Type Here to Get Search Results !

اولیاء کرام کی کرامت کا انکار کرنا کیسا ہے؟


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4479)
اولیاء کرام کی کرامت کا انکار کرنا شریعت میں کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
اولیاء کرام کے کرامت کا انکار کرنا شریعت میں کیا حکم ہے؟
زید کا کہنا ہے کہ چاہے وہ غوث اعظم ہو یا اور بھی اولیاء کرام ہو ان کے زمانے میں میڈیا والا نہیں تھا ورنہ ان لوگوں کا پردہ پاش کر دیتا آج کے ڈیٹ میں میڈیا والا ہے تو کوئی ولی نہیں ہے اور نہ کوئی کرامت کیوں کے اب سب جانتے ہیں کہ میڈیا والا ہمارا پردہ فاش کر دے گا اس لیے کوئی کرامت نہیں دکھاتا تو کیا اولیاء کرام کے کرامت کا انکار کرنا زید کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے؟
علمائے کرام قران و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمایا حوالہ کے ساتھ تاکہ مجھے بتانے میں کوئی دقت نہ ہو
سائل:- حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

کرامات کرامت کی جمع ہے اور کرامت وہ خارق عادت کام ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے ولی کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے جس کا مقصد اس کی تائید یا اس کی مدد یااسے ثابت قدم رکھنا یا دین کی مدد کرنا ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطیہ ہے کوئی ولی اپنی کوشش سے اسے حاصل نہیں کر سکتا ۔
کراماتِ اولیاء حق ہیں یہی علمائے اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے اور اولیاء وہ مؤمنین متقین ہوتے ہیں جو سنت کی پابندی کرنے والے اور بدعات سے بچنے والے ہوتے ہیں اس کا تعلق کسی علاقے یا نام سے نہیں ہے لہذا ایسے اولیاء کے ہاتھ پر جو بھی خرقِ عادت ظاہر ہوتی ہے وہ کرامت ہے جو کہ درحقیقت اللہ تعالی کی جانب سے اپنے نیک بندوں کے اعزاز کے لیے ہوتی ہے اور ان کا انکار کرنا اہلِ سنت والجماعت کے مذہب کے خلاف ہے
ایسا شخص ند مذہب و گمراہ ہے 
 اگر کوئی شخص اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھے یا سنتِ رسول ﷺ کے خلاف زندگی گزارے خواہ وہ کوئی بھی ہو اور اس کے ہاتھ پر خلافِ عادت واقعہ ظاہر ہو تو وہ کرامت نہیں وہ استدراج ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ڈھیل ہے۔
فتاوی شامی میں ہے 
نقض العادة علی سبیل الکرامة لأهل الولایة جائز عند أهل السُّنة (الشامية، ج۶ ص۴۱۰،)
اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے 
كلما دخل عليها زكريا المحراب وجد عندها رزقاً
 (آل عمران)
سورہ کہف میں ہے 
أم حسبت أن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من آياتنا عجباً
 (الکهف)
سورہ یونس میں ہے 
ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون الذين اٰمنوا وكانوا يتقون
 (یونس)
سورہ انفال میں ہے 
إن أولياؤه إلا المتقون 
(الأنفال)
حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ میں ولایت و کرامت کا اثبات ہے
اصحابِ کہف کے واقعہ میں ولایت و کرامت کا اثبات ہے 
 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کیا باری تعالیٰ زمین پر مجھ سے بڑا بھی کوئی عالم ہے؟ فرمایا ہاں ایک ہے آپ اس کے پاس جائیں اس سے ملیں اور سیکھیں یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے اُن سے ملاقات کی جگہ کی نشانی بھی بتادی کہ جہاں مجمع البحرین ہوگا، دو سمندر (دریا) آپس میں مل رہے ہوں، وہاں آپ اس بندے کو پالیں گے۔ حضرت موسیٰ نے حضرت یوشع بن نون کو ساتھ لیا اور حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔ اس سفر میں انہوں نے اپنے کھانے کے لیے تلی ہوئی مچھلی بھی ساتھ لے لی۔ ایک مقام پر پہنچ کر حضرت موسیٰ نے حضرت یوشع بن نون کو کھانا لانے کو کہا جو وہ اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ اس پر حضرت یوشع بن نون جو آپ کے ساتھ بطورِ خادم سفر کررہے تھے، انہوں نے کہا
اَرَئَ یْتَ اِذْ اَوَیْنَآ اِلَی الصَّخْرَۃِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَمَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ وَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا.
کیا آپ نے دیکھا جب ہم نے پتھر کے پاس آرام کیا تھا تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا تھا، اور مجھے یہ کسی نے نہیں بھلایا سوائے شیطان کے کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں اور اس (مچھلی) نے تو (زندہ ہوکر) دریا میں عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا (اور وہ غائب ہوگئی تھی)(الکہف، 18 63)
حضرت موسیٰ نے جب یہ سنا کہ فلاں مقام پر وہ تلی ہوئی مچھلی زندہ ہوکر دریا میں واپس چلی گئی تھی تو انہوں نے فرمایا
ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا.
موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی وہ (مقام) ہے ہم جسے تلاش کر رہے تھے، پس دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر (وہی راستہ) تلاش کرتے ہوئے (اسی مقام پر) واپس پلٹ آئے (الکہف: 64)
ان آیات سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں
 ١/ اولیاء کی برکت سے موت کا حیات میں بدلنا
جس جگہ حضرت خضر علیہ السلام موجود تھے عین اسی جگہ پر ایک بھنی اور تلی ہوئی مچھلی کا دوبارہ زندہ ہوکر دریا میں چلے جانا اس حقیقت کو واضح کر رہا ہے کہ ﷲ کے بندوں کی علامت یہ ہے کہ جس جگہ وہ موجود ہوں وہاں موت حیات میں بدل جاتی ہے موت سے مراد غفلتِ قلب ہے اور حیات سے مراد دل کا ذاکر ہونا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد فرمایا
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo
اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے۔ (الکہف، 18: 28)
یہ حکم عبارۃ النص ہے، اس سے اشارۃ النص یہ ہے کہ ُان کے پیچھے جا اور ان کی اطاعت و پیروی کر کہ جن کے دل ذاکر ہیں اور جو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں
آقا علیہ السلام نے فرمایا بہترین مجلس اُن لوگوں کی ہے کہ اُن کے چہروں کو دیکھو تو ﷲ یاد آجائے اُ ن کو سنو تو دین کی حکمت معلوم ہو جائے اور اُن کے عمل دیکھو تو آخرت یاد آجائے.
مذکورہ توضیحات سے معلوم ہوا اولیاء کرام حق ہیں وہ عام لوگوں کی طرح نہیں اور اولیاء سے کرامت کا ظہور ہونا حق ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
20/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area