنفی رحمہﷲ تعالی اختیار شرح مختار کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی سند جید اور تمام راوی ثقہ ہیں
(مصنف ابن ابی شیبہ وضع الیمین علی اشمال من کتاب الصلوۃ مطبوعہ ادرۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱/۳۹۰)(تخریج احادیث شرح مختار للقاسم بن قطلوبنا)
دوسری صورت سینے پر ہاتھ باندھنے کی ہے اس بارے میں ابن خزیمہ اپنے صحیح میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی روایت لائیں ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھنے کا شرف پایا تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھیں
(صحیح ابن خزیمہ باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوۃ مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت۱ / ۲۴۳)
چونکہ اس کی تعریف کا علم نہیں کہ کون سی روایت پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی ، اور دونوں روایات ثابت و مقبول ہیں تو لاجرم دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح ہوگی جب ہم نماز کے اس فعل بلکہ نمازکے تمام افعال پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ تمام کے تمام تعظیم پر مبنی نظر آتے ہیں اور مسلم ومعروف تعظیم کا طریقہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے لہذا امام محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا ہے قیام میں بقصد تعظیم ہاتھ باندھنے کا معاملہ معروف طریقے پر چھوڑا جائے اور قیام میں تعظیما ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی معروف ہے
(فتح القدیر باب صفت الصلوۃ نوریہ رضویہ سکھر ۱ / ۲۴۹)
لہذا مردوں کے بارے میں ابن ابی شیبہ کی روایت راجح ہے فتاوی رضویہ ج ٦ص ٣٢ مكتبة المدينة
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16/10/2023
16/10/2023