کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والی حدیث پر تحقیق رضوی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
امام اہل سنت سے سوال ہوا کہ کیا کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں کوئی کراہت نہیں؟ یہ حدیث سے ثابت ہے؟۔ اس باب میں جو حکم ہو حدیث و فقہ سے بیان فرمائیں واجرکم علی اللہ تعالی۔
امام اہل سنت نے تفصیلی جواب ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے۔
اولا امام اہل سنت نے فرمایا: اقول:
امام اہل سنت سے سوال ہوا کہ کیا کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں کوئی کراہت نہیں؟ یہ حدیث سے ثابت ہے؟۔ اس باب میں جو حکم ہو حدیث و فقہ سے بیان فرمائیں واجرکم علی اللہ تعالی۔
امام اہل سنت نے تفصیلی جواب ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے۔
اولا امام اہل سنت نے فرمایا: اقول:
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں چار حرج ہیں:
اول بدن اور کپڑوں پر چھینٹیں پڑنا جسم و لباس بلا ضرورت شرعیہ ناپاک کرنا اور یہ حرام ہے۔
اول بدن اور کپڑوں پر چھینٹیں پڑنا جسم و لباس بلا ضرورت شرعیہ ناپاک کرنا اور یہ حرام ہے۔
دوم: ان چھینٹوں کے باعث عذاب قبر کا استحقاق اپنے سر پر لینا ہے۔
سوم: رہگزر پر ہو یا جہاں لوگ موجود ہوں تو باعث بے پردگی ہوگا بیٹھنے میں رانوں اور زانوؤں کی آڑ جاتی ہے اور کھڑے ہونے میں بالکل بے ستری اور یہ باعث لعنت الہی ہے۔
چہارم: یہ نصاری سے تشبہ اور ان کی سنت مذمومہ میں ان کا اتباع ہے آج کل جن کو یہاں یہ شوق جاگا ہے اس کی یہی علت اور یہ موجب عذاب و عقوبت ہے۔
ان چار باتوں پر کتب احادیث و فقہ سے تفصیلی دلائل بھی ذکر فرمائے۔
اس کے بعد اس اشکال کا دفع رضوی ہے جو صاحب فتح الباری اور صاحب عمدة القاری کو حدیث صدیقہ رضی اللہ عنہا میں پیش آیا۔
اس کے بعد چار احادیث صحیحہ اس بارے میں کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ممنوع، بے ادبی اور خلاف سنت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے۔
اس کے بعد علمائے اعلام سے حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آٹھ جوابات نقل فرمائے۔ اور ہر جواب پر اپنی رائے پیش فرمائی۔ ہم یہاں علمائے اعلام کے جوابات اور اس سیدی امام اہل سنت کا تطفل پیش کرتے ہیں۔
جوابات کی تفصیل
جواب اول: یہ حدیث ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہما سے منسوخ ہے۔ یہ امام ابو عوانہ نے اپنی "صحیح" اور ابن شاہین نے "کتاب السنہ" میں اختیار کیا۔
اس پر علامہ عسقلانی و علامہ عینی کا تعقب
وتعقبھما العسقلانی والعینی فقالا الصواب انہ غیر منسوخ زاد العینی لان کلا من عائشة و حذیفة رضی اللہ تعالی عنھما اخبر بما شاھدة (١)
امام عسقلانی اور عینی نے ان دونوں کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایا: صحیح بات یہ ہے کہ یہ غیر منسوخ ہے کیونکہ حضرت عائشہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما دونوں نے جو کچھ دیکھا اس کی خبر دی۔(١) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۵)
تعقب کا جواب رضوی
اقول(امام احمد رضا): معلوم ان حدیث حذیفة رضی اللہ تعالی عنه لم یکن فی اخر عمرہ صلی اللہ تعالی علیه وسلم و قد رأته ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا واطلعت علی افعاله صلی اللہ تعالی علیه وسلم الی یوم لحق اللہ عزوجل وانما یؤخذ بالآخر فالاخر من افعاله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکون کل اخبر بما شاھد لا یمنع النسخ اذا علمنا ان احدی المشاھدتین متأخرۃ مستمرۃ والحاوی علی حکم النسخ ماصح من قوله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انه من الجفاء (٢) و قدکان صلی الله تعالی علیہ وسلم ابعد الناس عنه.
اقول: یہ بات معلوم ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے آخری دور کی نہیں جبکہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کو وصال تک دیکھا اور آپ کے افعال مبارکہ پر مطلع رہیں اور آخری عمل کو اپنایا جاتا ہے لہذا آپ کے بھی آخری فعل پر عمل ہوگا۔ بنا بریں ہر ایک کا اپنے مشاہدے کے مطابق خبر دینا نسخ کو منع نہیں کرتا جب ہمیں معلوم ہوجائے کہ دو مشاہدوں میں سے ایک متاخر بھی ہے اور جاری بھی اور حکم نسخ پر آپ کا وہ قول حاوی ہوگا جو صحیح طور پر ثابت ہے کہ یہ ظلم ہے اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لوگوں سے بڑھ کر اس سے پرہیز کرتے تھے۔
(٢) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۵)
جواب دوم: اس وقت زانوائے مبارک میں زخم تھا بیٹھ نہ سکتے تھے۔ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہوا، حاکم و دارقطنی و بہیقی ان سے راوی: ان النبی صلی اللہ تعالی علیه وسلم بال قائما من جرح کان بمابضه (٣) لکن ضعفه ھذان و ابن عساکر فی غرائب مالك وتبعھم الذھبی فقال منکر۔
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس زخم کی وجہ سے جو زانو کے اندرونی طرف تھا کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا۔ لیکن ان دونوں (دارقطنی اور بہیقی) اور ابن عساکر نے غرائب مالک میں اسے ضعیف قرار دیا اور ذہبی نے بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے فرمایا یہ منکر ہے۔(٣) المستدرک علی الصحیحین البول قائما اوقاعدا مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۱/۱۸۲)(السنن الکبری للبیہقی باب البول قائما مطبوعہ دار صادر بیروت ۱/۱۰۱)
جواب سوم: وہاں نجاسات کے سبب بیٹھنے کی جگہ نہ تھی. امام عبدالعظیم زکی الدین منذری نے اس کی ترجی کی۔
قال العینی قال المنذری لعله کانت فی السباطة نجاسات رطبة وھی رخوۃ فخشی ان یتطایر علیه. قال العینی قیل فیه نظر لان القائم اجدر بھذہ الخشیة من القاعد و قال الطحاوی لکون ذلك سھلا ینحدر فیه البول فلا یرتد علی البائل (٤) عینی نے کہا منذری کہتے ہیں: شاید ڈھیری میں تر نجاستیں تھیں اور وہ نرم تھیں اور آپ کو ملوث ہونے کا ڈر ہوا۔ امام عینی فرماتے ہیں کہا گیا ہے کہ یہ بات محل نظر ہے کیونکہ کھڑا ہونے والا بیٹھنے والے کی نسبت اس ڈر کے زیادہ لائق ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں: زمین کے نرم ہونے کی وجہ سے پیشاب اس میں اتر جاتا ہے اور پیشاب کرنے والے کی طرف نہیں لوٹتا۔
(٤) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۶)
جواب کی اصلاح رضوی
اقول: (امام احمد رضا) انما اتجه ھذا علی المنذری لزیادته خشیة التطایر ولو قال کما قلت لسلم قفد تکون مجمع نجاسات رطبة لا یوجد معھا موضع جلوس ثم رأیت فی المرقاۃ قال قال السید جمال الدین قیل فعل ذلك لانه لم یجد مکانا للقعود لامتلاء الموضع بالنجاسة (٥) فھذا ماذکرت وھو الصواب فی الجواب۔
اقول: (امام احمد رضا )امام منذری اس تاویل کی طرف اس لئے متوجہ ہوئے کہ انہوں نے چھینٹے اٹھ کر لگنے کا زیادہ ڈر محسوس کیا اور وہ ہمارے والی بات کہتے تو وہ اعتراض سے بچ جاتے کیونکہ جہاں تر نجاستیں جمع ہوں وہاں بعض اوقات بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ پھر میں نے مرقاۃ میں دیکھا صاحب مرقاۃ فرماتے ہیں سید جمال الدین نے فرمایا کہا گیا ہے آپ نے ایسا اس لئے کیا کہ تمام جگہ نجاست سے بھری ہونے کی وجہ سے آپ کو بیٹھنے کی جگہ نہ ملی اھ پس یہ ہے جو کچھ میں نے ذکر کیا اور جواب میں یہی بہتر ہے۔(٥) مرقاۃ شرح مشکوۃ باب آداب الخلاء فصل ثانی مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ، ۱/۳۶۳)
جواب چہارم اس میں ڈھال ایسا تھا کہ بیٹھنے کا موقع نہ تھا اسے ابہری وغیرہ نے نقل کیا۔
قال العینی قال بعضھم لانه صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم لم یجد مکانا للقعود لکون الطرف الذی یلیه من السباطة علیا مرتفعا (٦)
عینی نے فرمايا: بعض نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنے کے لئے جگہ نہ پائی کیونکہ جس طرف آپ تھے ادھر سے ڈھیر بلند تھا۔
(٦) عمدۃ القاری ، باب البول قائما وقاعدا ، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت، ۳/۱۳۶)
و قال القاری فی المرقاۃ قال الابھری قیل کان مایقابله من السباطة عالیا ومن خلفه منحدرا مستقلا لوجلس مستقبل السباطة سقط الی خلفه و لوجلس مستدبرا لھا بدا عورته للناس۔ وقال بعد اسطر: قیل فعل ذلك لانه ان استدبر للسباطة تبدو العورۃ للمارۃ وان استقبلھا خیف ان یقع علی ظھرہ مع احتمال ارتداد البول الیه (٧)
حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقات میں فرمایا: ابہری فرماتے ہیں: کہا گیا ہے کہ آپ کے سامنے کی طرف ڈھیر بلند تھا اور پچھلی جانب جھکا ہوا پست تھا اگر ڈھیر کی طرف منہ کرکے بیٹھتے تو پیچھے کی طرف گر پڑتے اور ادھر پیٹھ کرکے بیٹھتے تو لوگوں کے سامنے ستر ننگا ہوتا۔ چند سطروں کے بعد فرمایا: کہا گیا ہے آپ نے ایسا اس لئے کیا کہ اگر ڈھیر کی طرف پیٹھ کرتے تو گزرنے والوں کے سامنے ستر ننگا ہوتا اور اگر منہ ادھر کرتے تو پیٹھ کے بل گرنے کا ڈر تھا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی جانب پیشاب کے لوٹنے کا احتمال بھی تھا۔
(٧) مرقاۃ شرح مشکوۃ باب آداب الخلاء فصل ثانی مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/۳۶۳)
جواب کی اصلاح رضوی
اقول (امام احمد رضا)
اولا : فی ھذہ الزیادۃ ماعلمت ان القائم اجدر به.
اول: ان تمام اضافوں سے معلوم ہوا کہ کھڑا ہونا زیادہ مناسب تھا۔
وثانیا: لو کان ما یستقبله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منھا عالیا مرتفعا لم یکن ان یختارہ لھذا لارتداد البول ح قطعا بل الصواب فیہما قال ابن حبان کمانقل عنه فی فتح الباری انه صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یجد مکانا یصلح للقعود فقام لکون الطرف الذی یلیہ من السباطۃ کان عالیا فامن ان یرتد اليه شیئ من بوله(٨)
فجعل ماقام علیه عالیا وما یقابله منحدرا وجعله سبب الامن من ارتداد البول فانقلب الامر علی من نقل عنه الابھری فجعل ماقام علیه منحدرا و ما یقابله عالیا وجعله سبب خوف السقوط فی القعود مع انه کذلک فی القیام الا نادرا۔
دوم: اگر اس جانب جدھر آپ کا چہرہ مبارکہ تھا بلند جگہ ہوتی پیشاب کے لوٹنے کی وجہ سے آپ اسے قطعا اختیار نہ فرماتے بلکہ اس میں بہتر بات وہی ہے جو ابن حبان نے کہی ہے جیسا کہ فتح الباری میں ان سے نقل کیا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بیٹھنے کیلئے مناسب جگہ نہ پائی تو کھڑے ہوئے کیونکہ آپ کے سامنے سے ڈھیر بلند تھا پس آپ پیشاب لوٹنے کے خطرہ سے بے خوف ہوگئے اھ پس انہوں نے کھڑے ہونے کی جگہ کو بلند قرار دیا اور سامنے کی جگہ کو پست قرار دیا اور اسے پیشاب کے لوٹنے سے امن کا باعث خیال کیا تو معاملہ اس شخص کے خلاف ہوگیا جس سے ابہری نے نقل کیا کیونکہ اس نے کھڑے ہونیکی جگہ کو پست اور مقابل کی جگہ کو بلند قرار دیا اور اسے بیٹھنے کی صورت میں گرنے کے ڈر کا باعث قرار دیا حالانکہ اکثر کھڑے ہونے کی صورت میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔
(٨) فتح الباری باب البول عند سباطۃ قوم مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۴۳)
ایک اعتراض کا جواب
فان قلت ھذا یرد علی ابن حبان ایضا اذ لایظھر الفرق فی مثلہ بین القیام والقعود لان الصبب اذا کان بحیث لایستقر علیه القاعد فکذا القائم۔
اعتراض
اگر تم کہو کہ یہ اعتراض ابن حبان پر بھی ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں فرق ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ جب نشیبی جگہ ایسی صورت میں ہوکہ وہاں بیٹھنے والا نہ ٹھہر سکے تو کھڑا ہونے والا بھی اسی طرح ہوگا۔
جواب
اقول بلی قدتکون کھیأۃ مثلث له حرف دقیق یستقر علیه القائم اذا وضع علیه وسط قدمیه لاعتدال الثقل فی الجانبین بخلاف القاعد فانه لا مستقر علیه الا لقدمیه و ساقیه وثقل سائر جسمه لاحامل له۔
اقول (امام احمد رضا)
(میں کہتا ہوں) ہاں کبھی وہ تکونی شکل میں ہوتی ہے اس کے کنارے باریک ہوتے ہیں اگر کھڑا ہونے والا اس پر قدم کا درمیانہ حصہ رکھے تو وہ ٹھہر سکتا ہے کیونکہ دونوں طرف بوجھ برابر ہوتا ہے بخلاف بیٹھنے والے کے، کیونکہ اس کے لئے تو صرف پاؤں اور پنڈلیوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے جبکہ باقی جسم کے بوجھ کو اٹھانے والی کوئی چیز نہیں۔
جواب پنجم: اس وقت پشت مبارک میں درد تھا اور عرب کے نزدیک یہ فعل اس سے استشفاء ہے۔ یہ جواب امام شافعی و امام احمد رضی اللہ تعالی عنہما کا ہے۔ چالیس طبیبوں کا اتفاق ہے کہ حمام میں ایسا کرنا ستر مرض کی دوا ہے۔ ذکرہ القاری عن زین العرب عن حجة الاسلام قال العینی قال الشافعی لما سأله حفص الفرد عن الفائدۃ فی بوله قائما العرب تستشفی لوجع الصلب بالبول قائما فنری انه کان به اذ ذاك۔(٩)
ملا علی قاری نے زین العرب سے انہوں نے حجۃ الاسلام سے یہ ذکر کیا۔ امام عینی فرماتے ہیں امام شافعی سے جب حفص فرد نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا فائدہ پوچھا تو انہوں نے جوابا فرمایا عربی لوگ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے پیٹھ کے درد کا علاج کرتے ہیں پس ہمارا خیال ہے کہ حضور علیہ السلام کو اس وقت یہی تکلیف تھی۔
(٩) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۳/۱۳۶)
وفی فتح الباری روی عن الشافعی و احمد فذکر نحوہ قال العینی قلت یوضح ذلك حدیث ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنه المذکور انفا (١٠)
اور فتح الباری میں امام شافعی اور امام حمد رحمہما اللہ سے اسی طرح مذکور ہے، امام عینی فرماتے ہیں میں کہتا ہوں ابھی گزرنے والی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کی وضاحت کرتی ہے۔
(١٠) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۳/۱۳۶)
جواب پر قدح رضوی
اقول (امام احمد رضا): لا ادری ما ھذا فاین فعل شیئ للاستشفاء من مرض قصدا غیر مضطر الیه من فعله مع عدم الاختیار لاجل الاضطرار۔
اقول میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے آپ کا کسی عمل کو کسی مجبوری کے بغیر قصدا بیماری سے شفاء کے لئے اختیار کرنا اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ آپ نے اضطرار کے باوجود اسے اختیار نہ کیا۔
جواب ششم: زعم المارزی فی کتاب العلم فعل ذلك لانھا حالة یؤمن فیھا خروج الحدث من السبیل الاخر بخلاف القعود و منه قول عمر رضی اللہ تعالی عنه البول قائما احصن للدبر (١١)
مارزی نے کتاب العلم میں یہ خیال ظاہر کیا کہ آپ کا یہ عمل اس لئے تھا کہ اس صورت میں دوسرے راستے سے حدث (ہوا وغیرہ) نکلنے کا خوف نہیں ہوتا بخلاف بیٹھنے کے۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول بھی ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا دبر کو محفوظ رکھتا ہے۔
(١١) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۳/۱۳۶)
نقله فی العمدۃ زاد العسقلانی ففعل ذلک لکونه قریبا من الدیار (١٢)
اسے العمدۃ میں نقل کیا امام عسقلانی نے اضافہ کیا کہ آپ نے یہ اس لئے کیا کہ آپ گھروں کے زیادہ قریب تھے۔
(١٢) فتح الباری باب البول عند سباطۃ قوم مطبوعہ مصطفی البابی مصر ، ۱/۳۴۳)
جواب پر رضوی ناپسندیدگی
اقول: (امام احمد رضا) وانا استبشع مثل ھذہ التعلیلات فی افعاله صلی اللہ تعالی علیه وسلم وقد عصمه اللہ تعالی من کل ما یستھجن۔
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے افعال مبارکہ کی ایسی توجیہات کو میں نہایت بد ذوقی سمجھتا ہوں. اللہ تعالی نے آپ کو ہر اس چیز سے محفوظ فرمایا جسے قبیح سمجھا جاتا ہے۔
جواب ہفتم: قال العینی تکلموا فی سبب بوله صلی اللہ تعالی علیه وسلم قائما فقال القاضی عیاض انما فعل لشغله بامور المسلمین فلعلہ طال علیه المجلس حتی حصرہ البول ولم یمکن التباعد کعادته واراد السباطة لدمثھا واقام حذیفة لیسترہ عن الناس (١٣)
(محدثین نے) نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا آپ نے ایسا اس لئے کیا کہ آپ مسلمانوں کے کاموں میں مشغول تھے اور ممکن ہے مجلس طویل ہوگئی حتی کہ پیشاب نے آپ کو روک دیا اور عادت کے مطابق آپ کے لئے دور جانا ممکن نہ ہوا اور آپ نے (کوڑے کرکٹ کے) ڈھیر کا ارادہ فرمایا کیونکہ وہ جگہ نرم تھی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا تاکہ لوگوں سے پردہ ہو۔
(١٣) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۶)
جواب پر اعتراض رضوی اور اس کی اصلاح
اقول: (امام احمد رضا) ای مساس لھذا بسبیة الفعل قائما انما ھو وجه لترکه صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الابعاد المعتادله وفی ھذا ذکرہ فی فتح الباری فھذا یحتاج فی تسدیدہ الی ان یضم الیه ماذکر المارزی والا بطل کما یحتاج ما ذکر المارزی فی تاییدہ الی ان یضم الیه ھذا کما فعلی ابن حجر والا ضعف۔
یہ بات کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا سبب کیسے بن گئی یہ تو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عادت کے مطابق دور جانے کو چھوڑنے کی وجہ ہے۔ اسے انہوں نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے پس یہ اپنی مضبوطی کے لئے اس بات کا محتاج ہے کہ جو کچھ مارزی نے ذکر کیا اسے بھی اس کے ساتھ ملایا جائے ورنہ یہ باطل ہوجائیگا جیسا کہ مارزی کا ذکر کردہ قول اپنی تائید کے لئے اس کے ملانے کا محتاج ہے جیسا کہ ابن حجر نے کیا ورنہ وہ کمزور رہ جائیگا۔
*جواب ہشتم*: قال ابوالقاسم عبداللہ بن احمد بن محمود البلخی فی کتابہ المسمی بقبول الاخبار ومعرفة الرجال حدیث حذیفة ھذا فاحش منکر لا نراہ الا من قبل بعض الزنادقة قال الامام العینی بعد نقله ھذا کلام سوء لایساوی سماعه و ھو فی غایة الصحة (١٤) اھ و وقع للقاری عقب ذکر حدیث الحذیفة وانه متفق علیه قال الشیخ لوصح ھذا الحدیث لکان فیه غنی عن جمیع ماتقدم لکن ضعفه الدار قطنی والبھیقی والاظھر انه فعل ذلک لبیان الجواز نقله الابھری (١٥) اھ۔
ابو القاسم عبداللہ بن احمد بن محمود بلخی نے اپنی کتاب مسمی ''قبول الاخبار ومعرفة الرجال'' میں فرمایا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت قبیح منکر ہے یہ بعض زندیق بیان کرتے ہیں امام عینی اسے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں یہ برا کلام ہے اسے سننا صحیح نہیں جبکہ حدیث بالکل صحیح ہے اھ حضرت ملا علی قاری روایت حذیفہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں یہ متفق علیہ ہے۔ شیخ فرماتے ہیں اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہو تو اس میں پہلے بیان سے بے نیازی ہوگی۔ لیکن دارقطنی اور بہیقی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ زیادہ ظاہر یہ ہے کہ آپ نے بیان جواز کے لئے ایسا کیا، اسے ابہری نے نقل کیا۔
(١٤)عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۶)
(١٥) مرقاۃ شرح مشکوۃ باب آداب الخلاء فصل ثانی مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/۳۶۳)
تبصرہ رضوی
*اقول*: (امام احمد رضا) الشیخ ھو الامام ابن حجر العسقلانی وانما قال ھذا فی حدیث ابی ھریرۃ المار فلا ادری ممن وقع ھذا التخلیط من الابھری او من القاری۔
شیخ سے مراد امام ابن حجر عسقلانی میں اور انہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث کے بارے میں کہی ہے، پس میں نہیں جانتا کہ یہ گربڑا کس سے واقع ہوئی، ابہری سے یا ملا علی قاری سے۔
تطبیق و ترجیح رضوی
اقول: وباللہ التوفیق (میں اللہ تعالی کی توفیق سے کہتا ہوں) نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ایک بار یہ فعل وارد ہوا اور صحیح حدیث سے ثابت کہ روز نزول قرآن کریم سے آخر عمر اقدس تک عادت کریمہ ہمیشہ بیٹھ ہی کر پیشاب فرمانے کی تھی اور صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو جفا و بے ادبی فرمایا اور متعدد احادیث میں اس سے نہی وممانعت آئی تو واجب کہ ممنوع ہو اور انہیں احادیث کو ان پر ترجیح بوجوہ ہو۔
اولا:- وہ ایک بار کا واقعہ حال ہے کہ صدگونہ احتمال ہے۔
ثانیا:- فعل و قول میں جب تعارض ہو قول واجب العمل ہے کہ فعل احتمال خصوص وغیرہ رکھتا ہے۔
ثالثا:- مبیح وحاظر جب متعارض ہوں حاظر مقدم ہے۔
ثم اقول: (پھر میں کہتا ہوں۔ ت) نفس حدیث حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ ان مقلدان نصرانیت پر رد ہے وہاں کافی بلندی تھی اور نیچے ڈھال اور زمین گھورے کے سبب نرم کہ کسی طرح چھینٹ آنے کا احتمال نہ تھا سامنے دیوار تھی اور گھورا فنائے دار میں تھا نہ کہ گزر گاہ پس پشت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کھڑا کر لیا تھا اس طرف کا بھی پردہ فرمایا اس حالت میں پشت اقدس پر بھی نظر پڑنا پسند نہ آیا ان احتیاطوں کے ساتھ تمام عمر مبارک میں ایک بار ایسا منقول ہوا، کیا یہ نئی روشن کے مدعی ایسی ہی صورت کے قائل ہیں؟ سبحان اللہ! کہاں یہ اور کہاں ان بے ادبوں کے نامہذب افعال؟ اور ان پر معاذاللہ حدیث سے استدلال لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
کار پاکاں راقیاس از خود مگیر
(پاک لوگوں کے کام کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو)
اوگمان بردہ کہ من کروم چواو
فرق راکے بیند آں استیزہ جو
(اس نے گمان کیا کہ میں نے اس جیسا عمل کیا، وہ بڑائی ڈھونڈنے والا فرق کب دیکھ سکتا ہے)(فتاوی رضویہ جلد ٤ صفحة ٥٨٥ تا ٥٩٧ ملخصا و ملتقطا رضا فاونڈيشن)
سوم: رہگزر پر ہو یا جہاں لوگ موجود ہوں تو باعث بے پردگی ہوگا بیٹھنے میں رانوں اور زانوؤں کی آڑ جاتی ہے اور کھڑے ہونے میں بالکل بے ستری اور یہ باعث لعنت الہی ہے۔
چہارم: یہ نصاری سے تشبہ اور ان کی سنت مذمومہ میں ان کا اتباع ہے آج کل جن کو یہاں یہ شوق جاگا ہے اس کی یہی علت اور یہ موجب عذاب و عقوبت ہے۔
ان چار باتوں پر کتب احادیث و فقہ سے تفصیلی دلائل بھی ذکر فرمائے۔
اس کے بعد اس اشکال کا دفع رضوی ہے جو صاحب فتح الباری اور صاحب عمدة القاری کو حدیث صدیقہ رضی اللہ عنہا میں پیش آیا۔
اس کے بعد چار احادیث صحیحہ اس بارے میں کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ممنوع، بے ادبی اور خلاف سنت مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے۔
اس کے بعد علمائے اعلام سے حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آٹھ جوابات نقل فرمائے۔ اور ہر جواب پر اپنی رائے پیش فرمائی۔ ہم یہاں علمائے اعلام کے جوابات اور اس سیدی امام اہل سنت کا تطفل پیش کرتے ہیں۔
جوابات کی تفصیل
جواب اول: یہ حدیث ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہما سے منسوخ ہے۔ یہ امام ابو عوانہ نے اپنی "صحیح" اور ابن شاہین نے "کتاب السنہ" میں اختیار کیا۔
اس پر علامہ عسقلانی و علامہ عینی کا تعقب
وتعقبھما العسقلانی والعینی فقالا الصواب انہ غیر منسوخ زاد العینی لان کلا من عائشة و حذیفة رضی اللہ تعالی عنھما اخبر بما شاھدة (١)
امام عسقلانی اور عینی نے ان دونوں کا تعاقب کرتے ہوئے فرمایا: صحیح بات یہ ہے کہ یہ غیر منسوخ ہے کیونکہ حضرت عائشہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہما دونوں نے جو کچھ دیکھا اس کی خبر دی۔(١) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۵)
تعقب کا جواب رضوی
اقول(امام احمد رضا): معلوم ان حدیث حذیفة رضی اللہ تعالی عنه لم یکن فی اخر عمرہ صلی اللہ تعالی علیه وسلم و قد رأته ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا واطلعت علی افعاله صلی اللہ تعالی علیه وسلم الی یوم لحق اللہ عزوجل وانما یؤخذ بالآخر فالاخر من افعاله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکون کل اخبر بما شاھد لا یمنع النسخ اذا علمنا ان احدی المشاھدتین متأخرۃ مستمرۃ والحاوی علی حکم النسخ ماصح من قوله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انه من الجفاء (٢) و قدکان صلی الله تعالی علیہ وسلم ابعد الناس عنه.
اقول: یہ بات معلوم ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے آخری دور کی نہیں جبکہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ کو وصال تک دیکھا اور آپ کے افعال مبارکہ پر مطلع رہیں اور آخری عمل کو اپنایا جاتا ہے لہذا آپ کے بھی آخری فعل پر عمل ہوگا۔ بنا بریں ہر ایک کا اپنے مشاہدے کے مطابق خبر دینا نسخ کو منع نہیں کرتا جب ہمیں معلوم ہوجائے کہ دو مشاہدوں میں سے ایک متاخر بھی ہے اور جاری بھی اور حکم نسخ پر آپ کا وہ قول حاوی ہوگا جو صحیح طور پر ثابت ہے کہ یہ ظلم ہے اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لوگوں سے بڑھ کر اس سے پرہیز کرتے تھے۔
(٢) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۵)
جواب دوم: اس وقت زانوائے مبارک میں زخم تھا بیٹھ نہ سکتے تھے۔ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہوا، حاکم و دارقطنی و بہیقی ان سے راوی: ان النبی صلی اللہ تعالی علیه وسلم بال قائما من جرح کان بمابضه (٣) لکن ضعفه ھذان و ابن عساکر فی غرائب مالك وتبعھم الذھبی فقال منکر۔
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس زخم کی وجہ سے جو زانو کے اندرونی طرف تھا کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا۔ لیکن ان دونوں (دارقطنی اور بہیقی) اور ابن عساکر نے غرائب مالک میں اسے ضعیف قرار دیا اور ذہبی نے بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے فرمایا یہ منکر ہے۔(٣) المستدرک علی الصحیحین البول قائما اوقاعدا مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان ۱/۱۸۲)(السنن الکبری للبیہقی باب البول قائما مطبوعہ دار صادر بیروت ۱/۱۰۱)
جواب سوم: وہاں نجاسات کے سبب بیٹھنے کی جگہ نہ تھی. امام عبدالعظیم زکی الدین منذری نے اس کی ترجی کی۔
قال العینی قال المنذری لعله کانت فی السباطة نجاسات رطبة وھی رخوۃ فخشی ان یتطایر علیه. قال العینی قیل فیه نظر لان القائم اجدر بھذہ الخشیة من القاعد و قال الطحاوی لکون ذلك سھلا ینحدر فیه البول فلا یرتد علی البائل (٤) عینی نے کہا منذری کہتے ہیں: شاید ڈھیری میں تر نجاستیں تھیں اور وہ نرم تھیں اور آپ کو ملوث ہونے کا ڈر ہوا۔ امام عینی فرماتے ہیں کہا گیا ہے کہ یہ بات محل نظر ہے کیونکہ کھڑا ہونے والا بیٹھنے والے کی نسبت اس ڈر کے زیادہ لائق ہے۔ امام طحاوی فرماتے ہیں: زمین کے نرم ہونے کی وجہ سے پیشاب اس میں اتر جاتا ہے اور پیشاب کرنے والے کی طرف نہیں لوٹتا۔
(٤) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۶)
جواب کی اصلاح رضوی
اقول: (امام احمد رضا) انما اتجه ھذا علی المنذری لزیادته خشیة التطایر ولو قال کما قلت لسلم قفد تکون مجمع نجاسات رطبة لا یوجد معھا موضع جلوس ثم رأیت فی المرقاۃ قال قال السید جمال الدین قیل فعل ذلك لانه لم یجد مکانا للقعود لامتلاء الموضع بالنجاسة (٥) فھذا ماذکرت وھو الصواب فی الجواب۔
اقول: (امام احمد رضا )امام منذری اس تاویل کی طرف اس لئے متوجہ ہوئے کہ انہوں نے چھینٹے اٹھ کر لگنے کا زیادہ ڈر محسوس کیا اور وہ ہمارے والی بات کہتے تو وہ اعتراض سے بچ جاتے کیونکہ جہاں تر نجاستیں جمع ہوں وہاں بعض اوقات بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ پھر میں نے مرقاۃ میں دیکھا صاحب مرقاۃ فرماتے ہیں سید جمال الدین نے فرمایا کہا گیا ہے آپ نے ایسا اس لئے کیا کہ تمام جگہ نجاست سے بھری ہونے کی وجہ سے آپ کو بیٹھنے کی جگہ نہ ملی اھ پس یہ ہے جو کچھ میں نے ذکر کیا اور جواب میں یہی بہتر ہے۔(٥) مرقاۃ شرح مشکوۃ باب آداب الخلاء فصل ثانی مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ، ۱/۳۶۳)
جواب چہارم اس میں ڈھال ایسا تھا کہ بیٹھنے کا موقع نہ تھا اسے ابہری وغیرہ نے نقل کیا۔
قال العینی قال بعضھم لانه صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم لم یجد مکانا للقعود لکون الطرف الذی یلیه من السباطة علیا مرتفعا (٦)
عینی نے فرمايا: بعض نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھنے کے لئے جگہ نہ پائی کیونکہ جس طرف آپ تھے ادھر سے ڈھیر بلند تھا۔
(٦) عمدۃ القاری ، باب البول قائما وقاعدا ، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت، ۳/۱۳۶)
و قال القاری فی المرقاۃ قال الابھری قیل کان مایقابله من السباطة عالیا ومن خلفه منحدرا مستقلا لوجلس مستقبل السباطة سقط الی خلفه و لوجلس مستدبرا لھا بدا عورته للناس۔ وقال بعد اسطر: قیل فعل ذلك لانه ان استدبر للسباطة تبدو العورۃ للمارۃ وان استقبلھا خیف ان یقع علی ظھرہ مع احتمال ارتداد البول الیه (٧)
حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقات میں فرمایا: ابہری فرماتے ہیں: کہا گیا ہے کہ آپ کے سامنے کی طرف ڈھیر بلند تھا اور پچھلی جانب جھکا ہوا پست تھا اگر ڈھیر کی طرف منہ کرکے بیٹھتے تو پیچھے کی طرف گر پڑتے اور ادھر پیٹھ کرکے بیٹھتے تو لوگوں کے سامنے ستر ننگا ہوتا۔ چند سطروں کے بعد فرمایا: کہا گیا ہے آپ نے ایسا اس لئے کیا کہ اگر ڈھیر کی طرف پیٹھ کرتے تو گزرنے والوں کے سامنے ستر ننگا ہوتا اور اگر منہ ادھر کرتے تو پیٹھ کے بل گرنے کا ڈر تھا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی جانب پیشاب کے لوٹنے کا احتمال بھی تھا۔
(٧) مرقاۃ شرح مشکوۃ باب آداب الخلاء فصل ثانی مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/۳۶۳)
جواب کی اصلاح رضوی
اقول (امام احمد رضا)
اولا : فی ھذہ الزیادۃ ماعلمت ان القائم اجدر به.
اول: ان تمام اضافوں سے معلوم ہوا کہ کھڑا ہونا زیادہ مناسب تھا۔
وثانیا: لو کان ما یستقبله صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منھا عالیا مرتفعا لم یکن ان یختارہ لھذا لارتداد البول ح قطعا بل الصواب فیہما قال ابن حبان کمانقل عنه فی فتح الباری انه صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یجد مکانا یصلح للقعود فقام لکون الطرف الذی یلیہ من السباطۃ کان عالیا فامن ان یرتد اليه شیئ من بوله(٨)
فجعل ماقام علیه عالیا وما یقابله منحدرا وجعله سبب الامن من ارتداد البول فانقلب الامر علی من نقل عنه الابھری فجعل ماقام علیه منحدرا و ما یقابله عالیا وجعله سبب خوف السقوط فی القعود مع انه کذلک فی القیام الا نادرا۔
دوم: اگر اس جانب جدھر آپ کا چہرہ مبارکہ تھا بلند جگہ ہوتی پیشاب کے لوٹنے کی وجہ سے آپ اسے قطعا اختیار نہ فرماتے بلکہ اس میں بہتر بات وہی ہے جو ابن حبان نے کہی ہے جیسا کہ فتح الباری میں ان سے نقل کیا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بیٹھنے کیلئے مناسب جگہ نہ پائی تو کھڑے ہوئے کیونکہ آپ کے سامنے سے ڈھیر بلند تھا پس آپ پیشاب لوٹنے کے خطرہ سے بے خوف ہوگئے اھ پس انہوں نے کھڑے ہونے کی جگہ کو بلند قرار دیا اور سامنے کی جگہ کو پست قرار دیا اور اسے پیشاب کے لوٹنے سے امن کا باعث خیال کیا تو معاملہ اس شخص کے خلاف ہوگیا جس سے ابہری نے نقل کیا کیونکہ اس نے کھڑے ہونیکی جگہ کو پست اور مقابل کی جگہ کو بلند قرار دیا اور اسے بیٹھنے کی صورت میں گرنے کے ڈر کا باعث قرار دیا حالانکہ اکثر کھڑے ہونے کی صورت میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔
(٨) فتح الباری باب البول عند سباطۃ قوم مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۳۴۳)
ایک اعتراض کا جواب
فان قلت ھذا یرد علی ابن حبان ایضا اذ لایظھر الفرق فی مثلہ بین القیام والقعود لان الصبب اذا کان بحیث لایستقر علیه القاعد فکذا القائم۔
اعتراض
اگر تم کہو کہ یہ اعتراض ابن حبان پر بھی ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں کھڑے ہونے اور بیٹھنے میں فرق ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ جب نشیبی جگہ ایسی صورت میں ہوکہ وہاں بیٹھنے والا نہ ٹھہر سکے تو کھڑا ہونے والا بھی اسی طرح ہوگا۔
جواب
اقول بلی قدتکون کھیأۃ مثلث له حرف دقیق یستقر علیه القائم اذا وضع علیه وسط قدمیه لاعتدال الثقل فی الجانبین بخلاف القاعد فانه لا مستقر علیه الا لقدمیه و ساقیه وثقل سائر جسمه لاحامل له۔
اقول (امام احمد رضا)
(میں کہتا ہوں) ہاں کبھی وہ تکونی شکل میں ہوتی ہے اس کے کنارے باریک ہوتے ہیں اگر کھڑا ہونے والا اس پر قدم کا درمیانہ حصہ رکھے تو وہ ٹھہر سکتا ہے کیونکہ دونوں طرف بوجھ برابر ہوتا ہے بخلاف بیٹھنے والے کے، کیونکہ اس کے لئے تو صرف پاؤں اور پنڈلیوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے جبکہ باقی جسم کے بوجھ کو اٹھانے والی کوئی چیز نہیں۔
جواب پنجم: اس وقت پشت مبارک میں درد تھا اور عرب کے نزدیک یہ فعل اس سے استشفاء ہے۔ یہ جواب امام شافعی و امام احمد رضی اللہ تعالی عنہما کا ہے۔ چالیس طبیبوں کا اتفاق ہے کہ حمام میں ایسا کرنا ستر مرض کی دوا ہے۔ ذکرہ القاری عن زین العرب عن حجة الاسلام قال العینی قال الشافعی لما سأله حفص الفرد عن الفائدۃ فی بوله قائما العرب تستشفی لوجع الصلب بالبول قائما فنری انه کان به اذ ذاك۔(٩)
ملا علی قاری نے زین العرب سے انہوں نے حجۃ الاسلام سے یہ ذکر کیا۔ امام عینی فرماتے ہیں امام شافعی سے جب حفص فرد نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا فائدہ پوچھا تو انہوں نے جوابا فرمایا عربی لوگ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے پیٹھ کے درد کا علاج کرتے ہیں پس ہمارا خیال ہے کہ حضور علیہ السلام کو اس وقت یہی تکلیف تھی۔
(٩) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۳/۱۳۶)
وفی فتح الباری روی عن الشافعی و احمد فذکر نحوہ قال العینی قلت یوضح ذلك حدیث ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنه المذکور انفا (١٠)
اور فتح الباری میں امام شافعی اور امام حمد رحمہما اللہ سے اسی طرح مذکور ہے، امام عینی فرماتے ہیں میں کہتا ہوں ابھی گزرنے والی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کی وضاحت کرتی ہے۔
(١٠) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۳/۱۳۶)
جواب پر قدح رضوی
اقول (امام احمد رضا): لا ادری ما ھذا فاین فعل شیئ للاستشفاء من مرض قصدا غیر مضطر الیه من فعله مع عدم الاختیار لاجل الاضطرار۔
اقول میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے آپ کا کسی عمل کو کسی مجبوری کے بغیر قصدا بیماری سے شفاء کے لئے اختیار کرنا اس کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ آپ نے اضطرار کے باوجود اسے اختیار نہ کیا۔
جواب ششم: زعم المارزی فی کتاب العلم فعل ذلك لانھا حالة یؤمن فیھا خروج الحدث من السبیل الاخر بخلاف القعود و منه قول عمر رضی اللہ تعالی عنه البول قائما احصن للدبر (١١)
مارزی نے کتاب العلم میں یہ خیال ظاہر کیا کہ آپ کا یہ عمل اس لئے تھا کہ اس صورت میں دوسرے راستے سے حدث (ہوا وغیرہ) نکلنے کا خوف نہیں ہوتا بخلاف بیٹھنے کے۔ اسی سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا قول بھی ہے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا دبر کو محفوظ رکھتا ہے۔
(١١) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ بیروت ۳/۱۳۶)
نقله فی العمدۃ زاد العسقلانی ففعل ذلک لکونه قریبا من الدیار (١٢)
اسے العمدۃ میں نقل کیا امام عسقلانی نے اضافہ کیا کہ آپ نے یہ اس لئے کیا کہ آپ گھروں کے زیادہ قریب تھے۔
(١٢) فتح الباری باب البول عند سباطۃ قوم مطبوعہ مصطفی البابی مصر ، ۱/۳۴۳)
جواب پر رضوی ناپسندیدگی
اقول: (امام احمد رضا) وانا استبشع مثل ھذہ التعلیلات فی افعاله صلی اللہ تعالی علیه وسلم وقد عصمه اللہ تعالی من کل ما یستھجن۔
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے افعال مبارکہ کی ایسی توجیہات کو میں نہایت بد ذوقی سمجھتا ہوں. اللہ تعالی نے آپ کو ہر اس چیز سے محفوظ فرمایا جسے قبیح سمجھا جاتا ہے۔
جواب ہفتم: قال العینی تکلموا فی سبب بوله صلی اللہ تعالی علیه وسلم قائما فقال القاضی عیاض انما فعل لشغله بامور المسلمین فلعلہ طال علیه المجلس حتی حصرہ البول ولم یمکن التباعد کعادته واراد السباطة لدمثھا واقام حذیفة لیسترہ عن الناس (١٣)
(محدثین نے) نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا آپ نے ایسا اس لئے کیا کہ آپ مسلمانوں کے کاموں میں مشغول تھے اور ممکن ہے مجلس طویل ہوگئی حتی کہ پیشاب نے آپ کو روک دیا اور عادت کے مطابق آپ کے لئے دور جانا ممکن نہ ہوا اور آپ نے (کوڑے کرکٹ کے) ڈھیر کا ارادہ فرمایا کیونکہ وہ جگہ نرم تھی اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا تاکہ لوگوں سے پردہ ہو۔
(١٣) عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۶)
جواب پر اعتراض رضوی اور اس کی اصلاح
اقول: (امام احمد رضا) ای مساس لھذا بسبیة الفعل قائما انما ھو وجه لترکه صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الابعاد المعتادله وفی ھذا ذکرہ فی فتح الباری فھذا یحتاج فی تسدیدہ الی ان یضم الیه ماذکر المارزی والا بطل کما یحتاج ما ذکر المارزی فی تاییدہ الی ان یضم الیه ھذا کما فعلی ابن حجر والا ضعف۔
یہ بات کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا سبب کیسے بن گئی یہ تو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عادت کے مطابق دور جانے کو چھوڑنے کی وجہ ہے۔ اسے انہوں نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے پس یہ اپنی مضبوطی کے لئے اس بات کا محتاج ہے کہ جو کچھ مارزی نے ذکر کیا اسے بھی اس کے ساتھ ملایا جائے ورنہ یہ باطل ہوجائیگا جیسا کہ مارزی کا ذکر کردہ قول اپنی تائید کے لئے اس کے ملانے کا محتاج ہے جیسا کہ ابن حجر نے کیا ورنہ وہ کمزور رہ جائیگا۔
*جواب ہشتم*: قال ابوالقاسم عبداللہ بن احمد بن محمود البلخی فی کتابہ المسمی بقبول الاخبار ومعرفة الرجال حدیث حذیفة ھذا فاحش منکر لا نراہ الا من قبل بعض الزنادقة قال الامام العینی بعد نقله ھذا کلام سوء لایساوی سماعه و ھو فی غایة الصحة (١٤) اھ و وقع للقاری عقب ذکر حدیث الحذیفة وانه متفق علیه قال الشیخ لوصح ھذا الحدیث لکان فیه غنی عن جمیع ماتقدم لکن ضعفه الدار قطنی والبھیقی والاظھر انه فعل ذلک لبیان الجواز نقله الابھری (١٥) اھ۔
ابو القاسم عبداللہ بن احمد بن محمود بلخی نے اپنی کتاب مسمی ''قبول الاخبار ومعرفة الرجال'' میں فرمایا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت قبیح منکر ہے یہ بعض زندیق بیان کرتے ہیں امام عینی اسے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں یہ برا کلام ہے اسے سننا صحیح نہیں جبکہ حدیث بالکل صحیح ہے اھ حضرت ملا علی قاری روایت حذیفہ ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں یہ متفق علیہ ہے۔ شیخ فرماتے ہیں اگر یہ حدیث صحیح ثابت ہو تو اس میں پہلے بیان سے بے نیازی ہوگی۔ لیکن دارقطنی اور بہیقی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ زیادہ ظاہر یہ ہے کہ آپ نے بیان جواز کے لئے ایسا کیا، اسے ابہری نے نقل کیا۔
(١٤)عمدۃ القاری باب البول قائما وقاعدا مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ بیروت ۳/۱۳۶)
(١٥) مرقاۃ شرح مشکوۃ باب آداب الخلاء فصل ثانی مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/۳۶۳)
تبصرہ رضوی
*اقول*: (امام احمد رضا) الشیخ ھو الامام ابن حجر العسقلانی وانما قال ھذا فی حدیث ابی ھریرۃ المار فلا ادری ممن وقع ھذا التخلیط من الابھری او من القاری۔
شیخ سے مراد امام ابن حجر عسقلانی میں اور انہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث کے بارے میں کہی ہے، پس میں نہیں جانتا کہ یہ گربڑا کس سے واقع ہوئی، ابہری سے یا ملا علی قاری سے۔
تطبیق و ترجیح رضوی
اقول: وباللہ التوفیق (میں اللہ تعالی کی توفیق سے کہتا ہوں) نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ایک بار یہ فعل وارد ہوا اور صحیح حدیث سے ثابت کہ روز نزول قرآن کریم سے آخر عمر اقدس تک عادت کریمہ ہمیشہ بیٹھ ہی کر پیشاب فرمانے کی تھی اور صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کو جفا و بے ادبی فرمایا اور متعدد احادیث میں اس سے نہی وممانعت آئی تو واجب کہ ممنوع ہو اور انہیں احادیث کو ان پر ترجیح بوجوہ ہو۔
اولا:- وہ ایک بار کا واقعہ حال ہے کہ صدگونہ احتمال ہے۔
ثانیا:- فعل و قول میں جب تعارض ہو قول واجب العمل ہے کہ فعل احتمال خصوص وغیرہ رکھتا ہے۔
ثالثا:- مبیح وحاظر جب متعارض ہوں حاظر مقدم ہے۔
ثم اقول: (پھر میں کہتا ہوں۔ ت) نفس حدیث حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ ان مقلدان نصرانیت پر رد ہے وہاں کافی بلندی تھی اور نیچے ڈھال اور زمین گھورے کے سبب نرم کہ کسی طرح چھینٹ آنے کا احتمال نہ تھا سامنے دیوار تھی اور گھورا فنائے دار میں تھا نہ کہ گزر گاہ پس پشت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کھڑا کر لیا تھا اس طرف کا بھی پردہ فرمایا اس حالت میں پشت اقدس پر بھی نظر پڑنا پسند نہ آیا ان احتیاطوں کے ساتھ تمام عمر مبارک میں ایک بار ایسا منقول ہوا، کیا یہ نئی روشن کے مدعی ایسی ہی صورت کے قائل ہیں؟ سبحان اللہ! کہاں یہ اور کہاں ان بے ادبوں کے نامہذب افعال؟ اور ان پر معاذاللہ حدیث سے استدلال لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
کار پاکاں راقیاس از خود مگیر
(پاک لوگوں کے کام کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو)
اوگمان بردہ کہ من کروم چواو
فرق راکے بیند آں استیزہ جو
(اس نے گمان کیا کہ میں نے اس جیسا عمل کیا، وہ بڑائی ڈھونڈنے والا فرق کب دیکھ سکتا ہے)(فتاوی رضویہ جلد ٤ صفحة ٥٨٥ تا ٥٩٧ ملخصا و ملتقطا رضا فاونڈيشن)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
________(❤️)_________
ترتیب و پیشکش:- ابو الحسن محمد شعيب خان
________(❤️)_________
ترتیب و پیشکش:- ابو الحسن محمد شعيب خان