مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں قسط نمبر 11
________(❤️)_________
قسط یازدہم
حضور مفتی اعظم بہار کی قائلین جواز کی دلیل پر شاندار تحقیق اور رد بلیغ
ترسیل:- محمد جنید عالم شارق مصباحی بیتاہی امام و خطیب کوئيلی سیتا مڑھی بہار
مسجد کے اندر اذان دینا خلاف اولی یا مکروہ تنزیہی ہے ؛ کہنے والے کی تائید میں دوسری دلیل اس عبارت سے دی گئی ہے اس دلیل کا رد بلیغ ملاحظہ فرمائیں
مسجد میں اذان دینے کے بارے میں کتاب الاصل (مبسوط) میں امام محمد کی تصریح حسبِ ذیل ہے:
”قلت ارأیت الموٴذّن اذا لم یکن لہ منارة والمسجد صغیر این احب الیک ان یوٴذّن؟ قال: احب ذالک الی ان یوٴذّن خارجًا من المسجد واذا اذّن فی المسجد اجزاہ۔“
حضور مفتی اعظم بہار کی قائلین جواز کی دلیل پر شاندار تحقیق اور رد بلیغ
ترسیل:- محمد جنید عالم شارق مصباحی بیتاہی امام و خطیب کوئيلی سیتا مڑھی بہار
مسجد کے اندر اذان دینا خلاف اولی یا مکروہ تنزیہی ہے ؛ کہنے والے کی تائید میں دوسری دلیل اس عبارت سے دی گئی ہے اس دلیل کا رد بلیغ ملاحظہ فرمائیں
مسجد میں اذان دینے کے بارے میں کتاب الاصل (مبسوط) میں امام محمد کی تصریح حسبِ ذیل ہے:
”قلت ارأیت الموٴذّن اذا لم یکن لہ منارة والمسجد صغیر این احب الیک ان یوٴذّن؟ قال: احب ذالک الی ان یوٴذّن خارجًا من المسجد واذا اذّن فی المسجد اجزاہ۔“
(کتاب الاصل ج:۱ ص:۱۴۱)
ترجمہ:…”میں نے کہا: یہ فرمائیے کہ جب موٴذّن کے لئے منارہ نہ ہو اور مسجد چھوٹی ہو تو آپ کے نزدیک کس جگہ اذان دینا بہتر ہوگا؟ کیا وہ مسجد سے باہر نکل کر اذان دے تاکہ لوگ سنیں یا مسجد میں اذان دے؟ فرمایا: میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ مسجد سے باہر اذان کہے، اور اگر مسجد میں اذان دے دی جائے تب بھی اس کو کفایت کرے گی۔“
حضرت امام محمد کی اس تصریح سے ثابت ہوا کہ مسجد میں اذان دینا بہتر نہیں، لیکن اگر دے دی جائے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
الجواب ۔ قائلین جواز کی یہ دوسری دلیل ہے اور یہ دلیل بھی ان کے موقف کی تائید میں مفید نہیں ہے بلکہ اس دلیل سے یہ ثابت ہورہی ہے کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے
علمائے احناف کے یہاں کتاب الاصل مستند کتاب ہے اس جزیہ سے جو استدلال کیا گیا ہے وہ اصول فقہ کے خلاف ہے یہاں لفظ
احب ذلک۔ واجب کے معنی میں ہے نہ کہ" نامناسب "یا" بہتر نہیں" کے معنی میں. فقہائے احناف فرماتے ہیں کہ فقہ میں جہاں بھی احب ذلک۔۔آتا ہے اس سے مراد واجب ہوتا ہے اور ترک واجب مکروہ تحریمی ہے اس عبارت میں ہے کہ
قال احب ذالک الی ان یوذن خارجا من المسجد اس کا ترجمہ اس طرح ہوگاکہ امام محمد فرماتے ہیں کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اذان خارج مسجد میں دی جائے چونکہ احب کا معنی بھی پسند کرنا ہے لیکن فقہ میں احب ذالک کا استعمال واجب پر ہوتا ہے اب اس عبارت کا ترجمہ اس طرح ہوگا کہ
قال احب ذالک الی ان یوذن خارجا من المسجد۔یعنی امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اذان خارج مسجد دی جائے یعنی میرے نزدیک خارج مسجد اذان دینا واجب ہے کیونکہ فقہ میں
احب ذالک کا اطلاق واجب پر ہوتا ہے ۔اس سے یہ استدلال کرنا کہ خارج مسجد اذان دینا صرف بہتر ہے صحیح استدلال نہیں ہے ۔ہمارے علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی واجب کے مقابل بولا جاتا ہے ۔
ہمارے موقف کے دلائل سماعت فرمائیں ۔
علمائے احناف کے نزدیک احب کا اطلاق واجب پر ہوتا ہے
۔اصول فقہ ہے کہ اکرہ , برائے تحریم اور احب برائے وجوب استعمال ہوتا ہے ۔احب ذالک کا استعمال برائے " مناسب" نہیں ہوتا ہے بلکہ برائے "وجوب" استعمال ہوتا ہے۔
قال ابوحنیفہ رحمہ اللہ
حضور سرکار مفتی اعظم قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
حضرت محترم جناب مولانا شاہ سلامت اللہ صاحب اعظمی رام پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ
واضح البراہین علی عدم جواز الصلاۃ خلف غیر المقلدینمیں ناقل :
قال:- ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ : اکرہ ان یکون الامام صاحب ھوی او بدعۃ او فاسقا واکرہ لرجل ان یصلی خلفھم یعنی امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :کہ فاسق ، بدعتی اور نفس پرست کی امامت مکروہ خیال کرتا ہوں ۔اور اسی طرح اس شخص سے بھی جو ان کے پیچھے نماز پڑھے ۔نفرت کرتا ہوں ۔(فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 50)
ترجمہ:…”میں نے کہا: یہ فرمائیے کہ جب موٴذّن کے لئے منارہ نہ ہو اور مسجد چھوٹی ہو تو آپ کے نزدیک کس جگہ اذان دینا بہتر ہوگا؟ کیا وہ مسجد سے باہر نکل کر اذان دے تاکہ لوگ سنیں یا مسجد میں اذان دے؟ فرمایا: میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ مسجد سے باہر اذان کہے، اور اگر مسجد میں اذان دے دی جائے تب بھی اس کو کفایت کرے گی۔“
حضرت امام محمد کی اس تصریح سے ثابت ہوا کہ مسجد میں اذان دینا بہتر نہیں، لیکن اگر دے دی جائے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
الجواب ۔ قائلین جواز کی یہ دوسری دلیل ہے اور یہ دلیل بھی ان کے موقف کی تائید میں مفید نہیں ہے بلکہ اس دلیل سے یہ ثابت ہورہی ہے کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے
علمائے احناف کے یہاں کتاب الاصل مستند کتاب ہے اس جزیہ سے جو استدلال کیا گیا ہے وہ اصول فقہ کے خلاف ہے یہاں لفظ
احب ذلک۔ واجب کے معنی میں ہے نہ کہ" نامناسب "یا" بہتر نہیں" کے معنی میں. فقہائے احناف فرماتے ہیں کہ فقہ میں جہاں بھی احب ذلک۔۔آتا ہے اس سے مراد واجب ہوتا ہے اور ترک واجب مکروہ تحریمی ہے اس عبارت میں ہے کہ
قال احب ذالک الی ان یوذن خارجا من المسجد اس کا ترجمہ اس طرح ہوگاکہ امام محمد فرماتے ہیں کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اذان خارج مسجد میں دی جائے چونکہ احب کا معنی بھی پسند کرنا ہے لیکن فقہ میں احب ذالک کا استعمال واجب پر ہوتا ہے اب اس عبارت کا ترجمہ اس طرح ہوگا کہ
قال احب ذالک الی ان یوذن خارجا من المسجد۔یعنی امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اذان خارج مسجد دی جائے یعنی میرے نزدیک خارج مسجد اذان دینا واجب ہے کیونکہ فقہ میں
احب ذالک کا اطلاق واجب پر ہوتا ہے ۔اس سے یہ استدلال کرنا کہ خارج مسجد اذان دینا صرف بہتر ہے صحیح استدلال نہیں ہے ۔ہمارے علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی واجب کے مقابل بولا جاتا ہے ۔
ہمارے موقف کے دلائل سماعت فرمائیں ۔
علمائے احناف کے نزدیک احب کا اطلاق واجب پر ہوتا ہے
۔اصول فقہ ہے کہ اکرہ , برائے تحریم اور احب برائے وجوب استعمال ہوتا ہے ۔احب ذالک کا استعمال برائے " مناسب" نہیں ہوتا ہے بلکہ برائے "وجوب" استعمال ہوتا ہے۔
قال ابوحنیفہ رحمہ اللہ
حضور سرکار مفتی اعظم قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
حضرت محترم جناب مولانا شاہ سلامت اللہ صاحب اعظمی رام پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ
واضح البراہین علی عدم جواز الصلاۃ خلف غیر المقلدینمیں ناقل :
قال:- ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ : اکرہ ان یکون الامام صاحب ھوی او بدعۃ او فاسقا واکرہ لرجل ان یصلی خلفھم یعنی امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :کہ فاسق ، بدعتی اور نفس پرست کی امامت مکروہ خیال کرتا ہوں ۔اور اسی طرح اس شخص سے بھی جو ان کے پیچھے نماز پڑھے ۔نفرت کرتا ہوں ۔(فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 50)
اس عبارت میں" اکرہ" آیا ہے جس سے مراد" مکروہ تحریمی" ہے کیونکہ تمام کتب فقہ میں فاسق اور فاسق بدعتی کی امامت مکروہ تحریمی ہوتی ہے اسی لئے علمائے احناف کے نزدیک مطلقا اکرہ مکروہ تحریمی پر اطلاق ہوتا ہے ۔
اس کے بعد سرکار سیدی مرشد برحق امام الفقہاء والمشائخ تاجدار اہل سنت شہزادہ سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت حضور مفتی اعظم ہند بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
*فقیر غفر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ متقدمین اکرہ برائے کراہت تحریم اور احب برائے وجوب استعمال فرمایا کرتے۔ (ردالمحتار ج 2)
یقول المتقدمین اکرہ :ای : یحرم :عندی واحب ذلک ای: یجب عندی یعنی متقدمین جب اکرہ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ میرے نزدیک حرام اور اسی طرح جب کہیں احب ذلک مجھے یہ پسند ہے یعنی میرے نزدیک یہ واجب ہے
بلکہ خود مجتہد کے لئے فرمایا : کہ مجتہد کبھی حرام کے لئے اکرہ کا استعمال کرتا ہے اسی میں لفظ قد یستعملہ المجتھد فی الحرام
بلکہ خود امام صاحب سے ایسا منقول ۔امام ابو یوسف رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا امام اعظم سے وقت خطبہ ذکر و درود کا حکم پوچھا ۔امام نے ارشاد فرمایا:میرے نزدیک احب یہ ہے کہ سنیں ۔اور خاموش رہیں
علامہ عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ ج 2۔میں فرماتے ہیں
ذکرہ الشیخ الوالد رحمہ اللہ تعالیٰ فی شرحہ علی شرح الدرر قال : سأل ابو یوسف أبا حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ اذا ذکر الامام ھل یذکرون و یصلون علی النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فقال :
احب الی ان یستمعوا و ینصتوا ۔ولم یقل لا یذکرون ولا یصلون ۔فقد احسن فی العبارۃ واحتشم من ان یقول : لایذکرون ولا یصلون علی النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یعنی والد گرامی نے اپنی کتاب شرح الدرر میں ذکر کیا کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا جب امام ذکر کرے کیا مقتدی بھی ذکر کریں گے اور سرکار پر درود بھیجیں گے تو آپ نے فرمایا:
مجھے پسند ہے کہ لوگ خاموش رہیں اور غور سے سنیں ۔یہ نہ کہا کہ وہ ذکر نہ کریں گے اور ناہی درود بھیجیں گے پس عبارت کو بہتر طریقہ سے پیش کیا ۔اور یہ کہنے سے پرہیز کیا کہ ذکر نہ کریں اور سرکار پر درود نہ بھجیں
اور ظاہر ہے کہ استماع و انصات فرض ہے ۔اور اس وقت ہر وہ امر جو منافی استماع و انصات ہو ناجائز ہے۔تو امام صاحب نے احب فرمایا ۔اور مراد امام کی نہی ہے۔کہ استماع و انصات کا منافی مکروہ بکراہت تحریم ہے ۔بلکہ امام کے اس ارشاد کی تفسیر کے لئے خود امام ہی سے جو مروی ہوا ۔ (فتاوی مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 51.52 بحوالہ ردالمحتار ۔ج۔3ص 245 اور الحدیقۃ الندیۃ جلد اول ص 343)
ردالمحتار ,میں ہے
وقال:
فان المتقدمین کثیرا مايطلقون اکرہ ھذا فی التحریم او کراھۃ التحریم واحب فی مقابلہ.یعنی کہا :کیونکہ متقدمین اکثر اکرہ کا لفظ حرمت یا مکروہ تحریمی میں ذکر کرتے ہیں اور احب کا لفظ اس کے مقابلہ میں ذکر کرتے (ردالمحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار ۔جلد چہارم ۔کتاب النکاح فصل المحرمات ص 143)
ردالمحتار کی اس عبارت سے صاف واضح طور پر یہ معلوم ہوا کہ لفظ..احب مکروہ تحریمی کے مقابل واجب کے لئے آتا ہے ۔حضور سابق امین شریعت ادارہ شرعیہ پٹنہ مفتی اعظم ہالینڈ حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الواجد صاحب رحمہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
مکروہ تحریمی وہ ہے جس کی ممانعت دلائل شرعیہ سے بطور دلیل ظنی ثابت ہو ۔یہ واجب کے مقابل ہے (فتاوی یورپ ص 169) دیکھا مکروہ تحریمی واجب کے مقابل آتا ہے اور ردالمحتار میں ہے
اکرہ ھذا فی التحریم او کراھۃ التحریم واحب فی مقابلہ یعنی اکرہ کا لفظ حرمت یا مکروہ تحریمی میں ذکر ہوتا ہے اور احب کالفظ اس کے مقابلہ میں ذکر کیا جاتا ہے ردالمحتار کی اس عبارت میں احب کو تحریم کے مقابلہ میں لایا گیا ہے یعنی واجب ۔لفظ مقابل-
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اقول (امام اہل سنت)
ولا بدمنہ فان کل مرتبۃ للطلب فی جانب الفعل فان بازائھا مرتبۃ فی جانب الترک فالتحریم فی مقابلۃ الفرض فی الرتبۃ و کراھۃ التحریم فی رتبۃ الواجب۔والتنزیہ فی رتبۃ المندب.یعنی (میں کہتا ہوں یعنی سرکار اعلی حضرت )
یہ ضروری ہے کیونکہ فعل میں طلب کا جو مرتبہ ہے اس کے مقابلہ میں ترک کا مرتبہ ہے ۔تحریم کا رتبہ بمقابلہ فرض اور مکروہ تحریمی کا بمقابلہ واجب اور مکروہ تنزیہی کا بمقابلہ مندوب (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 606)
اسی طرح کتاب الاصل کی عبارت میں احب ذالک ہے اس سے مراد واجب ہے ۔یعنی امام محمد اذان خارج مسجد دینے کو واجب سمجھتے ہیں اس کے مقابل اذان اندرون مسجد دینا مکروہ تحریمی ہے اور یہ ترک واجب کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہوگی ۔
قائلین جواز کہ داخل مسجد اذان دینا خلاف اولی یا مکروہ تنزیہی یا خلاف مستحب ان سب اقوال کا کتاب الاصل کی عبارت سے رد بلیغ ہوگیا قائلین جواز کی خود کی دلیل ان کے قول کے خلاف ثابت ہُوئی اور ہمارے امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اندرون مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے۔
حضور سرکار سیدی مرشد برحق مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔
خارج مسجد اذان ہونا حدیث سے ثابت ۔داخل مسجد اذان کی کراہت و ممانعت فقہائے کرام کے ارشادات سے واضح۔ (فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 199)
اور ہمارے علمائے احناف کے نزدیک مطلقا مکروہ تحریمی ہے اور علمائے شافعیہ کے نزدیک مطلقا مکروہ تنزیہی ہے جیسا کہ
علامہ عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں کہالکراہۃ عند الشافعیۃ اذا اطلقت تنصرف الی التنزیھيۃ لاالتحرمییۃ بخلاف مذھبنا یعنی شوافع کے نزدیک مطلقا کراہت کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے نہ کہ تحریمی پر بخلاف ہمارے مذہب کے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 486)
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ کتاب الاصل کی عبارت سے داخل مسجد میں اذان دینا مکروہ تحریمی ہے لہزا یہ دلیل بھی قائلین جواز کے لئے مفید ثابت نہ ہوئی اور جو لوگ کہتے ہیں کہ خارج مسجد اذان دینا مکروہ تنزیہی تو شافعیہ کے قول پر عمل کررہے ہیں نہ کہ احناف کے قول پر جیسا کے اوپر کی عبارت سے واضح ہوا
اہل سنت وجماعت کے ماننے والے سنی مسلمانو ! دوسرے لفظ میں آج کل امتیازی نام مسلک اعلی حضرت کے ماننے والے سنی مسلمانو!
بحمدہ سبحانہ وتعالی اس فقیر قادری ثناءاللہ خان نے بخوبی اس قسط میں قائلین جواز کے قول کا رد بلیغ کردیا لہذا اس قیمتی تحقیق انیق کو آپ حضرات محفوظ کرلیں شاید دوسری جگہ نہ مل سکیں
واللہ ورسولہ اعلم باالصواب
اس کے بعد سرکار سیدی مرشد برحق امام الفقہاء والمشائخ تاجدار اہل سنت شہزادہ سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت حضور مفتی اعظم ہند بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
*فقیر غفر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ متقدمین اکرہ برائے کراہت تحریم اور احب برائے وجوب استعمال فرمایا کرتے۔ (ردالمحتار ج 2)
یقول المتقدمین اکرہ :ای : یحرم :عندی واحب ذلک ای: یجب عندی یعنی متقدمین جب اکرہ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ میرے نزدیک حرام اور اسی طرح جب کہیں احب ذلک مجھے یہ پسند ہے یعنی میرے نزدیک یہ واجب ہے
بلکہ خود مجتہد کے لئے فرمایا : کہ مجتہد کبھی حرام کے لئے اکرہ کا استعمال کرتا ہے اسی میں لفظ قد یستعملہ المجتھد فی الحرام
بلکہ خود امام صاحب سے ایسا منقول ۔امام ابو یوسف رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا امام اعظم سے وقت خطبہ ذکر و درود کا حکم پوچھا ۔امام نے ارشاد فرمایا:میرے نزدیک احب یہ ہے کہ سنیں ۔اور خاموش رہیں
علامہ عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ ج 2۔میں فرماتے ہیں
ذکرہ الشیخ الوالد رحمہ اللہ تعالیٰ فی شرحہ علی شرح الدرر قال : سأل ابو یوسف أبا حنیفۃ رحمہ اللہ تعالیٰ اذا ذکر الامام ھل یذکرون و یصلون علی النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فقال :
احب الی ان یستمعوا و ینصتوا ۔ولم یقل لا یذکرون ولا یصلون ۔فقد احسن فی العبارۃ واحتشم من ان یقول : لایذکرون ولا یصلون علی النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یعنی والد گرامی نے اپنی کتاب شرح الدرر میں ذکر کیا کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا جب امام ذکر کرے کیا مقتدی بھی ذکر کریں گے اور سرکار پر درود بھیجیں گے تو آپ نے فرمایا:
مجھے پسند ہے کہ لوگ خاموش رہیں اور غور سے سنیں ۔یہ نہ کہا کہ وہ ذکر نہ کریں گے اور ناہی درود بھیجیں گے پس عبارت کو بہتر طریقہ سے پیش کیا ۔اور یہ کہنے سے پرہیز کیا کہ ذکر نہ کریں اور سرکار پر درود نہ بھجیں
اور ظاہر ہے کہ استماع و انصات فرض ہے ۔اور اس وقت ہر وہ امر جو منافی استماع و انصات ہو ناجائز ہے۔تو امام صاحب نے احب فرمایا ۔اور مراد امام کی نہی ہے۔کہ استماع و انصات کا منافی مکروہ بکراہت تحریم ہے ۔بلکہ امام کے اس ارشاد کی تفسیر کے لئے خود امام ہی سے جو مروی ہوا ۔ (فتاوی مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 51.52 بحوالہ ردالمحتار ۔ج۔3ص 245 اور الحدیقۃ الندیۃ جلد اول ص 343)
ردالمحتار ,میں ہے
وقال:
فان المتقدمین کثیرا مايطلقون اکرہ ھذا فی التحریم او کراھۃ التحریم واحب فی مقابلہ.یعنی کہا :کیونکہ متقدمین اکثر اکرہ کا لفظ حرمت یا مکروہ تحریمی میں ذکر کرتے ہیں اور احب کا لفظ اس کے مقابلہ میں ذکر کرتے (ردالمحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار ۔جلد چہارم ۔کتاب النکاح فصل المحرمات ص 143)
ردالمحتار کی اس عبارت سے صاف واضح طور پر یہ معلوم ہوا کہ لفظ..احب مکروہ تحریمی کے مقابل واجب کے لئے آتا ہے ۔حضور سابق امین شریعت ادارہ شرعیہ پٹنہ مفتی اعظم ہالینڈ حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الواجد صاحب رحمہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
مکروہ تحریمی وہ ہے جس کی ممانعت دلائل شرعیہ سے بطور دلیل ظنی ثابت ہو ۔یہ واجب کے مقابل ہے (فتاوی یورپ ص 169) دیکھا مکروہ تحریمی واجب کے مقابل آتا ہے اور ردالمحتار میں ہے
اکرہ ھذا فی التحریم او کراھۃ التحریم واحب فی مقابلہ یعنی اکرہ کا لفظ حرمت یا مکروہ تحریمی میں ذکر ہوتا ہے اور احب کالفظ اس کے مقابلہ میں ذکر کیا جاتا ہے ردالمحتار کی اس عبارت میں احب کو تحریم کے مقابلہ میں لایا گیا ہے یعنی واجب ۔لفظ مقابل-
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اقول (امام اہل سنت)
ولا بدمنہ فان کل مرتبۃ للطلب فی جانب الفعل فان بازائھا مرتبۃ فی جانب الترک فالتحریم فی مقابلۃ الفرض فی الرتبۃ و کراھۃ التحریم فی رتبۃ الواجب۔والتنزیہ فی رتبۃ المندب.یعنی (میں کہتا ہوں یعنی سرکار اعلی حضرت )
یہ ضروری ہے کیونکہ فعل میں طلب کا جو مرتبہ ہے اس کے مقابلہ میں ترک کا مرتبہ ہے ۔تحریم کا رتبہ بمقابلہ فرض اور مکروہ تحریمی کا بمقابلہ واجب اور مکروہ تنزیہی کا بمقابلہ مندوب (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 23 ص 606)
اسی طرح کتاب الاصل کی عبارت میں احب ذالک ہے اس سے مراد واجب ہے ۔یعنی امام محمد اذان خارج مسجد دینے کو واجب سمجھتے ہیں اس کے مقابل اذان اندرون مسجد دینا مکروہ تحریمی ہے اور یہ ترک واجب کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہوگی ۔
قائلین جواز کہ داخل مسجد اذان دینا خلاف اولی یا مکروہ تنزیہی یا خلاف مستحب ان سب اقوال کا کتاب الاصل کی عبارت سے رد بلیغ ہوگیا قائلین جواز کی خود کی دلیل ان کے قول کے خلاف ثابت ہُوئی اور ہمارے امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اندرون مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی ہے۔
حضور سرکار سیدی مرشد برحق مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔
خارج مسجد اذان ہونا حدیث سے ثابت ۔داخل مسجد اذان کی کراہت و ممانعت فقہائے کرام کے ارشادات سے واضح۔ (فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 199)
اور ہمارے علمائے احناف کے نزدیک مطلقا مکروہ تحریمی ہے اور علمائے شافعیہ کے نزدیک مطلقا مکروہ تنزیہی ہے جیسا کہ
علامہ عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں کہالکراہۃ عند الشافعیۃ اذا اطلقت تنصرف الی التنزیھيۃ لاالتحرمییۃ بخلاف مذھبنا یعنی شوافع کے نزدیک مطلقا کراہت کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے نہ کہ تحریمی پر بخلاف ہمارے مذہب کے ۔(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 486)
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ کتاب الاصل کی عبارت سے داخل مسجد میں اذان دینا مکروہ تحریمی ہے لہزا یہ دلیل بھی قائلین جواز کے لئے مفید ثابت نہ ہوئی اور جو لوگ کہتے ہیں کہ خارج مسجد اذان دینا مکروہ تنزیہی تو شافعیہ کے قول پر عمل کررہے ہیں نہ کہ احناف کے قول پر جیسا کے اوپر کی عبارت سے واضح ہوا
اہل سنت وجماعت کے ماننے والے سنی مسلمانو ! دوسرے لفظ میں آج کل امتیازی نام مسلک اعلی حضرت کے ماننے والے سنی مسلمانو!
بحمدہ سبحانہ وتعالی اس فقیر قادری ثناءاللہ خان نے بخوبی اس قسط میں قائلین جواز کے قول کا رد بلیغ کردیا لہذا اس قیمتی تحقیق انیق کو آپ حضرات محفوظ کرلیں شاید دوسری جگہ نہ مل سکیں
واللہ ورسولہ اعلم باالصواب
________(❤️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوي سیتا مڑھی بہار
فتویٰ لکھنے کی تاریخ
یکم جمادی الثانی 1444
مطابق 25دسمبر 2022
فتویٰ نشر کرنے کی تاریخ
فتویٰ لکھنے کی تاریخ
یکم جمادی الثانی 1444
مطابق 25دسمبر 2022
فتویٰ نشر کرنے کی تاریخ
21/01/1445
09/08/2023
بہ واسطہ:-حضرت علامہ مولانا مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی ساکن بیتاہی ،خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی سیتا مڑھی بہار