Type Here to Get Search Results !

شب برات میں کن لوگوں کا توبہ قبول نہیں ہوتا؟

 (سوال نمبر 2087)
شب برات میں کن لوگوں کا توبہ قبول نہیں ہوتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 شب برات میں کن لوگوں کا توبہ قبول نہیں ہوتا ۔ اسکی تعداد بتا دیا جائے اورجس حدیث سے ماخوذ ہے وہ حدیث بھی ذکر کردیں۔بحوالہ
سائل:-سمیع الدین برہان القادری نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين 
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالى عز وجل 

جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں👇
 ١/ شرک، 
٢/ زنا 
٣/ قتل ناحق، 
٤/ کینہ 
٥/ اور بغض،
٦/ والدین کی نافرانی،
٧/ قطع رحم، 
٨/ عادۃ شراب پینا، 
٩/ چغلی کھانا
١٠/ اور تصویریں بنانا، 
اب احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں 
١/ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ سبحانہ، شعبان کی شب کو متوجہ ہوتا ہے اور تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے، ماسوا مشرک اور کینہ پرور کے۔ 
(مسند ابن ماجہ رقم الحدیث ١٣٩٠، شعب الایمان ج ٢ ص ٢١، المعجم الکبیر ج ٢٠ ص ١٠٩، حلیۃ الاولیاء ج ٥ ص ١٩١، صحیح ابن حبان ج ٧ ص ٤٧٠، اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے)
٢/ حضرت ابو ثعلبہ الخشنی رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب نصف شعبان کی شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، مومنوں کو بخش دیتا ہے اور کافروں کو مہلت دیتا ہے اور کینہ رکھنے والوں کو ان کے کینہ کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے کینہ کو ترک کردیں۔ 
(شعب الایمان ج ٢ ص ٢١، مجمع الزوائدج ٨ ص ٦٥، جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٧٣٤، الترغیب للمنذری ج ٢ ص ١١٩)
٣/ حضرت عثمان بن ابی العاص رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب نصف شعبان کی شب ہوتی ہے تو ایک منادی ندا کرتا ہے کہ کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے تو میں اس کو بخش دوں، کوئی سائل ہے تو میں اس کو عطا کروں، پس جو شخص بھی سوال کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے ماسوافاحشہ رنڈی کے یا مشرک کے۔ 
(شعب الایمان ج ٢ ص ٢١، جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٧٣٦، کنز العمال رقم الحدیث : ٣٥١٧٨)
٤/ حضرت انس رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عائشہ رضي الله عنها نے کہ نصف شعبان کی شب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرے میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آکر میرے بستر میں داخل ہوگئے، رات کے کسی وقت جب میں بیدار ہوئی تو میں نے آپ کو بستر میں نہیں پایا، پھر میں اٹھ کر آپ کی ازواج کے حجروں میں ڈھونڈتی پھری، آپ مجھے وہاں نہیں ملے، میں نے سوچا کہ شاید آپ اپنی باندی ماریہ قبطیہ کے پاس چلے گئے ہیں، میں پھر نکلی اور مسجد سے گزری، پھر میرا پیر آپ کے پیروں سے ٹکرایا، اس وقت آپ سجدہ میں یہ دعا کررہے تھے : میرا جسم اور ذہن تیرے لیے سجدہ ریز ہے اور میرا دل تجھ پر ایمان لاچکا ہے اور یہ میرا وہ ہاتھ ہے جس سے میں نے اپنے اوپر زیادتی کی ہے، سو اے عظیم ! عظیم گناہ کو تو عظیم رب ہی معاف کرسکتا ہے، پس تو میرے عظیم گناہ کو معاف فرمادے۔ حضرت عائشہ نے کہا : پھر آپ اپنا سر اٹھا کر یہ فرما رہے تھے : اے اللہ ! تو مجھے ایسا دل عطا فرما جو پاکباز ہو، بُرائی سے بَری ہو، نہ کافر ہو نہ شقی ہو، پھر آپ دوبارہ سجدہ میں گئے اور یہ دعا کی میں تجھ سے اس طرح دعا کرتا ہوں جس طرح میرے بھائی دائود نے دعا کی تھی : اے میرے مالک ! میں اپنا چہرہ خاک آلود کرتا ہوں اور تمام چہروں کا حق یہی ہے کہ وہ اس کے چہرے کے سامنے خاک آلودہ ہوں، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے کہا : آپ پر میرے باپ اور ماں فدا ہوں، آپ کس وادی میں ہیں ؟ اور میں کس وادی میں تھی ؟ آپ نے فرمایا : اے حمیراء ! کیا تم جانتی ہو کہ یہ رات نصف شعبان کی رات ہے اور بیشک اس رات میں اللہ کے لیے قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگ دوزخ سے آزاد ہونے والے ہیں، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تخصیص کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلہ کی بکریوں کے بال ان سے زیادہ نہیں ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا : چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی *عادی شرابی، ماں باپ سے قطع تعلق کرنے والا، زنا پر اصرار کرنے والا، رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا، تصویر بنانے والا اور چغل خور
(فضائل الاوقات رقم الحدیث : ٢٧، الدرالمنثورج ٧ ص ٣٥٠)
 کینہ اور بغض کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا
جو گناہ شب برأت میں مغفرت سے مانع ہیں ان میں ایک گناہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے کینہ اور بعض رکھنا ہے، یعنی ایک مسلمان محض اپنی نفسانی خواہش کی بناء پر یا نفسانی عداوت کی بناء پر دوسرے مسلمان سے کینہ اور بغض رکھے۔ اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں 
١/ حضرت ابوھریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ہر اس بندہ کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، ماسوا اس شخص کے جو اپنے بھائی کے خلاف اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہو، پس کہا جائے گا : ان دونوں کو ٹھہرائو حتیٰ کہ یہ ایک دوسرے سے صلح کرلیں، یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا۔ 
(صحیح مسلم رقم الحدیث، ٦٥٦٥، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٩١٦، مسند احمد ج ٢ ص ٣٨٩)
اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کی یہ وصیت بیان کی ہے کہ وہ یہ دعا کرتے ہیں
ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا ربنا انک رء وف رحیم۔ (الحشر :10)
اے ہمارے رب ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے خلاف کینہ نہ رکھنا، اے ہمارے رب ! بیشک تو بہت شفیق اور مہربان ہے۔ 
٢/ حضرت انس رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے تین دن یہ فرمایا : اب تمہارے پاس اہل جنت میں سے ایک شخص آئے گا، پھر ایک شخص آیا، حضرت عبداللہ بن عمر و رضي الله عنه نے اس کو مہمان بنایا، سو وہ تین دن ان کے پاس رہا، حضرت عبداللہ بن عمرو اس کے عمل کو دیکھتے رہے، انہوں نے اپنے گھر میں اس کا کوئی خاص بڑا عمل نہیں دیکھا، انہوں نے اس شخص سے پوچھا : اس نے کہا : واقعہ اسی طرح ہے، مگر میں اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرے دل میں کسی مسلمان کے خلاف بغض یا کینہ نہیں ہوتا، 
حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا اسی وجہ سے یہ شخص اس مرتبہ کو پہنچا ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٦٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٥٣٥)
٣/ حضرت عبدالہل بن عمرو بن العاص رضي الله عنه بیان کرتے ہیں : عرض کیا گیا : یارسول اللہ ! لوگوں میں کون سب سے زیادہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہر وہ شخص جس کا دل محموم ہو اور اس کی زبان صادق ہو، صحابہ نے کہا : یارسول اللہ ! زبان صادق ہو اس کا معنی تو ہم جانتے ہیں اور دل کے محموم ہونے کا کیا معنی ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ دل ہے جو بالکل صاف اور اجلا ہو، اس میں کوئی گناہ نہ ہو، کوئی سرکشی نہ ہو، کینہ نہ ہو اور حسد نہ ہو۔ 
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢١٦، جامع المسانید والسنن مسند عبداللہ بن عمروبن العاص رقم الحدیث : ٧٧٠)
بعض اسلاف نے یہ کہا ہے کہ افضل عمل یہ ہے کہ سینہ کو صاف اور سالم رکھا جائے، نفس میں سخاوت ہو اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی کی جائے۔ ان گناہوں سے بچا جائے جو بندہ کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے اس رات میں محروم رکھتے ہیں جس رات میں اس کی رحمت عام ہوتی ہے اور وہ بکثرت گناہوں کو بخش دیتا ہے۔
 *والدین کی نافرمانی کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا* 
شب برأت میں مسلمان جن گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت سے محروم رہتے ہیں، ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے۔ ہم اس سے پہلے قرآن مجید سے والدین کی اطاعت کی اہمیت میں آیات پیش کریں گے اور اس کے بعد اس سلسلہ میں احادیث پیش کریں گے 
١/ ووضینا الانسان بوالیدہ حملتہ امہ وھنا علی وھن وفضلہ فی عامین ان اشکرلی ولوالدیک الی المصیر۔ (لقمان :14)
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ (نیک سلوک کی) وصیت کی، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اس کو حمل میں رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے، (ہم نے یہ وصیت کی کہ) میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو، تم سب نے میری ہی طرف لوٹنا ہے۔ 
٢/ ووصینا الانسان بوالدیہ احسنا حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا۔ (الاحقاف : 15)
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے دکھ جھیل کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دکھ برداشت کرکے اس کو جنا۔
واذاخذنا میثاق بنی اسرائیل لا تعبدون الا اللہ وبالوالدین احسانا۔ (البقرہ :83)
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا وعدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔
٣/ حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا، میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، میں نے پوچھا : پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ حضرت ابن مسعود نے کہا : آپ نے مجھے یہ احکام بیان فرمائے، اگر میں اور پوچھتا تو آپ اور بتا دیتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٧٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٦١٠٠، جامع المسانید والسنن مسندابن مسعود رقم الحدیث : ٦٣٤)
قطع رحم کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا
جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ہے، قطع رحم کی مذمت میں یہ آیت ہے :
ویقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل۔ (البقرہ :27)
اور اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ ان کو کاٹ دیتے ہیں۔
قطع رحم کی مذمت میں حسب ذیل احادیث ہیں 
حضرت جبیر بن معطم رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 
قطع رحم کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ 
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٩، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٢٣٨، مسند احمد ج ٨٠، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٨٤)
 جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں 
 ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ دائماً شراب نوشی کرنا ہے، دائماً شراب نوشی پر حسب ذیل احادیث میں وعید ہے 
حضرت ابن عمر رضي الله عنه بیان کرتے ہیں : ہر نشہ آور چیز خمر (شراب) ہے اور ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے اور جو دنیا میں شراب نوشی کرتے ہوئے مرگیا اور اس نے دائماً شراب نوشی سے توبہ نہیں کی وہ آخرت میں شراب نہیں پی سکے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥٧٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٠٣، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ١٤٦٢ )
 چغلی کھانے کی وجہ سے شب برأت میں دعا کی قبولیت سے محروم ہونا
جن گناہوں کی وجہ سے مسلمان شب برأت میں دعا کے قبول ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ان گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ چغلی کھانا ہے۔
غیبت اور چغلی میں فرق ہے، کسی مسلمان کو رسوا کرنے کے لیے اس کے پس پشت اس کا عیب بیان کرنا غیبت ہے اور دو مسلمانوں میں فساد ڈالنے یا ان کو لڑانے کے لیے ایک کی بات دوسرے کہ پہنچانا چغلی ہے۔ چغلی پر وعید ان آیتوں میں ہے 
ویل لکل مھزۃ لمزۃ۔ (الہمزۃ :1)
 ہر اس شخص کے لیے ہلاکت ہو جو عیب جو اور چغل خور ہو۔ ھماز مشاء بنمہم۔ (القلم :11)
کینہ، عیب جو، چغل خور۔ حضرت اسماء بنت یزید رضي الله عنها بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تم کو یہ نہ بتائوں کہ تم میں سب سے اچھے کون لوگ ہیں ؟ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں یارسول اللہ ! آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جب یہ دکھائی دیتے ہیں تو خدا یاد آجاتا ہے، پھر فرمایا : کیا میں تم کو یہ نہ بتائوں کہ تم میں سب سے برے لوگ کون ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو چغلی کھاتے ہیں اور دوستوں میں فساد ڈالتے ہیں اور جو لوگ بےقصور ان کے خلاف غم وغصہ پیدا کرتے ہیں۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٤٥٩ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤٥ ص ٥٧٥، رقم الحدیث :
 ٢٧٥٩٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١٩، المعجم الکبیر ج ٢٤ ص ٤٢٣، شعب الایمان رقم الحدیث : ١١١٠٨ بحوالہ تفسیر تبیان تحت آیت الدخان)

سو شب برأت کی عبادت گزاروں اور توبہ کرنے والوں کو چاہیے کہ اس رات بار بار اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے رہیں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے رہیں، اشک ندامت بہاتے رہیں، یہ وہی رات ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری رات سجدہ میں گزارتے تھے، اس رات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع کے قبرستان جاتے تھے اور مردوں کے لیے مغفرت طلب کرتے تھے اور امت کی خشش کے لیے دعائیں کرتے تھے، سو اس رات ہمیں بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے۔ اپنے لیے بھی، اپنے والدین کے لیے بھی، دیگر قرابت داروں کے لیے بھی اور عامۃ المسلمین کے لیے بھی اور اس شب میں قبرستان جاکر اپنے اعزہ کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کرنی چاہئیں
اللہ سبحانہ و تعالی پر سب کو اسلام پر استقامت عطا فرمائے بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم  
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
18/3/2022

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area