(سوال نمبر 2172)
اگر عادت سات دن ہو اور خون دس دن ائے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
ایک اسلامی بہن کی حیض کی عادت 7 دن ہے۔اب انہوں نے ساتویں دن غسل لے لیا مگر دو روزہ رکھنے کے بعد آج پھر خون آیا آج دسواں دن بن رہا ہے تو کیا یہ حیض ہے یا استحاضہ؟
شرعی راہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا
سائلہ: مقسوم بنت عمر حیات شہر اسلام آباد لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
مذکورہ صورت میں دس دن حیض شمار کریں گے بایں طور کہ جس عورت کے حیض کی عام عادت سات دن ہو پھر کسی مہینے اسے آٹھ یا نو دن خون آکر بند ہوجائے تو اب اس کی عادت کے تبدیل ہوجانے کا حکم لگایا جائے گا اور ساتویں، آٹھویں اور نویں دن نظر آنے والا خون بھی حیض ہی شمار ہوگا،
لیکن اگر خون دس دن سے بھی زیادہ آیا تو اس عورت کو اپنی سابقہ عادت کی طرف لوٹایا جائے گا، یعنی سات دن اس کے حیض شمار ہوں گے اور باقی استحاضہ کے، استحاضہ کے دنوں میں روزہ بھی رکھے گی اور نماز بھی پڑھے گی۔
لہذا مذکورہ صورت میں دس دن حیض ہے دونوں روزوں کی بعد رمضان قضاء کریں گے رکھے ہوے دو روزے ضائع ہوگئے ۔
کما فی الفتاوى الهندية
انتقال العادة يكون بمرة عند أبي يوسف، وعليه الفتوى. هكذا في الكافي.
فإن رأت بين طهرين تامين دماً لا على عادتها بالزيادة أو النقصان أو بالتقدم والتأخر أو بهما معاً انتقلت العادة إلى أيام دمها حقيقياً كان الدم أو حكمياً، هذا إذا لم يجاوز العشرة، فإن جاوزها فمعروفتها حيض وما رأت على غيرها استحاضة فلا تنتقل العادة، هكذا في محيط السرخسي
(الفتاوى الهندية (1/ 39)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
دس رات دن سے کچھ بھی زِیادہ خون آیا تو اگر یہ حَیض پہلی مرتبہ اسے آیاہے تو دس دن تک حَیض ہے بعد کا اِستحاضہ اور اگر پہلے اُسے حَیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی تو عادت سے جتنا زِیادہ ہو اِستحاضہ ہے۔ اسے یوں سمجھو کہ اس کو پانچ دن کی عادت تھی اب آیا دس دن تو کل حَیض ہے اور بارہ دن آیا تو پانچ دن حَیض کے باقی سات دن اِستحاضہ کے اور ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن کبھی پانچ دن تو پچھلی بار جتنے دن تھے وہی اب بھی حَیض کے ہیں باقی اِستحاضہ یہ ضروری نہیں کہ مدت میں ہر وقت خون جاری رہے جب ہی حَیض ہو بلکہ اگر بعض بعض وقت بھی آئے جب بھی حَیض ہے۔
(بہار ح 2 ص 375 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اگر عادت سات دن ہو اور خون دس دن ائے تو شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ
ایک اسلامی بہن کی حیض کی عادت 7 دن ہے۔اب انہوں نے ساتویں دن غسل لے لیا مگر دو روزہ رکھنے کے بعد آج پھر خون آیا آج دسواں دن بن رہا ہے تو کیا یہ حیض ہے یا استحاضہ؟
شرعی راہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا
سائلہ: مقسوم بنت عمر حیات شہر اسلام آباد لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
مذکورہ صورت میں دس دن حیض شمار کریں گے بایں طور کہ جس عورت کے حیض کی عام عادت سات دن ہو پھر کسی مہینے اسے آٹھ یا نو دن خون آکر بند ہوجائے تو اب اس کی عادت کے تبدیل ہوجانے کا حکم لگایا جائے گا اور ساتویں، آٹھویں اور نویں دن نظر آنے والا خون بھی حیض ہی شمار ہوگا،
لیکن اگر خون دس دن سے بھی زیادہ آیا تو اس عورت کو اپنی سابقہ عادت کی طرف لوٹایا جائے گا، یعنی سات دن اس کے حیض شمار ہوں گے اور باقی استحاضہ کے، استحاضہ کے دنوں میں روزہ بھی رکھے گی اور نماز بھی پڑھے گی۔
لہذا مذکورہ صورت میں دس دن حیض ہے دونوں روزوں کی بعد رمضان قضاء کریں گے رکھے ہوے دو روزے ضائع ہوگئے ۔
کما فی الفتاوى الهندية
انتقال العادة يكون بمرة عند أبي يوسف، وعليه الفتوى. هكذا في الكافي.
فإن رأت بين طهرين تامين دماً لا على عادتها بالزيادة أو النقصان أو بالتقدم والتأخر أو بهما معاً انتقلت العادة إلى أيام دمها حقيقياً كان الدم أو حكمياً، هذا إذا لم يجاوز العشرة، فإن جاوزها فمعروفتها حيض وما رأت على غيرها استحاضة فلا تنتقل العادة، هكذا في محيط السرخسي
(الفتاوى الهندية (1/ 39)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
دس رات دن سے کچھ بھی زِیادہ خون آیا تو اگر یہ حَیض پہلی مرتبہ اسے آیاہے تو دس دن تک حَیض ہے بعد کا اِستحاضہ اور اگر پہلے اُسے حَیض آچکے ہیں اور عادت دس دن سے کم کی تھی تو عادت سے جتنا زِیادہ ہو اِستحاضہ ہے۔ اسے یوں سمجھو کہ اس کو پانچ دن کی عادت تھی اب آیا دس دن تو کل حَیض ہے اور بارہ دن آیا تو پانچ دن حَیض کے باقی سات دن اِستحاضہ کے اور ایک حالت مقرر نہ تھی بلکہ کبھی چار دن کبھی پانچ دن تو پچھلی بار جتنے دن تھے وہی اب بھی حَیض کے ہیں باقی اِستحاضہ یہ ضروری نہیں کہ مدت میں ہر وقت خون جاری رہے جب ہی حَیض ہو بلکہ اگر بعض بعض وقت بھی آئے جب بھی حَیض ہے۔
(بہار ح 2 ص 375 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و
05 رمضان المبارک 1443 ھِجْرِی
07 اپریل 2022 عِیسَوی
25 چیت 2079 بِکرمی
بروز جمعرات
05 رمضان المبارک 1443 ھِجْرِی
07 اپریل 2022 عِیسَوی
25 چیت 2079 بِکرمی
بروز جمعرات