قسط دوم
حضور مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی کی تحقیق انیق
یہ رسالہ کل سولہ (16)قسطوں پر مشتمل ہے
_________(❤️)_________
حضور مفتی اعظم بہار مدظلہ العالی کی فقہائے احناف خصوصا مشائخ بریلی شریف کے اقوال کی روشنی میں داخل مسجد اذان دینا مکروہ تحریمی کی تحقیق انیق
یہ رسالہ کل سولہ (16)قسطوں پر مشتمل ہے
_________(❤️)_________
ترسیل:- محمد محب اللہ خان سلمہ
مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آذاد چوک۔
مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آذاد چوک۔
_________(👇)_________
اس قسط میں فقہائے کرام کا مطلقا مکروہ ۔یا کبھی احب ذالک یا کبھی ناجائز یا کبھی ینبغی کا مطلقا ذکر کرکے مسئلہ تحریر فرماتے ہیں تو اس قسط میں ان تمام الفاظ سے کیا مراد ہوتا ہے اس کی تحقیق انیق ملاحظہ فرمائیں ۔
داخل مسجد اذان نہ دینے کے متعلق
(دوسری قسط.2)
فقہائے کرام نے جو فرمایا کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے اور ناجائز ہے اس مکروہ و ممنوع اور ناجائز سے کیا مراد ہے مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی
داخل مسجد اذان نہ دینے کے متعلق
(دوسری قسط.2)
فقہائے کرام نے جو فرمایا کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے اور ناجائز ہے اس مکروہ و ممنوع اور ناجائز سے کیا مراد ہے مکروہ تحریمی یا مکروہ تنزیہی
جیسے
وفی نظم الامام الزندویسی ثمۃ شرح النقایۃ للشمس القہستانی ثم حاشیۃ مراقی الفلاح العلامۃ السید احمد الطحطاوی ویکرہ ان یوذن فی المسجدیعنی نظم امام زند ویستی ۔شرح نقایہ للشمس القہستانی حاشیہ مراقی الفلاح للعلامہ سید طحطاوی میں ہے ۔
مسجد کے اندر اذان مکروہ ہے (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ۔جلد دوم ص 526.527)
وفی نظم الامام الزندویسی ثمۃ شرح النقایۃ للشمس القہستانی ثم حاشیۃ مراقی الفلاح العلامۃ السید احمد الطحطاوی ویکرہ ان یوذن فی المسجدیعنی نظم امام زند ویستی ۔شرح نقایہ للشمس القہستانی حاشیہ مراقی الفلاح للعلامہ سید طحطاوی میں ہے ۔
مسجد کے اندر اذان مکروہ ہے (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ۔جلد دوم ص 526.527)
اس عبارت میں لفظ یکرہ آیا ہوا ہے تو اس مطلقا مکروہ سے کیا مراد ہے مکروہ تنزیہی یا مکروہ تحریمی
*علمائے احناف کے نزدیک مطلقا مکروہ و ممنوع سے مراد مکروہ تحریمی ہے اسی طرح ممنوع سے بھی مکروہ تحریمی مراد ہے اسی طرح ناجائز سے مکروہ تحریمی مراد ہے ۔
فقہائے کرام کے نزدیک مطلقا مکروہ سے کیا مراد ہے مکروہ تنزیہی یا مکروہ تحریمی؟
الجواب بعون الملک الوہاب۔
اکثر فقہائے کرام کی عادت کریمہ ہے کہ وہ صرف مکروہ لکھتے ہیں اور اس مکروہ سے دلیل کے مطابق کبھی مکروہ تنزیہی کبھی مکروہ تحریمی مراد لیتے ہیں
(1) مطلقا یکرہ یا مکروہ مطلقا سے کیا مراد ہے
۔ردالمحتار میں۔
مطلب:-فی الکراھۃ التحریمۃ والتنیھیۃ میں
( قولہ ۔ھذہ تعم التنزیھیۃ الخ) کے تحت ہے کہ ۔وفی البحر من مکروہات الصلوۃ المکروہ فی ھذا الباب نوعان ۔
احدھما ما یکرہ تحریما وھو المحمل عند اطلاقھم الکراھۃ کما فی زکاۃ فتح ۔یعنی جب علماء مطلق مکروہ کا لفظ ذکر کرتے ہیں تو ان کی مراد مکروہ تحریمی ہوتی ہے ۔جس طرح الفتح کی کتاب الزکاۃ میں ہے ۔(ردالمحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار ۔جلد دوم ص 404)
تنویر الابصار اور درمختار میں ہے
کل مکروہ ای کراھۃ التحریم یعنی ہر مکروہ یعنی جو مکروہ تحریمی ہوتا ہے۔
*علمائے احناف کے نزدیک مطلقا مکروہ و ممنوع سے مراد مکروہ تحریمی ہے اسی طرح ممنوع سے بھی مکروہ تحریمی مراد ہے اسی طرح ناجائز سے مکروہ تحریمی مراد ہے ۔
فقہائے کرام کے نزدیک مطلقا مکروہ سے کیا مراد ہے مکروہ تنزیہی یا مکروہ تحریمی؟
الجواب بعون الملک الوہاب۔
اکثر فقہائے کرام کی عادت کریمہ ہے کہ وہ صرف مکروہ لکھتے ہیں اور اس مکروہ سے دلیل کے مطابق کبھی مکروہ تنزیہی کبھی مکروہ تحریمی مراد لیتے ہیں
(1) مطلقا یکرہ یا مکروہ مطلقا سے کیا مراد ہے
۔ردالمحتار میں۔
مطلب:-فی الکراھۃ التحریمۃ والتنیھیۃ میں
( قولہ ۔ھذہ تعم التنزیھیۃ الخ) کے تحت ہے کہ ۔وفی البحر من مکروہات الصلوۃ المکروہ فی ھذا الباب نوعان ۔
احدھما ما یکرہ تحریما وھو المحمل عند اطلاقھم الکراھۃ کما فی زکاۃ فتح ۔یعنی جب علماء مطلق مکروہ کا لفظ ذکر کرتے ہیں تو ان کی مراد مکروہ تحریمی ہوتی ہے ۔جس طرح الفتح کی کتاب الزکاۃ میں ہے ۔(ردالمحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار ۔جلد دوم ص 404)
تنویر الابصار اور درمختار میں ہے
کل مکروہ ای کراھۃ التحریم یعنی ہر مکروہ یعنی جو مکروہ تحریمی ہوتا ہے۔
(فتاویٰ شامی جلد یازدہم ص 608)
اور پھر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ باب الحظر والاباحۃ میں جب لفظ کراہت مطلق ذکر کیا جائے تو کراہت تحریمی مراد ہوتی ہے
اور پھر علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ باب الحظر والاباحۃ میں جب لفظ کراہت مطلق ذکر کیا جائے تو کراہت تحریمی مراد ہوتی ہے
(فتاویٰ شامی جلد یازدہم ص 608)
حضور مجدد اعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ۔
ہمارے علمائے کرام کے کلام میں غالبا کراہت مطلقہ سے مراد کراہت تحریمی ہوتی ہے مگر کلیۃ نہیں ۔بہت جگہ عام مراد لیتے ہیں کما مکروھات الصلاۃ بہت جگہ خاص کراہت تنزیہی ۔(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد ششم 62)
امام محمد نے مبسوط میں ذکر کیا ہے کہ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے حضور سراج امت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی جب آپ کسی شے کے بارے میں کہتے ہیں کہ آکرہ یعنی یہ مکروہ ہے ۔اس میں آپ کی کیا رائے ہوتی ہے کہ مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے یعنی حرام ہے تو آپ نے جواب دیا کہ تحریم
ان تمام تصریحات سے واضح ہوگیا کہ فقہائے کرام کا مطلقا مکروہ کہنا مکروہ تحریمی مراد ہے ۔
اس کی دلیل تنویر الابصار و درمختار کی عبارت ( ومکروہ ) تنزیھا : کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ
*قال فی البحر: واعلم ان المکروہ اذا اطلق فی کلامھم فالمرار منہ التحریم ۔الا ان ینص علی کراھۃ التنزیہ ؛ فقد قال المصنف فی المصطفی : لفظ الکراھۃ عند الاطلاق یراد بھا التحریم ۔قال ابو یوسف : قلت لابی حنیفۃ : اذا قلت فی شئی اکرھہ فما رایک فیہ ؟ قال : التحریم ۔(رد المحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار جلد اول ص 385)
حضور مجدد اعظم امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ۔
ہمارے علمائے کرام کے کلام میں غالبا کراہت مطلقہ سے مراد کراہت تحریمی ہوتی ہے مگر کلیۃ نہیں ۔بہت جگہ عام مراد لیتے ہیں کما مکروھات الصلاۃ بہت جگہ خاص کراہت تنزیہی ۔(تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد ششم 62)
امام محمد نے مبسوط میں ذکر کیا ہے کہ امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے حضور سراج امت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی جب آپ کسی شے کے بارے میں کہتے ہیں کہ آکرہ یعنی یہ مکروہ ہے ۔اس میں آپ کی کیا رائے ہوتی ہے کہ مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے یعنی حرام ہے تو آپ نے جواب دیا کہ تحریم
ان تمام تصریحات سے واضح ہوگیا کہ فقہائے کرام کا مطلقا مکروہ کہنا مکروہ تحریمی مراد ہے ۔
اس کی دلیل تنویر الابصار و درمختار کی عبارت ( ومکروہ ) تنزیھا : کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ
*قال فی البحر: واعلم ان المکروہ اذا اطلق فی کلامھم فالمرار منہ التحریم ۔الا ان ینص علی کراھۃ التنزیہ ؛ فقد قال المصنف فی المصطفی : لفظ الکراھۃ عند الاطلاق یراد بھا التحریم ۔قال ابو یوسف : قلت لابی حنیفۃ : اذا قلت فی شئی اکرھہ فما رایک فیہ ؟ قال : التحریم ۔(رد المحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار جلد اول ص 385)
یعنی البحر میں فرمایا :فقہاء کے کلام میں جب مطلق مکروہ بولا جائے تو اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے ۔مگر یہ کہ مکروہ تنزیہی پر نص قائم کی گئی ہو ۔؛المصطفی : میں مصنف نے فرمایا : اطلاق کے وقت لفظ کراہت سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے ۔ امام ابو یوسف رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا جب آپ کسی چیز کے بارے میں کہتے ہیں میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں تو اس میں آپ کی کیا رائے ہوتی ہے فرمایا مکروہ تحریمی۔ (ردالمحتار جلد اول ص 385)
اہل علم سے گزارش ہے کہ ہمارے امام سراج امت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مطلق مکروہ فرماتے ہیں تو ان کے نزدیک اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے ۔مفتی مجیب صاحب اپنے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد پر عمل کریں کہ ہم لوگ حنفی ہے ہمیں اپنے مذہب کی اتباع لازم ہے ۔اور مسجد میں اذان دینے کو فقہائے کرام نے مطلق مکروہ فرمایا اسی لئے ہمارے امام اہل سنت حضور مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مطلق مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے ۔
(2) جب فقہاء احب ذالک کہتے ہیں تو اس سے کیا مراد ہوتا ہے
حضور سرکار مفتی اعظم قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
فقیر غفر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ متقدمین آکرہ برائے کراہت تحریم اور احب برائے وجوب استعمال فرمایا کرتے۔(ردالمحتار ج 2)
یقول المتقدمین آکرہ :ای : یحرم :عندی واحب ذلک ای: یجب عندی یعنی متقدمین جب آکرہ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ میرے نزدیک حرام اور اسی طرح جب کہیں احب ذلک مجھے یہ پسند ہے یعنی میرے نزدیک یہ واجب ہے
بلکہ خود مجتہد کے لئے فرمایا : کہ مجتہد کبھی حرام کے لئے آکرہ کا استعمال کرتا ہے اسی میں لفظ قد یستعملہ, المجتھد, فی الحرام
۔ (فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 51.52 بحوالہ ردالمحتار ۔ج۔3ص 245 اور الحدیقۃ الندیۃ جلد اول ص 343)
علامہ عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں کہ
الکراہۃ عند الشافعیۃ اذا اطلقت تنصرف الی التنزیھہۃ لاالتحرمییۃ بخلاف مذھبنا یعنی شوافع کے نزدیک مطلقا کراہت کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے نہ کہ تحریمی پر بخلاف ہمارے مذہب کے (بخلاف۔ (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 486)
ان تمام تصریحات سے صاف واضح ہوا کہ وفقہاء کرام کا یہ فرمانا کہ یہ مکروہ ہے یا مطلقا مکروہ ہے اس سے مراد علمائے احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور شوافع کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے اور ہم لوگ حنفی ہیں اس لیے مکروہ سے مراد ہمارے یہاں مکروہ تحریمی ہے ۔
(3) فقہائے کرام جب ۔مکروہ و ممنوع کہتے ہیں تو اس مکروہ اور ممنوع سے کیا مراد ہوتا ہے
*دوسرا سوال کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے فرمایا کہ داخل مسجد میں اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے اور علماء احناف کے نزدیک مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے تو پھر ممنوع سے کیا مراد ہوتا ہے؟
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منع مکروہ تحریمی ہے
لقولہ یمنع منہ و انما المنع عن المکرو تحریما واما کراھۃ التنزیہۃ فتجامع الاباحۃ یعنی کیونکہ اس کا قول ہے اس سے منع کیا گیا ہے اور منع مکروہ تحریمی سے ہوتا ہے کراہت تنزیہی تو اباحت کے ساتھ جمع ہوتا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 93)
*اب آپ مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس عبارت پر غور فرمائیں کہ ا مسجد میں اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے تو آپ بتائیں کہ*.
*ممنوع کس کے مقابل میں آتا ہے*.؟
الجواب ۔فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس ارتکاب کبیرہ ہے اور حرام یہ فرض کا مقابل ہے اس کا ایک بار بھی قصدا کرنا گناہ کبیرہ و فسق اور بچنا فرض ہے ( فتاوی بریلی جلد دوم ص 384)
ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ممنوع مکروہ تحریمی کے مقابل میں آتا ہے ۔اب آپ فیصلہ فرمائیں گے مکروہ ومنوع سے کیا مراد ہوسکتا ہے ۔ ؟ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کی تحقیق انیق میں اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور یہی صحیح قول ہے
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے اسی طرح جب فقہاء لکھتے ہیں کہ یہ ممنوع ہے تو یہاں بھی منوع سے سے مراد مکروہ تحریمی ہے
اب یہ مسئلہ بخوبی حل ہوگیا کہ جو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے فرمایا کہ فقہائے کرام نے داخل مسجد میں اذان دینے کی منع و کراہت کی تصریح فرمائی اور فقہاء نے جو داخل مسجد اذان دینے کو مکروہ کہا سب سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور اس قول کا نہ ماننے والا سخت جاہل ہے وہ فقہی عبارتوں سے غافل ہے.
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔
*ظاھر آخر غیر معارض ھناک وھو اطلاق الکراھۃ فی النظم و شرح النقایۃ و حاشیۃ مراقی الفلاح و غایۃ البیان و فتح المحقق حیث اطلق فانھا کما عرف فی محلہ اذا اطلقت کانت ظاھرۃ فی التحریم الابصارف وقال سیدی العارف باللہ العلامۃ عبد الغنی نابلسی فی الحدیقۃ الندیۃ من آفات الید مانصہ ۔والکراھۃ عند الشافعیۃ اذا اطلقت تنصرف الی التنزیھہۃ لا التحریمۃ بخلاف مذھبنا* یعنی یہاں ایک اور ظاہر غیر معارض بھی ہے کہ نظم۔حاشیہ مراقی الفلاح ۔غایۃ البیان اور فتح القدیر میں ہے کہ لفظ کراہت مطلقا بولا جائے تو کراہت تحریمی مراد ہوگی ۔ہاں کوئی قرینہ صارفہ ہو ۔تو اور بات ہے ۔امام عبد الغنی نابلسی قدس سرہ اپنی کتاب حدیقہ ندیہ باب افات الیدین میں رقمطراز ہیں : لفظ کراہت مطلقا بولا جائے تو شوافع کے نزدیک کراہت تنزییہ پر محمول ہوگا اور ہمارے مذہب (احناف) میں تحریمی پر (الحدیقۃ الندیۃ ۔جلد دوم ص 440)
(4) *ناجائز ہے یا جائز نہیں سے کیا مراد ہوتا ہے*.
*ہمارے بعض فقہاء نے فرمایا کہ داخل مسجد اذان دینا جائز نہیں یعنی ناجائز ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ ناجائز سے کیا مراد لیا جاتا ہے*.؟
ہمارے علما کے نزدیک جائز نہیں ہے یا ناجائز ہے اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے۔
فی ردالمحتار قولہ ای تحریما لقول الکافی لا یجوز والمجمع لایباح یعنی ردالمحتار میں ہے وقولہ یکرہ یعنی تحریمی مراد ہے کیونکہ صاحب کافی نے کہا کہ لایجوز یعنی جائز نہیں ۔اور مجمع میں ہے یہ مباح نہیں ( فتاوی رضویہ جلد جدید 7 ص 155 بحوالہ ردالمحتار ۔باب السجود التلاوۃ جلد 1 ص 567)
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
*اور ناجائز کا ترک واجب*.(فتاوی رضویہ جلد جدید 21 ص 188)
اور ترک واجب مکروہ تحریمی اور مکروہ تحریمی ہمارے امام محمد کے نزدیک حرام اور صاحبین کے نزدیک قریب حرام اور فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے یعنی یہی مفتی بہ قول ہے اور علماء مکروہ تحریمی کو حرام بھی کہتے ہیں کبھی واجب کو فرض اور کبھی فرض کو واجب بھی کہیے ہیں
*لفظ ینبغی سے کیا مراد ہوتا ہے*.
لفظ ینبغی کبھی مستحب اور کبھی واجب دونوں کے لئے بولا جاتا ہے لیکن اکثر واجب کے معنی میں ہی آتا ہے ۔ مصباح المنیر میں ہے:,
*قال فی المصباح ؛ ینبغی ان یکون کذا معناہ یجب او یندب یحسب مافیہ من الطلب* یعنی مصباح المنیر میں ہے کہ ۔:ینبغی کے معنی وجوب اور استحاب دونوں ہی حسب طلب ہوسکتے ہیں ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ لفظ ینبغی کو مستحب کے معنی میں قرار دینا ائمہ متاخرین کی اصطلاح ہے ۔
لفظ ینبغی بسا اوقات صرف معنی وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
ہدایہ و کنز وغیرہ میں ہے ۔
من حلف علی معصیۃ ینبغی ان یحنث ؛اھ؛ فان الحنث واجب قطعا۔ یعنی جس نے گناہ کرنے کی قسم کھائی تو اسے قسم توڑ دینا چاہیے ۔" یہاں قدم توڑنا واجب ہے ۔
( یعنی اس مسئلہ میں ینبغی وجوب کے معنی میں استعمال ہوا )
اسی طرح امام قدوری اور صاحب ہدایہ وغیرہ کا قول ہے ۔
ینبغی للناس ان یلتمسوا الھلال فی الیوم التاسع والعشرین من شعبان یعنی لوگوں کو چاہیئے کہ شعبان المعظم کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرے
(یہاں ینبغی لفظ لایا کہ چاند تلاش کریں )
قال المحققین فی الفتح
ای یجب علیھم وھو واجب علی الکفایۃ یعنی محقق ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں:۔یعنی ینبغی کے معنی ہیں کہ ان پر چاند کی تلاش واجب ہے ۔اور تلاش واجب علی الکفایہ ہے ۔
اور جوہرہ نیرہ میں ایسا ہی ہے ۔یعنی ای یجب یعنی قدوری میں ینبغی بمعنی یجب ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 151.152.153)
اور ینبغی بمعنی واجب ہوتا ہے اس کے متعلق کسی کو مزید اطمینان قلب کے لئے اور دلیل کی حاجت ہے تو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا رسالہ
شمائم العنبر فی ادب النداء امام المنبرکا مطالعہ کریں تمام شک و شبہ اور اشکال دور ہوجایے گا ۔
الحاصل:-
ان تصریحات سے صاف واضح ہوا کہ
فقہائے کرام کا یہ فرمانا کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ و ممنوع اور ناجائز ہے ان تینوں سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور یہی مفتی بہ قول ہے اور ہمارے تمام علمائے اہل سنت کا اسی پر فتویٰ ہے اور ہمارے علاقے میں داخل مسجد اذان دی جاتی ہے اور جو اسے جائز یا مکروہ تنزیہی کہتے ہیں وہ ان اصولوں سے غافل ہے ؟
واللہ و رسولہ اعلم باالصواب ۔
_________(❤️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
بہ واسطہ:-حضرت علامہ مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی صاحب صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی
13,جمادی الاول 1444
مطابق 8 دسمبر 2022=
اہل علم سے گزارش ہے کہ ہمارے امام سراج امت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مطلق مکروہ فرماتے ہیں تو ان کے نزدیک اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے ۔مفتی مجیب صاحب اپنے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد پر عمل کریں کہ ہم لوگ حنفی ہے ہمیں اپنے مذہب کی اتباع لازم ہے ۔اور مسجد میں اذان دینے کو فقہائے کرام نے مطلق مکروہ فرمایا اسی لئے ہمارے امام اہل سنت حضور مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی رضی آللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مطلق مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے ۔
(2) جب فقہاء احب ذالک کہتے ہیں تو اس سے کیا مراد ہوتا ہے
حضور سرکار مفتی اعظم قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
فقیر غفر اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ متقدمین آکرہ برائے کراہت تحریم اور احب برائے وجوب استعمال فرمایا کرتے۔(ردالمحتار ج 2)
یقول المتقدمین آکرہ :ای : یحرم :عندی واحب ذلک ای: یجب عندی یعنی متقدمین جب آکرہ کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ میرے نزدیک حرام اور اسی طرح جب کہیں احب ذلک مجھے یہ پسند ہے یعنی میرے نزدیک یہ واجب ہے
بلکہ خود مجتہد کے لئے فرمایا : کہ مجتہد کبھی حرام کے لئے آکرہ کا استعمال کرتا ہے اسی میں لفظ قد یستعملہ, المجتھد, فی الحرام
۔ (فتاویٰ مفتی اعظم ہند جلد سوم ص 51.52 بحوالہ ردالمحتار ۔ج۔3ص 245 اور الحدیقۃ الندیۃ جلد اول ص 343)
علامہ عبد الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں کہ
الکراہۃ عند الشافعیۃ اذا اطلقت تنصرف الی التنزیھہۃ لاالتحرمییۃ بخلاف مذھبنا یعنی شوافع کے نزدیک مطلقا کراہت کا اطلاق مکروہ تنزیہی پر ہوتا ہے نہ کہ تحریمی پر بخلاف ہمارے مذہب کے (بخلاف۔ (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 486)
ان تمام تصریحات سے صاف واضح ہوا کہ وفقہاء کرام کا یہ فرمانا کہ یہ مکروہ ہے یا مطلقا مکروہ ہے اس سے مراد علمائے احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور شوافع کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے اور ہم لوگ حنفی ہیں اس لیے مکروہ سے مراد ہمارے یہاں مکروہ تحریمی ہے ۔
(3) فقہائے کرام جب ۔مکروہ و ممنوع کہتے ہیں تو اس مکروہ اور ممنوع سے کیا مراد ہوتا ہے
*دوسرا سوال کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے فرمایا کہ داخل مسجد میں اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے اور علماء احناف کے نزدیک مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے تو پھر ممنوع سے کیا مراد ہوتا ہے؟
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
منع مکروہ تحریمی ہے
لقولہ یمنع منہ و انما المنع عن المکرو تحریما واما کراھۃ التنزیہۃ فتجامع الاباحۃ یعنی کیونکہ اس کا قول ہے اس سے منع کیا گیا ہے اور منع مکروہ تحریمی سے ہوتا ہے کراہت تنزیہی تو اباحت کے ساتھ جمع ہوتا ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید ہشتم ص 93)
*اب آپ مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ اس عبارت پر غور فرمائیں کہ ا مسجد میں اذان دینا مکروہ و ممنوع ہے تو آپ بتائیں کہ*.
*ممنوع کس کے مقابل میں آتا ہے*.؟
الجواب ۔فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس ارتکاب کبیرہ ہے اور حرام یہ فرض کا مقابل ہے اس کا ایک بار بھی قصدا کرنا گناہ کبیرہ و فسق اور بچنا فرض ہے ( فتاوی بریلی جلد دوم ص 384)
ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ممنوع مکروہ تحریمی کے مقابل میں آتا ہے ۔اب آپ فیصلہ فرمائیں گے مکروہ ومنوع سے کیا مراد ہوسکتا ہے ۔ ؟ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کی تحقیق انیق میں اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور یہی صحیح قول ہے
ان تصریحات سے واضح ہوا کہ مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے اسی طرح جب فقہاء لکھتے ہیں کہ یہ ممنوع ہے تو یہاں بھی منوع سے سے مراد مکروہ تحریمی ہے
اب یہ مسئلہ بخوبی حل ہوگیا کہ جو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے فرمایا کہ فقہائے کرام نے داخل مسجد میں اذان دینے کی منع و کراہت کی تصریح فرمائی اور فقہاء نے جو داخل مسجد اذان دینے کو مکروہ کہا سب سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور اس قول کا نہ ماننے والا سخت جاہل ہے وہ فقہی عبارتوں سے غافل ہے.
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔
*ظاھر آخر غیر معارض ھناک وھو اطلاق الکراھۃ فی النظم و شرح النقایۃ و حاشیۃ مراقی الفلاح و غایۃ البیان و فتح المحقق حیث اطلق فانھا کما عرف فی محلہ اذا اطلقت کانت ظاھرۃ فی التحریم الابصارف وقال سیدی العارف باللہ العلامۃ عبد الغنی نابلسی فی الحدیقۃ الندیۃ من آفات الید مانصہ ۔والکراھۃ عند الشافعیۃ اذا اطلقت تنصرف الی التنزیھہۃ لا التحریمۃ بخلاف مذھبنا* یعنی یہاں ایک اور ظاہر غیر معارض بھی ہے کہ نظم۔حاشیہ مراقی الفلاح ۔غایۃ البیان اور فتح القدیر میں ہے کہ لفظ کراہت مطلقا بولا جائے تو کراہت تحریمی مراد ہوگی ۔ہاں کوئی قرینہ صارفہ ہو ۔تو اور بات ہے ۔امام عبد الغنی نابلسی قدس سرہ اپنی کتاب حدیقہ ندیہ باب افات الیدین میں رقمطراز ہیں : لفظ کراہت مطلقا بولا جائے تو شوافع کے نزدیک کراہت تنزییہ پر محمول ہوگا اور ہمارے مذہب (احناف) میں تحریمی پر (الحدیقۃ الندیۃ ۔جلد دوم ص 440)
(4) *ناجائز ہے یا جائز نہیں سے کیا مراد ہوتا ہے*.
*ہمارے بعض فقہاء نے فرمایا کہ داخل مسجد اذان دینا جائز نہیں یعنی ناجائز ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ ناجائز سے کیا مراد لیا جاتا ہے*.؟
ہمارے علما کے نزدیک جائز نہیں ہے یا ناجائز ہے اس سے مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے۔
فی ردالمحتار قولہ ای تحریما لقول الکافی لا یجوز والمجمع لایباح یعنی ردالمحتار میں ہے وقولہ یکرہ یعنی تحریمی مراد ہے کیونکہ صاحب کافی نے کہا کہ لایجوز یعنی جائز نہیں ۔اور مجمع میں ہے یہ مباح نہیں ( فتاوی رضویہ جلد جدید 7 ص 155 بحوالہ ردالمحتار ۔باب السجود التلاوۃ جلد 1 ص 567)
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
*اور ناجائز کا ترک واجب*.(فتاوی رضویہ جلد جدید 21 ص 188)
اور ترک واجب مکروہ تحریمی اور مکروہ تحریمی ہمارے امام محمد کے نزدیک حرام اور صاحبین کے نزدیک قریب حرام اور فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے یعنی یہی مفتی بہ قول ہے اور علماء مکروہ تحریمی کو حرام بھی کہتے ہیں کبھی واجب کو فرض اور کبھی فرض کو واجب بھی کہیے ہیں
*لفظ ینبغی سے کیا مراد ہوتا ہے*.
لفظ ینبغی کبھی مستحب اور کبھی واجب دونوں کے لئے بولا جاتا ہے لیکن اکثر واجب کے معنی میں ہی آتا ہے ۔ مصباح المنیر میں ہے:,
*قال فی المصباح ؛ ینبغی ان یکون کذا معناہ یجب او یندب یحسب مافیہ من الطلب* یعنی مصباح المنیر میں ہے کہ ۔:ینبغی کے معنی وجوب اور استحاب دونوں ہی حسب طلب ہوسکتے ہیں ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ لفظ ینبغی کو مستحب کے معنی میں قرار دینا ائمہ متاخرین کی اصطلاح ہے ۔
لفظ ینبغی بسا اوقات صرف معنی وجوب پر ہی دلالت کرتا ہے ۔
ہدایہ و کنز وغیرہ میں ہے ۔
من حلف علی معصیۃ ینبغی ان یحنث ؛اھ؛ فان الحنث واجب قطعا۔ یعنی جس نے گناہ کرنے کی قسم کھائی تو اسے قسم توڑ دینا چاہیے ۔" یہاں قدم توڑنا واجب ہے ۔
( یعنی اس مسئلہ میں ینبغی وجوب کے معنی میں استعمال ہوا )
اسی طرح امام قدوری اور صاحب ہدایہ وغیرہ کا قول ہے ۔
ینبغی للناس ان یلتمسوا الھلال فی الیوم التاسع والعشرین من شعبان یعنی لوگوں کو چاہیئے کہ شعبان المعظم کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرے
(یہاں ینبغی لفظ لایا کہ چاند تلاش کریں )
قال المحققین فی الفتح
ای یجب علیھم وھو واجب علی الکفایۃ یعنی محقق ابن ہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں:۔یعنی ینبغی کے معنی ہیں کہ ان پر چاند کی تلاش واجب ہے ۔اور تلاش واجب علی الکفایہ ہے ۔
اور جوہرہ نیرہ میں ایسا ہی ہے ۔یعنی ای یجب یعنی قدوری میں ینبغی بمعنی یجب ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 151.152.153)
اور ینبغی بمعنی واجب ہوتا ہے اس کے متعلق کسی کو مزید اطمینان قلب کے لئے اور دلیل کی حاجت ہے تو سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کا رسالہ
شمائم العنبر فی ادب النداء امام المنبرکا مطالعہ کریں تمام شک و شبہ اور اشکال دور ہوجایے گا ۔
الحاصل:-
ان تصریحات سے صاف واضح ہوا کہ
فقہائے کرام کا یہ فرمانا کہ داخل مسجد اذان دینا مکروہ و ممنوع اور ناجائز ہے ان تینوں سے مراد مکروہ تحریمی ہے اور یہی مفتی بہ قول ہے اور ہمارے تمام علمائے اہل سنت کا اسی پر فتویٰ ہے اور ہمارے علاقے میں داخل مسجد اذان دی جاتی ہے اور جو اسے جائز یا مکروہ تنزیہی کہتے ہیں وہ ان اصولوں سے غافل ہے ؟
واللہ و رسولہ اعلم باالصواب ۔
_________(❤️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
بہ واسطہ:-حضرت علامہ مولانا محمّد جنید عالم شارق مصباحی صاحب صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی خطیب و امام حضرت بلال جامع مسجد کوئیلی
13,جمادی الاول 1444
مطابق 8 دسمبر 2022=