Type Here to Get Search Results !

شوہر نے غصے میں ایک بار کہا کہ تو ازاد ہے کتنی طلاق واقع ہوگی؟

 (سوال نمبر 2137)
شوہر نے غصے میں ایک بار کہا کہ تو ازاد ہے کتنی طلاق واقع ہوگی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و بر کاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان شرع متین اس مسلے کے متعلق کہ 
 شوہر نے غصے میں ایک بار کہا کہ تو ازاد یے  اپنے میکے چلی جا ، جبکہ نیت نہیں پتہ۔۔ طلاق کی تھی یا نہیں؟
 تو کیا طلاق ہو جاۓ گی ؟ خاک مدینہ شرعی رہنمائی فرما دیں 
سائلہ: أمنہ عطاریہ مدنیہ شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 
مذکورہ صورت میں طلاق بائن واقع ہوئی چونکہ لفظ آزاد سے طلاق بائن واقع ہوگی اور لفظ آزاد کے ساتھ بقیہ الفاظ تاکید کے لئے ہے ۔
فقہائے کرام فرماتے ہیں
الکنايات لايقع الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال
'کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی۔
(الہدایۃ شرح البدایہ، 1۔ 241، المکتبۃ اسلامیۃ)
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا جب اشارہ کنایہ الفاظ بولے جائیں یعنی صریح طلاق کا لفظ نہ بولا جائے تو طلاق دو صورتوں میں واقع ہوتی ہے۔
١/  پہلی صورت یہ ہے کہ جب یہ الفاظ طلاق کی نیت سے بولے جائیں، دوسری صورت یہ ہے کہ جب ماحول ایسا پایا جائے یا ان الفاظ سے کچھ اور مراد نہ لیا جائے مثلا عورت طلاق کا مطالبہ کر رہی ہو۔ اس وقت کہہ دیا جائو تم آزاد ہو، فارغ ہو، تیرا میرا تعلق ختم وغیرہ وغیرہ تو طلاق بائن ہو جاتی ہے، یا پھر صورت حال ایسی ہو کہ اس کنایہ لفظ سے مراد طلاق ہی لی جا سکتی ہو کوئی اور معنی نہ نکلتا ہو۔
لہذا مذکورہ الفاظ سے طلاق بائن واقع ہو گئی ہے، جس سے نکاح ختم ہو چکا ہے، عدت کے بعد عورت آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر دونوں رضامند ہوں تو عدت کے اندر بھی اور عدت کے بعد بھی دوبارہ نکاح کر کے بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں۔ لیکن یاد رہے دونوں کے دوبارہ نکاح کرنے کی صورت میں شوہر  کے پاس زندگی میں دو بار طلاق دینے کا حق رہ جائے گا کیونکہ ابھی ایک  طلاق واقع ہو چکی ہے۔ جب بھی آپ نے دوبار طلاق دے دی تو تین پوری ہو جائیں گی۔ پھر رجوع کی گنجائش نہیں رہے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية.
 (در مع الرد،كتاب الطلاق،3/ 252،ط:سعيد)
مصنف بہار شریعت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
طلاق بائن جدا کرنے والی
 طلاق وہ طلاق جس کی وجہ سے عورت، مردکے نکاح سے فوراًنکل جاتی ہے۔ اگر طلاق دیتے وقت مکمل جدائی کی نیت ہو تو ایسی طلاق بائن کہلاتی ہے۔ اسی طرح اگر صریح لفظ طلاق کی بجائے کنایہ کی صورت میں کہا ہے کہ جا اپنے گھر چلی جا، میرا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں یا تو مجھ پر حرام ہے 
تو آزاد ہے یہ الفاظ کنایہ میں سے ہے ۔
کنایہ کے اِن الفاظ سے ایک بائن طلاق ہوگی اگر بہ نیت طلاق بولے گئے اگرچہ بائن کی نیت نہ ہو اور دو۲ کی نیت کی جب بھی وہی ایک واقع ہوگی مگر جبکہ زوجہ باندی ہو تو دو۲کی نیت صحیح ہے اور تین کی نیت کی توتین واقع ہوگی
( بہار ح 8ص 132 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و 
30/03/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area