(سوال نمبر 2042)
محلے کی مسجد جہاں جمعہ ہوتی ہے اسے چھوڑ کر بازار کی مسجد میں جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی محلے میں مسجد ہے اور جمعہ بھی ہوتی ہے مگر جمعہ کے روز اکثر لوگ گاؤ کی مسجد کو چھوڑ کر مارکیٹ کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں اور باقی دنوں میں گاؤ کی مسجد نماز پڑھتے ہیں ۔علمائے اسلام اس بابت شرعی رہنمائی فرمائیں
سائل:- محمد آفتاب عالم سانگلی مہاراشٹر،انڈیا
محلے کی مسجد جہاں جمعہ ہوتی ہے اسے چھوڑ کر بازار کی مسجد میں جمعہ پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی محلے میں مسجد ہے اور جمعہ بھی ہوتی ہے مگر جمعہ کے روز اکثر لوگ گاؤ کی مسجد کو چھوڑ کر مارکیٹ کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں اور باقی دنوں میں گاؤ کی مسجد نماز پڑھتے ہیں ۔علمائے اسلام اس بابت شرعی رہنمائی فرمائیں
سائل:- محمد آفتاب عالم سانگلی مہاراشٹر،انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعلیکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
محلے کی مسجد جس جمعہ کی نماز ہوتی ہے اگر شرائط جمعہ پائی جاتی ہے پھر
وہاں کے باشندوں کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں ہی جمعہ کی نماز پڑھنا افضل ہے اس لیے کہ محلے کی مسجد کو آباد کرنا وہاں کے رہنے والوں پر مسجد کا حق ہے، لہذا محلے والوں کو چاہیے کہ اپنے محلے کی مسجد کا حق ادا کریں اور اس میں نماز پڑھ کر اس کو آباد کریں، بلا وجہ اسے چھوڑ کر کسی اور جگہ کی مسجد میں نماز یا جمعہ کے لیے جانا اچھا نہیں ہے، اگرچہ بازار کی مسجد میں جا کر جمعہ ادا کرنے سے بھی جمعہ ادا ہوجائے گا۔
گائوں اور محلے جہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتی ہو وہاں کے باشندے پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے ان پر ظہر کی نماز فرض ہے ۔
یاد رہے کہ قیام جمعہ کے جواز کے لئے شریعت نے شرائط مقرر کئے ہیں جیسے نماز کے لئے وضو اب جہاں شرائط پائے جائیں گے مشروط بھی پائے جائیں گے جب شرط مفقود تو مشروط بھی مفقود جونکہ جمعہ ہفتے کی عید یے اور جمعہ شعار اسلام سے ہے اور شرائط جمعہ میں سے ایک شرط شہر یا فناء شہر کا ہونا ہے پھر اس میں جامع مسجد کا ہونا ہے تاکہ مسلمان یفتے میں ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے سے لقا و خیریت دریافت ہوسکے اور قومی و سماجی اور دینی مشورہ کیا جا سکے پھر ایک جگہ اکٹھا نہ ہونے کی صورت میں جمعہ کی جامعیت و مقصودیت فوت نظر آتی ہے،
دوسری اہم وجہ جب شریعت کا حکم ہم تک آجائے پھر ہمیں سمجھ میں ائے یا نہ ائے سر تسلیم خم کر کے قبول کرنا ضروری ہے اور یہی اہل ایمان کا تقاضا ہے ۔
واضح رہے کہ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے البتہ جہاں پہلے سے قائم ہے تو اسے روکا نہ جانے کہ عوام الناس جس طرح بھی اللہ کا زکر کرے غنیمت ہے اہل علم دیہات میں ظہر کی نماز بدون جماعت پڑھیں گے ۔
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
رجل يصلي في الجامع لكثرة الجمع ولايصلي في مسجد حيه فإنه يصلي في مسجد منزله و إن كان قومه أقل، وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يؤذن ويصلي ... فالأفضل أن يصلي في مسجده ولايذهب إلي مسجد آخر.(خلاصة الفتاوی،ج:1، ص 228،)
فتاوی ہندیہ میں ہے
لأن لمسجد منزله حقًّا عليه فيؤدي حقه.
(قاضیخان علی هامش الفتاوی الهندية، ج:1، ص:27، ط:مکتبة حقانیة)
خلاصة الفتاوی میں ہے
في الجامع الصغير: إذا كان إمام الحي زانيًا أو آكل الربوا له أن يتحول إلى مسجد آخر.
١/ حدیث پاک میں ہے
عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي رضي اﷲ عنه لاجمعة ولاتشریق الا في مصر جامع.۔
’حضرت ابو عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا نماز جمعہ وعیدین جامع مصر (شہر) میں ہی جائز ہے‘
(عبد الرزاق، المصنف، 3: 167، رقم: 5177، المکتب الاسلامي بیروت)
٢/ عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي لاجمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا أصحی الا في مصر جامع أو مدینة عظیمة.
ابوعبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا نماز جمعہ، نماز عیدین و تشریق صرف جامع مصر میں جائز ہے یا بڑے شہر میں‘‘۔
(ابن ابي شیبۃ، 1: 439، رقم: 5059)
فقہاء جامع شہر کے بابت فرماتے ہیں
عن أبي حنیفة أنه بلدة کبیرة فیها سکک وأسواق ولها رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحکمه وعلمه أو علم غیره والناس یرجعون الیه في الحوادث وهو الأصح.
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے: وہ بڑا شہر جس میں گلیاں بازار اور محلے ہوں اور جہاں ایسا حاکم ہو جو مظلوم کا ظالم سے انصاف کر سکے اپنے رعب، اپنے علم یا دوسروں کے علم سے لوگ اپنے گونا گوں مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ صحیح تر تعریف ہے۔(کاساني، بدائع الصنائع، 1: 260، دار الکتاب العربي بیروت)
کما فی الدر المختار
المصر وهو ما لا یسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها وعلیه فتوی أکثر الفقهاء.
مصر (شہر) سے مراد وہ بستی جس کی سب سے بڑی مسجد میں وہاں کے مکلف (عاقل بالغ مقیم مرد) نہ سما سکیں۔ اکثر فقہاء کا فتوی اسی پر ہے‘‘۔
(الدر المختار، 2: 137، دار الفکر بیروت)
اسی طرح مرغیناني، الہدایۃ میں ہے
عند أبي یوسف رحمه اﷲ وعنه أنهم اذا اجتمعوا في أکبر مساجد هم لم یسعهم.
امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک جامع مصر وہ جگہ ہے کہ جب وہاں کے لوگ سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں‘‘۔
(مرغیناني، الہدایۃ، 1: 82، المکتبۃ الاسلامیۃ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعلیکم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
محلے کی مسجد جس جمعہ کی نماز ہوتی ہے اگر شرائط جمعہ پائی جاتی ہے پھر
وہاں کے باشندوں کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں ہی جمعہ کی نماز پڑھنا افضل ہے اس لیے کہ محلے کی مسجد کو آباد کرنا وہاں کے رہنے والوں پر مسجد کا حق ہے، لہذا محلے والوں کو چاہیے کہ اپنے محلے کی مسجد کا حق ادا کریں اور اس میں نماز پڑھ کر اس کو آباد کریں، بلا وجہ اسے چھوڑ کر کسی اور جگہ کی مسجد میں نماز یا جمعہ کے لیے جانا اچھا نہیں ہے، اگرچہ بازار کی مسجد میں جا کر جمعہ ادا کرنے سے بھی جمعہ ادا ہوجائے گا۔
گائوں اور محلے جہاں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتی ہو وہاں کے باشندے پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے ان پر ظہر کی نماز فرض ہے ۔
یاد رہے کہ قیام جمعہ کے جواز کے لئے شریعت نے شرائط مقرر کئے ہیں جیسے نماز کے لئے وضو اب جہاں شرائط پائے جائیں گے مشروط بھی پائے جائیں گے جب شرط مفقود تو مشروط بھی مفقود جونکہ جمعہ ہفتے کی عید یے اور جمعہ شعار اسلام سے ہے اور شرائط جمعہ میں سے ایک شرط شہر یا فناء شہر کا ہونا ہے پھر اس میں جامع مسجد کا ہونا ہے تاکہ مسلمان یفتے میں ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے سے لقا و خیریت دریافت ہوسکے اور قومی و سماجی اور دینی مشورہ کیا جا سکے پھر ایک جگہ اکٹھا نہ ہونے کی صورت میں جمعہ کی جامعیت و مقصودیت فوت نظر آتی ہے،
دوسری اہم وجہ جب شریعت کا حکم ہم تک آجائے پھر ہمیں سمجھ میں ائے یا نہ ائے سر تسلیم خم کر کے قبول کرنا ضروری ہے اور یہی اہل ایمان کا تقاضا ہے ۔
واضح رہے کہ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے البتہ جہاں پہلے سے قائم ہے تو اسے روکا نہ جانے کہ عوام الناس جس طرح بھی اللہ کا زکر کرے غنیمت ہے اہل علم دیہات میں ظہر کی نماز بدون جماعت پڑھیں گے ۔
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
رجل يصلي في الجامع لكثرة الجمع ولايصلي في مسجد حيه فإنه يصلي في مسجد منزله و إن كان قومه أقل، وإن لم يكن لمسجد منزله مؤذن فإنه يؤذن ويصلي ... فالأفضل أن يصلي في مسجده ولايذهب إلي مسجد آخر.(خلاصة الفتاوی،ج:1، ص 228،)
فتاوی ہندیہ میں ہے
لأن لمسجد منزله حقًّا عليه فيؤدي حقه.
(قاضیخان علی هامش الفتاوی الهندية، ج:1، ص:27، ط:مکتبة حقانیة)
خلاصة الفتاوی میں ہے
في الجامع الصغير: إذا كان إمام الحي زانيًا أو آكل الربوا له أن يتحول إلى مسجد آخر.
١/ حدیث پاک میں ہے
عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي رضي اﷲ عنه لاجمعة ولاتشریق الا في مصر جامع.۔
’حضرت ابو عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ نے فرمایا نماز جمعہ وعیدین جامع مصر (شہر) میں ہی جائز ہے‘
(عبد الرزاق، المصنف، 3: 167، رقم: 5177، المکتب الاسلامي بیروت)
٢/ عن أبي عبد الرحمٰن قال قال علي لاجمعة ولا تشریق ولا صلاة فطر ولا أصحی الا في مصر جامع أو مدینة عظیمة.
ابوعبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا نماز جمعہ، نماز عیدین و تشریق صرف جامع مصر میں جائز ہے یا بڑے شہر میں‘‘۔
(ابن ابي شیبۃ، 1: 439، رقم: 5059)
فقہاء جامع شہر کے بابت فرماتے ہیں
عن أبي حنیفة أنه بلدة کبیرة فیها سکک وأسواق ولها رساتیق وفیها وال یقدر علی انصاف المظلوم من الظالم بحکمه وعلمه أو علم غیره والناس یرجعون الیه في الحوادث وهو الأصح.
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے: وہ بڑا شہر جس میں گلیاں بازار اور محلے ہوں اور جہاں ایسا حاکم ہو جو مظلوم کا ظالم سے انصاف کر سکے اپنے رعب، اپنے علم یا دوسروں کے علم سے لوگ اپنے گونا گوں مسائل میں اس کی طرف رجوع کرتے ہوں، یہ صحیح تر تعریف ہے۔(کاساني، بدائع الصنائع، 1: 260، دار الکتاب العربي بیروت)
کما فی الدر المختار
المصر وهو ما لا یسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها وعلیه فتوی أکثر الفقهاء.
مصر (شہر) سے مراد وہ بستی جس کی سب سے بڑی مسجد میں وہاں کے مکلف (عاقل بالغ مقیم مرد) نہ سما سکیں۔ اکثر فقہاء کا فتوی اسی پر ہے‘‘۔
(الدر المختار، 2: 137، دار الفکر بیروت)
اسی طرح مرغیناني، الہدایۃ میں ہے
عند أبي یوسف رحمه اﷲ وعنه أنهم اذا اجتمعوا في أکبر مساجد هم لم یسعهم.
امام ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک جامع مصر وہ جگہ ہے کہ جب وہاں کے لوگ سب سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو سما نہ سکیں‘‘۔
(مرغیناني، الہدایۃ، 1: 82، المکتبۃ الاسلامیۃ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
5/3/2022
5/3/2022