Type Here to Get Search Results !

کیا مسجدوں میں غیر مسلم یعنی کوئی کافر جا سکتا ہے کوئی صورت ہے؟

 (سوال نمبر 258)
 کیا مسجدوں میں غیر مسلم یعنی کوئی کافر جا سکتا ہے کوئی صورت ہے؟
_________(❤️)_________
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ مسلمانوں کی مسجدوں میں غیر مسلم یعنی کوئی کافر جا سکتا ہے؟ کوئی صورت ہے؟ سیاسی،سماجی،مذہبی، کسی بھی زاوئیے سے جائز اور درست ہے کیا؟قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں عین و کرم ہوگا
سائل محمد سبطین رضا رضوی،ساکن بیل بانس سرلاہی نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بإسمه عز وجل 
مسئلہ مسئولہ میں کفار کو عزت و اکرام کے ساتھ مسجد کی کسی پروگرام میں دخول جائز نہیں ہے البتہ بوجہ حاجت دخول جائز ہے جبکہ ظاہری کپڑا اور جسم پاک ہو، 
جیسے لائٹ بل کاٹنے کے لئے یا کوئی غیر مسلم مستری بناء مسجد یا مسجد کی کلر یا لائٹ فٹینگ ان سب وجوہ کی بنا پر دخول جائز ہے، 
یاد رہے کہ غیر مسلم، اہل کتاب اور مشرکین مسجد میں یا حرمین شریفین میں داخل ہو سکتے ہیں مطلق منع اس وقت کیا جائے گا جب بے ادبی، فتنہ فساد یا قبضہ کرنے کی نیت سے آئیں ،یا مسلمان کو اس سے کوئی خدشہ ہو، 
آقا علیہ السلام نے ارشاد فرما یا ۔
إن الأرض لاتنجس ، إنما ینجس ابن آد م،
یعنی (شرک کی نجاست سے) زمین ناپاک نہیں ہوتی، آدمی ناپاک ہوتا ہے۔
اسی طرح مختلف کفار ومشرکین کا مسجدِ نبوی میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا اور بعض کفار کو مسجدِ نبوی میں مقیدکرنا بھی ثابت ہے۔
وقال الحنفیة :لایمنع الذمي من دخول الحرم، ولایتوقف جواز دخوله علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قوله تعالیٰ ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَیَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ﴾ یجوز للذمي دخول سائر المساجد،
 (الموسوعة الفقهية ۱۷، ۱۸۹ الکویت)
عن الحسن أن وفد ثقیف أتوا رسول اﷲﷺ فضربت لهم قبة في مؤخر المسجد؛ لینظروا إلی صلاة المسلمین إلی رکوعهم وسجودهم ، فقیل : یارسول اﷲ ! أتنزلهم المسجد وهم مشرکون؟ 
فقال: إن الأرض لاتنجس ، إنما ینجس ابن آدم (مراسیل أبي داؤد/۶، رقم: ۱۷)
وعن سعید بن المسیب أن أبا سفیان ، کان یدخل المسجد بالمدینة وهو کافر ( مراسیل أبي داؤد /۶، رقم:۱۸) 
(البحر الرائق. 8 : 203، طبع کراچی) میں ہے 
لابأس ان يدخل الکافر و اهل الذمة المسجد الحرام و بيت المقدس و سائر المساجد لمصالح المسجد و غيرها من المهمّات.
کافر اور ذمی کے مسجد حرام، مسجد بیت المقدس (الاقصیٰ) اور تمام مسجدوں میں مسجد کے کام یا دوسرے اہم امور کے لئے داخل ہونے میں حرج نہیں‘
ابن عابدين، حاشيه رد المُحتار المعروف بالشامی، 4 : 374، طبع کراچی میں ہے 
ولا بأس بان يدخل اهل الذمة المسجد الحرام
’اہل ذمہ (کفار) کے مسجد حرام میں داخل ہونے میں حرج نہیں‘
ولاٰية محمولة علی الخصور و استيلا و استعلاء أو طائفين عراة کما کانت عادتهم فی الجاهلية.
اور آیت (فَـلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا) 
محمول ہے کہ وہ مسجد حرام میں حاضر ہوں اور اس پر مسلط ہو کر غلبہ حاصل کریں اور اس کے منتظم بنیں یا ننگے ہو کر طواف کریں جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ان کی عادت تھی (اب یہ کچھ نہ ہو گا)‘
( الهند، الفتاوی الهندية المعروف فتاوی عالمگيری، 5 : 346، دار الفکر)
مجتہد فی المسائل اعلی حضرت رضی اللہ عنہ 
  مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں دخول وفود کے بابت فرماتے ہیں  
کہ آقا علیہ السلام کے لئے مسجدِ کریمہ کے سوا کوئی نشست گاہ نہ تھی جو حاضر ہوتا یہیں حاضر ہوتا کسی کافر کی حاضری مَعَاذَ اللہ
 بطورِ اِستیلا واِستِعلاء (یعنی غلبے کے طور پر) نہ تھی بلکہ ذلیل وخوار ہوکر یا اسلام لانے کے لئے یا تبلیغِ اسلام سننے کے واسطے تھی  ۔(فتاویٰ رضویہ، کتاب السیر، ۱۴ / ۳۹۰-۳۹۱)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
٢٢/١٢/٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area