(سوال نمبر 4559)
ایپ لیم سے ان لائن پیسہ کمانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بیچ کہ ایک ایپ کا نام لیم ہے اس کے مالک کا نام معلوم ہے اور وہ غیر ملکی ہے، اولا اس ایپ پر رجسٹر ہونا ہوتا ہے اس کے بعد اس ایپ میں یوٹیوب کے چینلز آتے ہیں جنہیں لائک اور سبسکرائب کرنا ہوتا ہے اور بعد میں ان چینلز کی تصاویر اس ایپ میں اپلوڈ کرنا ہوتی ہیں جس کے پیسے ملتے ہیں ابتدائی تین دن فری سکرین شاٹ اپلوڈ کر کے 480 روپے ملتے ہیں بعد میں اس کی دو صورتیں ہیں
پہلی صورت یہ ہے کہ پیسوں کے حصول کے لیے ہمیں پہلے پیکج کرانا ہوتا ہے اگر ہم چار ہزار جمع کرائیں تو اس صورت میں ہمیں ایک سکرین شاٹ اپلوڈ کرنے پر 40 روپے ملتے ہیں جو مہینے کا اڑتالیس سو میں سے بعد از 10 فیصد کٹوتی کے ملتا ہے، اور اگر ہم 15000 والا پیکج کرائیں تو اس میں ایک سکرین شاٹ کے پچاس روپے ملتے ہیں جو مہینے کے اٹھارہ ہزار میں سے بعد از کٹوتی کے رقم ملتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس میں اگر ایسے چینلز آئیں جو فحاشی و عریانی سے مبرا ہوں تو کیا اس صورت میں اس ایپ کو استعمال کرنا اور اس سے کاروبار کرنا جائز ہے، اور اگر کیک یا فوڈ وغیرہ کے چینلز آئیں تو اس صورت میں استعمال کی کیا وضاحت ہو گی ویڈیو چینلز اختیار پر ہیں نیز اہم وضاحت یہ ہے کہ چار ہزار یا پندرہ ہزار جو جمع کرایا ہوتا ہے وہ کمپنی چھ ماہ بعد واپس کرنے کا کنٹریکٹ کرتی ہے، صورت مسئولہ میں حکم شرعی بیان کریں۔
سائل:- ابو محمد نعمان اعجاز اسلام آباد پاکستان
........................................
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سب سے پہلی بات اس میں شرط ہے اگر پیکیج نہ کرائیں تو دخول ممکن نہیں۔
پیسہ دئے بغیر اگر آپ کمپنی کے پروڈیکٹس فروخت کرانے میں محنت کرتے ہیں مثلاً آرڈر بک کراتے یا کینسل کرتے ہیں تو آپ کے لیے مقرر اجرت لینے کی گنجائش ہوگی
قال فی التتارخانیة
وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیر کذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ کدخول الحمام (شامی کتاب الإجارة ۹/۸۷)
اپ ان لائن کسی کمپنی میں معین وقت یا سیلری پر جاب کریں یا اس کمپنی میں پیسہ انویسٹ کرکے شراکت داری حاصل کرے کہ نفع اور نقصان میں دونوں برابر کے شریک ہوں بس یہ صورت جائز ہے
مذکورہ صورت میں انویسٹ کرنے کے لئے جو رقم دی جاتی ہے یہ شراکت و مضاربت وغیرہ کے شرعی اصولوں کے مطابق ہرگز نہیں ہے كيونكہ
کسی کاروبار میں انویسٹ کر کے حصہ دار بننے کے لیے شرعی اصول یہ ہوتا ہے کہ انویسٹ کرنے والے کو کاروبار کے حقیقی نفع میں سے باعتبار فیصد حصہ دیا جائے ،جبکہ یہاں نفع کے فیصد کے بجائے فکس اماؤنٹ نفع طے ہے حالانکہ نفع کی مخصوص رقم طے کر لینا شراکت داری کے معاہدے کے ہی برخلاف اور ناجائز و گناہ ہے ۔
یونہی شرعی اصول یہ ہے کہ رقم دینے والا کاروبار میں اپنے مال کی مقدار کے مطابق نقصان کی ذمہ داری بھی اٹھاتا ہے لیکن یہاں تو رقم لگانے والے کو کمپنی یہ گارنٹی دیتی ہے کہ تمہارے اپنے انویسٹ کیے ہوئے پیسے ایک ہفتے بعد تمہیں مل جائیں گے مطلب انویسٹ کرنے والا نقصان میں حصہ دا ر ہی نہیں بن رہااور یہ بھی خلاف شرع اور ناجائزو باطل ہے۔
درمختار میں ہے
(وشرطها) أي شركة العقد ……عدم ما يقطعها كشرط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى“ترجمہ: شرکت عقد کی شرط یہ ہےکہ کوئی ایسی چیز نہ پائی جائے جو شرکت کو ختم کردیتی ہے،جیسےنفع میں سے دراہم کی معین مقدار کسی ایک کے لیے طے کر لینا ، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صرف اتنی مقدار ہی نفع ہوتا ہے، اس سے زیادہ نہیں ہوتا(ایسی صورت میں سارااس ایک بندے کے لیےمتعین ہو جائے گا۔) (درمختار مع رد المحتار، ج 4، ص 305، دار الفکر، بیروت)
شلبی میں ہے
وإذا شرط فی المضاربة ربح عشرة أو في الشركة تبطل لا لأنه شرط فاسد بل لأنه شرط ينتفی به الشركة “ترجمہ: مضاربت یا شرکت میں دس (دراہم) نفع طے کر لیا گیا، تو عقد باطل ہو گا، اس لیے نہیں کہ یہ شرط فاسد ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ ایسی شرط ہے جس کی وجہ سے شرکت ہی ختم ہو رہی ہے۔
ایپ لیم سے ان لائن پیسہ کمانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بیچ کہ ایک ایپ کا نام لیم ہے اس کے مالک کا نام معلوم ہے اور وہ غیر ملکی ہے، اولا اس ایپ پر رجسٹر ہونا ہوتا ہے اس کے بعد اس ایپ میں یوٹیوب کے چینلز آتے ہیں جنہیں لائک اور سبسکرائب کرنا ہوتا ہے اور بعد میں ان چینلز کی تصاویر اس ایپ میں اپلوڈ کرنا ہوتی ہیں جس کے پیسے ملتے ہیں ابتدائی تین دن فری سکرین شاٹ اپلوڈ کر کے 480 روپے ملتے ہیں بعد میں اس کی دو صورتیں ہیں
پہلی صورت یہ ہے کہ پیسوں کے حصول کے لیے ہمیں پہلے پیکج کرانا ہوتا ہے اگر ہم چار ہزار جمع کرائیں تو اس صورت میں ہمیں ایک سکرین شاٹ اپلوڈ کرنے پر 40 روپے ملتے ہیں جو مہینے کا اڑتالیس سو میں سے بعد از 10 فیصد کٹوتی کے ملتا ہے، اور اگر ہم 15000 والا پیکج کرائیں تو اس میں ایک سکرین شاٹ کے پچاس روپے ملتے ہیں جو مہینے کے اٹھارہ ہزار میں سے بعد از کٹوتی کے رقم ملتی ہے، سوال یہ ہے کہ اس میں اگر ایسے چینلز آئیں جو فحاشی و عریانی سے مبرا ہوں تو کیا اس صورت میں اس ایپ کو استعمال کرنا اور اس سے کاروبار کرنا جائز ہے، اور اگر کیک یا فوڈ وغیرہ کے چینلز آئیں تو اس صورت میں استعمال کی کیا وضاحت ہو گی ویڈیو چینلز اختیار پر ہیں نیز اہم وضاحت یہ ہے کہ چار ہزار یا پندرہ ہزار جو جمع کرایا ہوتا ہے وہ کمپنی چھ ماہ بعد واپس کرنے کا کنٹریکٹ کرتی ہے، صورت مسئولہ میں حکم شرعی بیان کریں۔
سائل:- ابو محمد نعمان اعجاز اسلام آباد پاکستان
........................................
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سب سے پہلی بات اس میں شرط ہے اگر پیکیج نہ کرائیں تو دخول ممکن نہیں۔
پیسہ دئے بغیر اگر آپ کمپنی کے پروڈیکٹس فروخت کرانے میں محنت کرتے ہیں مثلاً آرڈر بک کراتے یا کینسل کرتے ہیں تو آپ کے لیے مقرر اجرت لینے کی گنجائش ہوگی
قال فی التتارخانیة
وفی الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن فی کل عشرة دنانیر کذا فذاک حرام علیہم. وفی الحاوی: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدا لکثرة التعامل وکثیر من ہذا غیر جائز، فجوزوہ لحاجة الناس إلیہ کدخول الحمام (شامی کتاب الإجارة ۹/۸۷)
اپ ان لائن کسی کمپنی میں معین وقت یا سیلری پر جاب کریں یا اس کمپنی میں پیسہ انویسٹ کرکے شراکت داری حاصل کرے کہ نفع اور نقصان میں دونوں برابر کے شریک ہوں بس یہ صورت جائز ہے
مذکورہ صورت میں انویسٹ کرنے کے لئے جو رقم دی جاتی ہے یہ شراکت و مضاربت وغیرہ کے شرعی اصولوں کے مطابق ہرگز نہیں ہے كيونكہ
کسی کاروبار میں انویسٹ کر کے حصہ دار بننے کے لیے شرعی اصول یہ ہوتا ہے کہ انویسٹ کرنے والے کو کاروبار کے حقیقی نفع میں سے باعتبار فیصد حصہ دیا جائے ،جبکہ یہاں نفع کے فیصد کے بجائے فکس اماؤنٹ نفع طے ہے حالانکہ نفع کی مخصوص رقم طے کر لینا شراکت داری کے معاہدے کے ہی برخلاف اور ناجائز و گناہ ہے ۔
یونہی شرعی اصول یہ ہے کہ رقم دینے والا کاروبار میں اپنے مال کی مقدار کے مطابق نقصان کی ذمہ داری بھی اٹھاتا ہے لیکن یہاں تو رقم لگانے والے کو کمپنی یہ گارنٹی دیتی ہے کہ تمہارے اپنے انویسٹ کیے ہوئے پیسے ایک ہفتے بعد تمہیں مل جائیں گے مطلب انویسٹ کرنے والا نقصان میں حصہ دا ر ہی نہیں بن رہااور یہ بھی خلاف شرع اور ناجائزو باطل ہے۔
درمختار میں ہے
(وشرطها) أي شركة العقد ……عدم ما يقطعها كشرط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى“ترجمہ: شرکت عقد کی شرط یہ ہےکہ کوئی ایسی چیز نہ پائی جائے جو شرکت کو ختم کردیتی ہے،جیسےنفع میں سے دراہم کی معین مقدار کسی ایک کے لیے طے کر لینا ، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صرف اتنی مقدار ہی نفع ہوتا ہے، اس سے زیادہ نہیں ہوتا(ایسی صورت میں سارااس ایک بندے کے لیےمتعین ہو جائے گا۔) (درمختار مع رد المحتار، ج 4، ص 305، دار الفکر، بیروت)
شلبی میں ہے
وإذا شرط فی المضاربة ربح عشرة أو في الشركة تبطل لا لأنه شرط فاسد بل لأنه شرط ينتفی به الشركة “ترجمہ: مضاربت یا شرکت میں دس (دراہم) نفع طے کر لیا گیا، تو عقد باطل ہو گا، اس لیے نہیں کہ یہ شرط فاسد ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ ایسی شرط ہے جس کی وجہ سے شرکت ہی ختم ہو رہی ہے۔
(شلبی علی التبيين ج 3، ص 320، دار الکتاب الاسلامی)
مبسوط سرخسی میں ہے:”الوضيعة على قدر رءوس أموالهما، لأن الشرط بخلافه كان باطلا “ترجمہ: نقصان دونوں بندوں کے راس المال کی مقدار ہوتا ہے ،لہذا اس کے برخلاف کچھ بات طے کرناباطل ہے ۔
مبسوط سرخسی میں ہے:”الوضيعة على قدر رءوس أموالهما، لأن الشرط بخلافه كان باطلا “ترجمہ: نقصان دونوں بندوں کے راس المال کی مقدار ہوتا ہے ،لہذا اس کے برخلاف کچھ بات طے کرناباطل ہے ۔
(المبسوط للسرخسی، جلد11، صفحہ 158، دار المعرفہ، بیروت)
بلکہ شرعی اعتبار سے اس معاملے کی حقیقت کو دیکھا جائے تو یہ کسی کاروبار میں شرعی شراکت نہیں، بلکہ خالصا سودی معاملے میں حصہ داری ہے، کیونکہ جب یہ طے ہے کہ انویسٹ کرنے والے کی رقم محفوظ رہے گی اور بعد میں نفع کے ساتھ واپس مل جائے گی، تو اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور کمپنی اس پر جو منافع دے رہی ہے ،وہ قرض پر نفع دے رہی ہے اور قرض پر نفع دینا سود اور حرام قطعی اور جہنمی کام ہے،جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” کل قرض جر منفعۃ فھو ربا“ترجمہ:ہروہ قرض جونفع کھینچے تووہ سودہے۔
(مسندالحارث،ج 1،ص 500،مرکزخدمۃ السنۃوالسیرۃ النبویۃ،المدینۃ المنورہ)
فتاوی رضویہ میں ہے
اور یہ کہ دس فیصدی یا آنہ روپیہ دینا، اگر اس سے مراد ہے کہ جتنے روپے اس کو تجارت کے لیے دئے ہیں، ان پر فیصدی دس یا فی روپیہ ایک آنہ مانگتا ہے، تو حرام قطعی اور سود ہے،اور اگر یہ مراد کہ جو نفع ہواس میں سے دسواں یا سولھواں حصہ دینا ، تو یہ حلال ہے۔
بلکہ شرعی اعتبار سے اس معاملے کی حقیقت کو دیکھا جائے تو یہ کسی کاروبار میں شرعی شراکت نہیں، بلکہ خالصا سودی معاملے میں حصہ داری ہے، کیونکہ جب یہ طے ہے کہ انویسٹ کرنے والے کی رقم محفوظ رہے گی اور بعد میں نفع کے ساتھ واپس مل جائے گی، تو اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور کمپنی اس پر جو منافع دے رہی ہے ،وہ قرض پر نفع دے رہی ہے اور قرض پر نفع دینا سود اور حرام قطعی اور جہنمی کام ہے،جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” کل قرض جر منفعۃ فھو ربا“ترجمہ:ہروہ قرض جونفع کھینچے تووہ سودہے۔
(مسندالحارث،ج 1،ص 500،مرکزخدمۃ السنۃوالسیرۃ النبویۃ،المدینۃ المنورہ)
فتاوی رضویہ میں ہے
اور یہ کہ دس فیصدی یا آنہ روپیہ دینا، اگر اس سے مراد ہے کہ جتنے روپے اس کو تجارت کے لیے دئے ہیں، ان پر فیصدی دس یا فی روپیہ ایک آنہ مانگتا ہے، تو حرام قطعی اور سود ہے،اور اگر یہ مراد کہ جو نفع ہواس میں سے دسواں یا سولھواں حصہ دینا ، تو یہ حلال ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، ج 19، ص 151، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
سود سے متعلق اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ﴿۲۷۸﴾فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ (ترجمہ کنز العرفان)
اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو ،تواللہ سے ڈرو اور جو سودباقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو۔‘‘(سورۃ البقرہ ، آیت 278، 279)
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سودکھانے والے، سود کھلانے والے پر لعنت فرمائی۔
سود سے متعلق اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ﴿۲۷۸﴾فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ (ترجمہ کنز العرفان)
اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو ،تواللہ سے ڈرو اور جو سودباقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو۔‘‘(سورۃ البقرہ ، آیت 278، 279)
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں
لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے سودکھانے والے، سود کھلانے والے پر لعنت فرمائی۔
(الصحیح لمسلم، کتاب البیوع،ج 3، ص 1219 حدیث1598، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ومن أكل درهما من ربا فهو مثل ثلاث وثلاثين زنية، ومن نبت لحمه من السحت فالنار أولى به جس نے ایک درہم سود کا کھایا ،تو وہ تینتیس زنا کے برابر ہےاور جس کا گوشت حرام سے بڑھے تو نارجہنم اس کی زیادہ مستحق ہے۔
ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ومن أكل درهما من ربا فهو مثل ثلاث وثلاثين زنية، ومن نبت لحمه من السحت فالنار أولى به جس نے ایک درہم سود کا کھایا ،تو وہ تینتیس زنا کے برابر ہےاور جس کا گوشت حرام سے بڑھے تو نارجہنم اس کی زیادہ مستحق ہے۔
(المعجم الاوسط ، ج 3، ص 211، دار الحرمین ، قاھرہ)
اور دوسرے افراد کو کمپنی کا ممبر بنانے پر جو کمیشن اور بونس رکھا گیا ہے، تو یہ بھی حقیقت میں نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنیوں کی طرح ایک لالچ و طمع کا جال بچھایا گیا ہے تاکہ لوگ خود ہی بونس و کمیشن کی خاطر دوسروں کو گھیر کر کمپنی سے وابستہ کرتے چلے جائیں اور کمپنی کے پاس لاکھوں روپے بغیر محنت کے جمع ہو جائیں،بہر حال اس سے قطع نظر کمیشن کا طے کردہ طریقہ کارفقہی قوانین شرعیہ کے بھی خلاف ہے، کیونکہ کمیشن ایجنٹ اس وقت کمیشن یا اجرت کا مستحق ہوتا ہے، جب وہ گاہک لانے میں قابل معاوضہ کام اور محنت و کوشش کرے ،جبکہ یہاں یہ طےہے کہ پانچ ممبر کمپنی کو رقم دیں گے، تو بونس ملے گا اگرچہ ممبر لانے والے نے کوئی قابل معاوضہ محنت نہ کی ہو نیز کمیشن کے بارے میں بھی یہ طے ہے کہ ممبر بننے والے افراد جتنی زیادہ انویسٹ کریں گے اتنی زیادہ کمیشن بنے گی،حالانکہ جب کمیشن لینے کی اجازت ہوتی ہے ،تو اس میں بھی اتنی ہی کمیشن جائز ہےجتنی اس کام کی عرف میں رائج ہو ۔ نیز جس آدمی کو ممبر بنانے کے لیے اس نے محنت نہیں کی، بلکہ کسی دوسرے فرد نے کی ہے، تو اس کی کمیشن وہ دوسرا فرد ہی لے سکتا ہے، پہلا فرد جس نے کوئی محنت نہیں کی اس کو کمیشن کا مستحق نہیں بنایا جا سکتا ،جبکہ یہاں کمپنی پہلے فرد کو بھی کمیشن کا کچھ حصہ دیتی ہے۔ یہ سب امور شریعت کے ضابطوں کے خلاف ہیں ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلا آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید لی ،جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔ردالمحتار میں بزازیہ وولوالجیہ سے ہے: ’’الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر، وان قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لاجلہ، لان ذٰلک عمل یستحق بعقد الاجارۃ الخ۔……اور اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگرچہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو ملتقطا۔
اور دوسرے افراد کو کمپنی کا ممبر بنانے پر جو کمیشن اور بونس رکھا گیا ہے، تو یہ بھی حقیقت میں نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنیوں کی طرح ایک لالچ و طمع کا جال بچھایا گیا ہے تاکہ لوگ خود ہی بونس و کمیشن کی خاطر دوسروں کو گھیر کر کمپنی سے وابستہ کرتے چلے جائیں اور کمپنی کے پاس لاکھوں روپے بغیر محنت کے جمع ہو جائیں،بہر حال اس سے قطع نظر کمیشن کا طے کردہ طریقہ کارفقہی قوانین شرعیہ کے بھی خلاف ہے، کیونکہ کمیشن ایجنٹ اس وقت کمیشن یا اجرت کا مستحق ہوتا ہے، جب وہ گاہک لانے میں قابل معاوضہ کام اور محنت و کوشش کرے ،جبکہ یہاں یہ طےہے کہ پانچ ممبر کمپنی کو رقم دیں گے، تو بونس ملے گا اگرچہ ممبر لانے والے نے کوئی قابل معاوضہ محنت نہ کی ہو نیز کمیشن کے بارے میں بھی یہ طے ہے کہ ممبر بننے والے افراد جتنی زیادہ انویسٹ کریں گے اتنی زیادہ کمیشن بنے گی،حالانکہ جب کمیشن لینے کی اجازت ہوتی ہے ،تو اس میں بھی اتنی ہی کمیشن جائز ہےجتنی اس کام کی عرف میں رائج ہو ۔ نیز جس آدمی کو ممبر بنانے کے لیے اس نے محنت نہیں کی، بلکہ کسی دوسرے فرد نے کی ہے، تو اس کی کمیشن وہ دوسرا فرد ہی لے سکتا ہے، پہلا فرد جس نے کوئی محنت نہیں کی اس کو کمیشن کا مستحق نہیں بنایا جا سکتا ،جبکہ یہاں کمپنی پہلے فرد کو بھی کمیشن کا کچھ حصہ دیتی ہے۔ یہ سب امور شریعت کے ضابطوں کے خلاف ہیں ۔
فتاوی رضویہ میں ہے
اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلا آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید لی ،جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔ردالمحتار میں بزازیہ وولوالجیہ سے ہے: ’’الدلالۃ والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر، وان قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لاجلہ، لان ذٰلک عمل یستحق بعقد الاجارۃ الخ۔……اور اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا اگرچہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو ملتقطا۔
(فتاویٰ رضویہ ،ج 19، ص 453، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
اگر بالفرض کمپنی کے ساتھ انویسٹ کا معاہدہ شرکت یا مضاربت وغیرہ کسی جائز شرعی معاہدے کے تحت آتا ،تو پھر بھی کمپنی کا یہ اصول کہ چوبیس گھنٹے میں ایک بار ایپ کھول کر نفع لازمی طور پر رسیو کرنا ہے ،ورنہ وہ واپس چلا جائے گا“ بالکل باطل اور سراسر ظلم ہوتا ،کیونکہ اگر واقعی کوئی بندہ کاروبار میں نفع کا مستحق ہو چکا ہو، تو محض ایپ نہ کھولنے کی وجہ سے اس کا حق ضائع نہیں ہو سکتا ۔
ایسی کمپنیاں اکثر کچھ دن کے لیے آتی ہیں اور لوگوں کو کمیشن و بونس وغیرہ کالالچ دے کر جال میں پھنساتی ہیں اور شروع شروع میں لوگوں کو یہ منافع بھی دیتی ہیں، لیکن کچھ ہی عرصے میں جب لاکھوں روپیہ جمع ہو جاتا ہے، تو پھر بھاگ جاتی ہیں، دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایسی کمپنیوں میں رقم ڈالنا اپنی رقم کو خطر اور نقصان پر پیش کرنا نیز خود اور دوسروں کو ضرر ( نقصان )میں ڈالنے کے زمرے میں آتا ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’لاضرر ولاضرار فی الاسلام
اسلام میں نہ ضرر ہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا۔
اگر بالفرض کمپنی کے ساتھ انویسٹ کا معاہدہ شرکت یا مضاربت وغیرہ کسی جائز شرعی معاہدے کے تحت آتا ،تو پھر بھی کمپنی کا یہ اصول کہ چوبیس گھنٹے میں ایک بار ایپ کھول کر نفع لازمی طور پر رسیو کرنا ہے ،ورنہ وہ واپس چلا جائے گا“ بالکل باطل اور سراسر ظلم ہوتا ،کیونکہ اگر واقعی کوئی بندہ کاروبار میں نفع کا مستحق ہو چکا ہو، تو محض ایپ نہ کھولنے کی وجہ سے اس کا حق ضائع نہیں ہو سکتا ۔
ایسی کمپنیاں اکثر کچھ دن کے لیے آتی ہیں اور لوگوں کو کمیشن و بونس وغیرہ کالالچ دے کر جال میں پھنساتی ہیں اور شروع شروع میں لوگوں کو یہ منافع بھی دیتی ہیں، لیکن کچھ ہی عرصے میں جب لاکھوں روپیہ جمع ہو جاتا ہے، تو پھر بھاگ جاتی ہیں، دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایسی کمپنیوں میں رقم ڈالنا اپنی رقم کو خطر اور نقصان پر پیش کرنا نیز خود اور دوسروں کو ضرر ( نقصان )میں ڈالنے کے زمرے میں آتا ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’لاضرر ولاضرار فی الاسلام
اسلام میں نہ ضرر ہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا۔
(المعجم الاوسط ، جلد5، صفحہ283، دار الحرمین، قاھرہ)
(ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
27/09/2023
27/09/2023